بلوچستان کا نوحہ

مصنف : سید مہدی بخاری

سلسلہ : ملکی و قومی مسائل

شمارہ : مئی 2022

بلوچستان کے ضلع نوشکی جہاں عظیم صحرا ہے جس کی حدیں افغانستان تک پھیلی ہیں ‘میں شام کو گھومتا رہا. نوشکی شہر چھوڑ کر آگے نکلیں تو انم بوستان تحصیل ہے جس کی جانب جاتی سڑک کے دونوں اطراف ریت کے پہاڑ کھڑے ہیں. ان عظیم ریتلے ٹیلوں کے بیچ تارکول بچھی سڑک شام کی روشنی میں کیا خوبصورت دکھتی ہے. مجھے بوستان کے گاؤں جانا تھا جہاں اقوام متحدہ نے چھوٹے چھوٹے گاؤں کے لئے صاف پانی کا بندوبست کیا ہے. RO پلانٹس لگائے گئے ہیں. ان گاؤں کے ساتھ ساتھ اور سڑک کی دائیں جانب پاکستان افغانستان باؤنڈری لائن چلتی ہے. پہلے بارڈر کھلا ہوتا تھا اب پاکستان خار دار تار لگا کر بارڈر کو محفوظ بنا رہا ہے. افغانستان میرے بالکل ساتھ ساتھ چل رہا تھا. صحرائے نوشکی آدھا تاروں کے اُس پار تھا.
جب ایک ایسے گاؤں پہنچا جو آدھا افغانستان میں آ گیا اور آدھا پاکستان میں اور بیچ میں خاردار تاروں نے جدائی ڈال رکھی تھی. گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ پہلے تار نہیں لگی تھی تو ہمارے جانور اس جانب افغانستان میں جایا کرتے تھے کیونکہ چراگاہ وہیں تھیں. پاکستان کی جانب صرف ریت ہے. اب سرحد پر تار لگنے سے چراگاہ تک رسائی ممکن نہیں رہی تو جانور مر گئے. جو بچ گئے لوگ اپنے اونٹ اونے پونے داموں بیچ گئے. پانی کے لئے بارہ کلومیٹر پیدل صفر کرنا پڑتا جہاں تالاب تھا جس میں پانی ذخیرہ ہوتا. اس تالاب سے جانور اور انسان ایک ساتھ پانی پیتے تھے. اب اقوامِ متحدہ نے صاف پانی کے پلانٹ لگا دئے ہیں تو علاقے میں بیماریوں پر قابو پا لیا گیا ہے. گاؤں کی آبادی سرحد پر تار لگانے کا کام کرتی ہے اور فوج سے روزانہ کی بنیاد پر معاوضہ لیتی ہے.
اسکول بھی اقوامِ متحدہ نے تعمیر کر دیا ہے. بچے بچیاں سب سکول جاتے ہیں. مقامی لوگوں کو بس ہسپتال کی ضرورت ہے جو پورے علاقے میں نہیں. جب کوئی بیمار پڑ جائے تو اسے 60 کلومیٹر دور نوشکی شہر لے جانا پڑتا ہے. بلوچستان کے اس صحرائی علاقے میں 60 کلومیٹر کا سفر انتہائی تکلیف دہ اور لمبا ہے.
یہاں بسے انسانوں کے لئے زندگی صحرا سے زیادہ کٹھن و خشک ہے. یہ لوگ ایک وقت کی روٹی کھانا افورڈ کر سکتے ہیں وہ بھی سوکھی روٹی. سبزیاں، دالیں، گھی، نمک، مرچ مسالے کا ان کو نہیں معلوم. نوشکی شہر کے بعد ایک دکان نہیں. ضرورت کا تھوڑا بہت جو سامان چاہیے ہو وہ نوشکی شہر سے ہی دستیاب ہوتا ہے. دکان والا کوئی کانسپٹ ہی نہیں ان گاؤں میں لہذا پیسوں کا مصرف بھی کوئی نہیں. سارا دن مقامی بلوچ بزرگ  مجھے اپنے علاقے کے کربناک مسائل سناتے رہے. سورج آخری کرنیں بکھیر رہا تھا جب میں نے وہاں سے رخصت ہونا چاہا. چلنے لگا تو گاؤں بچوں کی ایک بڑی ٹولی میرے دامن سے آ لگی. بچے یک زباں ہو کر بولے " صاحب! ہماری بھی ڈیمانڈ سن لو ہم کو بھی کچھ چاہیے. بڑوں نے اپنی اپنی ضروریات تو بتا دیں ہمیں پوچھا ہی نہیں". میں نے مسکراتے ہوئے کہا بولو کیا چاہیے آپ کو... بچے بولے "ہمیں کھیلنے کو ایک فٹ بال لا دیں بس"
یہ بات سننا تھی کہ میری آنکھوں میں نمی اُتر آئی جسے دوسرے ہی لمحے صحرا کی خشک گرم ہوا لے اڑی۔
اگلی صبح میرا ارادہ قلعہ عبداللہ جانے کا تھا جو کوئٹہ شہر سے ستر کلومیٹر دور آباد ہے۔ اک گاؤں گاڑی رکی جہاں یو این ڈی پی نے گرلز ہائی اسکول کی عمارت کو ازسر نو تعمیر کیا ہے اور پینے کے صاف پانی کی سہولت فراہم کی ہے۔ سکول کا جائزہ لے کر نکلا تو سفر کرتے میری نظریں اک گاؤں کے واحد کنویں پر پڑیں تو وہاں خواتین کا جم غفیر  نظر آیا. 60 فٹ گہرے کنویں‌ سے پانی نکالتی ہوئی یہ خواتین اکیسویں‌ صدی کی انسان لگتی ہی نہیں تھیں. پر وہ اکیسویں‌ صدی میں‌ ہی جی رہی تھیں. پانی کا انتظام و انصرام خواتین کے حصے میں‌ آیا تھا. مرد حضرات کو استثنا حاصل تھا.
بلوچی دیہاتی خواتین کیا کچھ نہیں‌ کرتیں. چودہ سال کی عمر میں‌ شادی کر کے جب یہ پیا گھر سدھار جاتی ہیں‌ تو گھر کا سارا کام انہی کے ذمے آ جاتا ہے. صبح ‌ہوتے ہی یہ کام پہ لگ جاتی ہیں. یہ کام رات گئے تک جاری رہتا ہے. کپڑے کشیدہ کاری کرتی ہیں. کپڑے دھوتی ہیں. کھانا بناتی ہیں. تیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بڑھاپا ان کے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے.
اکیسویں‌ صدی نے کروٹ بدلی پر بلوچ عورتوں کی قسمت نہ بدلی. وہی ڈھول، وہی کنواں اور کنویں‌ سے پانی نکالنے کی مہم جوئی. بسا اوقات کنواں خشک ہو جاتا ہے تو پانی کے حصول کے لیے ان خواتین کو دس بارہ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے. سروں‌ پر بڑی بڑی منجلیں‌ رکھ کر گھروں‌ تک پہنچایا کرتی ہیں. وہیں مجھے اک مقامی بلوچ نوجوان مل گیا۔نعمت داد بولا "اسی قافلے میں‌ شامل ایک میری ماں بھی ہوا کرتی تھی۔ ماں کو تھکا ہارا پاتا تو نظریں شرم کے مارے جھک جاتی تھیں. شرم کے مارے ماں سے اس کی تھکاوٹ کا حال بھی نہ پوچھ پاتا۔ پھر نہ جانے دو گھونٹ پانی کس شرم سے حلق کے اندر چلا جاتا!"
کہا جاتا تھا کہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کے ذمے ہوتی ہے پر پانی جیسی بنیادی سہولت کی فراہمی کے لیے مجھے ریاست کہیں‌ بھی نظر نہ آئی.
میری ماں محنت مزدوری کرتی تھی. کپڑے سیتی تھی. اس سے حاصل ہونے والی رقم میری تعلیم پر لگاتی تھی. مجھے تعلیم دلوائی پر وہ خود تعلیم حاصل نہ کر سکی۔ میں ماں سے اکثر پوچھا کرتا تھا "ماں تو پڑھی کیوں نہیں ؟۔ ماں خاموش ہو جاتی۔ میں پھر پوچھ لیتا ماں کچھ نہ کہتی۔ میرے بار بار سوال کرنے پر تنگ آ جاتی .کہتی "اسکول تھا کہاں، جو پڑھ لیتی ؟"۔ گاؤں میں تعلیمی نظام تھا ہی نہیں۔ حصول تعلیم کے لیے ماں کو اکلوتے بیٹے کی جدائی سہنا پڑی اور بیٹے کو تعلیم دلوانے پچاس کلومیٹر دور رشتہ داروں کے ہاں وہاں بھیج دیا جہاں خیریت دریافت کرنے کا واحد وسیلہ خط و کتابت ہوا کرتی تھی۔ نہ ہی ماں تعلیم حاصل کر سکی اور نہ ہی گاؤں‌ کی دیگر خواتین، تعلیم دلوانا ریاست کی ذمہ داری تھی. حصولِ تعلیم کے لیے مجھے وہ ذمہ دار ریاست کہیں‌ بھی نظر نہ آئی۔
میرے گاؤں‌ کے لوگ اپنا علاج جڑی بوٹیوں‌ سے کیا کرتے تھے. (اب بھی کرتے ہیں). گاؤں کی ایک خاتون زچگی کی کشمکش میں‌ مبتلا ہوئی. جڑی بوٹیوں‌ سے کام چلایا. مقامی دائی کے حربے ناکام ہوئے. ہسپتال کا نظام تھا ہی نہیں‌، سو عطائی ڈاکٹر کا سہارا لیا گیا۔ عطائی ڈاکٹر کی دوائیوں کا الٹا اثر ہوا وہ گھر جہاں چند لمحے قبل شادمانی کی صورت حال تھی، صفِ ماتم بچھ گئی۔ ماں اور بچہ دنیا میں نہ رہے، وقت سے پہلے چل بسے۔ صحت کا معاملہ تعلیم جیسا تھا. یہاں بھی مجھے ریاست نظر نہیں‌ آئی۔
دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ گھر میں نہ سالن کی خوشبو آ رہی تھی اور نہ ہی ماں مجھے نظر آ رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گھر میں آگ جلانے کے لیے لکڑیاں ختم ہو گئی ہیں اور ماں لکڑیاں جمع کرنے چلی گئی ہے۔ دوپہر کا کھانا تو ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ماں دور سے لکڑیوں کا انبار سر پر سجائے نظر آئی۔ شرم سے میرا سر ایک بار پھر جھک گیا۔ ماں سے کچھ کہہ نہ پایا۔ سنا تھا سوئی گیس نام کی کوئی چیز بھی بلوچستان سے نکلتی ہے. سوئی اپنا تھا پر گیس اپنی نہ تھی. سو گاؤں‌ میں‌ اب بھی لکڑی لانے کا رواج ہے. البتہ لکڑیاں‌ لانے کی ذمہ داری اب خواتین کے ذمے نہیں‌ رہی. مردوں‌ نے محسوس کیا اب یہ کام وہی کرتے ہیں." یہ سنا کر نعمت داد تو چپ ہو گیا مگر میری آنکھ کے کونے نم ہوئے۔
احساسِ محرومی کے سائے میں پھلتی پھولتی ہوئی ایک نسل جوان ہوئی. ایک جانب احساس محرومی، غربت اور بنیادی حقوق کی عدم دستیابی تو دوسری جانب تعلیم سے دوری، یہ وہ اسباب تھے جنہوں‌ نے بلوچ نوجوانوں‌ کے ذریعہ معاش کا حصول ناممکن بنا دیا۔ بے چینی کی فضا قائم ہوئی. ریاست تو انہوں نے دیکھی نہیں تھی سو اپنی ریاست قائم کر دی۔ وہ ریاست جو پہلے نہ صحت، تعلیم، پانی، بجلی، گیس کی صورت میں نظر نہیں‌ آئی،اب وہ مقامیوں سے مزاحمت کرتی ہوئی نظر آئی۔ ریاست اور غیر ریاستی قوتوں کے مابین جنگ کا آغاز ہوا۔ اب تو فقط جنگوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے.
بلوچستان میں چلنے والی شورش نے ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کی۔ طاقت کی اس جنگ میں جہاں ریاستی ادارے اور علیحدگی پسند تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ بسا اوقات ان کا نشانہ چوک جاتا ہے۔ نشانہ وہ افراد بن جاتے ہیں جو اپنا دامن بچائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنگ چونکہ مسلط شدہ ہے، اس سے متاثر ہونا ہی ہونا ہے۔ سو اس کا نتیجہ نقل مکانی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جنگ و جدل کی اس فضا سے متاثرہ خاندانوں کے خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ نقل مکانی کا یہ سلسلہ ایک علاقہ یا ضلع تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
بے سروساماں یہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں نکلے۔ بہت
 سارے آج بھی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے۔ ان کے زخموں کا نہ مداوا کیا گیا اور نہ ہی انہیں شیلٹر فراہم کیا گیا۔ انہیں آج بھی ایسی صورتحال دکھائی نہیں دیتی جس سے وہ دوبارہ اپنے علاقہ میں آباد ہو جائیں۔ جہاں ان کی بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔
جنگ کی اس فضا میں گاؤں کے گاؤں ویرانے میں تبدیل ہو گئے۔ نقل مکانی کے منفی اثرات ابھی سے واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جس کا اندازہ حالیہ مردم شماری کی نتائج سے بلوچ پشتونوں کی آبادی کے تقابلی جائزے سے لگایا جا سکتا ہے۔
جنگ و جدل کی اس فضا میں زیادہ نقصان وہ طبقہ اٹھا رہا ہے جو جنگی ایندھن نہیں بننا چاہتا، سہانے خواب دیکھتا ہے، خوابوں کو آنکھوں میں سجاتا ہے۔ اپنی کمائی کو بچوں کی تعلیم و تربیت پہ خرچ کرنا چاہتا ہے۔ وہ وہی خواب دیکھتا ہے جو اس ریاست کا ہر باسی دیکھتا ہے۔ وہ ایک اچھے مستقبل کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ روز جینے کی تمنا لے کر اٹھتا ہے لیکن شام ہوتے ہی امیدیں مایوسی سے دامن گیر ہوجاتی ہیں۔ ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے۔
جنہوں نے ریاست کا سلوک سنگدل سوتیلی ماں جیسا اور چہرہ باوردی دیکھا ہو ان لوگوں میں اگر پھر بھی ریاست سے لگاؤ باقی ہے تو ہم سب کو انہیں گلے سے لگا کر معذرت کرنا چاہیئے۔ ایک بلوچ نوجوان نے فرمائش کی تھی کہ جب کبھی ہم پر لکھیں تو میری جانب سے یہ شعر بنام ریاست بھی لکھ دیجیئے گا۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن 
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک