نور القران

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : 2014 فروری

قسط۹۰۱
نورالقرآن 
 سات تراجم، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری

 

 

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر‘ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

 

 

سورۃ المائدہ۔۰۴۔۵۳
یٰٓاَیُّھَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ  وَجَاھِدُوْا  فِیْ سَبِیْلِہٖ  لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ۵۳ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لِیَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْھُمْ ج وَلَھُمْ عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ ہ۶۳  یُرِیْدُوْنَ اَنْ  یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا ھُمْ  بِخٰرِجِیْنَ مِنْہَا ز وَلَھُمْ عَذَاب’‘ مُّقِیْم’‘ ہ۷۳  وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ  فَاقْطَعُوْٓااَیْدِیَھُمَاجَزَآءً م بِمَاکَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘ ہ۸۳  فَمَنْ تَابَ مِنْ م  بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ  یَتُوْبُ عَلَیْہِ ط اِنَّ  اللّٰہَ  غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ہ۹۳  اَلَمْ  تَعْلَمْ  اَنَّ  اللّٰہَ  لَہٗ  مُلْکُ السَّمٰوٰتِ  وَالْاَرْضِ ط یُعَذِّبُ  مَنْ یَّشَآءُ  وَیَغْفِرُ لِمَنْ  یَّشَآءُ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر’‘ ہ۰۴  

 

تراجم
    ۱۔۵۳۔اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے، اور ڈھونڈو اس تک وسیلہ، اور لڑائی کرو اس کی راہ میں، شاید تمہارا بھلا ہو۔ ۶۳۔جو کافر ہیں، اگر ان کے پاس ہو جتنا کچھ زمین میں ہے سارا، اور اس کے ساتھ اتنا اور کہ چھڑوائی میں دیں اپنے قیامت کے عذاب سے، وہ ان سے قبول نہ ہو۔ اور ان کو دکھ کی مار ہے۔ ۷۳۔چاہیں گے، کہ نکل جاویں آگ سے، اور وہ نکلنے والے نہیں، اور ان کو عذاب دائم ہے۔ ۸۳۔اور جو کوئی چور ہو مرد یا عورت، تو کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ، سزا ان کی کمائی کی، تنبیہ اللہ کی طرف سے۔ اور اللہ زور آور حکمت والا۔ ۹۳۔پھر جس نے توبہ کی، اپنی تقصیر کے پیچھے، اور سنوار پکڑی، تو اللہ اس کو معاف کرتا ہے۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔۰۴۔تو نے معلوم نہیں کیا، کہ اللہ کو ہے سلطنت، آسمان و زمین کی۔ عذاب کرے جس کو چاہے، اور بخشے جس کو چاہے۔ اور اللہ سب چیز پر قادر ہے۔(شاہ عبدالقادرؒ)
    ۲۔۵۳۔اے ایمان والو!  اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اللہ تعالیٰ کا قرب ڈھونڈو اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا کرو امید ہے کہ تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ ۶۳۔یقینا جو لوگ کافر ہیں اگر ان کے پاس تمام دنیا بھر کی چیزیں ہوں اور ان چیزوں کے ساتھ اتنی چیزیں اور بھی ہوں تا کہ وہ اس کو دے کر روز قیامت کے عذاب سے چھوٹ جائیں تب بھی وہ چیزیں ہر گز ان سے قبول نہ کی جاویں گی اور ان کو درد ناک عذاب ہو گا۔ ۷۳۔اس بات کی خواہش کریں گے کہ دوزخ سے نکل آویں اور وہ اس سے کبھی نہ نکلیں گے اور ان کو عذاب دائمی ہوگا۔۸۳۔اور جو مرد چوری کرے اور جو عورت چوری کرے سو ان دونوں کے (داہنے) ہاتھ (گٹے پر سے) کاٹ ڈالو ان کے کردار کے عوض میں بطور سزا کے اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ بڑے قوت والے ہیں (جو سزا چاہیں مقرر فرمائیں) بڑے حکمت والے ہیں (کہ مناسب ہی سزا مقرر فرماتے ہیں)۹۳۔پھر جو شخص توبہ کرلے اپنی اس زیادتی کے بعد اور اعمال کی درستی رکھے تو بیشک اللہ تعالیٰ اس پر توجہ فرمائیں گے بیشک اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے ہیں بڑی رحمت والے ہیں۔ ۰۴۔کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہی کے لیے ثابت ہے حکومت سب آسمانوں کی اور زمین کی وہ جس کو چاہیں سزا دیں اور جس کو چاہیں معاف کر دیں اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے ۔(مولاناتھانویؒ)
    ۳۔۵۳۔    اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طر ف وسیلہ ڈھونڈو، اور ا س کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔ ۶۳۔بے شک وہ جو کافر ہوئے جو کچھ زمین میں ہے سب اور اس کی برابر اور اگر ان کی ملک ہو کہ اسے دے کر قیامت کے عذاب سے اپنی جان چھڑائیں تو ان سے نہ لیا جائے گا اور ان کے لیے دکھ کا عذاب ہے۔ ۷۳۔دوزخ سے نکلنا چاہیں گے اور وہ اس سے نہ نکلیں گے اور ان کو دوامی سزا ہے۔ ۸۳۔اور جو مرد یا عورت چور ہو، تو ان کا ہاتھ کاٹو، ان کے کیے کا بدلہ اللہ کی طرف سے سزا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ ۹۳۔تو جو اپنے ظلم کے بعد توبہ کرے اور سنور جائے تو اللہ اپنی مہر سے اس پر رجوع فرمائے گا، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ۰۴۔کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی سزا دیتا ہے جسے چاہے اور بخشتا ہے جسے چاہے اور اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔(مولانااحمد رضا خانؒ)
    ۴۔۵۳۔مسلمانو!ا للہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کی طرف نزدیکی کی جستجو کرو، اور اس کی راہ میں جہاد کرو تا کہ تمہارا بھلا ہو۔ ۶۳۔یقین مانو کہ کافروں کے لیے اگر سب کچھ ہو جو ساری زمین میں ہے بلکہ اسی کے مثل اور بھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن عذابوں کے بدلے فدیے میں دینا چاہیں تو بھی نا ممکن ہے کہ ان کا فدیہ قبول کر لیا جائے، ان کے لیے تو دردناک عذاب ہی ہے۔ ۷۳۔یہ چاہیں گے کہ دوزخ میں سے نکل جائیں لیکن یہ ہر گز اس میں سے نہ نکل سکیں گے ان کے لیے تو دوامی عذاب ہیں۔ ۸۳۔چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو، یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا، تنبیہ اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ قوت و حکمت والا ہے۔۹۳۔جو شخص اپنے گناہ کے بعد تو بہ کرے اور اصلاح کرے تو اللہ تعالیٰ رحمت کے ساتھ اس کی طر ف لوٹتا ہے یقینا اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا مہربانی کرنے والا ہے۔ ۰۴۔کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (مولاناجوناگڑھیؒ)
    ۵۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اُس کی جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو، شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو جائے۔  (۵۳) خُوب جان لو کہ جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، اگر اُن کے قبضہ میں ساری زمین کی دولت ہو اور اتنی ہی اور اس کے ساتھ، اور وہ چاہیں کہ اسے فدیہ میں دے کر روز قیامت کے عذاب سے بچ جائیں، تب بھی وہ ان سے قبول نہ کی جائے گی اور انہیں دردناک سزا مل کر رہے گی۔   (۶۳) وہ چاہیں گے کہ دوزخ کی آگ سے نکل بھاگیں مگر نہ نکل سکیں گے اور انہیں قائم رہنے والا عذاب دیا جائے گا۔  (۷۳) اور چور، خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ اُن کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔  (۸۳) پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ کی نظرِعنایت پھر اس پر مائل ہو جائے گی، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔  (۹۳) کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک ہے؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے، وہ ہر چیز کا اختیار رکھتا ہے۔  (۰۴) (مولانامودودیؒ)
    ۶۔اے ایمان والو،اللہ سے ڈرتے رہو اور اسی کے تقرب کے طالب بنو اور اس کی راہ میں برابر سرگرم کا ر رہو تاکہ فلاح پاؤ۔(۵۳)بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ہے اگر انہیں وہ سب کچھ حاصل ہو جائے جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اس کے برابر اور بھی تاکہ وہ اس کو فدیہ میں دے کر روز قیامت کے عذاب سے چھوٹ سکیں تو بھی ان کا یہ فدیہ قبول نہ ہو گا،ان کے لیے بس ایک درد ناک عذاب ہی ہے۔(۶۳)وہ زور لگائیں گے کہ آگ سے نکل بھاگیں لیکن اس سے کبھی نکل نہ پائیں گے،ان کے لیے ایک دائمی عذاب ہوگا۔(۷۳)اور چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو،ان کے کیے کی پاداش اوراللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا کے طور پر،اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔(۸۳)پس جس نے اپنے اس ظلم کے بعد توبہ اور اصلاح کر لی تو اللہ اس پر عنایت کی نظر فرمائے گا،بے شک اللہ غفور رحیم ہے۔(۹۳)کیاتمھیں علم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے،وہی جس کو چاہے گا سزا دے گا اور جس کو چاہے گا بخشے گا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(۰۴)(مولانا امین احسن اصلاحیؒ)
    ۷۔(یہ خدا کی شریعت ہے)۔ ایمان والو، (اِس کے بارے میں) خدا سے ڈرتے رہو، اُس کا تقرب ڈھونڈو اور (اِس کے لیے) اُس کی راہ میں برابر جدوجہد کرتے رہو  تاکہ فلاح پاؤ۔(۵۳)  
رہے وہ لوگ جو (پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود اِس کے) منکر ہیں تو اُنھیں اگر زمین کی ساری دولت حاصل ہوجائے اور اُس کے ساتھ اتنی ہی اور بھی، اِس لیے کہ اُسے فدیے میں دے کر وہ اپنے آپ کو روز قیامت کے عذاب سے چھڑالیں تو اُن سے وہ قبول نہیں کی جائے گی اور اُنھیں دردناک سزا مل کر رہے گی۔(۶۳)  وہ اُس سے نکلنا چاہیں گے، مگر کبھی نکل نہ سکیں گے۔ اُن کے لیے (وہاں) دائمی عذاب ہے۔ (۷۳) (یہ خدا کی شریعت ہے، اِسے مضبوطی سے پکڑو) اور چور مرد ہو یا عورت، اُن کے ہاتھ کاٹ دو،  اُن کے عمل کی پاداش میں اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا کے طور پر  اور (یاد رکھو کہ) اللہ (سب پر) غالب ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔(۸۳) پھر جس نے اپنے اِس ظلم کے بعد توبہ اور اصلاح کرلی تو اللہ اُس پر عنایت کی نظر کرے گا۔   بے شک، اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔(۹۳) کیا تم نہیں جانتے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے؟ وہ جس کو چاہے گا،سزا دے گا اور جس کو چاہے گا، (اپنے قانون اور اپنی حکمت کے مطابق) بخش دے گا، وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔(۰۴) (محترم جاوید احمد غامدی)
تفاسیر
نظم کلام
”مسلمانوں کو پہلے اللہ کے حدود و قیود کی پابندی کرتے رہنے، اللہ ہی کا تقرب ڈھونڈنے اور اسی کی راہ میں برابر سرگرمِ کار رہنے کی تاکید فرمائی کہ دراصل یہی چیزیں ہیں جو خدا کے ہاں کام آنے والی اور آخرت کی پکڑ سے بچانے والی ہیں، جو لوگ ان چیزوں سے محروم ہوں گے ان کو دوسری کوئی چیز بھی دوزخ کے عذاب سے نہ بچا سکے گی۔اس کے بعد چوری کی سزا کا قانون اور اس کی حکمت بیان فرمائی اور اس کے ساتھ یہ تنبیہ فرمائی کہ جو لوگ خدا کے قانون سے گریز اختیار کرنے یا اپنی دراندازیوں، سفارشوں، رشوتوں اور کوششوں سے اس کو بے اثر بنانے کی کوشش کریں گے وہ یاد رکھیں کہ اس قسم کی تدبیریں کچھ کارگر ہوسکیں گی تو بس اسی دنیا کی زندگی میں کارگر ہوسکیں گی۔ آخرت میں تمام جزا و سزا صرف خدا ہی کے اختیار میں ہوگی۔ وہاں کسی کا نہ زور و اثر کام کرسکے گا، نہ کسی کی سعی و سفارش کچھ کام آسکے گی۔ آیات کی تلاوت فرمایئے۔“ (تدبر قرآن، ج۲،ص ۸۰۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
یایھا الذین آمنوا………… لعلکم تفلحون
وابتغوا الیہ الوسیلۃ
’وسیلہ‘ کا مفہوم
 ”وسیلہ کے معنی قربت کے ہیں اور ’الیہ‘ کی تقدیم سے حصر کا مضمون پیدا ہوگیا ہے یعنی خدا ہی کا

قرب اور اسی کا تقرب ڈھونڈو، جس کا طریقہ یہ ہے کہ خدا کے احکام و حدود کی پوری پوری پابندی کرو، اور ان کی خلاف ورزی کے نتائج سے ڈرتے رہو۔ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ اور وسیلہ، جیساکہ آیت واعتصموا بحبل اللّٰہ۔۔۔،کے تحت ہم واضح کرچکے ہیں، کتاب اللہ اور شریعت ہی ہے۔ اس وجہ سے کتاب اللہ اور شریعت کو مضبوطی سے تھامنا ہی خدا سے قربت کا واسطہ ہے۔ گویا آیت میں تنبیہ ہے کہ جن لوگوں نے خدا اور اس کی شریعت سے بے پروا ہوکر دوسروں کا تقرب ڈھونڈا اور ان کو اپنی نجات و فلاح کا ضامن سمجھے بیٹھے ہیں وہ بڑی غلط اُمیدوں اور بڑے ہی غلط سہاروں پر جی رہے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ اس بات کی بھی تصریح ہے کہ فرشتے، جن کو نادانوں نے خدا کی قربت کا ذریعہ سمجھ کرمعبود بنایا، وہ خود ہرلمحہ خدا کے قرب کے لیے ساعی و سرگرم اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربہم الوسیلۃ………… عذاب ربک کان محذورا (اسرا:۷۵) (وہ لوگ جن کو یہ مشرکین پکارتے ہیں خود اپنے رب کے قرب کے حصول کے لیے ساعی رہتے ہیں کہ کون زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرتا ہے اور اس کی رحمت کی اُمید کرتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے ہی کی چیز ہے)۔“ (تدبر قرآن،ج ۲، ص۰۱۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
وجاھدوا فی سبیلہ
لفظ ’جہاد‘ اپنے وسیع مفہوم میں۔وابتغوا لیہ الوسیلۃ کا عملی ثبوت
”لفظ ’جہاد‘ یہاں وسیع معنوں میں ہے۔ اس سے مراد ہر وہ سعی و سرگرمی اور ہر وہ محنت و کوشش ہے جو خدا کے احکام کی پابندی، اس کے دین کے قیام اور اس کی رضاطلبی کی راہ میں کی جائے۔ عام اس سے کہ وہ تلوار کے ذریعے سے ہو یا اپنی دوسری قوتوں، صلاحیتوں اور دوسرے اسباب وسائل سے۔ یہ گویا وابتغوا الیہ الوسیلۃ، کا عملی ثبوت ہے، یعنی خدا سے قربت کا طالب اس کی راہ میں ہرلمحہ سرگرم کار رہتا ہے۔نظم کے پہلو سے یہ اُوپر کے تعزیری احکام اور آگے چوری کی سزا کے حکم کے بیچ میں مسلمانوں کو تنبیہ و تذکیر ہے کہ خدا کے احکام و حدود کی پابندی کے معاملے میں دوسری اُمتوں کی طرح تم ڈھیلے نہ پڑنا۔ خدا سے تعلق اس کی شریعت ہی کے واسطہ سے قائم ہوتا ہے۔ اس کے سوا فلاح کی کوئی اورراہ نہیں ہے۔ اگر خدا کی شریعت کو چھوڑ کر تم یہود و نصاریٰ کی طرح دوسرے سہاروں پر اعتماد کربیٹھے تو یہ سہارے نافع ہونے کے بجائے صرف موجب وبال ہوں گے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۰۱۵، فاران  فاونڈیشن لاہور)
”دوسرا ارشاد ہے: وابتغوا الیہ الوسیلۃ، یعنی اللہ کا قرب تلاش کرو، لفظ وسیلہ وسل مصدر سے مشتق ہے، جس کے معنی ملنے اور جڑنے کے ہیں۔ یہ لفظ سین اور صاد دونوں سے تقریباً ایک ہی معنی میں آتا ہے، فرق اتنا ہے کہ وصل بالصاد مطلقاً ملنے اور جوڑنے کے معنی میں ہے، اور وسل بالسین، رغبت و محبت کے ساتھ ملنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ صحاح، جوہری اور مفردات القرآن راغب اصفہانی میں اس کی تصریح ہے، اس لیے صاد کے ساتھ وصلہ اور وصیلہ ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو دو چیزوں کے درمیان میل اور جوڑ پیدا کردے، خواہ وہ میل اور جوڑ رغبت و محبت سے ہو یا کسی دوسری صورت سے، اور سین کے ساتھ لفظ وسیلہ کے معنی اس چیز کے ہیں جو کسی کو کسی دوسرے سے محبت و رغبت کے ساتھ ملا دے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ ہر وہ چیز ہے جو بندہ کو رغبت و محبت کے ساتھ اپنے معبود کے قریب کردے، اس لیے سلف صالحین صحابہ و تابعین نے اس آیت میں وسیلہ کی تفسیر طاعت و قربت اور ایمان و عملِ صالح سے کی ہے، بروایتِ حاکم حضرت حذیفہؓ نے فرمایا کہ وسیلہ سے مراد قربت و اطاعت ہے، اور ابن جریرؒ نے حضرت عطاءؒ اور مجاہدؒ اور حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔اور ابن جریرؒ وغیرہ نے حضرت قتادہؒ سے اس آیت کی تفسیر یہ نقل کی ہے: تقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقرب حاصل کرو، اس کی فرمانبرداری اور رضامندی کے کام کرکے، اس لیے آیت کی تفسیر کے خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرو، بذریعہ ایمان اور عملِ صالح کے۔“ (معارف القرآن،ج۳، ص۶۲۱، ادارۃ المعارف کراچی)
صالحین کو وسیلہ بنانا جائز ہے
”ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا ذریعہ بنے وہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا وسیلہ ہے۔ اس میں جس طرح ایمان اور عملِ صالح داخل ہیں اسی طرح انبیاء و صالحین کی صحبت و محبت بھی داخل ہے کہ وہ بھی رضائے الٰہی کے اسباب میں سے ہے، اور اسی لیے اُن کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعاء کرنا درست ہوا، جیساکہ حضرت عمرؓ نے قحط کے زمانہ میں حضرت عباسؓ کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعاء مانگی، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔اور ایک روایت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک نابینا صحابی کو اس طرح دعا مانگنے کی تلقین فرمائی: اللھم انی اسئالک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ (منار)“ (معارف القرآن،ج۳،ص ۸۲۱، ادارۃ المعارف کراچی)
 ”وسیلہ“ کی تفسیر ابن عباسؓ، مجاہد، ابوائل، حسن وغیرہم اکابرسلف نے قربت سے کی ہے تو وسیلہ ڈھونڈنے کے معنی یہ ہوں گے کہ اس کا قرب و وصول تلاش کرو۔ قتادہ نے کہا: ای تقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ  خدا کی نزدیکی حاصل کرو، اس کی فرمانبرداری اور پسندیدہ عمل کے ذریعہ سے، ایک شاعر کہتاہے:
اذ اغفل الواشون عدنا لوصلنا وعاد التصا فی بیننا والوسائل، اس میں یہ ہی معنی قرب و اتصال کے مراد ہیں۔ اور جو حدیث میں آیا ہے کہ ”وسیلہ“ جنت میں ایک نہایت ہی اعلیٰ منزل ہے جو دنیا میں سے کسی ایک بندہ کو ملے گی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ تم اذان کے بعد میرے لیے خدا سے وہ ہی مقام طلب کیا کرو۔ تو اس مقام کے نام بھی ”وسیلہ“ اسی لیے رکھاگیا کہ جنت کی تمام منزلوں میں وہ سب سے زیادہ عرش رحمن کے قریب ہے اور حق تعالیٰ کے مقامات قرب میں سب سے بلند واقع ہوا ہے۔ بہرحال پہلے فرمایا کہ ڈرتے رہو اللہ سے لیکن یہ ڈر ایسا نہیں جیسے آدمی سانپ بچھو یا شیر بھیڑیئے سے ڈر کر دُور بھاگتا ہے بلکہ اس بات سے ڈرنا کہ کہیں اس کی خوشنودی اور رحمت سے دُور نہ جا پڑو۔ اسی لیے اتقوا اللّٰہ کے بعد وابتغوا الیہ والوسیلۃ فرمایا۔یعنی اس کی ناخوشی اور بعد وہجر سے ڈر کر قرب و وصول حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور ظاہر ہے کہ کسی چیز سے قریب ہم اسی وقت ہوسکتے ہیں جبکہ درمیانی راستہ قطع کرلیں جس پر چل کر اس کے پاس پہنچ سکتے ہوں۔ اسی کو فرمایا: وجاہدوا فی سبیلہ جہاد کرو اس کی راہ میں یعنی اسی پر چلنے کی پوری پوری کوشش کرو۔ لعلکم تفلحون، تاکہ تم اس کی نزدیکی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکو۔“(تفسیر عثمانی،ص۱۵۱، پاک کمپنی لاہور)
”وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں: ان الوسیلۃ التی ھی القربۃ تصدق علی التقویٰ وعلٰی غیرھا من خمال الخیر التی یتقرب العباد بھا الٰی ربھم”وسیلہ، جو قربت کے معنی میں ہے، تقویٰ اور دیگر خصالِ خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں“۔ اسی طرح منہیات و محرمات کے اجتناب سے بھی اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے، اس لیے منہیات و محرمات کا ترک بھی قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے۔ لیکن جاہلوں نے اس حقیقی وسیلے کو چھوڑ کر قبروں میں مدفون لوگوں کو اپنا وسیلہ سمجھ لیا ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے (تفصیل کے لیے ضمیر ملاحظہ فرمائیں)۔ البتہ حدیث میں اُس مقامِ محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا جائے گا، اسی لیے آپ نے فرمایا: جو اذان کے بعد میرے لیے یہ دعائے وسیلہ کرے گا، وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ)“(احسن البیان، ص ۶۴۱، دارلسلام لاہور)
”وسیلۃ،  کے معنی قرب کے ہیں، اہلِ لغت اور تابعین سب سے یہی معنی مروی ہیں۔اور قرب کا بہترین ذریعہ احکامِ الٰہی کی تعمیل ہے۔جن لوگوں نے وسیلہ کے تحت میں مرحوم بزرگانِ دین کی استعانت اور فوت شدہ انبیاء و اولیاء سے استغاثہ جائز رکھا ہے، انھوں نے عربی کے وسیلہ (بہ معنی قرب کو) اُردو کے وسیلہ (بہ معنی ذریعہ) کا مرادف سمجھ لیا ہے، اور ایسی شدید و فاحش غلطیاں نادر نہیں، کثیر الوقوع ہیں، علامہ آلوسی نے بڑے بسط و تفصیل سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے اور لکھا ہے کہ(میت یا غائب شخص سے دعا کرانے کے ناجائز ہونے میں کسی عالم کو شک نہیں، اور یہ ایک ایسی بدعت ہے جس کا ارتکاب سلف میں کسی نے بھی نہیں کیا ہے) اور لکھا ہے کہ:(حضرات صحابہؓ سے بڑھ کر نیکی اور ثواب کا حریص اور کون ہوا ہے، لیکن کسی ایک صحابی سے بھی منقول نہیں کہ انھوں نے صاحب ِ قبر سے کچھ طلب کیا ہو)۔صحابیوں میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا اتباعِ سنت ضرب المثل کی حد تک شہرت رکھتا ہے، ان کی حالت یہ تھی:(جب روضہئ نبویؐ میں زیارت کے لیے داخل ہوتے تو صرف اس قدر کہتے کہ السلام علیک یارسول اللّٰہ السلام علیک یاابابکر، السلام علیک اباجان،اور اس سے زائد کچھ نہ کہتے نہ کچھ مانگتے، نہ سرورِعالمؐ سے، نہ ان کے ان مقربین سے، درآنحالیکہ سارے زمین و آسمان کی مخلوقات میں ان سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے)۔روضہئ مبارک کے سامنے دعا کرنے سے بڑھ کر کون سی شے مقبول ہوسکتی ہے، لیکن:(یہاں بھی صحابہؓ کرام اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرتے تھے، قبلہ رُخ ہوکر اور یہ نہیں کرتے تھے کہ دعا کرتے وقت قبرشریف کی طرف منہ کرلیں باوجود اس کے کہ وہ مقامِ عرش سے بھی افضل ہے)۔اور نو اور سلام پڑھتے قوت تک کے لیے:(ائمہ میں اختلاف ہے کہ منہ کس طرف رکھنا چاہیے، لیکن امام ابوحنیفہؒ کا فیصلہ اس موقع کے لیے بھی یہی ہے، کہ منہ قبرشریف کی طرف نہ کرے، بلکہ اُدھر پشت رکھے اور چہرہ قبلہئ شریف کی طرف رہے)۔غرض یہ کہ بعض اہلِ بدعت نے لفظ وسیلہ سے جو اپنے لیے پناہ ڈھونڈی ہے وہ سرتابودی اور بے بنیاد ہے۔ وسیلہ ہی کی طرح عربی کے جہاد کو بھی لوگوں نے اُردو کے جہاد کے مفہوم میں لے رکھا ہے، اُردو میں جہاد ایک دینی اصطلاح کی حیثیت سے صرف قتال فی سبیل اللہ کے معنی میں مخصوص ہوچکا ہے، عربی میں یہ حصروتحدید صحیح نہیں، عربی میں جہاد کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے۔ ہرسخت کوشش جو کسی بھی دینی غرض سے کی جائے، خاص کر دشمنانِ دین کے مقابلہ میں اصطلاحِ قرآنی میں جہاد کا درجہ رکھتی ہے۔“(تفسیر ماجدی،ج۱، ص ۴۰۹، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)
”ابن منظور لفظ وسیلہ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں: الوسیلۃ فی الاصل ما یتوصل بہ الی الشیئ ویتقرب بہ الیہ (لسان العرب) یعنی جس چیز کے ذریعہ کسی تک پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل ہو اُسے وسیلہ کہتے ہیں: والوسیلۃ کل ما یتقرب بہ (کشاف)۔ ایمان، نیک اعمال، عبادات، پیرویِ سنت اور گناہوں سے بچنا یہ سب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں اور مرشدِکامل جو اپنی روحانی توجہ سے اپنے مُرید کی آنکھوں سے غفلت کی پٹی اُتار دے۔ دل میں یادِ الٰہی کی تڑپ پیدا کردے اس کے وسیلہ ہونے میں کون شبہ کرسکتا ہے۔ کاملینِ اُمت نے ایسے مُرشد کی تلاش میں سینکڑوں، ہزاروں کوس کی مسافت کو پاپیادہ طے کیا ہے۔ اور ان کی رہنمائی اور دستگیری سے آسمانِ معرفت و حکمت پر مہروماہ بن کر چمکے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اس آیت میں وسیلہ سے مراد بیعت مُرشد (قولِ جمیل) اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے شاہ اسماعیل صاحب دہلوی کو بھی لکھنا پڑا: ”اہلِ سلوک ایں آیت را اشارت بسلوک مے فہمند ووسیلہ مرشد رامے وانند پس تلاشِ مُرشد بنابر فلاح حقیقی و فوزِ تحقیقی پیش از مجاہدہ ضروری ست و سنت اللہ بر ہمیں منوال مرشد لیا ہے۔ پس حقیقی کامیابی اور کامرانی حاصل کرنے کے لیے مجاہدہ وریاضت سے پہلے تلاش مرشد ازبس ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے سالکانِ راہِ حقیقت کے لیے یہی قاعدہ مقرر فرمایا ہے۔ اسی لیے مُرشد کی رہنمائی کے بغیر اس کا ملنا شاذوندر ہے۔“ (ضیا القرآن،ج۱، ص۶۶۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور 

ان الذین کفروا لو ان لھم……………… عذاب مقیم
خدا کے سوا دوسرے وسائل پر اعتماد کرنے والوں کا انجام
”سیاق وسباق دلیل ہے کہ یہاں ’ان الذین کفروا‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے فلاح کی اس راہ سے الگ راہ اختیار کی جو اُوپر والی آیت میں بیان ہوئی ہے۔ یعنی انھوں نے خدا ہی سے ڈرنے، خدا ہی کا قرب تلاش کرنے اور اسی کی راہ میں سرگرم رہنے کے بجائے بے بنیاد سہاروں اور خیالی سفارشوں کے اعتمادپر زندگی گزاری اور یہ توقع کیے بیٹھے رہے کہ آخرت کی تمام کامرانیاں انھی کا حصہ ہیں۔ فرمایا کہ اگر یہ لوگ زمین کے تمام خزانے اور اس کے ساتھ انھی کے برابر مزید خزانوں کے مالک بن جائیں اور ان سب کو عذابِ آخرت سے چھوٹنے کے لیے فدیہ میں دیں جب بھی ان کا فدیہ قبول نہیں ہوگا۔ وہ دوزخ سے نکلنے کے لیے کتنا ہی ہاتھ پاؤں ماریں گے لیکن وہ اس سے نکل نہیں پائیں گے، ان کے لیے ابدی اور دائمی عذاب ہوگا۔“ (تدبر قرآن، ج۲،ص ۱۱۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
والسارق والسارقۃ…………………… غفور رحیم 
چوری کی سزا
”والسارق والسارقۃ کا عطف محاربین پر ہے جن کا ذکر اُوپر گزرا۔ بیچ میں جو دو آیتیں آگئی ہیں یہ جیساکہ ہم نے اشارہ کیا، تعزیرات و حدود کے بیان کے سلسلے میں بطور تنبیہ و تذکیر ہیں۔
’سارق‘ اور ’سارقہ‘ چونکہ صفت کے صیغے ہیں اس وجہ سے ان سے اشارہ نکلتا ہے کہ ارتکاب فعل کی نوعیت ایسی ہو کہ اس کے ارتکاب پر چوری اور اس کے مرتکب پر چور کا اطلاق ہوسکے۔ اگر کوئی ناتربیت یافتہ شخص راہ چلتے کسی کے درخت سے چند پھل توڑ لیتاہے یا کسی کے کھیت سے کچھ سبزیاں لے لیتا ہے یا کسی کی ٹال سے چند لکڑیاں اُٹھا لیتا ہے، یا کسی کے باورچی خانے سے کوئی کھانے پینے کی چیز لے لیتا ہے تو گو یہ افعال ناشائستہ ہیں اور ان پر وہ تنبیہ و تادیب کا بھی سزاوار ہے۔لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس پر اس کو قطع ید کی سزا دی جائے۔ اس وجہ سے ہمارے فقہا نے اس جرم کے تعین اور اس کی سزا کے نفاذ پر چند شرطیں عائد کی ہیں جن کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲، ص۱۱۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
قطع ید کی سزا کے لیے شرطیں 
”فقہا نے چوری پر قطع ید کی سزا نافذ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل قیدیں عائد کی ہیں۔
۱- چوری کسی قدروقیمت رکھنے والی چیز کی کی گئی ہو، بے قیمت یا کسی چھوٹی موٹی چیز کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی کو معمولی چیزوں کی چوری پر یہ سزا نہیں دی گئی۔ قدروقیمت کے اندازے کے باب میں فقہا کا اختلاف ہے اور یہ اختلاف اس بات کا ثبوت ہے کہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ حنفیہ کے نزدیک ایک دینار سے کم قیمت کی چیز پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی۔
۲- چوری محفوظ کیے ہوئے مال کی گئی ہو۔ اگر کسی نے اپنا مال یوں ہی کہیں ڈال دیا یا اپنے مویشی یوں ہی جنگل میں آوارہ چھوڑ دیے تو ان کی چوری اس قانون کے تحت نہیں آئے گی۔
۳- جس مال میں چوری کرنے والے کا اشتراک ہو یا وہ مال اس کی حفاظت یا امانت میں ہو، اس کی چوری بھی اس قانون کے دائرہ سے باہر ہے۔
۴- مجنون اور نابالغ کی چوری پر بھی اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔
۵- کسی کے بیوی بچے اور اس کے گھریلو ملازم اگر اس کے مال میں سے کچھ چوری کرلیں تو یہ چیز بھی اس قانون کے دائرے سے الگ ہے۔
۶- اضطرار کا شائبہ ہو جب بھی یہ سزا نافذ نہیں کی جائے گی۔ مشہور ہے کہ حضرت عمرؓ نے عام الرمادہ کے قحط کے موقع پر قطع ید کی سزا روک دی تھی۔
۷- اس سزا کے نفاذ کے لیے دارالاسلام ہونا بھی شرط ہے۔ حدود و تعزیرات کا تعلق اوّل تو بااختیار حکومت سے ہے، ثانیاً ان کا تعلق دارالکفر یا دارالحرب سے نہیں بلکہ دارالاسلام سے ہے اس لیے کہ یہ احکام و حدود ایک مجموعی نظام کا جزو ہیں، اس نظام سے الگ کرکے ان کو نافذ کرنا ایسا ہی ہے جیسے گول خانے میں ایک چوکھٹی چیز۔ ان احکام کا زمانہئ نزول خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے نفاذ کے لیے دارالاسلام شرط ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ احکام نازل ہی اس وقت فرمائے جب دارالاسلام عملاً قائم ہوچکاتھا۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۲۱۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
چوری کی تعریف اور شرائط
”یعنی ”چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو، ان کے کردار کے بدلہ میں، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے“۔یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ قرآنی احکام میں خطاب عام طور پر مردوں کو ہوتا ہے اور عورتیں بھی اس میں تبعاً شامل ہوتی ہیں۔ نماز،، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جملہ احکام میں قرآن و سنت کا یہی اصول ہے، لیکن چوری کی سزا اور زنا کی سزا میں صرف مردوں کے ذکر پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ دونوں صنفوں کو الگ الگ کر کے حکم دیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ معاملہ حدود کا ہے جن میں ذرا سا بھی شبہ پڑ جائے تو ساقط ہوجاتی ہیں، اس لیے عورتوں کے لیے ضمنی خطاب پر کفایت نہیں فرمائی، بلکہ تصریح کے ساتھ ذکر فرمایا۔دوسری بات اس جگہ قابلِ غور یہ ہے کہ لفظ سرقہ کا لغوی مفہوم اور شرعی تعریف کیا ہے۔ قاموس میں ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا مال کسی محفوظ جگہ سے بغیر اس کی اجازت کے چھپ کر لے لے، اس کو سرقہ کہتے ہیں، یہی اس کی شرعی تعریف ہے، اور اس تعریف کی رُو سے سرقہ ثابت ہونے کے لیے چند چیزیں ضروری ہوئیں:اوّل یہ کہ وہ مال کسی فرد یا جماعت کی ذاتی ملکیت ہو، چرانے والے کی اس میں نہ ملکیت ہو نہ ملکیت کاشبہ ہو، اور نہ ایسی چیزیں ہوں جس میں عوام کے حقوق مساوی ہیں، جیسے رفاہِ عام کے ادارے اور ان کی اشیاء۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص نے کوئی ایسی چیز لے لی، جس میں اس کی ملکیت یا ملکیت کا شبہ ہے، یا جس میں عوام کے حقوق مساوی ہیں تو حدسرقہ اُس پر جاری نہ کی جائے گی، حاکم اپنی صوابدید کے موافق تعزیری سزا جاری کرسکتا ہے۔دوسری چیز تعریف سرقہ میں مالِ محفوظ ہوتا ہے، یعنی مقفل مکان کے ذریعہ یا کسی نگراں چوکیدار کے ذریعہ محفوظ ہونا، جو مال کسی محفوظ جگہ میں نہ ہو اس کو کوئی شخص اُٹھا لے تو وہ بھی حدِّسرقہ کا مستوجب نہیں ہوگا، اور مال کے محفوظ ہونے میں شبہ بھی ہوجائے تو بھی حد ساقط ہوجائے گی، گناہ اور تعزیری سزا کا معاملہ جداہے۔تیسری شرط بلااجازت ہونا ہے، جس مال کے لینے یا اُٹھا کر استعمال کرنے کی کسی کو اجازت دے رکھی ہو، وہ اس کو بالکل لے جائے تو حدِّسرقہ عائد نہیں ہوگی، اور اجازت کا شبہ بھی پیدا ہوجائے تو حد ساقط ہوجائے گی۔چوتھی شرط چھپا کر لینا ہے…… کیونکہ دوسرے کا مال علانیہ لُوٹا جائے تو وہ سرقہ نہیں بلکہ ڈاکہ ہے، جس کی سزا پہلے بیان ہوچکی ہے، غرض خفیہ نہ ہو تو حدّسرقہ اس پر جاری نہ ہوگی۔ جن صورتوں میں چوری کی حد شرعی ساقط ہوجاتی ہے، تو یہ لازم نہیں ہے کہ مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے، بلکہ حاکمِ وقت اپنی صواب دید کے مطابق اس کو تعزیری سزا دے سکتا ہے جو جسمانی کوڑوں کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔اسی طرح یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ جن صورتوں میں سرقہ کی کوئی شرط مفقود ہونے کی وجہ سے حدِشرعی جاری نہ ہو تو وہ شرعاً جائز و حلال ہے، کیونکہ اُوپر بتلایا جاچکا ہے کہ یہاں گناہ اور عذابِ آخرت کا ذکر نہیں، دنیوی سزا اور وہ بھی خاص قسم کی سزا کا ذکر ہے۔ ویسے کسی شخص کا مال بغیر اس کی خوش دلی کے کسی طرح بھی لے لیا جائے تو وہ حرام اور عذابِ آخرت کا موجب ہو، جیسا کہ آیت قرآن کریم لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل میں اس کی تصریح موجود ہے۔“ (معارف القرآن،ج۳،ص۹۳۱، ادارۃ المعارف کراچی)
نکا ل کا مفہوم، عبرت انگیز سزا
”لفظ ”نکال“ کے معنی عربی لغت میں ایسی سزا کے ہیں جس کو دیکھ کر دوسروں کو بھی سبق ملے، اور اقدامِ جرم سے باز آجائیں، اس لیے ”نکال“ کا ترجمہ ہمارے محاورہ کے موافق عبرت خیز سزا کا ہوگیا۔“(معارف القرآن،ج۳، ص۱۳۱، ادارۃ المعار ف کراچی)
فاقطعوا ایدیھما جزاء بما کسبا نکالا من اللّٰہ
قطع ید کی حکمتیں 
”اس میں قطع ید کے دو سبب بیان ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مجرم کے جرم کی سزا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ ’نکال‘ ہے۔ ’نکال‘ کے معنی کسی کو ایسی سزا دینے کے ہیں جس سے دوسرے عبرت پکڑیں۔ ان دونوں کے درمیان حرفِ عطف کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں باتیں اس سزا میں بیک وقت مطلوب ہیں۔ یعنی یہ پاداشِ عمل بھی ہے اور دوسروں کے لیے سامانِ عبرت بھی۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص۳۱۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
فمن تاب من بعد ظلمہ واصلح ………… من بعد ظلمہ
”لفظ ظلم، اپنے فاعل کی طرف بھی مضاف ہوسکتا ہے اور اپنے مفعول کی طرف بھی۔ مفعول کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے، اپنے اس ظلم کے بعد جس کا اس نے ارتکاب کیا، اگرچہ قرآن میں نظایر پہلے مفہوم کے لیے بھی موجود ہیں اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ کسی انسان کا، جب کہ وہ مسلمان بھی ہو، چوری جیسے ذلیل جرم کا مرتکب ہونا خود اپنے نفس پر بہت بڑا ظلم ہے، اس فعل کے ارتکاب سے جتنی حق تلفی وہ دوسروں کی کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ خود اپنے نفس کی کرتا ہے، لیکن میں دوسرے معنی کو ترجیح دیتا ہوں اس لیے کہ اس میں وہ ظلم بھی آجاتا ہے جو ایک چوری کرنے والا اپنے نفس پر کرتا ہے اور وہ ظلم بھی آجاتا ہے جو وہ اس پر کرتا 

 

ہے جس کا مال چراتا ہے۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص۴۱۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
”(وہ سزا وہی مقرر کرتا ہے جو عین اُس کے تقاضائے قدرت و حکمت کے شایانِ شان ہے) صفتِ عزیز لا کر یہ یاد دلایا کہ اللہ حاکم مطلق ہے، وہ جس جرم کی جو سزا چاہے مقرر کر دے، کسی کو اس پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا، اور صفتِ حکیم سے اشارہ اس طرف کر دیا کہ اس کا کوئی سا بھی حکم حکمتوں اور مصلحتوں سے خالی نہیں ہوتا، اس لیے اس نے چوری کی بھی سزا وہی مقرر کی، جو فرد اور جماعت دونوں کی مصلحتوں کے عین مطابق ہے۔(تفسیر ماجدی، جلد اول، صفحہ ۹۰۹، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنو) 
امام رازیؒ نے اس مقام پر اصمعی کے حوالہ سے یہ حکایت نقل کی ہے کہ میں ایک روز ایک بدوی عرب کے سامنے سورۂ مائدہ زبانی پڑھ رہا تھا۔ یہ آیت آئی، اور یہاں سہواً میری زبان سے غفور رحیم نکلا۔بدوی نے کہا کہ یہ کس کا کلام ہے؟ میں نے کہا: کلامِ الٰہی ہے، اس پر وہ بولا کہ اسے دوبارہ پڑھو، میں نے پھر پڑھا، اور اب مجھے تنبیہ ہوگئی کہ بجائے عزیز حکیم کے میری زبان سے غفور رحیم نکل گیا تھا۔بدوی نے کہا کہ بے شک اب ٹھیک پڑھا، میں نے کہا: تمھیں کیسے پتہ چلا۔ اس نے جواب دیا کہ سیاق کلام سے، یہاں جب ذکر سزا و عتاب کا ہے تو عین مقتضائے بلاغت یہی ہے کہ صفات بجائے غفور رحیم کے عزیز حکیم ہی لائی جائیں۔“(تفسیر ماجدی، ج۱،ص۹۰۹، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)
توبہ کے ساتھ اصلاح کی شرط
”توبہ کے ساتھ اصلاح کا ذکر درحقیقت توبہ کی ایک لازمی شرط کی حیثیت سے ہے۔ بندہ جب کوئی اس طرح کا جرم کرتا ہے تو ایک تو وہ خدا کی نافرمانی کرتا ہے، دوسرے وہ اپنے نفس کی یا دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے۔ خدا سے معاملہ درست کرنے کے لیے تاحدِ امکان اپنے رویہ کی اصلاح اور اپنے ظلم کی تلافی ناگزیر ہے۔ بغیر اس دو طرفہ عمل کے توبہ بالکل بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ توبہ اور اصلاح سے بندے کا آخرت کا معاملہ صاف ہوجاتا ہے لیکن قانون کی گرفت میں آچکنے کے بعد توبہ کے سبب سے شریعت کی کوئی حد ساقط نہیں ہوسکتی، وہ بہرحال نافذ ہوگی۔“ (تدبر قرآن،ج۲،ص ۴۱۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
الم تعلم ان اللّٰہ لہ ……………… علی کل شی قدیر 
ایک عظیم تنبیہ
”الم تعلم‘ کا خطاب عام ہے۔ یہ عام خطاب کے ساتھ تنبیہ ہے کہ آسمان و زمین میں سارا اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہی جس کو چاہے سزا دے گا جس کو چاہے بخشے گا، کسی دوسرے کے لیے اس میں کسی چون و چرا اور کسی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ اس وجہ سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے قانون کے تابع اور اس کے حوالے کرے۔ نہ کوئی اس سے بھاگنے کی کوشش کرے، نہ کوئی اس سے دوسروں کو بچانے کی تدبیریں سوچے اور نہ کسی کے زور واثر اور کسی کی سعی و سفارش پر بھروسہ کرکے خدا اور اس کی شریعت سے بے پروا ہو۔ یہ تنبیہ اس وجہ سے ضروری تھی کہ درحقیقت یہ سارے احکام جو قتل، قصاص، رہزنی اور چوری وغیرہ سے متعلق ا س سورہ میں بیان ہو رہے ہیں، یہ سب دوسری اُمتوں کے لیے مزلہئ قدم ثابت ہوئے۔ انھوں نے ان سے بچنے کے لیے بہت سے چور دروازے نکال لیے، یہاں تک کہ یہ تمام قوانین بالکل بے اثر ہوکر رہ گئے۔ اگر اس کی علت کا سراغ لگایا جائے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ ان قوموں نے توحید کی وہ حقیقت مستحضر نہیں رکھی جس کی اس آیت میں یاد دہانی کی گئی ہے۔(تدبرقرآن،ج۲،ص ۴۱۵، فاران فاونڈیشن لاہور)
مترجمین۔۱۔شا ہ عبد القادرؒ،  ۲۔مولانا اشرف علی تھانویؒ،  ۳۔مولانا احمد رضا خاں ؒ،  ۴۔مولانا محمد جونا گڑھیؒ،۵۔سیدّابوالاعلی مودودیؒ، ۶۔مولانا امین احسن اصلاحیؒ، ۷۔محترم جاویداحمد غامدی
تفاسیرومفسرین۱۔ تفسیر عثمانی،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی،۲۔ معارف القرآن، مفتی محمد شفیع ؒ،۳۔خزائن العرفان،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ،۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ،۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف،۶۔ضیا ء القرآن، پیرکرم شاہ الازہری ؒ،۷۔ تفسیر ماجدی، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی،۸۔ تدبر قرآن، مولانا امین احسنؒ اصلاحی،۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی