دولت کی نفسیا ت اور جنت کی نفسیات

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2018

زیادہ پیسہ کمانے کا یہ عمل کوئی راکٹ سائنس نہیں 
یہود دنیا بھر میں دولت کمانے کا ایک استعارہ ہیں۔ان کے بخل اور دولت کمانے کو مقصد زندگی بنالینے کے حوالے سے متعدد لطیفے اورواقعات گردش میں رہتے ہیں۔اسی پس منظر میں ہمارے ہاں کی بعض کمیونٹیز بہت مشہور ہیں اور عملاً مشاہدہ بھی یہی ہے کہ وہ پیسہ کمانے میں دوسرے طبقات سے بہت آگے رہتے ہیں۔زیادہ پیسہ کمانے کا یہ عمل کوئی راکٹ سائنس نہیں۔یہ ایک نفسیات ہے جو خاندان اور برادری کے زیر اثر پیدا ہوجاتی ہے۔اس میں انسان ہر چیز اور ہر موقع کو اسی پہلو سے دیکھتا ہے۔ مثلاًعام لوگوں کے برعکس جودس لاکھ جمع ہونے پر دس لاکھ کی گاڑی خریدتے ہیں، اس نفسیات کے لوگ دس لاکھ جمع ہونے پر خودموٹرسائیکل میں گھومتے اور اس رقم کو کسی کاروبار یا انویسٹمنٹ میں لگادیتے ہیں۔چنانچہ گاڑی خریدنے والوں کے دس لاکھ دس سال بعد ایک لاکھ رہ جاتے ہیں اور انویسٹ یا کاروبار کرنے والوں کے دس لاکھ دس کروڑ بن جاتے ہیں۔انفرادی طور پر کسی شخص کے پاس دولت کا کم یا زیادہ ہونا قسمت پر منحصر ہوتا ہے، لیکن عمومی طور پر اسی رویے کی بنا پر یہ کمیونٹیز عام لوگوں سے زیادہ پیسے والی ہوتی ہیں۔اس طرح کی کمیونٹیز کو ہم ’’دولت کی نفسیات‘‘ میں جینے والی کمیونٹیز کہہ سکتے ہیں۔ان کا لائف اسٹائل اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک کروڑ کی گاڑی خریدسکتے ہیں تو دس لاکھ کی خریدتے ہیں۔ دس کروڑ کے گھر میں رہ سکتے ہیں تو ایک کروڑ کے گھر میں رہتے ہیں۔ باقی تمام پیسہ کاروبار اور انویسٹمنٹ میں لگا رہتا ہے۔یوں یہ لوگ زیادہ سے زیادہ دولت مند اور باقی لوگ بس عام سطح پر زندگی گزارکر رخصت ہوجاتے ہیں۔
جنت کی آنے والی دنیا کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔وہاں پر کچھ کمیونٹیزہوں گی جو اپنے مقام ،مرتبے ، دولت، اسٹیٹس میں باقی تمام اہل جنت کے لیے باعث رشک ہوں گی۔ ان کے گھر باقی سب لوگوں سے زیادہ بڑے اور خوبصورت ہوں گے۔ ان کی سواریاں باقی سب لوگوں سے زیادہ جدید اور شاندار ہوں گی۔ ان کے پاس جنت کے ہر اعلیٰ سے اعلیٰ کلب کی ممبر شپ ہوگی۔ جنت کے ہر پرفضا مقام پر ان کی رہائش گاہیں ہوں گی۔ جنت کے ہر ریسٹورنٹ کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔ اور سب سے بڑھ کر انبیا کی محفل اور خدا کی مجلس میں سب سے آگے ان کو جگہ ملے گی۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو موجودہ دنیا میں’’دولت کی نفسیات ‘‘ کے بجائے ’’جنت کی نفسیات ‘‘ میں جیے تھے۔انھوں نے دین کے سارے احکام کی مقدوربھر پیروی کی تھی۔انھوں نے ایمان و اخلاق کی قرآنی دعوت اور نبوی ماڈل کو اپنی زندگی بنالیاتھا۔ یہ اپنے وقت، صلاحیت اور پیسے کو آخرت میں انویسٹ کرتے اور خدا سے کاروبار کرتے رہے۔ایسا نہیں تھا یہ لوگ ترک دنیا کرکے جیے تھے۔ انھوں نے شادیاں کیں، اولادیں پیدا کیں۔ گھر بھی بنائے۔ سواریاں بھی رکھیں۔ مگر ان میں سے کسی چیز کو جنت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔کیونکہ ان کا مقصود و مطلوب جنت کے اعلیٰ درجات تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ خدا کے ساتھ جو کاروبار اور آخرت کی دنیا میں جو انویسٹمنٹ وہ کر رہے ہیں، اس کے ڈوبنے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ اس کاروبار میں نقصان کا کوئی اندیشہ ہی نہیں اور نفع کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گنا بلکہ بہت سے معاملات میں بے حد و حساب ہے۔ چنانچہ انھوں نے دنیا کو ضرورت کی سطح پر رکھا اور باقی ہر اضافی پیسہ، وقت، توانائی اور جذبے کا رخ آخرت کی طرف موڑ دیا۔اہل جنت کے یہی وہ لوگ ہوں گے جو باقی اہل جنت کے لیے باعث رشک ہوں گے۔یہی وہ لوگ ہیں جو سب سے بڑھ کر خدا سے قریب ہوں گے۔

پانی کی طاقت 
عام طور پر ٹھوس اشیاء مضبوطی اور طاقت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔مگرحقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور چیز پانی ہے جو ایک مائع ہے۔پانی کا بہاؤ وہ چیز ہے جس کا راستہ کوئی پہاڑ بھی نہیں روک سکتا۔ تاہم پانی کو مسلسل آگے بڑھانے والی چیز یہ نہیں کہ پانی پہاڑ اور پتھر سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پانی کے سامنے جب بھی کوئی رکاوٹ آتی ہے پانی ہمیشہ اپنا رخ بدل کر دوسری طرف سے نکل جاتا ہے۔پانی کی اس صفت میں انسانوں کے لیے بڑی رہنمائی ہے۔ زندگی کے سفر میں ہمیشہ رکاوٹیں آتی ہیں۔ بارہا یہ رکاوٹیں ہماری طاقت سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ایسے میں جو لوگ پہاڑ کے مقابلے میں پتھر بنتے ہیں وہ لاکھ سر ٹکرائیں، پہاڑ کے قدموں میں بکھرنے کے سوا ان کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جو لوگ پانی کا مزاج رکھتے ہیں، وہ طاقتور سے ٹکراکر اپنی توانائی،اوراسکی شکایتیں کرکے اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ وہ متبادل راستہ ڈھونڈ کر اپنی منزل کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
پانی کے بہاؤ کی ایک دوسری صفت ایک اور انداز سے بھی ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ وہ یہ کہ پانی آگے اسی وقت بڑھتا ہے جب پیچھے سے وہ مسلسل آرہا ہو۔ پانی اگر پیچھے سے بند ہوجائے گا تو اس صورت میں بھی اس کا بہاؤ رک جائے گا۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے دل میں آگے بڑھنے کا جذبہ توانائی کا وہ ماخذ بن جاتا ہے جو ان کے بہاؤ کو نت نئے راستے اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ان کا جذبہ انھیں مجبور کرتا ہے کہ وہ بہانے بنانے اور اپنی جگہ پر بیٹھ جانے کے بجائے منزل تک پہنچنے کی نئی راہ ڈھونڈیں۔ چنانچہ ان کا جذبہ آخر کار ایک آؤٹ آف باکس حل فراہم کردیتا ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ دوسرا راستہ اور دوسرا امکان ڈھونڈتے ہیں۔وہ ہر مشکل کو بلا واسطہ نہ سہی بالواسطہ طور پر سلجھالیتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں کامیابی جن کا ہمیشہ مقدر بنتی ہے۔
بلاوہ اور پیغام
جسٹس مشیر عالم سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ پچھلے دنوں ان کی عدالت میں ایک کیس کی سماعت کے دوران بڑا عبرتناک واقعہ پیش آیا جو ان کے دوست ڈاکٹر مظہر صاحب نے ہمیں سنایا۔ یہ کیس کسی سرکاری ملازم کا تھا جسے اس کی مدتِ ملازمت سے قبل ہی ریٹائر کر دیا گیا تھا۔ ان صاحب نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران میں جسٹس مشیر عالم نے مدعی سے سوال کیا کہ ان کی ریٹائرمنٹ میں کتنا عرصہ باقی ہے۔ مدعی نے جواب دیا کہ اس کی ریٹائرمنٹ میں ابھی دو برس باقی ہیں۔ یہ الفاظ مدعی نے ادا ہی کیے تھے کہ وہ زمین پر گرے اور ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔
موت اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ مگر انسان اس موت کو نظر انداز کر کے جیتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں ہر چیز کا منصوبہ بناتا ہے سوائے موت کے بعد شروع ہونے والی زندگی کے۔ وہ زندگی میں ہر چیز کے لیے لڑ تا ہے ، سوائے موت کے بعد کی کامیابی کے لیے۔ شادی، بچے ، تعلیم، گھر، ملازمت، کاروبار، ان میں سے ہر چیز زندگی بھر انسانی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔ انسان عین موت کے کنارے کھڑ ے ہوکر بھی زندگی کو دیکھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کا فرشتہ خاموشی سے اس کے دروازے پر دستک دیتا اور جواب کا انتظار کیے بغیر مکانِ دل میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر مکین کی جان کو اس کی مرضی دریافت کیے بغیر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ انسان سوچ بھی نہیں پاتا کہ نقدِ جاں ایک روز اچانک اتنی خاموشی سے مٹی میں مل جائے گی۔اچانک آنے والی موت میں مرنے والے کے لیے بلاوہ ہوتا ہے ، مگر اس میں زندوں کے لیے بھی ایک زندہ پیغام ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ تم بھی موت کی تیاری کر لو۔ یہ اسے اچانک آئی ہے اور تمھیں مطلع کر کے آ رہی ہے۔ سو خدا سے ملنے کی تیاری کر لو۔ حیاتِ ابدی کے سامان کی تیاری کر لو۔
دوسروں کو دیکھنے کا غلط طریقہ
مستشرقین (Orientalists) ان مغربی اہل علم کو کہا جاتا ہے جو مشرقی معاشروں ، تہذیب اور زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ مغربی استعماریت کے عروج کے زمانے میں یہ علم بہت ترقی حاصل کرگیا تھا۔ ان مستشرقین کی ایک بڑی تعداد کی یہ کوشش رہی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام میں خامیاں تلاش کی جائیں اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی سیرت تو پہلے ہی خامیوں سے پاک ہیں ، اس لیے مستشرقین کی ان متعصبانہ تحقیقات کا جب کبھی علمی جائزہ لیا جاتا ہے تو ان کی غلطیاں باآسانی واضح ہوجاتی ہیں۔
ایسے مستشرقین کی اصل غلطی ان کا یہ اندازِفکر ہے کہ خامیوں کی تلاش کے لیے تحقیق کا آغاز کیا جائے۔ تاہم یہ اندازِ فکر صرف ان مستشرقین ہی تک محدود نہیں ، بلکہ ہم میں سے بیشتر لوگ اسی طرح سوچتے اور ہمیشہ دوسروں کے متعلق غلط رائے قائم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس اصول پر زندگی گزارتے ہیں ، وہ زندگی کے ہر تعلق میں انسانوں کی خامیاں ہی دیکھتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر ان کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں نفرتیں اور عداوتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ایک عام انسان خوبی و خامی دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ہم اگر انسان کی خوبیوں کو چھوڑ کر اس کی خامیوں کے لحاظ سے رائے قائم کریں گے تو وہ ہمارے نزدیک برا ہوجائے گا اور ہم فطری طور پر اس کے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کریں گے۔ جواب میں وہ بھی ہم سے اچھا معاملہ نہیں کرے گا اور معاشرے میں شر بڑھے گا۔ اس کے برعکس اگر ہم کسی کے حوالے سے اس کی خوبیوں کی بنیاد پرتصور قائم کریں گے تو اس کے ساتھ ہمارا معاملہ اچھا ہو گا۔ اور جواب میں وہ بھی ہمارے ساتھ اچھا کرے گا اور یوں معاشرے میں محبت، خیر اور سکون عام ہوجائے گا۔ لوگوں کی جان، مال اور آبرو کو تحفظ ملے گا۔ یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں انسانیت کو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔