امیر تیمور، امام بخاری اور خواجہ نقشبند کے دیس میں ؍ قسط ۵

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : مئی 2020

گورِ امیر (امیر تیمور کامقبرہ):
دنیا کی تاریخ میں بالعموم اور مسلمانوں کی تاریخ میں بالخصوص امیر تیمور (م: 1405 ع(ایک بڑا معتبرنام ہے۔ چودھویں صدی کی آباد دنیا کے بیشتر تہذیبی اورعلمی مراکز تیمور کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہوئے۔پہلوں کے مقابلے میں بڑافرق یہ تھا کہ چنگیز 1211)ع)اورہلاکو بے دین تھے اورامیر تیمور کلمہ گو تھا۔رنجیت سنگھ نے صرف لاہور کے قیمتی پتھر،نقش ونگار،جالیاں، ہیرے جواہرات اورنودارات لوٹے اور امرتسر کے خالصہ دربار کو سجا بنا دیا۔امیر تیمور نے دنیا بھر سے اہل علم اوراہل فن کو اپنے دامن میں سمیٹااورسمرقند لے گیا۔چنانچہ علم الحدیث اورعلم الفقہ میں بخارا اورسمرقندکی خدمات لازوال ہیں۔سارا عالم اسلام ان خدمات پر مرہون احسان ہے۔
امیرتیمور1405-1336)ع( مقامی جنگوں میں فتح یابی کے بعد1370ع میں الّ تیمورکے لقب کے ساتھ تخت نشین ہوا ۔ تیمور کے دائیں ہاتھ اوردائیں ٹانگ میں لنگ(Deformity) تھا، مغربی مورخ اس کوبدنیتی اورتعصب سےTEMUR LAME لکھتے ہیں۔خوارزم، خراساں،ہرات،سیستاں،عراق،کردستان ، آذربائیجان ،اصفہان، گرجستان، آرمینیا، بغداد ، شام،دریائے والگا اوردریا ئے کامہ کے سنگم سے کیف اورماسکوتک جا پہنچا جہاں ایک عرصہ قابض رہا۔مارچ1398 ع میں تیمورہندوستان پرحملہ آور ہوا اور18 دسمبر کودہلی کوفتح کیا۔وہاں اسی ہزار باشندوں کاقتلِ عام کیا اوردہلی شہر کو تاخت وتاراج کردیا۔ قلعہ میرٹھ،کشمیرکی سرحد سے اپنے مقامی حالات کے پیش نظر 1399ع میں واپس سمرقند اورآذربائیجان کوپلٹا۔گرجستان،ایشائے کوچک ،حلب، حمص،بعلبک،دمشق اوربغداد پر دوبارہ قبضہ اورلوٹ مارکی۔انقرہ کے میدان میں عثمانی سلطان بایزیدکوشکست ہوئی۔ازمیر کی فتح کے بعدتیمور سمرقند لوٹااورچین کے لٹیرے حملہ آوروں کے خلاف مہم کاآغاز کیا۔اس مہم کے دوران امیر تیمور بیمارپڑگیا اورانتقال کرگیا۔اس کی میت سمرقند لائی گئی اورگورامیر کی شاندار عمارت میں جوخاندانی مقبرہ ہے دفن کردیاگیا۔
مدارس،مساجد،محلات اورباغات کی تعمیر دریاؤں سے نہریں نکلوانا۔علم تاریخ سے دلچسپی تھی۔بہت ذہین،حافظہ خدادادمعاملہ رس اور اہل علم اوراہل فن کابڑاقدردان تھا۔ اَن پڑھ ہونے کے باوجود دینی امور میں تحقیق کا شوقین تھا۔تاریخی شخصیتوں میں نبی اکرم ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب اور محترم جانتا تھا۔منصف مزاج مگر سفاک اورحددرجہ بے رحم۔ حکومت کے تصور میں وہ چنگیزخان اورمحمود غزنوی سے متاثر تھا۔
 مقبرہ امیرتیمور تک پہنچنے کے لئے حسین کی ٹیکسی مختلف بڑی سٹرکوں اور عمارتوں سے اورایک یونیورسٹی کے پاس سے گزری ۔ چھٹی کاوقت تھا اس لئے طلبہ اور بچے اپنی ماؤں اورگاڑیوں کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ایک چوک کے پاس سے گزرے درمیان میں امیر تیمور کامجسمہ تھا جوسنگ وآہن سے تیار کیاگیاتھا۔بہت بڑا ،بہت شاندار،چہرہ بارعب اورسنجیدہ،اوپر جانے کے لئے تین اطراف میں سیڑھیاں تھیں اورمجسمہ گرین بیلٹ کے اوپر بنایا گیا تھا۔اس کے قریب ہی گورامیر تھی کیا خوب ترکیب ہے یعنی ہے تو قبرہی مگر ایک امیریعنی حاکم اورسلطان کی ہے!حالانکہ قبرمیں جانے کے بعد غریب اورامیر سب ایک ہی ہوجاتے ہیں۔KASSAیعنی ٹکٹ CASH DESK سے خریدے۔یہ عمارت ایک چوکورقطعے میں واقع ہے۔ مقبرے کاخارجی دروازہ دیگر آثار کی طرح نقش ونگار،بیل بوٹوں اور مختلف رنگوں کے خاکوں سے سجاہوا۔دو محرابیں ،اونچی نیچی محرابوں کے درمیان ابھرے ہوئے اورلٹکتے ہوئے تعمیراتی پھول اور ڈیزائن، صدر دروازے پرآیت:
قَال اللہ تَبارک وتَعَالیٰ وَلتکن مِنکُم یدعُونَ الیّ الخیردِیامَرون با معروف وَ ینہونَ عَنَ المُنکرO
ایک وسیع قطعہ میں تیموری قبرستان ہے۔ گھاس اورپھولوں کے چھوٹے چھوٹے قطعات،مقبرے کے چارمینار مگرجیسے ان کی آخری گنبد والی منزل کٹی ہوئی ہو،ایک جگہ دنیا کا نقشہ جس میں سبزرنگ میں سلطنت امیرتیموراورسرخ اورنیلے نشانات سے ایشیاء کوچک (ترکیہ)، یورپ، ایشیاء ، چین پر تیموری حملے دکھائے گئے ہیں۔ مقبرے کے اندرباہر کی دیوار پرتزئین ومرمت کاکام جاری ہے۔قبر کے اوپر کا گنبد نیلگوں اوراس پر خوبصورت دھاریاں ہیں یعنی چوٹی سے لے کر گنبد کے آغاز تک کاریگروں نے باہر کی جانب درجنوں ابھار ، مالٹے کی پھانکوں کی طرح بنا دئیے ہیں۔
مقبرے کا عالی شان ماحول ہے پر ہیبت نہیں بلکہ مسحور کن،سنگ مرمر کے جنگلے میں سات قبریں ہیں۔سب سے آگے اہلیہ اورپیچھے اَل اولاد،صرف گورامیر اورایک چھوٹی قبر خصوصی پتھر سے آراستہ ہے جو گہرے سبز رنگ کا مگر کالا دکھائی دیتا ہے۔ JADE نام کا بہت قیمتی پتھر ہے جو کسی دور دراز علاقے سے برآمد کیاگیاتھا ۔ درو دیوار ، دروازے کے اوپر اور چھت پر اتنا نفیس اورخوبصورت کام ہے کہ بیان سے باہر ہے۔اس حسن ذوق اور نفاست کاری پر یورپ کے گرجاؤں کے میموریل ماند پڑتے نظر آتے ہیں۔کیسے کاریگروں نے ڈیزائن سوچا،پتھر تلاش کئے اوران کونقشے کے مطابق تراشا اورکھڑاکیا۔اُن کودلآ ویز شکل میں دیواروں اورچھت پر مضبوطی سے آراستہ کیا ۔پچھلے صحن میں ایک راستہ نیچے کو جاتاہے۔ہوسکتاہے کہ امیر تیمور کی اصل قبر بھی زیر زمین ہو!
امیر تیمور نے اپنی فتوحات میں جن ملکوں کوتباہ وبرباد کیاتھا ان میں ایران بھی شامل تھا۔امیر تیمور اورحافظ شیرازی ہمعصر تھے ۔ حافظ کومعلوم تھا کہ سمرقند وبخارا کی رونقیں بڑی محنت اورباہرکے سرمائے سے حاصل ہوئی ہیں جس میں ایران کا سرمایہ بھی شامل تھا۔حافظ نے اپنی ایک غزل میں سمرقند اوربخارا کی یوں قیمت لگائی
اگر اَن تُرکِ شیرازی بدست آرد دل مارا بخالِ ہندوش بخشم سمر قند وبخارا راحافظ 1389 - 1320)ع(
اگر وہ شیرازی معشوق ہمار ا دل تھام لے تو اس کے دل فریب تل کے عوض میں سمرقند و بخارا بخش دوں۔    
روایت ہے یہ شعر امیر تیمور نے سنا تو حافظ سے پوچھا ۔" میں نے اتنی جدوجہدسے سمر قندوبخارا کوتعمیر کیا ہے اورتم ہوکہ اسے مفت میں بانٹتے رہتے ہو"؟حافظ نے جواب دیا" ایسی فضول خرچیوں نے ہی مجھے اس حال میں پہنچا دیاہے کہ اب تہی دست ہوکررہ گیاہوں؟"
اس حاضر جوابی اور حسن طلب پر امیر تیمور نے حافظ کو انعام واکرام سے نوازا۔
ریگستان چوک(سکوائر):
یہ ایک معروف اورمصروف چوک ہے ۔ قدیم زمانے میں یہ جگہ شاہراہ ریشم کے قافلوں کاپڑاؤ اورلین دین کابازار تھا۔یہ جگہ ریگستان میں یا اس کے ایک کنارے پر واقع تھی۔اب جہاں متعدد قدیم اورتاریخی آثار واقع ہیں۔یہاں تین مدرسے موجود ہیں جن کے دروازے تین سمتوں میں اور ایک دوسرے کے سامنے کھلتے ہیں۔ایک سمت بغیر تعمیر کے خالی ہے۔ تینوں کا انداز ایک جیسا مگر زمانہ تعمیر مختلف ہے۔ایک بڑامنقش اوررنگین دروازہ۔پیچھے صحن اورصحن کے اردگردکمرے۔یہ کمرے رہائشی بھی تھے اورتدریسی بھی جہاں طلبا اوراساتذہ رہتے اورپڑھتے تھے۔ظاہر ہے کہ باہر کی طرف کھیت کھلیان اورباغ بغیچے ہوں گے ۔ امراء اورروساء یاریاست کی طرف سے ان کی رہائش،کھانے پینے اوردیگر ضروریات کی فراہمی کاانتظام تھا۔دینی کتابوں کے لئے ساتھ ہی لائبریری ہوگی۔تینوں مدرسوں کا اندرونی حصہ اورمنظر ایک جیسا ہے۔ایک مدرسے کی دو منزلیں ہیں۔ تینوں مدرسوں کے گنبد رنگین ہیں ، دو مدرسوں کے دروازوں کے ساتھ بغیر کلس کے ستون یاپول ہیں۔ان مدرسوں میں اب کاروباری سرگرمیاں ہوتی ہیں جہاں دوکانیں اورٹھیلے ہیں جن سے سیاح پسند کا سامان خریدتے ہیں۔ایک طرف خوب صورت باغ ہے جس میں درخت ہیں، چیری،چنار،شہتوت ،گھاس کے قطعے، سردی میں بھی لوگ آرام سے بیٹھے تھے۔ شاید وہ اتنی سردی کے عادی تھے۔اس بڑے اوروسیع میدان کے ایک جانب کسی قومی ہیرو کا بڑا سامجسمہ ہے۔سیاح قومی مجسمے کی طرف رواں دواں تھے۔ سخت سردی،کپکپاہٹ طاری،مگر سیاحوں کے بڑے بڑے گروپ موسم سے بے نیاز ، زبان سے ناآشنا،تاریخ سے ناواقف مگر دیکھنے اور جاننے کے شوق میں ہمہ دم رواں 
بی بی خانم مسجد کا اوربی بی خانم مدرسے کا بیرونی حصہ بہت دیدہ زیب اوررنگین پھولوں سے مزین ہے۔گنبد کے چاروں طرف مدرسے کے صدر دروازے پر خوبصورت خط میں قرآنی آیات تحریر ہیں۔
تقریبات میں آرائش و زبیائش چونکہ خواتین کابنیادی حق ہے اس لئے پہلے یہ خیال تھا کہ ایسی تقریبات میں اُنہیں سردی کی شدت اوربرف باری تک کا احساس نہیں ہوتا۔آج یہ انکشاف ہوا کہ بازار جانے اورذوقِ خریداری کی تسکین کے لئے موسم کی شدت بھی کچھ اثر نہیں کرتی۔ چنانچہ فرحت اورعائشہ تو الیکٹرک رکشا پر سوار ہوئیں اور شہر کے معروف صائب (Saib) بازار کو سدھاریں،ریگستان چوک میں کوئی اورٹریفک نہیں جاسکتی اس لئے سیاحوں کے لئے ملٹی سیٹر رکشانما بنائے گئے ہیں ۔یہ بجلی سے چلتے ہیں اورمسافروں کوڈھونڈتے ہیں۔آگے پیچھے بہت ساری سیٹیں ہیں اور سائڈوں پرپلاسٹک شیٹ کے کور لگائے گئے ہیں تاکہ ٹھنڈی ہوا کوروکاجاسکے۔مجتبیٰ اورمیں جلدی سے ایک خالی کیفے میں جاگھسے جو ایک آرٹ گیلری بھی تھی۔باہر کی شدید سردی کے مقابلے میں کیفے کادرجہ حرارت 30,28 درجے ہوگا۔گرم ماحول نے بہت سکون دیااُوپر سے گرم گرم کافی نے بہت مزادیا۔خاتون مالکہ بھی خوشدل تھی اورکافی پینے کے بعد ہمارے انتظار پر معترض نہ ہوئی۔خواتین بازار سے لوٹیں تو پھر کافی کا دور چلا۔تازہ دم ہو کروہاں سے نکل کر سامنے الیکٹرک رکشامیں بیٹھے اوروہاں جاکر اُترے جہاں حُسین نے گاڑی پارک کی تھی۔
رصد گاہ:
مرزا اُلغ بیگ 1449-1393) ع( امیر تیمور کے لڑکے شاہرخ کابیٹا تھا۔الغ بیگ عالم،شعر وسخن کاشوقین اورتاریخ نگاربھی تھا سمرقند میں اس نے کئی اہم عمارات تعمیر کیں جن میں اُلغ بیگ مسجد،مسجد شاہ زندہ، مدرسہ ، چالیس ستونوں کامحل اورایک رصد گاہ شامل ہیں۔اس رصدگاہ کے آثار کافی بلندی پر باقی ہیں۔اس کو دیکھنے کے لئے اوپرجاناپڑتااوربہت ساری سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔رصدگاہ کے اندر دیکھیں تودورویہ سیڑھیوں کاایک راستہ نیچے کی طرف جاتاہے۔اس کے آخرمیں ایک جھروکہ ہے جہاں سے آسمان کے اجسام کے مطالعے کابندوبست تھا۔یہ جھروکہ غارنما رصدگاہ سے اوپرکی جانب آسمان کو دیکھنے میں آسانی دیتاتھا۔رصدگاہ کے ساتھ ایک میوزیم ہے اس میں اُلغ بیگ کی خدمات اورکارناموں کے بارے میں آلات اورمخطوطات رکھے گئے ہیں۔ مخطوطے فارسی اورکچھ عربی میں ہیں۔قلمی نسخہ ظفر نامہ از شرف الدین نیردی 15)صدی)بابت فتوحات امیر تیمور ، نوٹ بک،آہنی گلوب،اُلغ بیگ کی شبیہ۔
شاہ زندہ کے آثار کے عقب میں ایک کھلا پختہ میدان ہے جو آج برف سے ڈھکا ہوا تھا۔اس کے نزدیک ہی مسجد خضرؑہے ۔
اب ہماری منزل ایک عجائب گھر (MUSEUM)تھا جسے بلدیہ سمرقند نے تیارکیاہے۔اُس کانام ہے:
The Samarkand Regional Museum of Local Lore 
لوہے کابڑا دروازہ تو سادہ سا تھا تاہم اس کے اندر اورباہر پرانی توپوں اورپرانے برتنوں کے آثار تھے۔ نازک سی برف کے ننھے منے گالے بھی گررہے تھے ۔ ہمارے سوا کوئی سیاح اُس وقت موجودنہ تھا۔عملہ بھی کہیں کونوں کھدروں میں دبکا ہواتھا لیکن ہمارے پہنچتے ہی چہل پہل شروع ہوگئی۔تھوڑی دیر کے بعد غیرملکی سیاحوں کا ایک بڑاقافلہ بھی آدھمکا۔اتفاق سے اس گروپ کاگائڈ وہی نوجوان تھاجو گزشتہ روز ہمارا گائڈ تھا۔صرف مجتبیٰ نے اسے پہچانا ورنہ وہ اپنے کام میں مگن تھا۔اس عمارت کے ایک حصے میں سمرقند کے بارے میں ظروف،سکے،پارچہ جات،تصاویر رکھی تھیں ۔ دوسرے حصے میں یہودیوں کے زیر استعمال گھریلو اوردیگر سامان کے نمونے دھرے تھے۔ایک کمرے کے درو دیوار ، چھت کی زیبائش مسحور کن تھی۔آج بھی متمول لوگ اپنے شوق کے لئے گھروں کی تزئین و زیبائش پر بہت پیسہ لٹاتے ہیں۔ صدیوں سے امیروں کے چونچلے ایک جیسے چلے آرہے ہیں۔لباس،ظروف،رہائش کی آرائش ونمائش۔
تینوں شہروں میں سموگ،گرد،دھواں نظر نہیں آیا۔غالباً حکومت کاسختی سے کنٹرول ہے۔شاید اس لئے بھی موٹر بائیک ، چار سٹروک بغیر سائیلنسر اورموبائل ملا رکشا اور پرانی گاڑیاں نظر نہیں آئیں۔ہمارے ہاں تو انڈسٹری بہت کم ہے ۔ ہمارے شہر تو صرف آٹوموبائل سے اتنی آلودگی پیدا کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان کو ایکسپورٹ کی جائے تو ویسے ہی اس کادم گھٹ جائے۔
غالباً سوویت روس کے انداز میں ازبکستان میں تعلیم مفت ہے یونیورسٹی تک لیکن داخلہ میرٹ پرہوتاہے کسی وزیر،بیوروکیٹ یا رکن اسمبلی کی سفارش سے کام نہیں چلتا اکثر سکولوں میں طلبہ کے لئے دو شفٹیں ہوتی ہیں یہ عمارت اور افرادی وسائل کا بہترین استعمال اورشرح خواندگی بڑھانے کا اعلیٰ طریقہ ہے۔ملک میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔کچرے کے ڈھیر اور ابلتے ہوئے گڑکہیں نظر نہیں آئے،نہ بجلی کابریک ڈاؤن اور نہ پانی کے لئے بالٹیاں اورڈول پکڑے لوگ قطاروں میں کھڑے ہوں۔ کاروبار میں ترجیحاً خاندان کے افراد کو شامل کیاجاتاہے۔اسی طرح شادی بیاہ میں خاندان کوترجیح دی جاتی ہے۔ملک میں علاج مفت ہے۔ڈاکٹروں اوردوسرے پیشہ ورلوگوں کی تنخواہ کم ہے یعنی 30 سے 60 ہزار روپے ماہوار تک۔
مرزاالُغ بیگ کے تعمیر کردہ آثار نامکمل تھے جنہیں بالشویکوں نے مکمل کیا۔لیکن مسجد تعمیر کرنے کے بعد اُسے گودام بنادیا۔عملی طور پر1924ع سے خصوصاً سٹالین کے دور سے قرآن وحدیث کی تعلیم اورمسجد کی عبادات پرپابندی عائد کردی گئی تھی۔باہمی اتحاد اوریک جہتی کی جگہ عدم اعتماد اور جاسوسی رائج ہوئی ۔تینوں شہروں میں جگہ جگہ عربی فارسی کے آثار موجود ہیں۔تینوں زبانوں یعنی ازبک،تاجک اورروسی میں ترجمے کے ساتھ قرآن کے نسخے موجود ہیں لیکن ازبک عام طورپرعربی فارسی نہیں پڑھ سکتے البتہ تاجک فارسی کی شدبُد رکھتے ہیں ، مذہبی تعلیم کاتعلق فیملی ٹو فیملی یعنی جن کاماضی علم اورمذہب کے ساتھ جڑا ہواتھا وہ آج بھی پرانی روایات کے ساتھ مستقبل کی جانب رواں ہے۔ریاست کی طرف سے کوئی پابندی نہیں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔سیاسی جماعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے پاکستان جیسی بے کار اور مخالفت برائے مخالفت کی سرگرمیاں مفقود ہیں۔
1991ع میں روس سے آزادی کے وقت جگہ جگہ بنے ہوئے لینن اورسٹالن کے مجسمے گرادئیے گئے ہیں۔اب ازبکوں کے قومی رہنماؤں کے اِکادُکا مجسمے نظر آتے ہیں۔
رسم الخط چونکہ روسی ہے اس لئے سمجھنے میں دشواری آتی ہے ورنہ اردو کے درج ذیل الفاظ کے علاوہ سینکڑوں مانوس الفاظ عام ہیں:سلام علیکم، سلامت، راحت، التماس، حاجت خانہ،دواخانہ،پولی کلینک ،کم کم ، نماز،عصر،پلاؤ،حلوہ،آقا،حلیم، حوض، لب، مینارہ،مسجد،بازار،چار،چارسو،چائے،شاہ زندہ،ریگستان ،وقف، جماعت، زیارت، حُیریہ، ملی، خواجہ،حجت،صحت، معلومات، نامہ ،مذکور، تصدیق ،لذت، میوزیم، تاریخی ، دولت۔
ازبکستان تاریخ عالم میں ایک ممتاز مقام کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ ملک ملک کے سیاح ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہرسال آتے ہیں۔شاہراہ ریشم یاسلک روٹ ایک عظیم شرف ہے جب دور قدیم کا سی پیک (C-Pak) چین سے ہندوستان ،ایران،مشرق وسطیٰ،ایشیائے کوچک یورپ تک جڑاہوا تھا۔امیرتیمور اگرچہ ہم عصر ملکوں اورتہذیبوں کے لئے بلائے ناگہاں تھامگر ازبکستان کے لئے رحمت وخوشحالی۔ اس کی پر عزم شخصیت نے رودکی ،علی نوائی،ابوریحان البیرونی،حکیم بو علی سینا،امام ابواللیث سمرقندی،امام منصور ماتریدی(فقہ)،نظام الدین شاشی (فقہ) شمس الدین حلوائی ،فخرالدین حسن (فتادیٰ قاضی خان) برہان مرغنیائی (ھدایہ) ، امام سرخسی(بین الاقوامی قانون) ،زمحشری (کشاف)،فارابی،ابوبکر خوارزمی (ریاضی)،عبدالقاہرجرجانی (بلاغت) محمد بن موسیٰ خوارزمی(الجبرا)جیسے نابغہ اور جینئس اہل علم کے وطن کوتعمیرکیا۔حدیث میں امام بخاری ؒ بلاشبہ امام المحدثین ہیں اورطبقہ صوفیاء میں سلسلہ نقشبندیہ کے بانی امام الصوفیاء! دونوں اصحاب کا اثر ونفوذ بین الاسلامی اورعلمی ہے۔
ازبکستان کی کرنسی سَومُ(Som)کہلاتی ہے۔ایک روپے کے 9سوم بنتے ہیں۔ کرنسی نوٹ بڑی بڑی مالیت کے ہیں ۔ یہاں بھی ڈالر اوریورو دونوں کی بڑی پذیرائی ہے۔لین دین میں ڈالر کوپسند کیاجاتاہے۔
واپسی:
22نومبر2019ع بروز جمعہ ازبکستان میں ہماری آخری رات ہے۔یہاں کاموسم اب ہمارے موافق حال نہیں رہا غیر دوستانہ ہوتا جارہاہے۔مگر مقامی لوگ اتنی سردی میں بغیر کپکپائے،ٹھٹھرائے روزمرہ کے کام سرانجام دیتے نظرآتے ہیں۔سیاحوں کے پاس جتنے سوم (Som)یعنی ازبکستانی کرنسی بچی ہوتی ہے اُسے یہاں سے جاتے وقت صرف کرلینا بہتر ہوتاہے ورنہ پاکستان میں تو لوٹانا بہت مشکل ہوتاہے۔
آج صبح ہوٹل سے چیک آؤٹ ہوگئے تھے اورسارا سامان ٹیکسی میں رکھ لیاتھا۔دن بھر مختلف آثار دیکھے۔راستے میں ایک ریستوران سے لنچ کھایا۔اب گاڑی کا وقت نزدیک آگیاتھا چنانچہ کھانا کھاکر سیدھے ریلوے سٹیشن پہنچ گئے۔سمرقند سٹیشن پر افراسیاب ٹرین چند منٹ کے لئے رکتی ہے اس لئے مستعدی کے ساتھ مقررہ بوگی میں سامان کے ساتھ چڑھناتھا۔مجتبیٰ اورعائشہ کی مدد سے یہ مرحلہ بخوبی طے ہوا ۔ دوگھنٹے کاسفر تھا،گاڑی رات 9:30بجے تاشقند پہنچ گئی۔تاشقند ریلوے سٹیشن پر جو موسم تھا وہ افراسیاب کے اندر کے موسم سے بہت مختلف تھا۔مقررہ ٹیکسی کے انتظار میں رہے اورآخر دو ٹیکسیوں کے ذریعے ایک میں سامان اوردوسری میں سواریاں لاد کر روانہ ہوئے۔واقعہ یہ ہے کہ سامان میں کوئی نگ شامل ہواتھا اورنہ مسافروں کی گنتی میں کوئی اضافہ۔ایک ڈرائیور ہی اپنی ٹیکسی کے ناز نخرے سمجھ سکتاہے۔ہمیں تو ہوٹل ازبکستان نے ریلوے سٹیشن سے پک کرناتھا۔ازبکستان ہوٹل کئی منزلہ ہے۔ لابی میں پہنچ کر احساس ہواکہ موسم بدلتے ہی ہوٹلوں کے تیور بھی بدل چکے ہیں۔اب مہمان شاید بلائے جان لگتاہے۔یوں جانا جیسے شادی ختم ہوجانے کے بعد وہاں دیر سے جانے والے مہمانوں کا حال ہوتا ہے! کمرے تھے مگر ڈنگ ٹپاؤ،پڑاؤ بھی رات بھر کاتھا،ہوٹل والوں نے مہمان کی بجائے صرف مسافرجانا۔جیسے تیسے رات گزاری ،صبح ایک رسمی ناشتے کے بعد چل نکلے۔آج بھی ٹیکسی ڈرائیور وہی تھا جو پہلے روز ہمیں تاشقند ائرپورٹ سے لایاتھا۔ شہر خاموش ،بارش آلود،کڑاکے کی سردی میں، ازبکستان کوالوداع کہہ رہے تھے۔ماحول میں ظاہر ہے گرم جوشی نہیں تھی دیگرقافلے بھی اپنے اپنے وطن کولوٹ رہے تھے۔ سب سے زیادہ واپس جانے والے مسافر وہ تھے جو ولاؤی واسٹک ائیرلائن کے تھے، اُن کی قطاریں سب سے لمبی تھیں،یہ شہرروس کے شمال میں واقع ہے شاید سائیبریا کے آس پاس۔چیک اِن کے لئے بس رسوائی ہی تھی یعنی کوٹ، جیکٹ،موبائل،جوتے تک اُترواکرٹٹولا ۔ خداجانے ازبکستان سے کیاچوری ہونے کا خطرہ ہے؟پاکستان سے آئے تھے توچونکہ ڈالر اوریورو تھے اس لئے کسٹم والوں نے سرماتھے پررکھا۔اب چونکہ تہی کیسہ تھے اس لئے وہ کچھ کیا جو امریکیوں نے شاہد خاقان عباسی سے کیاتھا۔کیایہاں سے ازبک یا تاجک پلاؤ کی ترکیب(ریسیپی)چوری ہونے کاخدشہ تھا؟ہفتے بھر کے خود خرچ مہمانوں کو جاتے وقت عزت سے رخصت کرناچاہیے۔
بورڈنگ کارڈ والوں کا ہال لمبائی میں بڑاتھا۔خواتین پرموسم کاکوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اس لئے اب معتدل موسم میں بچے کھچے سوم(Som)وہیں لُٹانے کاپروگرام تھا سوڈیوٹی فری شاپ نے بورڈنگ کی جانچ پڑتال کی رہی سہی کسر پوری کردی۔
مسافروں میں پنجابیوں کے ساتھ پشتون اوربلوچ بھی موجودتھے۔بھرے ہوئے جہازسے شوق کااندازہ ہوا۔بسوں کے ذریعے دورکھڑے ازبکستان ائیرلائن کے بوئنگ طیارے تک پہنچے اور سردی میں سوارہوئے۔ہوائی جہاز کی روانگی بروقت تھی۔چونکہ دن کاوقت تھا نیچے پہاڑوں پر زیادہ تر برف ہی برف دکھائی دی۔لوٹتے ہوئے جولنچ پیش کیاگیاوہ واقعی بہت اچھے معیار کاتھا۔ذائقے اورخوشبو سے معلوم ہوتا تھا کہ اُزبکستان میں تیارشدہ ہے۔ کھاناختم ہوتے ہی لاہورپہنچنے کی نوید ملی۔
روئے گل کی دید باقی تھی کہ بہار رخصت ہوئی مگر خاکِ وطن تو سنبل وریحان سے بھی خوشترہے۔ملک کے جوبھی حالات ہوں، جیسے بھی حکمران ہوں،دنیا میں کوئی اور پاکستان ہے اورنہ کوئی اورلاہور۔سچ کہاکسی سیانے نے کہ جیہڑا سُکھ اپنے چُبارے--نہ بَلخ نہ بُخارے!احمدمنصور بیرونی لاؤنج میں مسافروں کاانتظار کر رہا تھا۔