محمد شیخ کی حقیقت

مصنف : قاری محمد حنیف ڈار

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جنوری 2020

    محمدشیخ کون ہے؟ محمد شیخ کوایک روشن خیال اسکالر سمجھ کر مسلمان علما کو اس سے مناظرے کی ترغیب دینے والے اصل میں ان کو ہانکا کر کے ایک ایسے شخص کے سامنے لا بٹھاتے ہیں جو اپنی گمراھی کی K2 پہ کھڑا ہے، وہ سیدھا سیدھا آج کا نبی اور رسول ہونے کا دعویدار ہے۔ وہ یہ لفظ صاف طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ سامنے والا اس کی یہ حیثیت خودہی سمجھ جائے تا کہ اس کو خود سے کوئی خطرہ مول نہ لینا پڑے ۔ پہلے In اور Out کی لکیر مار کر پھر لکیروں کا ایک جال اس کے گرد بُن دیا جاتا ھے اور پزل بنا کر آپ کو کہا جاتا ہے کہ باہر کا رستہ ڈھونڈیں۔ محمد شیخ بالکل وہی پزل ہے، مسلمان اس کو مسلمان سمجھ کر اپنے دلائل تیار کرتے اورپیش کرتے ہیں، اور جب اس کے سامنے پہنچ جاتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک چالاک چیتے کا شکار کرنے کے لئے خرگوش کو شکار کرنے والے ہتھیار لائے ہیں۔ آپ مسلمانوں کے کسی فرقے سے بھی بحث کر لیں قرآن کریم وہ متفق دستاویز ہے جس میں سے دلائل پیش کیے جائیں تو اگلے بندے کے لئے رد کرنا کافی مشکل ہوتا ہے، مگر محمد شیخ وہ بندہ ھے جو موجودہ قرآن کو کتاب اللہ نہیں کہتا بلکہ اپنی انڈراسٹینڈنگ کو قرآن کہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شیخ کا جو یہ کہنا ہے کہ اللہ نے اسے قرآن پڑھایا ہے اس کے پیچھے پورا نظریہ ہے۔ مختصر یہ ہے کہ جسے ہم قرأن کہتے ہیں وہ اسے قرأن نہیں کہتا بلکہ صرف الکتاب کہتا ہے۔ وہ الکتاب کی انڈراسٹینڈنگ کو القرأن کہتا ہے اور یہ انڈراسٹینڈنگ اس کے بقول اللہ نے اس پر ہی نازل کی ہے۔ جب ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے والے رسول جو محمد بن عبداللہ ﷺ ہیں کیا ان پر قرأن نازل نہیں ہوا تو وہ کہتا ہے کہ ان کی پیدائش سے پہلے بھی الکتاب موجود تھی اور ممکن ہے اللہ نے محمد بن عبداللہ پر بھی اس کتاب کی انڈراسٹینڈنگ نازل کی ہو(جو عربی زبان میں ہو) لیکن قرأن نے ان کا نام نہیں بتایا۔ جب ہم پوچھتے ہیں کہ نام تو محمد ﷺ بتایا ہے تو وہ کہتا ہے کہ قرأن نے جو محمد بیان کیا ہے وہ نہ مرے ہیں نہ قتل ہوئے ہیں اس کے لئے وہ سورہ ال عمران آیت 145 کا حوالہ دیتا ہے(وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِیْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَیٰٓ أَعْقَٰبِکُمْ وَمَن یَنقَلِبْ عَلَیٰ عَقِبَیْہِ فَلَن یَضُرَّ اللَّہَ شَیًْاوَسَیَجْزِی اللَّہُ الشَّٰکِرِینَ)۔ اس آیت میں سے بھی وہ پورے جملے میں سے ایک ٹکڑا اٹھا کراس پر اپنا اھرام تعمیر کرتا ہے جبکہ یہ آیت ہی اس کے اس نظریئے کو تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے ۔ غزوہ احد میں نبی کریم ﷺ کی شہادت کی افواہ سن کر جب صحابہؓ نے مختلف رد عمل کا اظہار کیا، کچھ نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہی نہ رہے تو اب جنگ کیسی؟ کچھ نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہی نہ رہے تو جینے کا مقصد کیا رہ جاتا ہے لہذا وہ اندھا دھند استشہادی نیت سے کفار پر ٹوٹ پڑے۔ اللہ پاک نے اس پورے تصور کوہی ایڈریس کیا اور فرمایا کہ وما محمد الا رسول، محمد ﷺ رسول کے سوا کچھ نہیں خدا تو نہیں ہیں کہ جنہیں موت نہ آئے، قد خلت من قبلہ الرسل، ان جیسے کئی رسول پہلے فوت ہوگئے اگر یہ بھی ان کی طرح فوت ہو جائیں یا شھیدہو جائیں تو کیا تم الٹے قدم پھر جاؤ گے؟ دیکھئے جو آیت نبی کریم ﷺ کے وصال کوبطور بشر کنفرم کر رہی ہے، محمد شیخ اسی کو محمدﷺ کے نہ مرنے کی دلیل کے طور پر بیان کر رہا ہے اور اپنی اسی سوچ کو آج کا قرآن کہہ رہا ہے ۔ اللہ پاک نے قرآنِ حکیم دوسری جگہ فرمایا إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُونَ الزمر ۱۳بیشک آپ نے بھی مر جانا ہے اور ان لوگوں نے بھی مر جانا ہے پھر بیشک تم لوگوں کو اپنے رب کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں مقدمے کا سامنا ھو گا ۔محمد شیخ کا موقف انتہائی زگ زیگ ہے، اس کے بقول محمد ﷺ نہ مرے ہیں اور نہ شھیدہوئے تو پھر کیا ہوئے ہیں؟ وہ مختلف شخصیات کی صورت میں ظاہرہو رہے ہیں، اور موجودہ دور کا محمد وہی ہے جو الکتاب کو سمجھتا ہے۔ وہ عربی قرآن کو اب پاکستانی اردودان محمد ‘‘شیخ’’ کی صورت اردو میں پیش کر رہا ہے۔ اور یہ اردو تفہیم و تفسیرہی اب کلام اللہ ہے ۔ یہ موقف صوفیاکے اس موقف کے قریب ہے کہ حقیقتِ محمدی کبھی موت کا شکار نہیں ہوئی بلکہ مختلف شخصیات کی صورت میں ظاہرہوتی رہی ہے ۔ کدی خواجہ پیا بنڑ آناں ایں، کدی گنج شکر بن جاناں ایں، نت نویں توں روپ وٹانا ایں مگر صوفیانے قرآن کونہیں چھیڑا بلکہ اپنے لئے الگ سے طریقت کا نام تخلیق کر کے اپنے تصورات کو شریعت کی تلوار سے بچا لے گئے مگر محمد شیخ سیدھا قرآن پر حملہ آورہوا ہے۔ وہ عربی قرآن میں سے اردو قرآن دریافت کرتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اس نے یہ اردو تفہیم براہ راست خدا سے سیکھی ہے۔ جس طرح ایک واقعہ انجیل میں آیا ہے مگر قرآن نے اس سے مختلف واقعہ بیان کیا ہے تو انجیل والا خود بخود منسوخ ہو گیا اور غلط قرار پایا ہے، اسی طرح اگر ایک بات عربی محمد ﷺ پر عربی میں نازل ہوئی ہے تو آج اردودان محمد ‘‘شیخ’’ پر اردو میں نازل ہو کر تازہ ترین فرسٹ ہینڈ خبر بن گئی ہے، اورقرآن میں اگر اس سے کچھ مختلف ہے تو اس کی حیثیت اب انجیل کی خبر جیسی بن کر رہ گئی ہے۔ حق وہی ہے جو محمد شیخ کے کمرے میں ہے ۔ یہ وہ بات ہے جو وہ بالکل سیدھا سیدھا عوامی زبان میں کہہ دے تو طوفان برپا ہو جائے، مگر وہ گھما پھرا کر یہی بات کہہ رہا ہے۔ الکتاب کیا ہے جس کو محمد شیخ اپنے لیکچر میں متعارف کرا کر اس میں سے اپنا شئیر نکال رہا ہے؟ محمد شیخ کے بقول الکتاب سنگل صیغہ ہے جبکہ اس کے ساتھ استعمال کیئے جانے والے الفاظ جمع کے صیغے میں بیان کیئے گئے ہیں ؂وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیءَ بِالنَّبِیِّینَ وَالشُّہَدَاءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُم بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ (69) السجدہ۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی اور کتاب رکھی جائے گی، اور نبیوں اور شھداء کو لایا جائے گا اور ان کے (اور ان کی امتوں کے) درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ یہاں سے الکتاب کو اٹھایا ہے محمد شیخ نے اور بقول اس کے اگر فیصلہ آسمانی کتابوں کے مطابق ہونا تھا تو پھر کتاب کی بھی جمع لانی چاہئے تھی کہ کتابیں رکھی جائیں گی جس طرح نبیوں اور شھیدوں کو جمع کے صیغے میں استعمال کیا ہے تو کتاب کے لئے صرف الکتاب کیوں؟ حشر کے اس منظر میں جس الکتاب کا ذکر کیا گیا ھے وہ وہی کتاب ہے جس میں قرآن بھی لکھا ہوا ہے اور تورات زبور انجیل اور صحف ابراھیم بھی لکھے ہوئے ہیں اور ہمارے سمیت امتوں کے اعمال بھی لکھے ہوئے ہیں ۔ پہلے قرآن کو لیجئے۔ 
بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیدٌ ۔ فِی لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ .(سورہ البروج) (إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیمٌ * فِی کِتَابٍ مَکْنُونٍ * لا یَمَسُّہُ إلا الْمُطَہَّرُونَ * تَنْزِیلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ) (الواقعۃ: 77) اسی کتاب محفوظ میں سے ہر امت کو اس کا حصہ یعنی نصیب نازل کیا گیا ہے، اس کے لئے اللہ پاک نے الذین اوتوا نصیبا من الکتاب، جن کو دیا گیا کتاب میں سے حصہ، کا جملہ بول کر بتا دیا کہ ایک ہی کتاب میں سے تمام امتوں کو ان کے حصے کی کتاب دی گئی۔ النساء أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِنَ الْکِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ 
 إِلَی الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِّنَ الْکِتَابِ یَشْتَرُونَ الضَّلَالَۃَ وَیُرِیدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِیلَ. اب آیئے کہ اسی کتاب میں کہ جس میں سے کتابیں نقل کر کے نازل کی گئیں۔ اسی کتاب میں ہمارے مقدر بھی اور ہمارے اعمال بھی موجود ہیں اور اس الکتاب کا نام ام الکتاب ہے۔یہ جو ہمارے دائیں بائیں والے فرشتے کتابت کر رھے ہیں وہ تمام صحیفے وہیں جمع ہو رہے ہیں۔ یَمْحُو اللَّہُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِندَہُ أُمُّ الْکِتَابِ ہمارے مقدر اس کتاب میں ہیں جو رب چاہے تو تبدیل کر سکتا ہے۔ کسی حادثے کو مٹا بھی سکتا ہے ہماری دعاؤں کے طفیل یا ہماری کسی نیکی کے طفیل، اور باقی بھی رکھ سکتا ہے۔ اس کے ہاتھ کھُلے ہوئے ہیں اور کتابوں کی ماں اس کے پاس ہے۔ : وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیہِ وَیَقُولُونَ یَا وَیْلَتَنَا مَالِ ہَذَا الْکِتَابِ لا یُغَادِرُ صَغِیرَۃً وَلا کَبِیرَۃً إِلا أَحْصَاہَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلا یَظْلِمُ رَبُّکَ أَحَدًا (الکہف 49) اور رکھی جائے گی الکتاب پس تو دیکھے گا مجرموں کو کہ وہ سہمے ہوئے ہیں اس مواد سے جو اس کتاب میں ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ہائے ہماری بربادی یہ کیسی کتاب ہے کہ جس نے نہ چھوٹا عمل چھوڑا ہے نہ بڑا مگر اس کو گن گن کر نوٹ کر رکھا ہے، اور جو انہوں نے کیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ اس آخری جملے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا یعنی ولا یظلم ربک احدا اور سورہ السجدہ کی الکتاب والی آیت کا جملہ و ھم لا یظلمون کی مماثلت کو دیکھ لیجئے کہ وہ الکتاب اعمال والی ہو گی ۔آپ یہ باتیں نوٹ فرما لیجئے اور پھرمحمد شیخ کا کوئی سا بھی کلپ سن لیجئے آپ کو اس بات کے پیچھے کی گھمن گھیریاں خوب سمجھ آ جائیں گی۔٭٭٭