عید

مصنف : نگار سجاد ظہیر

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : اگست 2019

افسانہ
عید
نگار سجاد ظہیر

بے وطن لوگوں کی بے بسی اور دکھ کو بیان کرتے ہوئے ایک حقیقت بھرا افسانہ

پیاری ماما۔۔۔عید مبارک 
ماما آج عید ہے۔میں نے تو زندگی میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میری زندگی میں کوئی عید آپ کے اور بابا کے بغیر بھی آئے گی۔میرے تو وہم و گمان میں بھی کوئی ایسی عید نہ تھی جو میں اپنے ملک‘اپنے شہراور اپنے گھر سے میلوں دور، اردن کے ایک مہاجر کیمپ میں گزاروں گی۔مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ماما کہ آپ لوگ کہاں اور کس حال میں ہیں؟ اللہ کرے میرے بابا کا گھر بچ گیا ہو، آپ بدستور اسی باورچی خانے میں کھانا پکاتی ہوں جس کی کھڑکی کی چوڑی منڈیر پر آپ نے ہری سبزیوں کے پودے لگا رکھے تھے۔
آپ کو یاد ہے نا‘ ماما عید کی چھٹیوں میں ہم آپ کے گھر آ جاتے تھے۔ایک طویل سفر کر کے مگر جب میں آپ کے اور بابا کے گلے لگتی تھی تو کیسے سفر کی ساری تھکن لمحوں میں ختم ہو جاتی تھی۔نصر اور بابا کیسے سارا سارا دن گپیں مارا کرتے تھے، ان کی تو باتیں ہی ختم نہیں ہوتی تھیں۔حمنہ اور حسان کیسے سارا سارا دن آپ کو مصروف رکھتے تھے۔اور میں آتے ہی آپ کا کچن سنبھال لیتی تھی، بابا کے لئے روز سوپ تیار کرتی تھی۔عید کے سارے پکوان میں بناتی تھی،بابا ایک ایک ڈش مہمانوں کے سامنے رکھتے اور فخر سے کہتے '' یہ بھی تو لیں رملہ نے بنایا ہے ''۔
آپ کہتی تھیں:میری بیٹی آ گئی ہے خوب آرام کروں گی ''- ان دنوں اگر کبھی بابا غلطی سے بھی آپ سے پانی مانگ بیٹھتے تو آپ کیسی تیکھی نظروں سے بابا کو گھورتی تھیں۔بابا کیسے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے تھے۔حمنہ اور حسان ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتے اور پھر اپنے نانا جان کو پانی کا گلاس پکڑانے کے لئے دوڑیں لگاتے۔
خواب ہو گئے وہ دن ما ما۔
آج آپ کو پتا نہیں کتنا کام کرنا پڑ رہا ہو گا۔لیکن ماما یہاں تو میں فارغ بیٹھی ہوں۔ہماری حیثیت نہیں کہ عید کے پکوان تیار کر سکیں۔کل سرکاری راشن ملا تھا۔اسی سے کچھ پکا لوں گی۔زندہ تو رہنا ہے نا ماما۔حمنہ اور حسان کے لیے۔۔آپ سے اور بابا سے ملنے کی ایک موہوم امید کو لئے۔شاید شام کے حالات سدھر جائیں۔شاید جنگ بند ہو جائے۔شاید ہم اپنے گھروں کو لوٹ سکیں شاید۔شاید۔شاید 
مجھے وہ دن بھولتا نہیں ماما جب ہمیں گھر چھوڑنا پڑا تھا۔چند دن سے ہم پریشان کن خبریں سن رہے تھے۔اس دن نصر دفتر گئے تو دو گھنٹے میں ہی واپس آ گئے، وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے، کہنے لگے ''جلدی سے کچھ سامان تیار کر لو۔شاید ہمیں نکلنا پڑے''''اللہ خیر آخر ایسا کیا ہو گیا؟'' میں نے پوچھا کہنے لگے ''خبریں ہیں کہ آج کسی وقت ہمارے قصبے کو فوج گھیر لے گی''
''لیکن شاید ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔آخر ہمارا باغیوں سے کوئی تعلق نہیں ''تمھیں سمجھانا بہت مشکل ہے ''نصر جھنجھلا گئے '' اسماعیل اور خالد بھی اپنی فیملیز کے ساتھ نکل رہے ہیں۔ہم بھی ان کے ساتھ جائیں گے۔جلدی کرو''میں نے جلدی جلدی ایک سوٹ کیس میں جو کچھ سمجھ میں آیا بھرا، میں کھانا پکا چکی تھی، وہ بھی با ندھ لیا۔گھر کو اچھی طرح بند کیا۔آپ کو یاد ہے نا ماما میں شادی ہو کر اسی گھر میں آئی تھی، یہ نصر کے مرحوم والد کا گھر تھا جسے اس دن چھوڑتے ہوئے ہمارے دل بے اماں پتوں کی طرح لرز رہے تھے۔
اب میں آپ کو کیا بتاؤں‘ ماما ہم کس طرح اردن کی سرحد تک پہنچے۔قصبے سے نکلتے ہوئے،فوجی گاڑیوں کے ایک قافلے کو آتے ہوئے دیکھا تھا اور بس۔
آپ کو یہ سب بتا کر دکھی کر رہی ہوں۔ یہاں شامی پناہ گزینوں کے تین کیمپ ہیں۔ہر کیمپ میں تقریبا سو خیمے ہیں۔انہی میں ''الزینب'' کیمپ میں خیمہ نمبر 72 ہمارا ہے۔ہر دس خیموں کے بعد ٹائلٹ بنے ہوئے ہیں۔دوسری جانب ہر بیس خیموں کے بعد ایک بڑا باورچی خانہ ہے جہاں چولہے لگے ہوئے ہیں۔میں وہیں جا کر کھانا بناتی ہوں۔ہر ہفتے سرکاری راشن ملتا ہے۔ماما ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس طرح کی امداد پر میرے بچے پلیں گے۔
ہم کچھ پیسا جمع کرنا چاہتے ہیں، خدا جانے آگے کیا پیش آنے والا ہے، اس لئے نصر دن بھر،قریبی قصبے میں سڑک کے کنارے بیٹھ کر سگریٹ بیچتے ہیں، حسان ان کے ساتھ ہوتا ہے۔میں حمنہ کو لے کر اسی قصبے کے گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہوں۔ماما آپ یہ سن کر اداس نہ ہوں۔میرا دل کہتا ہے کہ یہ وقت گزر ہی جائے گا اور ہم اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔
جس گھر میں میں کام کرتی ہوں اس کی مالکن بہت اچھی خاتون ہیں، ہمارا خیال رکھتی ہیں، میں انہیں اپنے قصبے، گھر اور آپ لوگوں کی باتیں بتاتی ہوں تو اداس ہو جاتی ہیں۔عید پر انہوں نے حمنہ، حسان،نصر اور مجھے جوڑے بنوا کر دیے بلکہ حمنہ کے ہاتھوں پر تو انہوں نے خود مہندی بھی لگائی۔
حمنہ اور حسان آج عید کے جوڑے پہن کر پوچھ رہے تھے کہ ہم نانو کے گھر کیوں نہیں جا سکتے؟ حمنہ ضد کر رہی تھی کہ مجھے اپنی مہندی نانو کو دکھانی ہے۔
مجھے روتا دیکھ کر وہ سہم کر چپ ہو جاتے ہیں۔ماما میرے بچے کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔کچھ پوچھ بھی نہیں سکتے۔رو بھی نہیں سکتے۔یہ بچپن میں ہی بڑے ہو گئے ہیں ماما۔۔نصر بہت بدل گئے ہیں۔مہینے گزر گئے میں نے انہیں مسکراتے نہیں دیکھا گھنٹوں خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔اندر ہی اندر گھل رہے ہیں۔میں سوچتی ہوں ماما خدانخواستہ نصر کو کچھ ہو گیا تو ہم کیا کریں گے؟اللہ کرے آپ اور میرے بابا حیات ہوں۔۔۔اللہ کرے آپ کو ہمارے پڑوسیوں سے یہ اطلاع مل چکی ہو کہ ہم اردن کی طرف نکل آئے ہیں۔۔۔پتا نہیں یہ خط آپ کو ملے گا بھی یا نہیں۔ایک این۔جی۔او۔کے رضا کار سے میں نے پوچھا تھا، اس نے کہا تھا کہ میں خط لکھ کر اسے دے دوں وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے بھجوانے کی کوشش کرے گا۔اگر آپ کو یہ خط مل جائے تو یہ دعا ضرور کرنا کہ مرنے سے پہلے ہم ایک بار ضرور ملیں۔
اللہ حافظ ماما۔آپ کو اور بابا کو عید مبارک 
آپ کی غریب الوطن بیٹی۔۔۔۔۔رملہ
٭٭٭