امیر تیمور ، امام بخاری اور خواجہ نقشبند کے دیس میں قسط ۲

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : فروری 2020

حضرت امام:
تاشقند میں آج ہماری منزل چوک حضرت امام تھی۔یہ اصل میں ایک چوک ہے جس کے اندر اوراس کے اردگرد بہت سارے آثار واقع ہیں۔عمارت شہر کے اہم آثار میں سے ہے۔ٹیکسی نے سڑک پراتارا وہاں سے سیڑھیاں چڑھے توسامنے مسجد کے دواونچے مینارنظر آئے۔ مینار خوبصورت تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔میناروں کی لمبائی میں تین نیلے بینڈ(دھاریاں)ہیں جن پر نقش ونگار ہیں۔آخری منزل پر چھ کھڑکیاں ہیں اورسب سے اوپر نیلے نقش نگار والاگنبد اورسنہری کلس۔دونوں مینار مسجد کے باہر بنائے گئے ہیں۔مسجد کے صدر دروازے کے ساتھ دوبغلی دروازے ہیں۔تینوں پر خوبصورت چوبی کام ہے۔مسجد میں آمدو رفت کے لئے درمیانی دروازہ استعمال ہوتا ہے۔ان دروازوں کے اوپر نیلی ٹائیلزپر خوبصورت خط نسخ میں یّا ا یُھالَذینَ اَمنواُ اَطیِعُواللہَ وَاَطیعُوالرسّول وَاؤلیٰ الاّمرمِنکُم کا شاید پورا رکوع درج ہے۔دروازے کے باہرایک طرف عربی میں جامع حضرۃ امام اور دوسری طرف ازبک میں تحریرہے ۔میناراورمسجد کے درو دیوار ہلکے بادامی رنگ کی چھوٹی اینٹوں کے بنے ہوئے ہیں۔دروازے کے اندر ایک گراسی صحن اورصندوق اعانت ہے۔تین طرف برآمدہ ہے جو چھ چھ چوبی ستونوں پر تعمیر ہے۔ان چوبی ستونوں پرنفیس نقش ونگار کھدے ہوئے ہیں۔اسی برآمدے میں جوتے رکھنے کے ڈیسک پڑے ہیں ۔ برآمدے کے ایک دروازے سے داخل ہوں تواندر مسجد کابڑاہال ہے۔کچھ حصے میں مستری کام کررہے تھے۔مرکز میں گنبد کے نیچے منقش چھت ہے اورگنبد کے نیچے اس کے اطراف میں متعدد کھڑکیاں ہیں شاید روشنی کے لئے۔مسجد کا منبر بھی لکڑی کاہے جس کی چھ سیڑھیاں ہیں۔دیوار سے دیوار تک کارپٹ بچھا ہواہے۔ترکی مساجد کی طرح تسبیحیں لٹکانے کے سٹینڈ پڑے ہوئے ہیں اوورکوٹ لٹکانے کے ہینگر بھی۔ دروازے کے ساتھ ہی لاؤڈ سپیکرکا کنٹرول ہے۔ سب سے دلچسپ وہ وقت نما ہے جو مسجد کے پہلے صحن کی مشرقی دیوار پر آویزاں ہے ۔ملاحظہ کیجئے۔     NAMOZ VAQLARI
پیشیں(ظہر)PESHIN        فجرBOMDOOD
خفتاں(عشاء)    XUFTON شامSHOM    عصرASR    دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے دیہات کی ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ظہرکوپیشیں اورعشاء کوخفتاں کہتے ہیں!
مسجد کے ساتھ بارک خان مدرسہ کی عمارت بھی ہے۔ایک مقبرہ صوفی ابوبکر محمد بن کفل شاشی975--903)ع)کا ہے۔یہ مدرسہ مسجد کے پیچھے واقع ہے جس کے متعدد نیلے گنبد ہیں سنہرے کلس والے۔ دروازے کے اوپر نیلی ٹائیلوں پر آیاتِ مبارکہ وَلَتکن منکم یدعون الی الخیر ویا مرون بالمعروف وینہون عن المنکر تحریر ہے۔دروازے کے اندرصحن ہے اورچاروں طرف کمرے یا حجرے جن میں طلبہ اوراُساتذہ رہتے تھے۔اب یہاں دکانیں ہیں جہاں سیاحوں کے لئے دستکاریاں سجی ہیں۔بعض دستکار وہیں چوائس کاسامان تیارکردیتے ہیں۔غالباً اخروٹ کی لکڑی استعمال ہوتی ہے۔کئی نفیس چیزیں دیکھنے اورخریدنے کو ملیں۔
حضرت امام کے اس وسیع کمپلیکس کے ایک جانب امام بخاری پر علمی اورتحقیقی کام کرنے والوں کے لئے اسلامی انسٹی ٹیوٹ آف امام بخاری ہے۔
Imam Buxoriy Nomli Tashkent Institution 
انسٹی ٹیوٹ کے اندرجانے کی اجازت نہ ملی۔جو لوگ داخلے پرمامور تھے وہ انگریزی سے نابلد-نوجوان سکالر داڑھی اور چارکونی ٹوپی کے ساتھ آتے جاتے دکھائی دئیے بعض لمبے سفید فرغلی کے ساتھ۔ اسی کمپلیکس کے ایک طرف ایک مقبرہ ہے جس میں داخلے کے لئے ایک بیرونی دروازہ،بڑی ڈاٹ کے نیچے اوردوسرا دروازہ قبروں تک جانے کے لئے لکڑی کا۔یہاں الا اِناّ اولیاء اللہ لاَخوف علھیم ولاھم یحزنون لکھا ہوا ہے۔کمرے کے اندر قبریں کچھ نچلی سطح پر اورسبز غلاف اوڑھے ہوئے اور کچھ تھوڑی بلندی پربغیرغلاف مگر تعویذ چھوٹی اینٹوں کی خوبصورت چنائی کے ساتھ۔تینوں قبروں کے سامنے فارسی اورازبک میں صاحبِ قبرکا تعارف تحریرہے۔اُن میں بزرگوں کے خطابات،اسماء اورعہد کاذکر ہے۔اس مقبرے کی چھت پرلکڑی کا کام بہت دیدہ زیب تھا۔ہمارے مقبروں کی چھتوں پر آرائشی کام نہیں کیاجاتا۔قبریں بھی کوئی آراستہ نہیں ہوتیں۔مزار کے دروازے کی لکڑی پر کلمہ طیبہ کھداہواہے۔لیکن اس وقت کوئی زائریاسیاح نظر نہیں آیا۔
اسی کمپلیکس میں ایک اورعمارت بھی ہے جوانگریزی بورڈ نہ ہونے کی وجہ سے شاید رہ جاتی لیکن اس کے ایک جانب گارڈ اورٹکٹ گھر دیکھ کرتجسس ہوا۔معلوم ہوا یہ گویا قرآن گیلری ہے اوریہاں ذوالنورین سیّدنا عثمان بن عفان ؓ خلیفہ راشد ثالث کاجمع کردہ قرآن مجید رکھاہواہے۔فوراٹکٹ خریدے۔دروازے کے باہر ننگے سر خواتین کے لئے سکارف بھی لٹک رہے تھے۔ جوتے اُتار کرداخل ہوئے۔ایک بڑے کمرے کے سنٹر میں چبوترے کے اوپر پتھر کاتھڑا سابناہواتھا۔اس پر شیشے کے بڑے سے ڈبے میں بڑے سائز کا قرآن حکیم رکھاہواتھا۔شایدخط کوفی ہے جس میں اعراب اورنقطے بھی نہیں تھے۔لفظ بڑے بڑے،اُن کو پڑھنا آسان نہیں ہے۔اس قرآن کا ایک نسخہ یاکاپی امیر تیمور میموریل میں بھی دیکھاتھا لیکن یہاں کانسخہ اوریجنل یا جینون ہے ۔تصویر اتارنے کی ممانعت ہے۔ہال کے چاروں طرف کمرے ہیں جہاں قرآن حکیم اورعربی ،فارسی کی کتابوں کے قلمی نسخے ہیں۔غالباً یہ تمام تحریریں ازبکستان کے علماء کی محنتوں کاثمر ہیں جنہیں ڈھونڈ ڈھانڈ کر بڑی محنت سے محفوظ کیاگیا ہے۔حنفی فقہ کی بعض اہم بنیادی کتابوں کے قلمی نسخے بھی دیکھے۔
مسجد ہشت امام کے ابھی نزدیک ہی تھے کہ اذان کی آواز سنائی دی۔تھوڑی ہی دیر میں پیدل چلتے ہوئے،گاڑیوں میں سوار لوگ ہرطرف سے آنے لگے۔بظاہر اردگرد رہائشی آبادی بھی نہ تھی۔مسجد کے نیچے ایک جانب واقع توالیت(Toilet) میں گیا۔بہت صاف،بے بو،فلش،ٹشو،لوٹا ڈھکن والاگرم سرد پانی،کموڈکے پاس دیوار پر لوہے کاراڈ تھا تاکہ معمر یاگھٹنے کے مریضوں کو بیٹھنے اُٹھنے میں آسانی رہے ۔ باہر آیا تو ایک کاؤنٹر پر دو شخص بیٹھے تھے ۔ مجھے ہاتھ خشک کرنے کے لئے اُنہوں نے ٹشو دیا۔جب میں نے وضو کاارادہ کیا تو مجھے دو چھوٹے تولیے تھمائے۔اشارے سے بتایا کہ سفید منہ اور بازو کے لئے ہے۔ ایک ہلکے پنک رنگ کاتولیہ پاؤں خشک کرنے کے لئے ہے۔تولیے کے استعمال کے بعدٹوٹنی کے اوپر کی دیوار پر رکھ دئیے جاتے ہیں۔وضو اورخشک شوئی کے بعد کاؤنٹر کلرک نے ہاتھ پرعطرکاقطرہ لگایا اور اشارے سے کہاکہ اسے چہرے پر مل لوں ساتھ بولا"ھدیہ"! اس عطر کی خوشبو بڑی دیر تک ساتھ رہی۔ کیف تو ابھی تک باقی ہے!۔وضوگاہ کے ساتھ کھونٹیاں تھیں جہاں کوٹ لٹکائے جاتے ہیں۔وضو کے لئے دونوں گرم اورٹھنڈا پانی تھا جنہیں ضرورت کے مطابق مکس کیاجا سکتا تھا ۔ وضوکرکے مسجد کے اندرگیاتوابھی صرف پہلی دوسری صف میں نمازی نوافل ادا کر رہے تھے۔چند قرآن کی تلاوت اورتسبیح خوانی کررہے تھے۔تھوڑی دیر کے بعد تکبیر ہوئی اورصفیں آراستہ ہونے لگیں۔امام مسجد پینٹ کوٹ اورسرپرپگڑی کے ساتھ تھے مگر بڑی مسجد کی 5-6صفیں مکمل تھیں ۔ نمازیوں میں جوان اورعمررسیدہ دونوں طبقے تھے،غالباً یہ وہ لوگ تھے جوہشت امام چوک کے اندر اوراطراف میں کاروبار یا ملازمت کرتے تھے۔نماز کے بعد بہت مختصر دعا ہوئی۔زیادہ لوگ بقایا نوافل پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔
چارسُو بازار (مارکیٹ):
حضرت امام کے بعد ارادہ چارسو بازار جانے کاتھا۔اس مقصد کے لئے ٹیکسی روکنا چاہی تو کامیابی نہ ملی شایدروکنے کامقامی انداز معلوم نہ تھا ۔یہ دیکھ کرایک پختہ عمردبلی پتلی خاتون جس کے سر پرسکارف تھا خواتین کے پاس آئی اورپرتپاک سے ملی اورجانناچاہا کہ ہم کہاں جاناچاہتے ہیں "چارسُو"سن کر اس نے اپنے انداز میں اشارہ کیا اور ایک ٹیکسی رک گئی۔اس نے ازبک میں ڈرائیور کو ہدایات دیں کہ انہیں چارسوجاناہے۔ساتھ کچھ اورتلقین بھی کی اورہم سے بڑی گرم جوشی سے سلام کہہ کر چلی گئیں۔ٹیکسی نے تھوڑی دیر میں چارسو اتاردیا۔جب اسے کرایہ دیناچاہا توٹیکسی ڈرائیور نے لینے سے انکار کردیا۔تب معلوم ہواکہ محترمہ نے کہاہوگا کہ یہ مسلمان مسافر ہیں اورانہوں نے پاس ہی تو جاناہے ان سے کرایہ مت لینا!۔
چارسُو اردومیں تو چاروں طرف کوکہتے ہیں پُرانے شہر میں یہ ایک صدیوں پرانی مارکیٹ ہے جو شاہراہ ریشم پرواقع تھی اورمصروف ترین تھی۔ملکوں ملکوں سے سامان آتا اورفروخت ہوتا تھا۔یہاں جیولری،ظروف،ملبوسات اوردستکاریاں بکتی ہیں۔عملاً یہ ایک گول مارکیٹ ہے جو ترکیب میں گول ہے جس میں داخلہ کے دروازے شہر کی چاروں سمتوں میں کھلتے ہیں۔اس میں چاروں طرف گولائی میں دکانیں ہیں جو تختوں پرسجی ہیں یعنی کوئی کمرے نہیں ہیں۔یہاں خصوصاً کھانے پینے کی قدرتی اور تیارکردہ اشیاء ملتی ہیں۔ سبزیاں،ترکاریاں،سلاد،شہد،پنیر،مکھن ،لسی،گوشت،تازہ پھل،خشک پھل --تمام اشیائے خورنی تازہ،مختلف اقسام کی دو منزلوں یعنی فرش اورپہلی منزل پر پھیلی ہوئی ہیں۔اوپر بہت بڑی گول چھتری جیسی چھت ہے۔جب روشنیاں جلتی ہیں توبہت بھلا منظر ہوتاہے۔دکاندار آواز دے کربھی اپنے خوانچے کی طرف متوجہ کرتے تھے۔اکثر سبزیوں کے نام معلوم نہ تھے بس شکلوں سے بھلا چنگا اندازہ لگایا جا سکتاتھا۔پھلوں سبزیوں کاتعارف زبان کی وجہ خود ایک مسئلہ تھا اس لئے صرف آنکھوں سے اس گنبدبے در کے نیچے خشک میوہ جات رنگارنگ اورمزے مزے کے، دوکانداروں کے اصرار پرچکھتے رہے۔ مول تول بھی ہوا۔عورتوں میں4,3قسم کے لباس نظر آتے ہیں ایک سرپرسکارف ،جسم پر شلوار اورلمبا فراک۔دوسرا سکارف اور جینز کوٹ، تیسرا بغیرسکارف اورسکرٹ، چارسو میں قرب وجوار کی خواتین سرخ و سفید رنگت،قدچھوٹے،فربہ اندام اور مقامی لباس میں تھیں۔
دریائے سیاب(سیاہ آب کیونکہ دیکھنے میں صاف شفاف پانی سیاہ نظر آتاہے)کی نہریں شہر کے اندر سے گذرتی ہیں۔ کنارے پختہ ،سبز گھاس کے تختے ، درخت،نہریں نچائی میں ہیں اس لئے وہ نہریں اکثر سٹرک کے نیچے سے گذرتی ہیں نہر کے کناروں پر کوئی رونق نہیں تھی شاید خزاں کی وجہ سے ایساہو۔ورنہ پک نک اور آؤٹنگ کے لئے بہترین جگہ۔
اب وقت ہو چلا تھا پیٹ پوجا کا!چارسو سے باہر ایک بڑی سی مارکیٹ ہے جس میں لکڑی کے پنگھوڑے الماریاں اوردوسرے فرنیچر کی دکانیں ہیں۔بچوں کے پنگوڑے کے تختے میں ایک گول سوراخ رکھاگیاہے تاکہ بوقت ضرورت اُس کے دوسرے کپڑے محفوظ رہیں! ان دکانوں کے درمیان کھابے تھے جہاں لوگ کرسیوں پر بیٹھے لنچ کھارہے تھے۔کھانے میں پِلاَؤ (جسے ازبک پِلاَؤ کہتے ہیں)کا پوچھا تو سکارف اوڑھے اوراپرن پہنے بڑی بی کے پاس سٹاک ختم ہوچکاتھا۔ہمارااصرار تھا کہ پلاؤ ملے چنانچہ جب میں نے ساتھ کے کھابوں سے پوچھنا چاہا تو بڑی بی اور اس کا کارکن خود گئے اور ڈھونڈڈھانڈ کر دو پلیٹیں پِلاؤ اُٹھا کر لائے۔اُن کی محبت مگر وہ مزیدار ہونے کے باوجود تیل آلود تھا۔ ہمارے لنچ کے ساتھ میں ازبکsomsa (سموسہ) اورروٹی بھی تھی۔مکس سالن میں آلو،بینگن اورٹماٹرکے بڑے بڑے ڈلے تھے۔سمسہ شکل میں ہمارے معروف عالم سموسے کی طرح ہے مگراس کے لکھنوی بانپکن کے بغیر یعنی خستگی اورنفاست کے بغیر۔اُن کاسموسہ بٹوے کی طر ح تھا اوراس کے اندر گوشت کے ٹکڑے تھے۔ازبک کھانے کے ساتھ پانی نہیں پیتے ،ایک چینک اورپیالے آجاتے ہیں،چینک میں کالی چائے کاہلکا قہوہ ہوتا ہے بغیر دودھ بغیر چینی کے،اگر سوپ کے ساتھ روٹی کھائیں تو اس چائے کے گھونٹوں کے ساتھ،سموسا لینا ہوتو چائے کی چسکیوں کے ساتھ، پلاؤ کھائیں تو ساتھ قہوہ پیتے رہتے ہیں۔پلاؤ کے چاول موٹے ہوتے ہیں،ان میں کبھی کشمش یا مکئی کے دانے ہوتے ہیں،اوپر گاجر کاٹ کررکھی جاتی ہیں۔اس پلاؤ میں غالباً تلے ہوئے بیف کے ٹکڑے کثرت سے ہوتے ہیں۔ اندازہ ہوتاہے کہ اہل ازبکستان لاہور کے بٹوں اورشیخوں سے زیادہ گوشت خور ہوتے ہیں۔یہاں مرغ کا گوشت قریباً ناپید ہے یعنی کم ملتا ہے اورکم کھایاجاتاہے بچھڑے اوربھیڑ کاگوشت زیادہ مقبول ہے۔مرغ پلاؤ کو گویا ایک مذاق کادرجہ حاصل ہے۔
 سچی بات یہ ہے کہ ازبک اس معاملے میں واقعی سچے ہیں۔
مجتبیٰ کو ازبک کھانوں سے رغبت پیدانہیں ہوئی۔غالباً باقیوں کا بھی یہی حال تھا مگر کھاناضروری تھا سوکھایا۔یہاں کھانے کا بل مبلغ:95000سوم مگر درحقیقت 4آدمیوں کا بل صرف 1,500/-روپے تھا۔یہاں دوپہر کے کھانے کے متعین اوقات ہیں۔یعنی11بجے تا1بجے تک اور اسی دوران تازہ پلاؤمل سکتاہے اس کے بعد لنچ ڈھب کا یاسرے سے نہیں ملتا۔بڑی بی اوردیگر کااخلاق لاجواب، آتے جاتے سلام کہا،سینے پرہاتھ کراورسرکوخم کرکے جواب دیا،جیسے بچھے جارہے ہوں۔
گاڑیوں کی اکثریت شیورلٹ کی ہے کیونکہ یہاں اُن کی تیاری کاکارخانہ ہے جیسے ہمارے ہاں سوزوکی کی یاٹیوٹا کی عملداری ہے۔شہر میں گرد،دھواں،سموگ ،فوگ ندارد۔
ازبک خوش قسمت ہیں کہ اُن کی آبادی چونکہ تھوڑی ہے اپنے وطن جیسا حال نظرنہیں آتاکہ آدمی ہر طرف آدمی!چنانچہ یہاں ٹہراؤ اورسکون ہے! کھابے سے نکلتے وقت سامنے مختصر احاطے اورسلاخوں کے ساتھ ایک سبز گنبددکھائی دیا۔ڈرائیور سے معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک مسجد ہے جونماز کے وقت کھلتی ہے۔باہر سے مسجد اورمقبرہ میں کوئی فرق نظر نہیں آتاکیونکہ دونوں کے گنبد نیلگوں ہیں اوران کے ساتھ کوئی صحن نہیں ہوتا۔
آج ہوٹل کے عقب والی سڑک پر واقع بازار کھلاہے۔دکانیں سجی ہوئی،سامان سے بھری ہوئی مگرخریدارکم کم شاید لوگ پہلے وقت میں ضروریات ساتھ لے جاتے ہیں دلچسپ یہ کہ ازبک میں تھوڑاتھوڑا کو کم کم ہی بولاجاتاہے۔ایک سٹور سے دہی او ر بسکٹ لئے ،بعد میں بس سٹاپ سٹور سے ایک اور دہی پیک خریدا تودونوں میں 500سوم یعنی 9روپے کا فرق پایا۔
ہوٹل میں سگریٹ نوشی منع ہے۔ چنانچہ سگریٹ نوشی کاڈیرہ یعنی چائے کی نشست صدر دروازے سے باہر گویا پورچ میں بنائی گئی ہے سیگریٹ نوش باہرسردی کوخوش دلی سے برداشت کرتے ہیں اورخوشی سے اپنے پینے سے دھواں اُڑاتے ہیں سگریٹ کے دھویں سے اندر کی فضا متاثر نہیں ہوتی۔ ازبک سگریٹ پاکستانی سگریٹ کے مقابلے میں دبلا اورچھوٹاہے۔سڑک کنارے ایک کھابے کے باہر دیگرلذائذ کے ساتھNon Kobabیعنی نان کباب لکھادیکھا۔پاکستان طرح اس کھابے پر بے لباس مرغ یا دمدار بکرے لٹکے نہیں تھے۔کوئی ٹکاٹک کی آواز نہیں آرہی تھی۔سب کچھ پیچھے کچن میں تھا۔صرف ایک کھلی کھڑکی سے اشتہاانگیز مہک کی لپٹیں آرہی تھیں۔
ہوٹل کی 11منزلوں کی چاربڑی مستعد لفٹیں ہیں اس لئے اترنے چڑھنے میں کوئی مشکل نہیں آتی۔ برآمدوں کی بتیاں کسی کے اپنے نیچے آنے پر جل اٹھتی ہیں اور تھوڑی دیر میں خود بہ خود آف ہو جاتی ہیں۔لیکن مجھے کہیں سیڑھیاں نظر نہیں آئیں ورنہ عام طور میں سیڑھیوں کوترجیح دیتاہوں۔پہلے ڈیڑھ دن تو اپنے اندازے سے قصر نمازیں اداکرتارہا لیکن پھر عائشہ نے انکشاف کیا کہ کمرے میں موجود ایک دراز کے اندر قبلہ کانشان موجودہے۔تب قبلہ راست کیا وہاں جانماز نہیں تھی۔
مسافروں نے اپناسامان تو رات کو ہی پیک کرلیاتھا کیونکہ آج تاشقند سے بخارا کے لئے روانگی ہے۔ ٹرین کی روانگی صبح سویرے 7:30بجے تھی۔چنانچہ تیار ہو کر ہم 6بجے ہی نیچے لابی میں آگئے تھے ۔سفر پرچلنے سے پہلے کمرے میں موجود گولڈ نیسکف نے بہت مزادیا۔ہماری درخواست پرہوٹل والوں نے ساڑھے چھ کی بجائے صبح سوا چھ بجے ناشتہ دینے سے معذرت کردی تھی لیکن مروت میں ایک لنچ بکس نما انتظام کردیاتھا۔صبح6:35پرڈرائیور نے پک کیااورسڑکیں خالی ہونے کے سبب 10منٹوں میں ریلوے سٹیشن پرپہنچا دیا ۔ گاڑی میں سوار ہونے کے لئے غیر ملکی مسافروں کاالگ راستہ ہے ۔ٹکٹ اور پاسپورٹ چیک ہونے کے بعد لمبا فاصلہ پیدل طے کرکے سٹیشن کے اندرداخل ہوئے توکم درجہ حرارت کی وجہ سے سکون سا آگیا۔باہر تو درجہ حرارت منفی تھا۔ہال کے اندر فوراً حرکت کی علامت ایک فوارہ تھا جو مہمانوں کو اچھل اچھل کر جی آیاں کہہ رہا تھا سامنے وسیع اور صاف پلیٹ فارم پر ازبکستان کی مشہورBullet(بلٹ)ٹرین کھڑی تھی۔ہربوگی کے باہر ایک ٹوپی پوش میزبان خاتون اوردوسری بوگی پرایک روسی کیپ پوش نوجوان کنڈیکٹر مہمانوں کو رہنمائی دے رہے تھے۔بکنگ میں تاخیر کی وجہ سے ہم مسافر ایک بوگی میں ساتھ نہ تھے اندر سیٹیں چوڑی،ہرسیٹ پر دو دومسافر تھے ہماری بوگی نمبر5تھی اور ٹرین میں کل دس بوگیاں تھیں۔تمام بوگیاں آپس میں مربوط تھیں یعنی لوگ آجا رہے تھے۔ بلٹ ٹرین ٹھیک 7:30 بجے یعنی مقررہ وقت پرروانہ ہوئی۔ٹرین کانام ایک شخصیت افراسیاب کے نام پررکھاگیاہے۔غالباً یہ ساتویں صدی کاآرٹسٹ تھا جو بُرش سے تصویریں بناتاتھا۔
بخارا شریف:
ازبکستان کی بلٹ ٹرین ایک انتہائی تیزرفتار سواری ہے۔اثنائے سفر اس کی رفتار 235کلومیٹر یعنی140میل فی گھنٹہ تک جاتی ہے۔راستے میں ایک یا دوپڑاؤلیتی ہے ورنہ بے رکے تاشقند سے بخارا :BUXORO)بخورو) تک بھاگے چلی جاتی ہے۔چلتی یہ بجلی سے ہے۔ریلوے ٹریک کے دونوں جانب آہنی جنگلہ جانوروں کوبچانے کے لئے بنایاگیا ہے۔ راستے میں کھیت کھلیان،اکادکاباغ،دو دریا ،عام طورپرمیدانی اورخشک،درخت کم، دور نزدیک آبادیاں,چھوٹے بڑے پکے مکان مگر سب کی چھتیں ٹین والی جیسی پہاڑی مقامات پر ہوتی ہیں۔کھیتوں میں کپاس کے خشک پودے کھڑے تھے جن سے روئی چنی جاچکی تھی۔جابجا بھیڑوں خصوصاً افغانی دنبوں اوربکریوں،گایوں کے ریوڑاورگھوڑوں کے ریوڑ،خشک زرد گھاس چرتے ہوئے،ریوڑ چرانے والے مرد اورعورتیں سر ڈھانپے ہوئے،مردوں کالباس پینٹ کوٹ اورعورتوں کامقامی پہناوا۔راستے میں کراس کرنے والی مال گاڑیوں کی بہتات جیسے ساراملک سامان بنانے،بھیجنے اوربیچنے میں مصروف ہے۔ اکادکافیکٹریاں،ایک جی ٹی روڈ ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ بھاگتی ہے کبھی نزدیک اورکبھی دور،ساتھ نہیں چھوڑتی۔ ہوٹل سے ملاہواہلکا ساناشتہ کیا۔ایک برگر میں چیزِ تھا اوردوسرے میں گوشت کے ٹکڑے اورسلاد۔سمرقند جنکشن سے کسی دوسری طرف ریلوے ٹریک کا اشارہ تھا جس کانام قرشی ہے!راستے میں چھوٹے بڑے قبرستان دکھائی دئیے۔لاہور کے میانی صاحب سے بالکل مختلف،نہ کوئی کمرہ یاتھڑا،نہ جھنڈا اورنہ پختہ لحد،صرف شناخت کے لئے مزار کے سرہانے پتھر کے سلیب لگے ہوئے تھے۔
12:30بجے دن رسیدگی بخارا،سٹیشن سادہ اوربارعب۔صاف اورشورشرابہ کے بغیر، مقامی ایجنٹ کاڈرائیور مسٹر عزیز مع گاڑی موجود تھا۔وہ بخارا شریف کہہ رہاتھا۔
عزیز باتیں کرنے والا گائیڈ تھاجیسا کہ ہرگائڈ ایسا ہوتا ہے اوراُسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔میں بے خیالی میں گاڑی کے بائیں طرف کادروازہ کھولنے لگا توعزیز نے شیورلیٹ ٹیکسی کی چابیاں آگے کردیں اورکہا"آپ چلائیں" میں شرمندہ ساہوا کہ میں چلانے کی نیت سے تھوڑا اس کی سیٹ پر بیٹھنے جارہاتھا۔میں پاکستانی تھا اوراپنی عادت کے مطابق بائیں ہاتھ کے ٹریفک کے مطابق نشست سنبھال رہاتھا۔نئے شہر سے ہم پرانے شہر کورواں تھے۔ہماری رہائش گاہ لب ہاؤس تھی جسے عام لہجے میں" لب حوض "سنا اورسمجھتا جاتا ہے۔کمرہ نمبر107,106یہاں پرانی رہائش گاہوں کو اب ٹورسٹوں کے لئے جدید ہوٹل میں تبدیل کردیاگیاہے۔ان کاباہرکا حصہ پرانا بنایاگیاہے اورہوٹل کے اندرتمام جدید سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں۔یہ علاقہ قدیم آثار سے بھرا ہواہے اس لئے دنیا بھر کے سیاح اورزائر اسی ایریا میں رہائش رکھتے ہیں۔ ہوٹل لب حوض کے فرش پر لکٹری کے تختے تھے ضرورت کاسامان فراہم تھا لیکن سیاحتی موسم ختم ہونے اورسرما کے آغاز کے باعث اس کی دیکھ بھال میں کمی تھی۔البتہ سب سے بڑی آسانی یہ تھی کہ استقبالیہ کے کارکن صحیح انگریزی بول اورسمجھ لیتے تھے۔ٹوائیلٹ میں لوٹا تھا اور نہ مسلم شاوراس لئے کہ ہوٹل کے یورپی،جاپانی ،روسی اوردیگر مہمانوں کو ان کی ضرورت نہ تھی! جس آبادی میں ہوٹل ہے جیساکہ پہلے بتایا کہ وہ پرانے محلے ہیں،اُن کی گلیاں چھوٹی چھوٹی،ٹیڑھی ٹیڑھی اورفرش کے پتھر اونچے نیچے ہیں۔مجتبیٰ اورمیں گلیوں میں نکل گئے۔ یادداشت کے لئے نشان رکھتے گئے کہ کہیں اس طلسمی دنیا میں نہ کھو جائیں۔ہم جدھر بھی گئے وہی پرانانقشہ،دروازے بھدے اور بھاری،لوہے کے کنڈے اوراونچی دہلیزیں۔ یعنی بظاہر قدیم اور اندر سے سہولیات سے آراستہ،سجے سجائے اور جدید۔ہوٹل لب ہاؤس جس سڑک پرواقع ہے اس کے سامنے ایک پرانا حوض 1620)ع(موجود ہے جس میں چند بطخیں تیرتی رہتی ہیں۔حوض کے دائیں بائیں سڑکوں پر ٹریفک لانے کی ممانعت ہے کیونکہ چاروں طرف آثار ہیں جہاں ٹورسٹ صبح وشام بے خوف وخطر پا پیادہ پھرتے رہتے ہیں۔
ازبک سرکار نے ایک طرف بڑی محنت اوردلچسپی سے جہاں پرانے اوربوسیدہ آثار کوتازہ کیاہے۔قدیم طرز تعمیر،منقش ٹائیٹل ،کاشی کاری اورمحرابوں کوبحال کیاہے وہاں پرعمارت کے اندرمقامی لوگوں کو سوئینر اور تحائف شاپ کھولنے کی اجازت دی ہے۔ اب کوئی عمارت محض زیارت کے لئے نہیں ہے۔ حکومت نے اس کے اندر لوگوں کوایسا روزگار دیا ہے جس کی ہروقت ضرورت ہے اورجوہرٹورسٹ کی مانگ ہے۔اصلی تبدیلی تو یہ ہے۔محض تقریروں یا بیانوں سے ٹورسٹ نہیں آتے،مہمانوں کی دلچسپی اوردیکھ بھال کے لئے بڑی محنت کے ساتھ پلاننگ اور تیاری کرناپڑتی ہے۔بعض اچھے ہوٹلوں نے یہاں اپنی عمارتوں کےFacadeکچھ اس طرح نیلگوں ٹائیلوں اورتحریروں سے تیار کروائے ہیں کہ وہ دیکھنے میں ایک تاریخی عمارت نظر آتے ہیں اصل میں یہ ٹورسٹ محلّہ ہے۔ازبک زبان میں بھی محلّہ کہتے ہیں۔
مجتبیٰ اور میں نے لب حوض کے نزدیک جتنے آثار تھے اُن کودیکھا یہ تمام World Heritage میں شامل ہیں ۔اُن میں درج ذیل عمارات تھیں:
Nadir Divan Begi Madrasah (1630)
    Khanqah Nadir Divan Begi (1620)
    Kukeldash Madrasah (1568-1569)
 پرانے بخارا کے محلہ لب حوض(یہ اپنی آسانی کے لئے کہہ رہاہوں ورنہ اصل نام کاپتہ نہیں کیا ہے؟)میں زیادہ تر مدارس ہیں۔معلوم ہوتاہے کہ جیسے عام طور پر امراء اور روساء کا یہ طریقہ رہا ہے کہ نمائش کے لئے اپنی شاندار حویلی تعمیرکردی یا آخرت کمانے کے لئے بطور یادگار کوئی مسجد بنادی۔ازبکستان میں چونکہ علم اوردین کاچرچارہتاتھا۔چنانچہ محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی جنم بھومی میں جگہ جگہ مدرسے ہی قائم ہوئے سولہویں صدی میں اُن مدرسوں کی تعداد دوسوبتائی جاتی ہے۔یہ مد رسے صرف دینیات یا زبان کے لئے نہیں تھے ۔یہاں تمام عصری علوم اورفنون پڑھائے جاتے تھے۔ یہاں سے فارغ ہونے والا طالب علم دین اوراخلاق کے علاوہ روزمرہ ضرورت کے علوم بھی جانتا تھا۔ مدرسے دراصل بورڈنگ ہاؤس جمع مکتب تھے جہاں اساتذہ اورطلبہ کے حجرے تھے۔صحن میں یابرآمدوں میں طلبہ اپنے اساتذہ سے سبق لیتے اوربحث کرتے ہوں گے۔لنگربھی کہیں پاس ہی ہوگا۔ان انتظامات سے یہ سرزمین مدرسوں کی پرورش گاہ بن گئی دوردراز سے علم کے متلاشی کشاں کشاں کھینچے چلے آتے۔اہل
 علم کا یہ فیض ہے کہ آج ازبکستان کی شرح خواندگی سوفیصدکے لگ بھگ ہے۔ (جاری ہے)