شيطان كي عدالت

مصنف : جاويد بسام

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : مارچ 2023

غير ملكي ادب
شیطان کی عدالت

مترجم: جاوید بسام

سلاوی لوک کہانی

بس ایسا ہی ہوتا ہے۔ جہاں کچھ گڑبڑ ہو، جھگڑا ہو یا کوئی بدقسمتی ہو شیطان فوراً یاد آجاتا ہے، لیکن شیطان دنیا کی سب سے بُری چیز نہیں ہے۔ آپ، شیطان کو کم از کم اس کے سینگ، دو کھروں اور ایک لمبی دم کی وجہ سے فوراً پہنچان لیتے ہیں۔ جب کہ ایک برے شخص کو پہچاننے میں ہمیشہ مشکل ہوتی ہے۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے آپ کے پاس آتا ہے، گرم جوشي سے ملتا ہے اور میٹھے لہجے میں بولنا شروع کرتا ہے، کسی فاختہ کی طرح، ہاں ایک بے ضرر فاختہ کی طرح۔

یہاں میں ایک واقعہ سناتا ہوں، اس سرپرست کا جو ایک بیوہ کے پاس گیا اور... مگر نہیں، مجھے سب کچھ ترتیب سے بتانا چاہیے۔

یہ ایک پرانی کہانی ہے، لیکن لوبلن کے لوگوں کو اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ دو بھائی تھے۔ بڑا اپنے باپ کی تمام دولت کا وارث تھا، اس کا لوبلن میں ایک گھر تھا، دکانیں تھیں، یہاں تک کہ جاگیر اور زمین بھی تھی۔ چھوٹے کو اپنے باپ کی موت کے بعد زیادہ نہیں ملا، لیکن اسے غریب آدمی بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہ ایک جوان بیوی اور چھوٹے بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ مگر وہ زیادہ عرصے زندہ نہیں رہا، اسے نزلہ زکام ہوا، کچھ دنوں کے لیے بیمار رہا اور مر گیا۔ وہ، بیوی اور بچوں کو بے سہارا چھوڑ گیا تھا۔ وہ بیوہ نہیں جانتی تھی کہ کس طرح کاروبار کرنا ہے اور کس طرح کاروبار کا حساب کتاب سمجھنا ہے۔ تب اس کے شوہر کا بڑا بھائی اس کی مدد کے لیے آگے آیا۔ وہ میٹھی آواز میں، پیار بھری مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ”میں فلاں فلاں معاملے میں تمھارا خیال رکھوں گا، ساری مشکلات اپنے سر لے لوں گا اور بحسن خوبی تمھارا کاروبار چلاؤں گا۔

بیوہ نے اس پر بھروسہ کیا۔ اسے اپنا، اپنے بچوں کا اور تمام جائیداد کا محافظ بنا دیا۔ سرپرست نے چارج سنبھال لیا۔ اس نے تین تجارتی بحری جہاز سامان کے ساتھ بیرون ملک بھیجے۔ ایک جہاز چٹانوں میں ٹکرا کر ڈوب گیا۔ تمام سامان برباد ہوگیا۔ یہ معجزہ تھا کہ وہ بیوہ کا جہاز نکلا اور اب تباہ شدہ جہاز کی قیمت بھی بیوہ کو ادا کرنی تھی، باقی دو جہاز بھرپور منافع کے ساتھ واپس لوٹے۔ وہ سرپرست کے تھے۔ ایک دن ان کی زمینوں پر ژالہ باری ہوئی۔ موسم خزاں میں سرپرست نے آمدنی اور نقصان کا حساب لگانا شروع کیا۔ بیوہ کے سبزیوں کے کھیت اور باغات سب طوفان سے ذیادہ متاثر ہوئے تھے اور جہاں اس کی اپنی زمینیں تھی۔ وہ جگہ محفوظ تھی۔ لہذا تمام نقصان بیوہ کو دیے اور آمدنی اپنے لیے رکھ لی۔ بیوہ کی دولت گرم کڑاہی پر پڑے مکھن کی طرح پگھل رہی تھی۔ مزید یہ کہ وہ اپنے سرپرست کی مقروض ہوگئی تھی اور قرض پر سود روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ اس کا جیٹھ اسے چھوٹے بچوں سمیت گھر سے نکالنے لگا۔ تمام لوبلن کے لوگ اس کے کالے کرتوتوں کے بارے میں جانتے تھے۔ انھوں نے بہت باتیں کی، لیکن وہ مدد نہ کر سکے۔ بیوہ اپنے تحفظ اور انصاف مانگنے کے لیے ایوان انصاف پہنچ گئی۔ جوں جوں مقدمہ آگے بڑھتا گیا۔اس کی جمع پونجی ختم ہوتی گئی، آخر ایک وقت آیا کہ بیوہ کے پاس کھانے کے لیے روٹی بھی نہیں تھی۔ اگر اچھے لوگ مدد نہیں کرتے تو پورا خاندان بھوک سے مر جاتا۔

آخرکار فیصلے کا دن آن پہنچا۔ بیوہ اور سرپرست دونوں ججز کے سامنے پیش ہوئے۔ بیوہ کا خیال تھا کہ عدالت میں ہمیشہ سچائی کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ غریب عورت نے حق اور سچ، اپنی بے چارگی اور بچوں کے آنسو، ترازو کے پلڑے میں ڈالے۔ وہ روتی رہی، سرپرست ہنستا اور اپنی مونچھیں مروڑتا رہا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کا ہلکا سا سایہ بھی نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا، کیسے مقدمہ لڑنا ہے، کیسے چاپلوسی کرنی ہے، کیسے شہد، شراب، گوشت اور طلائی ڈکٹس خرچ کرنے ہیں۔ وہ سرپرست کے پلڑے پر سجے تھے۔ یہ واضح تھا کہ کس کا پلڑا زیادہ اہم ہے۔ عدالت نے تمام جائیداد سرپرست کو دے دی۔ عدالت سے نکلنے کے بعد شہر کے لوگ جو بیوہ سے ہمدردی رکھتے تھے سرپرست کو برا بھلا کہتے ہوئے گھروں کو جانے لگے۔ ان میں سے ایک معزز بوڑھے نے سرپرست کے پاس جاکر اس کے منہ پر کہا۔ ”کیا تم میں ضمیر بالکل مرگیا ہے؟ تم اگرچہ مقدمہ جیت گئے ہو، لیکن تم جانتے ہو کہ یہ حق کی جیت نہیں ہے۔ یہ ناانصافی ہے۔

سرپرست غصے میں بھر گیا اور بولا۔ ”آپ کی ہمت کیسے ہوئی ججز کے بارے میں ایسے الفاظ ادا کرنے کی؟ اگر شیاطین بھی اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے تو بالکل یہی فیصلہ ہوتا۔

اوہ، شیطانوں کا ذکر نہ کرو۔ شیطان بہت حساس کان رکھتے ہیں۔ چاہے وہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہوں۔“ معزز بوڑھے نے کہا۔

ابھی اندھیرا ہوا ہی تھا کہ ایک برفانی طوفان شہر میں چلا آیا۔ ہر طرف گلیوں اور بازاروں میں برف گرنے لگی۔ برف کی گرتی چادر نے لوگوں کی آنکھوں کو اندھا کردیا۔ وہ اپنے اپنے گھروں میں جا چھپے، کتوں نے سگ خانوں میں پناہ لی، اچانک شہر کے وسط میں برف کا ایک بگولا نمودار ہوا اور تیزی سے گھومتا ہوا مرکزی سڑک پر دوڑنے لگا۔ اس میں سے چیخیں، آہیں، سیٹیاں، سسکیاں اور بڑبڑاہٹیں سنائی دے رہی تھیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کیسی آوازیں ہیں۔ وہ بگولا اڑتا ہوا ایوان انصاف کی سڑک پر پہنچا۔

لوگ اپنے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں کی جھیریوں سے چپکے چپکے جھانک رہے تھے۔ انھوں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انھیں بگولے میں ایک تیز رفتار بگھی نظر آئی۔ جس میں دو گھوڑوں کے ڈھانچے جتے تھے۔ وہ تیزی سے چلی جارہی تھی۔ اسے چاروں طرف سے چھوٹے شیطانوں نے گھیر رکھا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں کوڑے تھے۔ جنھیں وہ گھوڑوں پر برسا رہے تھے اور پائپوں کی بجائے ہڈیوں میں پھونک مارتے تھے، دیگر، روشن مشعلیں پکڑے ہوئے تھے۔ جن میں سے ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ بگھی ایوان انصاف کے سامنے رک گئی۔ آخر تمام بری روحیں عدالت کے سامنے چوک میں پہنچ گئی تھیں۔ پہلے بگھی میں سے تین بھاری بھرکم اہم شخصیات باہر نکلیں ان کے بعد دو اور مصنوعی بالوں کی وگیں لگائے پتلے دبلے شیطان باہر کودے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بڑی مشکل سے بگّھی میں پھنسے بیٹھے تھے۔ پھر سب شور مچاتے اور ہنگامہ کرتے ہوئے عدالت میں داخل ہوگئے۔

ان کی آمد سے کچھ قبل دو کاتب عدالت میں موجود تھے۔ وہ موم بتی کی روشنی میں بیوہ کے مقدمے کے حقائق کو مٹانے کی کوشش کررہے تھے۔ شور سن کر انھوں نے کھڑکی سے دیکھا کہ عدالت کے سامنے کیا ہو رہا ہے تو وہ خوف سے ادھ مرے ہوگئے، پھر وہ چھپنے کے لیے ادھر ادھر بھاگے، صرف وہی نہیں بلکہ عدالت میں موجود ہر چیز خوفزدہ ہوگئی تھی، موم بتیاں ایک دم تیر کر باہر جانے لگیں۔ فرش کے تختے اس طرح چرچرانے لگے جیسے ان کے نیچے پاگل گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔

کاتب ایک الماری میں چھپنا چاہتے تھے جہاں پرانے کاغذات رکھے جاتے تھے۔ مگر دروازہ بند ہوگیا تھا اور چابی کا سوراخ مکمل طور پر غائب تھا۔ بعد میں کاتبوں نے قسم کھائی کہ وہ بھی ڈر کر بھاگ گیا تھا۔ بلاشبہ، شاید ایسا ہی ہوا ہو، لیکن غالب امکان ہے کہ کاتبوں کے ہاتھ کانپ رہے تھے، اس لیے انہوں نے چابی صحیح جگہ نہیں لگائی تھی۔ وہ کیا کرتے آخر وہ ججوں کی میز کے نیچے لیٹ گئے اور ساری رات وہاں بیٹھے خوف سے کانپتے رہے۔

اندر آکر تمام شیاطین نے درجہ بدرجہ نشستیں سنھبال لیں۔ بھاری بھرکم ججوں کی کرسیوں پر بیٹھ گئے، دو پتلے دبلے شیطانوں نے وکیلوں کی جگہ لے لی۔ باقی سب ہال میں بنچوں پر بے ترتیبی سے بیٹھ گئے۔ درخواست گزاروں نے قانونی چارہ جوئی شروع کی۔ ایک بیوہ کے لیے بولتا تھا، دوسرا سرپرست کا ساتھ دیتا تھا۔ اگرچہ حقیقی عدالت میں پہلے بیوہ نے اپنی فریاد سنائی، پھر سرپرست نے بات کی تھی، لیکن شیطانوں کی عدالت کا دستور برعکس تھا۔ وہاں سرپرست کے لیے کھڑا ہونے والا سب سے پہلے بولا۔ اس نے سرپرست کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کیے۔ اس نے اپنی ہر چال چلی، معلوم ہوا کہ اس کی ہر بات میں دوسرے شیاطین کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ کیا ہر شیطان سیاہ کو سفید، سفید کو سیاہ کرنے کی سازش کرتا ہے؟ باقی شیاطین ہنستے رہے، وہ اپنی آوازوں سے سفارشی وکیل کو خوش کررہے تھے اور اپنے خستہ حال کھر لکڑی کے فرش پر مار رہے تھے۔ جج نے انھیں پرسکون رکھنے کے لیے بار بار لکڑی کی موگری (ہتھوڑی) بجائی۔

بہت دیر تک سرپرست کا وکیل بولتا رہا اور اس کی تقریر اختتام ان الفاظ پر ہوا۔” سابقہ عدالت کے معزز جج صاحبان نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا اور اب یہ شیطانوں کی معزز عدالت بھی اس فیصلے کو برقرار رکھے گی۔

شیطانوں نے ہاتھ اٹھا کر اس کی بات کی تائید کی۔ پھر دوسرا پتلا شیطان بیوہ کا وکیل آگے بڑھا۔ اس نے بیوہ کی تمام شکایات بیان کی۔ اس نے چھوٹے بچوں کے دکھ اور تکلیف کو بیان کرنا شروع کیا۔ سب شیطان خاموش ہوگئے، یہاں تک کہ مشعلوں میں موجود رال نے سسکنا اور بلبلانا بند کر دیا۔ وہ اس قدر نرمی سے، اس قدر دکھی لہجے میں افسوس کے ساتھ بات کررہا تھا کہ ججوں نے اپنے پنجوں سے کئی بار آنسو صاف کیے۔ پھر ہال میں پہلے ایک شیطان نے ہلکی سی سسکی بھری اور رونے لگا، پھر دو اور رونے لگے، پھر سب ایک ساتھ رونے لگے۔ آخر میں بیوہ کا ولی خود بھی رونے لگا اور آگے ایک لفظ بھی نہ بول سکا۔ بس اپنا پنجہ لہرا کر بیٹھ گیا۔ یہاں سرپرست کا وکیل چھلانگ لگا کر کھڑا ہوا اور اس کی تقریر کو جھوٹ قرار دیا۔

ججوں نے کوئی جرح نہیں کی، انھوں نے آپس میں کوئی مشورہ نہیں کیا۔ سب کچھ پہلے سے واضح تھا کہ معاملے کو کیسے نمٹایا جائے گا۔ چیف جج نے حکم دیا۔”وہ چیز لائی جائے۔ جس پر فیصلہ لکھنا ہے۔

شیطان کاتبوں میں ہلچل مچ گئی۔ انہوں نے میز پر سیاہ بیل کی ایک کھال بچھا دی، اتنی بڑی کہ اس نے پوری عدالتی میز کو ڈھانپ لیا اور اس کھال پر شیاطین نے گرم جلتے ہوئے تارکول سے اپنا فرمان لکھنا شروع کیا۔ ”ہم شیطان، آپ کی عدالت کا فیصلہ غلط تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے خود اس مقدمے کا منصفانہ جائزہ لیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ بیوہ کے تمام قرضوں اور نقصانات کا ازالہ سرپرست کو کرنا ہوگا اور تمام جائیداد بچوں اور بیوہ کو دینا ہوگی۔ جیسا ہم نے حکم دیا ہے، ویسا ہی ہوگا۔

سزا کے اختتام پر کھال پر مزید تارکول انڈیل دیا گیا اور چیف جج نے عدالتی مہر کے بجائے اس پر اپنے پنجے کا نشان لگایا۔ تب ہی کراکو شہر کے ٹاور نے آدھی رات کا گجر بجایا۔ شیاطین جلدی جلدی اٹھ کر باہر بھاگے۔ ایک بار پھر برفانی بگولا لوبلن کی گلیوں سے گزرا اور پھر تاریک جنگل میں غائب ہوگیا۔

صبح جج عدالت میں آئے تو دیکھا کہ میز پر ایک کالی چمڑی پڑی ہے اور اس پر انگاروں کی طرح سلگتے ہوئے بڑے بڑے حروف لکھے ہیں۔ وہ رات بھر جلتے رہے تھے۔ جج کھال کو ہٹانے کے لیے بڑھے۔ مگر وہ میز پر مضبوطی سے چمٹی ہوئی تھی۔ وہ کچھ نہیں کرسکے۔ ان کے ہاتھ جل گئے اور تارکول سے گندے ہوگئے۔ اسی دوران شہر کے لوگ عدالت میں بھاگے چلے آئے۔ پہلے تو وہ حیران ہوئے پھر ججوں پر ہنسے اور اونچی آواز میں انھیں لعن طعن کرنے لگے۔ اسی دوران کاتب میز کے نیچے سے رینگتے ہوئے باہر آئے اور لوگوں کے درمیان گھل مل گئے اور رات کو جو کچھ دیکھا اور سنا تھا اس کے بارے میں بتانے لگے جج اب بھی گڑبڑ کررہے تھے۔ وہ مقدمے کو چپ چاپ ختم کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے مل کر میز کو کھال سمیت باہر نکالنے کی کوشش کی، لیکن کوئی اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے فرش نے میز کو جکڑ لیا ہے۔ پھر انھوں نے میز کو دوسرے کپڑے سے ڈھانپ دیا، لیکن کپڑے میں سے حروف ابھر آئے اور وہ ایک لمحے میں جل کر راکھ ہوگیا۔ ججوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ جلدی سے جج کی کرسی پر بیٹھ جائیں اور تمام لوگوں کے سامنے اپنے کل کے فیصلے کو منسوخ کریں اور نئے طریقے سے مقدمہ کا فیصلہ کریں، جیسا کہ شیطانوں نے لکھا تھا۔ جوں ہی انھوں نے اس پر عمل کیا۔ اسی لمحے آگ کے حروف غائب ہوگئے اور کھال جل کر راکھ ہوگئی۔

یہ وہی کہانی ہے جو قدیم شہر لوبلن میں پیش آئی۔ کاتبوں نے یہ سب مہر والے سرکاری کاغذ پر سرخ روشنائی سے درج کیا تھا اور وہ دستاویز جج کی الماری میں رکھی گئی اور آج تک موجود ہے۔