ستر سال میں صحت عامہ

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : ملکی و قومی مسائل

شمارہ : دسمبر2017

صحت کی تعریف عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس طرح ہے:"ایک مکمل جسمانی،ذہنی،نفسیاتی اورسماجی (Well Being)تسلی بخش حالت جومحض بیماری اورمعذروی(Infirmity)سے نجات تک محدود نہ ہو"۔1948)ع) 
مختلف طبقوں اورعلاقوں کے انسانوں کے لئے معیارصحت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان خواہ جس حیثیت ،نسل،مذہب، رنگ،زبان سے تعلق رکھتاہو،عالمی ادارہ صحت اوردیگرادارے انہی خطوط پر اپنی انتہائی مہنگی خدمات فراہم کرنے کے لئے مختلف ممالک میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ملکی سطح پریہ منظر بدل جاتاہے۔یہاں امیرغریب،دیہاتی شہری ، خواندہ اَن پڑھ،مزدور آجر،افسرماتحت ، مافیا غیرمافیا،اشرافیہ عوامیہ،حاکم محکوم، ممبراسمبلی اورووٹر شہری اورفوجی کے لئے قانون میں فرق ہے اوراس کا اطلاق جداجدا ہے ۔یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کی تعریف،معیار اوراُس کی سہولیات بھی الگ الگ ہوجاتی ہیں۔پاکستان میں صحت پہلے وفاقی موضوع تھا اب 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی ذمہ واری قرار پایاہے لیکن ابھی تک کئی کلیدی اُمور پرخصوصاًجہاں پیسہ کام آتاہے،وفاق کا کنٹرول ہے۔
انگریز کے لئے ہندوستانی عوام کی صحت کی ضرورت اورحفاظت صرف اپنے کام کے ملازم،سپاہی اورفوجی تک محدود تھی ورنہ عوام کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے تھے۔ انگریز کے لئے اپنے گورے سول اورفوجی ملازم ہی اہم تھے چنانچہ چھاؤنیوں میں پہلے اُن کے لئے ہسپتال بنے اورصفائی کانظام بہترکیاگیا۔فوج کی صحت کے بعد انسپکٹرجنرل ڈسپنسریز وجیل خانہ جات کا عہدہ قائم کیاگیا جس نے فوجی پیداکرنے والے علاقوں میں ڈسپنسریوں کاآغاز کیا تاکہ صحت مند نسل کے نوجوان تاج برطانیہ کی حفاظت کے لئے بھرتی ہوسکیں۔وبائی امراض سے بچاؤ کے لئے بڑے شہروں اورقصبوں میں سینی ٹیشن اور چیچک وٹائیفائیڈ کے لئے حفاظتی ٹیکوں کاانتظام کیا گیا۔ دیہات جہاں80 فیصد سے زائد محنت کش آبادی رہتی تھی اُسے آفات اورتعویذ گنڈے،جھاڑپھونک کے رحم وکرم پرچھوڑ دیاگیا۔نظریہ ضرورت کے تحت نظام صحت وصفائی میں کچھ بہتری اس وقت آئی جب انگریز کواپنی" مملکت " پرجرمنی اورجاپان کے حملے کے خطرات منڈلاتے نظرآئے ۔ تب اُس نے شہری دفاع،فائربریگیڈ اور شہری علاقوں میں بھی سول ہسپتال قائم کیے۔ 1947ء میں موجودہ پاکستان میں جہاں آبادی چندکروڑنفوس تھی،چاروں صوبوں اورمشرقی پاکستان میں انتظامی اضلاع اورڈویثر نوں کی تعدادبہت تھوڑی تھی۔ہرضلعی صدر مقام پر ایک سول ہسپتال اورضلع کے چند شہروں اور دوسرے حصوں میں گنی چنی ڈسپنسریاں موجود تھیں۔ان ڈسپنسریوں میں کئی مقامات پر LSMF ڈاکٹر یا نیم تربیت یافتہ ڈسپنسر تعینات کئے گئے تھے جہاں زیادہ ترمقامی طورپر تیارکردہ گولیاں ،مکسچراور سفوف (پاؤڈر) استعمال ہوتے تھے۔فیکٹری کی تیارشدہ گولیاں نہیں ہوتی تھیں۔ملک بھرکے دیہات کسی ایمرجنسی اورمیڈیکل کور سے محروم تھے ۔ماؤں،بچوں اورضعیفوں کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔عوام حفاظتی اور تائیدی صحت سے محروم تھے۔سادہ زندگی میں امراض بھی سادہ تھیں۔سیاسی ادوار میں عام ہسپتالوں اورڈسپنسریوں میں معتدبہ اضافہ نہ ہوا۔البتہ پنجاب میں نشترمیڈیکل کالج اورفاطمہ میڈیکل کالج کے علاوہ چند ضلعی ہسپتال تعمیر ہوئے۔انتظامی سہولت کے لئے ضلعی صدرمقام پرسول سرجن کی پوسٹ کومیڈیکل سپرنٹنڈنٹ(MS) اورڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر(DHO) میں بانٹ دیاگیا۔ایک شہر کے علاج کے لئے،دوسرا باقی ضلع میں صحت وصفائی اوروہاں قائم شدہ چند ڈسپنسریوں کی نگرانی کے لئے۔
ایوبی عہد میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کاآغاز ہوا۔بیرونی امداد کے ساتھ عالمی ادارہ صحت بھی فعال ہوتاچلاگیا۔انہوں نے حصول صحت اورتدارک امراض کی سہولیات صحت کے لئے بنیادی صحت (PHC) کے حوالے سے 8نکات پرترقی پذیرملکوں کی توجہ مرکوزکرائی۔بنیادی صحت کے یہ عناصر (ELEMENTS) ملک کی دیہی اورشہری تمام آبادی کے لئے یکساں ضروری قرارپائے:۱۔بنیادی علاج ۲۔بنیادی ادویات کی فراہمی۳۔ زچہ بچہ ۴۔حفاظتی ٹیکے۵۔ متعدی امراض خصوصاً ملیریاسے بچاؤ۶۔ صاف پانی اورسینی ٹیشن ۷۔متوان غذا۸۔تعلیم صحت
ؔ اس تناظر میں ہریونین کونسل میں ایک بنیادی مرکزصحت اورمرکزلیول پر دیہی مرکز صحت تعمیرہوئے۔ان مراکز کا مقصد یہ تھاکہ خصوصاً دیہی آبادی کو بنیادی صحت کے8 عناصر اُن کے گھرکے نزدیک میسرہوں۔گوعملہ وافرتھامگر یہ مراکز بہت کم اپناہدف یامقبولیت حاصل کرسکے۔دیہی مراکز پر ایکسرے،ڈینٹل چیئر،لیبارٹری ، آپریشن روم، لیبرروم،کمپوٹر،ایمبولینس موجود ہیں مگر کرپشن بدنظمی ، بدعنوانی اور قانون سے بے خوفی کی بنا پران کی کارکردگی مشتبہ ہے۔اتنے بڑے منصوبے کی بے اثری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صحت اوردیگر تعمیری کاموں میں پلاننگ، بجٹ، فنڈنگ،تعمیر،کارکردگی غرض تمام کنٹرول CSP کلاس کے افسروں کارہا۔اُن پالیسی سازوں کافوکس بدستور بڑے شہر، بڑے ہسپتال ،ذاتی مفاد اور حکمرانوں کی خوشنودی رہا۔اُن مراکز صحت کی تعمیر میں اصل ہدف توPHCکے8نکات کوکامیاب بناناتھا لیکن یہ مراکز،پہلے سے موجود ڈسپنسریوں،ایم سی ایچ سنٹرز اورسول ہسپتال کی طرح بیوروکریسی کی نااہلی اور لاپروائی کاشکارہوتے رہے۔اس بے خبری میں ڈاکٹروں نے بھی اپنی پیشہ وارنہ کوتاہی سے فائدہ اُٹھایا۔
آج ملک کے ایک سو چھتیس اضلاع میں پانچ ہزاربنیادی مراکز،600دیہی مراکزاور1000کے لگ بھگ ضلعی اورتحصیلی ہسپتال ہیں۔ان میں تدریسی ،سپیشل اورڈویژنل ہسپتال بھی شامل ہیں۔ 60% بنیادی اور25% دیہی مراکزصحت شروع دن سے ایسی جگہوں پرتعمیرکئے گئے ہیں جہاں ہمسایہ میں قبرستان ہے اورآبادی سے میلوں دور،ویرانے میں ہیں۔ناقص تعمیر کردہ عمارتیں اکثرکھنڈربن چکی ہیں۔ سامان ناقص اورٹرانسفارمر غائب۔ بعض جگہوں پر مقامی وڈیروں،ایم پی اے اورایم این اے کے ساتھیوں کاقبضہ ہے۔ عملہ علاقے کی گروہی سیاست کاشکارہے جہاں مراکز کام کررہے ہیں وہاں کااکثر عملہ اکثرکام چوراورنااہل ہے۔ برابر تربیت (CE)ناپیدہے۔دوائیں ناکافی ہیں اورکام کی دوائیں بچتی نہیں۔خریداری میں کمیشن کا بھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔عملے کی نگرانی اورکنٹرول کے لئے سابقہ فوجی اورنوکرشاہی کااستعمال غیرموثررہاہے بلکہ اس سے کارکردگی مصنوعی اورسطحی ہوکررہ گئی ہے۔
صحت عامہ سے متعلق مختلف طبی کام کے دائرے کچھ اس طرح ہیں:
۱۔علاج معالجہ
ب۔حفظ وتدارک 
ج۔تائیدوترقی صحت
د۔طبی تعلیم وتربیت
س۔مطبی تحقیق وترقی
َٓاِن دائروں میں کام کرنے والے ادارے درج ذیل ہیں:
۱۔صوبائی اوروفاقی حکومتیں(سرکاری)
۲۔فوجی ونیم عسکری اورنیم سرکاری ادارے
۳۔نجی(پرائیویٹ)سیکٹر
مریضوں کے علاج کے لئے استعمال ہونے والے طریقے یہ ہیں:
o ایلوپیتھی- سرکاری،فوجی اورنجی
o ہومیوپیتھی- سرکاری اورنجی 
o حکمت(طب)سرکاری اورنجی
o دیسی وعطائی(مقامی ٹوٹکے و نیم ایلوپیتھی دیہی اورنجی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 90 فیصد سے زائد عوام ایلوپیتھی طریقہ علاج سے استفادہ کرتے ہیں۔صحت کے اداروں نے معیارصحت جانچنے کے جومعیارات طے کئے ہیں وہ یہ ہیں۔
۱۔نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی ۲۔پینے کے صاف پانی کی فراہمی 
۴۔حاملہ ماؤں کی شرح اموات میں کمی ۵۔بیت الخلاء اورنکاسی آب کی سہولت
۶۔HIV/AIDS سے شرح اموات میں کمی۔۷۔کم عمر بچوں کے لئے غذائی توازن اورمناسب وزن۸۔حیات کے متوقع دورانیہ میں اضافہ۹۔ سال تک کے بچوں میں بیماریوں کے خلاف مدافعت اوربچاؤ ۱۰۔متعدی امراض میں شرح اموات میں کمی ۱۱۔ماحولیاتی صحت اورصفائی
لیکن صدی کے بین الاقوامی مطلوبات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے معروضی حالات میں درج ذیل اُمورِ صحت بہت اہمیت کے حامل ہیں جن کو ہرحال میں ملحوظ رکھنا ہی حصول صحت میں مددگاراورمعاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اُن کو نظرانداز کرکے حصول صحت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا:-
۱۔کثرتِ آبادی جواب نئی مردم شماری میں 21کروڑ کوچھورہی ہیں۔اس بڑی تعداد میں غذائی قلت کاشکار پانچ سال سے کم عمر کے بچے،کمزوراورخون کی کمی کی شکار خواتین اور عوارض میں مبتلابزرگ شامل ہیں یہ طبقہ خودکمانے والے لوگوں میں شمار نہیں ہوتا۔60فیصد دیہی آبادی بدستور غذائی کمی،متعدی امراض کانشانہ ہے۔ صحت کی سہولیات میں دیہات پر خصوصی توجہ درکارہے۔
۲۔پینے کاصاف پانی اورگندے پانی کانکاس(سینی ٹیشن)۔بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی نوآبادیاں،چھوٹے شہر اور دیہات آج بھی صدیوں پرانامنظر پیش کرتے ہیں۔
۳۔بنیادی صحت(PHC) کے حصول کے لئے موثرنظام اوراس کاثانوی نظم صحت کے ساتھ مربوط تعلق ۔
۴۔حاملہ ماؤں اورنوزائیدہ بچوں کی صحت وسلامتی کے لئے محفوظ وضع حمل اورنرسری ,بالخصوص دیہی آبادی کے لئے۔
۵۔متعدی امراض سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں کا وسیع نظام۔
۶۔سکول ہیلتھ سروس بوقت داخلہ اوردوران تعلیم بچوں کی صحت کی نگہ داشت سرکاری،پرائیویٹ اوردینی مدارس تینوں میں داخل بچوں کی صحت کی حفاظت۔
۷۔دیہاتوں میں رائج عطائیت کے لئے متبادل نظام تاکہ لوگوں کوسستا،فوری علاج ملتارہے۔ 
۸۔جنیرک(GENERIC) بنیاد پرسستی اورمعیاری دواؤں کی فراہمی خصوصاً قصبوں اوربڑے شہروں میں۔
۹۔الیکٹرانک میڈیا اور جدید موبائل سروس کے ذریعے پرسنل ہائی جین اورتعلیم صحت۔
۱۰۔میڈیکل اور سرجیکل اور سڑکاتی حادثات کی صورت میں مستعدایمبولینس سروس جودیہات کومرکزصحت کے ساتھ مربوط کرے۔
پنج سالہ منصوبوں اوردیگرسالانہ ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے علاج معالجہ کی سہولتیں خصوصاً میگا ہسپتالوں(Tertiary Care) کی تعمیراورقیمتی برآمدی مشینوں کی خریداری پر کثیررقوم صرف ہوئی ہیں۔یونی سیف اور WHO کی مدد سے تائیدی اورحفاظتی پروگراموں میں توسیع ہوئی ہے جیسے نیشنل لیڈی ہیلتھ پروگرام مگربعد میں اسے مزید فرائض سے لاددیاگیااوراس پروگرام کااصل مقصد فوت ہوکررہ گیا۔اس پروگرام کے تنقیدی جائزے اور اس میں اہم ترامیم کی ضرورت ہے۔یرقان اورAIDS کاتدارک وعلاج- بنیادی صحت کے مراکزمیں سوفیصد کے لگ بھگ عملے کااضافہ ہواہے جو وقت کی سیاسی حکومت کے مقامی ایم پی اے اورایم این اے کے مرہونِ احسان ہیں۔خدمات اور کام کے لحاظ سے مراکزصحت کی مجموعی کارکردگی متاثرکن نہیں ہوسکی۔ کوئی شک نہیں کہ آبادی کئی گنابڑھ گئی ہے اورمسائل اس سے بھی زیادہ لیکن آبادی کی ضرورت کے مطابق اضافے کی بجائے سہولیات صحت میں کمی آئی ہے۔دونوں کمیت یعنی تعداد ومقدار اورکیفیت یعنی معیار اور اثر میں۔شعبہ صحت عامہ میں بنظرظاہر شاندار عمارتوں، قیمتی مشینوں اورعملے کی تنخواہوں میں وافر اضافے کے باوجود کیاوجہ ہے کہ عام آدمی اپنی صحت وسلامتی کے بارے میں مطمئن نہیں ہے؟ ملکی اہداف صحت اورعالمی اہداف صحت دونوں پورے نہیں ہورہے پولیو کے خاتمے کے لئے ان گنت مرتبہ قطرے پلائے جاچکے ہیں لیکن پولیو ہے کہ ختم ہونے کانام نہیں لیتا۔ایک ایک بسترپر3,3مریض،ایمرجنسی سروسز ناکافی ،حادثات میں بڑھتی ہوئی اموات،جگہ جگہ فارماانڈسٹری لگانے اورقیمتیں بڑھانے سے دواؤں کابحران، ڈاکٹروں،معاون عملے اور ہسپتالوں کے خلاف بڑھتی ہوئی شکایات ،بڑے ہسپتالوں میں مہنگی مگر خراب مشینری کے گورستان غرض جوں جوں سسٹم کے اندرگھستے جائیں تومعلوم ہوتاہے کہ سرکارصرف دکھاونے کاکام کرتی ہے صحت کے سسٹم کی اصلاح کی قائل نہیں ہے۔ سسٹم پوری طرح ناکارہ اورکمپوٹراصطلاح میں کرپٹ ہوچکاہے ۔اب وہ حکمرانوں کے مفادات اوراُن کے سیاسی بیانات کی نگرانی کررہاہے لیکن اس میں اصلاح کرنے پرکوئی مائل نہیں نظرآتا۔
موجودہ صحت نظام کی چیدہ چیدہ خرابیوں کی چند بڑی بڑی وجوہات اوراصلاح احوال کے لئے متعدد تدابیرکاتذکرہ درج ذیل ہے:
۱۔عملے کی بھرتی سے اس کے تبادلے تک، اس کی کارکردگی سے کام چوری تک، عمارتی تعمیر سے سامان اوردواؤں کی خریداری تک ۔کرپشن ،قانون شکنی،بدعنوانی، بدنیتی ،رعونت، سفارش،رشوت اورمفاد پرستی ، مافیا نوازی ،جھوٹ ، شوبازی،جعلی اعداد وشمار ،سائل سے حقارت،فرائض سے پہلو تہی،سیاسی مفادات کی نگہ داشت غرض اخلاقی اورانتظامی مفاسد کی بھرمار ہے ۔ 
۲۔سیاسی مصلحت کے تحت نئے میڈیکل کالجز اورملحقہ تدریسی ہسپتالوں میں معیار اورسٹاف کی کمی،یوں زیرتعلیم ڈاکٹروں کی ناقص تربیت۔
۳۔نجی شعبے کے میڈیکل کالجز میں بڑے بڑے نمائشی ناموں کے باوجود معیار اورتربیت کا شدیدفقدان اور صحت عامہ کولاحق خطرات۔
۴۔بنیادی صحت،جنرل پریکٹس اورنجی شعبے کے لئے میڈیکل آفیسروں کی کمی۔ہر نیا ڈاکٹر ماہرڈاکٹر بننے کے لئے FCPS کرنے کاخواہشمند ہے۔
۵۔صحت سے متعلق تمام پلاننگ ،بجٹ اور عملدآمد کے سارے کام وفاق میں بھی اور صوبوں میں بھی نوکرشاہی کرتی ہے۔ان کاموں میں ڈاکٹروں کا کہیں کوئی رول نہیں ہوتا ۔کسی جگہ پروہ کسی شماروقطارمیں نہیں آتے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹراپنے محکمے کو OWNنہیں کرتے،حاکموں کی طرح وہ بھی اپنے محکمے میں مہمان بنے رہتے ہیں۔ ۶۔سول سیکرٹریٹ میں محکمہ صحت چلانے کیلئے سیکریٹریٹ کا95 فیصد عملہ اورچیف منسٹرسیکرٹریٹ میں صحت سے متعلق سو فیصد عملہ نان ڈاکٹروں پرمشتمل ہے۔سیکرٹری وسپیشل سیکرٹری صحت گریڈ19 20,کااورتین ایڈیشنل سیکرٹری صحت گریڈ18کے سی ایس پی ہوتے ہیں۔14/12 ڈپٹی سیکٹریوں میں ڈاکٹر صرف2ہوتے ہیں۔یہ نان ڈاکٹرعملہ دو ڈہائی سال کی سیراورسہولتوں کے بعد واپس محکمہ جنگلات یافشریز یاوائلڈلائف یا آبپاشی میں تعینات ہوجاتے ہیں۔ میڈیکل کے معاملات بالخصوص Promotive, Preventive,Curative یاEletromedical Equipment, Medical Education کے بارے میں کچھ نہیں جانتے مگر وہ امرت دھارا بن کرچند مہینے کے لئے صحی اُمور کے پردھان بن جاتے ہیں۔یہ حکمران کلاس اپنے ذمہ نظم ونسق اورعوام کے ریونیوکے معاملات درست نہیں کرسکتے صحت اوردیگر تمام تکنیکی محکموں کے ماہرسمجھے جاتے ہیں اُن کے غلط فیصلوں سے صحت عامہ بہترنہیں ہورہی نظام چلانے کے لئے وہی کارندے درکار ہیں جن کاتعلق سسٹم سے ہوااور وہ اسے OWNکریں۔
۷۔صحت کا بجٹ آبادی اور Diseases Burden ofکے لحاظ سے کم ہے اوراس میں مریضوں کے لئے استعمال ہونے والاحصہ کم ترہوتاہے ۸۔بڑے بڑے ہسپتالوں کاانتظام عملاً ناممکن ہے۔چھوٹے یونٹ یعنی بستروں کی تعداد کم ہوتو پھر وہ Manageable ہوتے ہیں۔
۹۔CSP اپنی سروس کے دوران غیر ملکی تربیت کے لئے سات آٹھ مرتبہ باہرجاتا ہے۔مریضوں اورہسپتالوں کے لئے کبھی کوئی ڈاکٹرتربیت یامشاہدے کے لیے بیرون ملک سرکاری خرچ پرباہرنہیں گیا دلچسپ بات کہ صحت کے تکنیکی کورسز اوردورے حکمران کلاس خودہی استعمال کر لیتی ہے۔
۱۰۔صوبے میں ایک ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس سے زیادہ بے وقعت،بے اختیار اوربے اثر ادارہ شایدہی کوئی ہوعملاً مفلوج اور سارے اختیار سول سیکریٹریٹ کے سیکرٹری ڈپٹی سیکرٹری اور سیکشن آفیسراستعمال کرتے ہیں گریڈ18 تک تقرری اورتبادلے کے ساتھ ساتھ نگرانی اورکارکردگی کی مانیٹرنگ
کاکام اسے کرناچاہیے۔صحت عامہ کے فیصلوں میں اُسے موثر رول ملناچاہیے۔
۱۱۔لاہورشہر میں تمام تقرریاں اورتبادلے حمزہ شہباز کے ذریعے ممکن ہیں،کارکردگی اوراہلیت کاکوئی دخل نہیں۔یہی حال مضافات کا ہے ،سفارشی کہاں صحیح کام کرتے ہیں؟
۱۲۔عملی طورپر صحت کے پبلک اور پرائیویٹ اداروں کی کارکردگی اورمعیار کارکے لئے مانیٹرنگ اور ایولیوایشن سسٹم ناپید ہے۔
۱۳۔پنجاب ہیلتھ کیئرکمیشن کے لئے نئے اہداف اور مقاصد کے ساتھ اس کے کام کے بے لاگ جائزہ کی ضرورت ہے۔ ابھی تک وہ غیرملکی درآمدی مواد کاچربہ استعمال کررہاہے۔بہتری کیسے آئے گی؟ پرائیویٹ پریکٹس ایک بے لگام گھوڑابن چکاہے جومریضوں کو روندرہاہے۔
۱۴۔ انتظامی اوردیگراُمور میں اختیارات کا ارتکاز(Centerlization) تبادلوں،منصوبوں اورپروگراموں کی حالت یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسزبے اختیارہے۔ چیف منسٹر ہاؤس میں پنجاب کے 32 محکموں سے روزانہ سینکڑوں سمریاں جاتی ہیں،وزیراعلیٰ ان کو سرسری طورپر دیکھ بھی نہیں سکتا۔سارے فیصلے نوعمر ڈپٹی سیکرٹری اور بزرجمہر قسم کے بیوروکریٹ کرتے ہیں،یہی کام نیچے کے تکنیکی لوگ یعنی محکمہ صحت میں ڈاکٹر خود کیوں نہیں کرسکتے؟
۱۵۔واقعہ یہ ہے کہ صوبے کے تمام محکموں اورخاص طور پرصحت کوچلانے کے لئے حکومت پنجاب کے موجودہ ایکٹRule of Business1973 میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔اس فرسودہ ایکٹ کے تحت صوبے اوراس کے محکمے کام کرتے ہیں۔اس کی وجہ سے شعبہ صحت بھی جکڑ بندی کاشکارہے۔
۱۶۔صحت کی ہر سکیم جوگورے باہر سے کسی ایجنسی کے ذریعے بھیج دیں،صحت میں CSPنوکرشاہی آنکھیں بند کرکے صادکردیتی ہے۔حالانکہ ایسی صحت سکیموں کوملکی ماہرین اپنے وطن کے احوال کی روشنی میں جائزہ لیں اوراپنی ضرورتوں کے موافق ترامیم کے بعد قبول کریں۔
۱۷۔ملک میں بڑھتے ہوئے امراض کے مطابق ماہرین ڈاکٹر تیارکیے اورلگائے جائیں بجائے روٹین ماہرین کے، جیسے امراض دل ،گردہ،کینسر،ذیابیطس،نفسیات ،جلد،چشم،بچگان،مستورات، معدہ وجگر وغیرہ۔دیہی ضرورتوں کے لئے بجائے فیلو شپ کے کم خرچ ڈپلومہ کورسزجاری کئے جائیں۔ 
۱۸۔صحت میں بڑھتی ہوئی کرپشن اورنااہلی اورنجی شعبے کی بے لگامی اورڈاکٹروں کی حرص وبددیانت کے پیش نظر صحت محتسب ضروری ہے۔(OMBUDSMAN) جس پرکوئی دیانتدارپروفیشنل ڈاکٹر یا اُستاد کام کرے۔ملک کے دیگر خودمختار اداروں کی طرح صرفCSP لگانے پراکتفانہ کیاجائے۔
۱۹۔بڑے شہروں کے میگاہسپتالوں پر آؤٹ ڈور کارش کم کرنے کے لئے شہروں میں فلٹرکلینک یاڈسپنسریاں بنائی جائیں۔
۲۰۔بہترکارکردگی کے لئے دیہی صحت کے مراکز کو چلانے کااختیارمقامی لوگوں کے حوالے کیاجائے اورہیلتھ انشورنس کادائرہ وسیع کیاجائے۔
۲۱۔حاملہ ماؤں کولیڈی ڈاکٹروں کی لالچ سے بچانے کے لئے سی سیکشن (بڑے آپریشن )پرتحدیداورفطری وضع کی حوصلہ افزائی کی جائے
۲۲۔محکمہ بہبود آبادی اصل میں صحت کاحصہ ہے۔بیوروکریسی نے اپنے مفادکی خاطر اسے الگ کرکے عملاً غیرفعال اور غیرموثر کردیاہے۔
۲۳۔ضرورت ہے کہ موجودہ حالتِ صحت کی روشنی میں صحت کے لئے اہداف اور صحت کا قومی بیانیہ تیار کیاجائے۔
۲۴۔میڈیکل ایجوکیشن کے موجودہ نصاب کوملکی ضروریات اورقومی اُمنگوں کے مطابق ڈھالا جائے۔نصاب کویورپ کی یونیورسٹی یاامریکی کالجوں ہسپتالوں میں داخلے کے لئے نرسری نہ بنایاجائے۔حرص ،بدیانیتی،کام چوری اور دوسرے اخلاقی عوارض کے لئے نصاب میں اسلامی اوراخلاقی پہلوؤں پر عملی توجہ از حد ضروری ہے۔
۲۵۔شعبہ طب نامکمل ہے اگر اس کامعاون عملہ یعنی نرسیں،پیرامیڈیک اورٹیکنیشن صحیح طورپرتربیت یافتہ اور اخلاق یافتہ نہ ہوں۔
غرض شعبہ صحت میں پچھلے ستر سالوں میں اگر ایک قدم آگے بڑھا ہے تو تین قدم ہم پیچھے ہٹے ہیں۔عملے ،عمارتوں اور مشینوں کے باوجود اخلاص،اخلاق ،خدا ترسی اورتکنیکی مہارت غائب ہوگئی ہے ۔ طب ایک کمرشل کاروبار کی شکل اختیار کرچکاہے۔معالجوں کامشینوں پر اعتبار بڑھ گیا ہے۔ہرمریض سونے کاانڈا دینے والی مرغی بن کررہ گیا ہے کیونکہ جوکچھ اُوپرہورہاہے اُسی کا عکس نیچے پڑتاہے ڈاکٹروں میں انسان نوازی اورمریض دوستی بلکہ قوم پرستی جنس نایاب ہوکررہ گئی ہے۔صحیح تشخیص،مناسب علاج،سستی دوائیں ،ہمدردانہ رویہ اورمناسب خرچ(Afforable) وقت کی ضرورت ہے۔
ترقی کے عمل میں تحقیق و جستجوResearch & Development ایک ناگریزضرورت ہے۔پاکستان میں عام جامعات ہوں یامیڈیکل کے ادارے ،تحقیق نام کی کوئی چیزنہیں ہے۔کاغذوں میں لکھاہے کہAssociate, Assistant اورProfessor بننے کے لئے ایک مقررہ تعداد میں جینوئن اوراوریجنل ریسرچ پیپردرکارہیں۔یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ دیگراداروں اورجامعات کی طرح محکمہ صحت کے ٹیچنگ کیڈر میں حاضراساتذہ کے ریسرچ پیپر ساختہ،جعلی اورکسی دوسرے طالب علم کی عارضی محنت کاحاصل ہوتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ کوئی میڈیکل کالج ،میڈیکل یونیورسٹی یاکالج آف فزیشنز وسرجنز طب میں،پبلک ہیلتھ میں ،فارما میں کوئی ریسرچ نہیں کروارہا۔یہ سب فرضی کام کرتے ہیں کیونکہ HEC کی طرح PMDC کو ان چھوٹے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔جب اُستاد ہی جعلی ریسرچ پرتعینات ہوگاتوMS M.Phil,اورFCPS کی ریسرچ میں شاگردوں کی کیارہنمائی کرے گا؟ 
اگر ہمیں مکتب وملاّ،کارطفلاں تمام شد!
تحقیق کے لئے بجٹ ، ریسرچ سکالرز ،لائبریری اوردیگرسہولیات کافقدان ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کاشعبہ بیوروکریسی کے پاس ہے جوR & D کوکارفضول سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمارے طبی محقق ملک کی بیماریوں اورقوم کے مسائل صحت کے حوالے سے تحقیق کریں جوہمارے لئے مفیداورنظام صحت کو بہتربنانے میں مدد دے۔وہ نتائج جن سے ملک اورقوم کوواضح فائدہ ملے۔