تین سو سال پہلے

مصنف : فرانس برنیر

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اگست 2019

تاریخ
ساڑھے تین سو سال پہلے کا پاکستان اور آج
فرانسس برنیئر۔انتخاب،ڈاکٹر جمیل نتکانی

 

    فرانسس برنیئر پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا، یہ فرانس کا رہنے والا تھا۔ یہ 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک بارہ سال ہندوستان میں رہا۔یہ شاہ جہاں کے دور کے آخری دن تھے، برنیئر طبی ماہر تھا، چنانچہ یہ مختلف امراء سے ہوتا ہوا شاہی خاندان تک پہنچ گیا۔ اسے مغل دربار، شاہی خاندان، حرم سرا اور مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ برنیئر نے شاہ جہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے اور اپنے صاحبزادے اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا۔ اس نے اورنگ زیب عالمگیر کی اپنے تینوں بھائیوں داراشکوہ، سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔ اس نے داراشکوہ کو گرفتار ہو کر آگرہ آتے اور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا اور اسے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور، بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔ فرانسیس برنیئر نے واپس جا کر ہندوستان کے بارے میں سفر نامہ تحریر کیا، یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس میں شائع ہوا۔ بعدازاں انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا، برطانیہ میں چھپا اور اس کے بعد آؤٹ آف پرنٹ ہو گیا۔ مجھے چند دن قبل فرانسیس برنیئر کا یہ سفر نامہ پڑھنے کا موقع ملا، میں یہ کتاب پڑھ کر ورطہ حیرت میں چلا گیا کیونکہ فرانسیس برنیئر نے 1660ء میں جو ہندوستان (موجودہ پاکستان) دیکھا تھا وہ آج تک اسی اسپرٹ اور اسی کلچر کے ساتھ قائم ہے ہم نے ساڑھے تین سو برسوں میں کچھ نہیں سیکھا۔
فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں جگہ جگہ حیرت کا اظہار کیا۔ اس کا کہنا تھا، ہندوستان میں درمیانہ طبقہ (مڈل کلاس) سرے سے موجود نہیں، ملک میں امراء ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ، امراء محلوں میں رہتے ہیں، ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے، ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے، بادشاہ سلامت، وزراء، گورنرز اور سرکاری اہل کار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں، دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں، بقراط اور ارسطو زمان اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ بادشاہ سلامت دربار میں جب بھی منہ کھولتے ہیں تو درباری کرامت کرامت کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔لوگ جیبوں میں عرضیاں لے کر گھومتے ہیں اور انھیں جہاں کوئی صاحب حیثیت شخص دکھائی دیتا ہے یہ اپنی عرضی اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ جب تک اس عرضی پر حکم جاری نہیں کرتا سائل وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لیتا۔
بازار بے ترتیب اور گندے ہیں آپ کو ایک دکان سے پشمینہ، کمخواب، ریشم اور زری کا کپڑا ملے گا اور ساتھ کی دکان پر تیل، گھی، آٹا اور شکر بک رہی ہو گی۔آپ کو کتابوں اور جوتوں کی دکانیں بھی ساتھ ساتھ ملیں گی، ہر دکان کا اپنا نرخ ہوتا ہے اور بھاؤ تاؤ کے دوران اکثر اوقات گاہک اور دکاندار ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں۔ شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے مگر آپ کو دکانوں پر گندگی، مکھیاں، مچھر، بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں آپ کو ہندوستان بھر میں اچھا گوشت نہیں ملتا، قصائی بیمار اور قریب المرگ جانور ذبح کر دیتے ہیں۔ یہ لوگوں کو گدھے اور کتے کا گوشت بھی کھلا دیتے ہیں۔ ہوٹلوں کا کھانا انتہائی ناقص اور مضر صحت ہوتا ہے لہٰذا لوگ ریستورانوں کی بجائے گھر پر کھانا کھانا پسند کرتے ہیں۔ پھل بہت مہنگے ہیں، ہندوستان میں خربوزہ بہت پیدا ہوتا ہے لیکن دس خربوزوں میں سے ایک میٹھا نکلتا ہے۔ سردہ بہت مہنگا ہے، میں پونے چار روپے کا سردہ خریدتا ہوں۔ ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن چھپ کر سب پیتے ہیں، شراب شیراز سے اسمگل ہو کر آتی ہے اور شہروں میں عام ملتی ہے تاہم حکومت نے عیسائیوں کو شراب پینے کی اجازت دے رکھی ہے مگر یہ اکثر اوقات اپنی شراب مسلمانوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ملک بھر میں جوتشیوں کی بھرمار ہے۔ یہ دریاں بچھا کر راستوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں ملک میں پینے کا صاف پانی نہیں ملتا چنانچہ امراء اونٹ پر پانی لاد کر سفر کے لیے نکلتے ہیں۔ ہندوستان کی مٹی زرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چنانچہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے۔ ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے۔ چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا اور جاگیردار سوچتے ہیں بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے مگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گے لہٰذا یوں پانی ضایع ہو جاتا ہے لاہور کے مضافات میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور سیکڑوں لوگوں کی ہزاروں املاک بہا لے جاتا ہے لیکن لوگ سیلابوں کی روک تھام کا کوئی بندوبست نہیں کرتے چنانچہ اگلے سال دوبارہ تباہی دیکھتے ہیں۔
فرانسیس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا، یہ کاریگر ہیں لیکن کاریگری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے لہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں۔ یہ فنکاری کو کارخانے کی شکل دے لیں تو خوشحال ہو جائیں اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں، ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے، یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں، عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں، لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے۔ ملک کا نصاب تعلیم انتہائی ناقص ہے، یہ بچوں کو صرف زبان سکھاتا ہے ان کی اہلیت میں اضافہ نہیں کرتا خود اورنگزیب نے میرے سامنے اعتراف کیا ”میں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت عربی زبان سیکھنے میں ضائع کر دیا“ یہ لوگ فاقوں کو بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں چنانچہ بخار میں فاقے شروع کر دیتے ہیں۔
ملک میں رشوت عام ہے۔ آپ کو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کے لیے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں، یہ بیک وقت صوبے دار بھی ہوتے ہیں، خزانچی بھی، وکیل بھی، جج بھی، پارلیمنٹ بھی اور جیلر بھی۔ سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے دولت لٹاتے ہیں، بادشاہ نے اپنے لیے 3 کروڑ 184 روپے کا (1660ء میں) تخت بنوایا۔ سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں، یہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں، ان کے آگے سپاہی چلتے ہیں، ان سے آگے ماشکی راستے میں چھڑکاؤ کرتے ہیں، ملازموں کا پورا دستہ مور جھل اٹھا کر رئیس اعظم کو ہوا دیتا ہے اور ایک دو ملازم اگل دان اٹھا کر صاحب کے ساتھ چلتے ہیں۔
یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔ ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار۔ بادشاہ اور امراء سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھ چھ ہزار مزدور ان کا سامان اٹھاتے ہیں، ہندوستان کی اشرافیہ طوائفوں کی بہت دلدادہ ہے۔ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں اور امراء اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ طوائفیں شاہی خاندان کی تقریبات میں بھی بلوائی جاتی ہیں اور دربار سے وابستہ تمام لوگ ان کا رقص دیکھتے ہیں۔ وزراء صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں، بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزراء عہدے سے فارغ کر دیئے جاتے ہیں۔  ہندوستان میں گرد، غبار، گندگی، بو اور بے ترتیبی انتہا کو چھو رہی ہے اور جرائم عام ہیں، مجرم اول تو پکڑے نہیں جاتے اور اگر پکڑ لیے جائیں تو یہ سفارش یا رشوت کے ذریعے چھوٹ جاتے ہیں۔
یہ فرانسس برنیئر کے سفرنامے کے چند حقائق تھے، آپ انھیں دیکھئے اور آج کے پاکستان پر نظر دوڑائیے آپ کو یہ جان کر اطمینان ہو گا ہم نے الحمدللہ ساڑھے تین سو سال میں کچھ نہیں سیکھا، ہمارے کلچر، ہماری روایات اور ہمارے سماجی ڈھانچے میں 1660ء سے 2018ء تک کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہم لوگ جس طرح شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر کے دور میں زندگی گزار رہے تھے ہم الحمدللہ آج بھی ویسے ہی ہیں، ہمارے ملک میں آج بھی گدھوں کا گوشت فروخت ہوتا ہے، ہمارے حکام آج بھی رشوت، خوشامد اور سفارش پر چل رہے ہیں۔
ہمارے لیڈر آج بھی ”سب کچھ ہیں“، ہم آج بھی پروٹوکول کے سائرن سنتے ہیں، ہمارے ایوانوں میں آج بھی وسیع پیمانے پر فضول خرچی ہو رہی ہے، ہم آج بھی سیلابوں میں ڈوبتے اور مرتے ہیں، ہم آج بھی فاقے کو علاج سمجھتے ہیں، ہمارے حلوائیوں کی دکانوں پر آج بھی مکھیوں کا اقتدار قائم ہے اور ہمارے بازار آج بھی بے ترتیب اور نصاب تعلیم انتہائی ناقص ہے اور خوشامد آج بھی پرفارمنس سے زیادہ حیثیت رکھتی ہے، ہم نے الحمدللہ ساڑھے
 تین سو سال میں کچھ نہیں سیکھا اور ہم جس رفتار سے چل رہے ہیں ہم یقیناً اگلے ساڑھے تین سو سال میں بھی کچھ نہیں سیکھیں گے کیونکہ ملک میں آج بھی ایسے ہی شاہ جہانوں کی حکومت ہے جو اسلحے کی خریداری، ڈی ایچ اے کی تعمیر کی خاطر قوم کی تعلیم اور صحت کے بجٹ پر کٹ لگاتے ہیں، جو جاتی عمرہ کو محل بنا دیتے ہیں، لیکن رائے ونڈ میں بھینسیں کھلی پھرتی ہیں اور لوگ فیکٹریوں کا آلودہ پانی پیتے ہیں، یہ بلاول ہاؤس، بے نظیر ہاؤس، زرداری ہاؤس اور بنی گالہ کو جدید ترین کاٹیج بنا لیتے ہیں لیکن کراچی، لاڑکانہ اور نواب شاہ کو بھلا دیتے ہیں، ان کے محلوں میں جشن چلتے ہیں لیکن شہر میں کئی لوگ مر جاتے ہیں اور کوئی حاکم منہ سے اف تک نہیں کرتا اور جب حکمران ایسے ہوں تو برا وقت قوموں کے نصیب میں آ کر ٹھہر جاتا ہے، یہ ساڑھے تین سو سال بعد بھی مرداروں کا گوشت کھاتی ہیں اور صاحبان اقتدار کی خوشامد کرتی ہیں، اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے آنے والا بھی پیرنی سے مشورہ، وزیر اعظم بننے کی لیے بطور نیک شگون اس سے شادی رچا لیتے ہیں۔ اس قوم کا کل اور آج برابر ہے۔

٭٭٭

مے کدہ تھا چاندنی تھی میں نہ تھا 
اک مجسم بے خودی تھی میں نہ تھا
عشق جب دم توڑتا تھا تم نہ تھے 
موت جب سر دھن رہی تھی میں نہ تھا
طور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو 
وہ مری دیوانگی تھی میں نہ تھا
وہ حسیں بیٹھا تھا جب میرے قریب 
لذت ہم سائیگی تھی میں نہ تھا
تھی حقیقت کچھ مری تو اس قدر 
اس حسیں کی دل لگی تھی میں نہ تھا
میں اور اس غنچہ دہن کی آرزو 
آرزو کی سادگی تھی میں نہ تھا
جس نے مہ پاروں کے دل پگھلا دیے 
وہ تو میری شاعری تھی میں نہ تھا
گیسوؤں کے سائے میں آرام کش 
سر برہنہ زندگی تھی میں نہ تھا
دیر و کعبہ میں عدمؔ حیرت فروش 
دو جہاں کی بد ظنی تھی میں نہ تھا
عبدالحمید عدم