نقش گر

مصنف : محمد حامد سراج

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : فروری 2024

افسانہ

نقش گر

محمد حامد سراج

ماسکو کی TRETYAKOV گیلری میں گھومتے ہوئے وہ ایک پینٹنگ کے سامنے رک گیا۔

TERRACE ON THE SEA SHORE 1828.

طویل برآمدے کے ستون کے ساتھ ایستادہ لڑکے کے سر پر سرخ ٹوپی تھی۔ لڑکے کے سامنے ایک معصوم بچہ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ برآمدے کی چھت پر بیلیں پھیلی تھیں۔ پوری چھت بیلوں سے ڈھکی تھی۔ اطراف میں شاخیں لٹک رہی تھیں۔ برآمدے کے کچے فرش پر تاحد نظر سائے بچھے تھے۔ اس کی عمیق نظریں جانے پینٹنگ میں کیا تلاش کر رہی تھیں۔ برآمدے کی چھت اس ترتیب سے بنی تھی کہ ستونوں پر ترتیب سے لکڑی کی بلیاں رکھی تھیں اور ہر ستون کے ساتھ بیلیں اٹھ کر برآمدے سے گلے مل رہی تھیں۔ طویل برآمدے کے اختتام پر کچا راستہ دور تک چلا گیا۔ وہ کچے راستے پر نکلنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ برآمدے میں پھیلتے ہوئے سایوں نے اسے روک لیا۔ دائیں جانب ملگجے اندھیرے میں ایک دہقان پاؤں پسارے بیٹھا تھا۔ پینٹنگ پر غور کرنے سے نئے زاویے اس پر وا ہونے لگے۔ پینٹنگ نے اسے جکڑ لیا۔ وہ اس کے سحر سے نکلنا چاہتا تھا، لیکن اسے یوں لگا جیسے اس کے پاؤں کسی نے میخوں سے جڑ دیے ہیں۔ سائے اور پھیلنے لگے۔ کونے میں موجود دہقان بچہ کچی دیوار کے ساتھ اونگھنے لگا۔ پس منظر میں پانی اور پہاڑ اسے بلا رہے تھے۔ اس نے قدم اٹھائے اور کچے راستے پر ہو لیا۔ سمندر کے ساتھ ساتھ وہ ایک پہاڑی راستہ طے کرکے ایک جھونپڑی کے سامنے رک گیا۔ چمنی سے دھواں نکل رہا تھا۔ کوٹھی کی بناوٹ جھونپڑی کی طرز پر تھی۔ چاروں طرف گھنا جنگل تھا۔ کھلے پھاٹک سے وہ اندر داخل ہوا۔

ایزل اٹھائے ہوئے وہ برآمدے سے گزر رہی تھی۔ اسے پکارتے پکارتے وہ رک گیا، جانے کیوں۔۔۔؟

آتشدان کے سامنے بچھے ایرانی قالین پر وہ اپنی ساری پینٹنگز پھیلائے اسے بتا رہی تھی کہ جنوں اسے کہاں تک لے آیا ہے۔ وہ دونوں ایک عرصے بعد ملے تھے۔ آتشدان کی راکھ میں چنگاریاں باقی تھیں۔

تم نے مصوّری ترک تو نہیں کی نا۔۔۔؟ ماتھے پر آئی لٹ کو اس نے سمیٹتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں۔۔۔‘‘ ’’آج کیسے آئے ہو۔۔۔‘‘ ’’میں راستے بھولنے لگا ہوں۔۔۔‘‘ شاید مجھے بھی۔ تمہیں بھول گیا ہوتا تو تمہارے سامنے نہ ہوتا۔ تمہارے بال پہلے دن کی طرح بے ترتیب ہیں۔ میں بے ترتیب بالوں اور بے ترتیب زندگی کا عادی ہو گیا ہوں۔ میں نے تو تمہیں ترتیب دینے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ میں تمہاری پینٹنگ ہی کب تھا جو تم مجھ پر توجہ مرکوز رکھتیں۔ ’’ایک SUBJECT پر کام کروگے؟‘‘ تمہیں سوچنے کے سوا سارے کام چھوڑ دیے ہیں۔ چھوڑونا۔۔۔ پہیلیاں۔۔۔ جو سبجیکٹ میں تمہیں دے رہی ہوں اس پر کام کرو گے تو لیونارڈو ڈاونچی کی طرح امر ہو جاؤگے۔ میری زندگی میں کوئی مونا لیزا نہیں ہے۔ ہے۔ نہیں۔

لیونارڈو ڈا ونچی بھی ہے اور مونا لیزا بھی۔ مجھے دیکھو، میرے بدن پر نقش گری کروگے۔۔۔؟ میں سمجھ نہیں پایا۔ سمجھ لو میں ایک کاغذ ہوں۔ تم ہوش میں تو ہو۔۔۔؟ ’’تمہیں پانے کے بعد ہوش کھویا ہی کب ہے۔ ‘‘ آتشدان میں لکڑیاں چٹخ رہی تھیں، سرخ چنگاریاں، اس کی آنکھوں کی طرح لال انگارے۔۔۔ اسے سردی محسوس ہونے لگی، عجیب پاگل لڑکی ہے۔ سامنے بٹھا کر تمہارا پورٹریٹ تو بنایا جا سکتا ہے لیکن بدن پر نقش گری، نہیں۔۔۔ ناممکن۔۔۔!

میں پیرالوئی کی افروڈائٹ ہوں۔ سلیم کی انارکلی اور اختر شیرانی کی سلمیٰ، میں ہر عہد میں زندہ رہتی ہوں۔ میں اجتماعی لاشعور کا تسلسل ہوں۔ تم کیسے فنکار ہو؟ ایک چھوٹی سی خواہش پوری نہیں کر سکتے۔ تم نے زندگی میں کتنی ہی تصاویر بنائی ہوں گی۔ میرا بدن ایک کاغذ سے بھی کم قیمت ہے۔۔۔؟ تمہیں اس سرد برفیلی شام کی قسم، تمہیں میری اس خواہش کی تکمیل کرنا ہوگی۔ میری بینائی جاتی رہےگی۔ بینائی رہے رہے، نہ رہے۔۔۔ میں نے تم سے اور مانگا ہی کیا ہے؟ ایک چھوٹی سی خواہش، معصوم سا خیال، تم اتنا بھی نہیں کر سکتے؟ آتشدان میں شعلے سرد ہونے لگے۔ تم آج رات یہیں قیام کروگے۔ میں تمہیں سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے پوری رات دے رہی ہوں۔

اس نے رات کروٹیں بدلتے گزاردی۔ اس کے دماغ کے کینوس پر سارے رنگ گڈمڈ ہونے لگے۔ برش اس کے کانپتے ہاتھوں سے گرتے رہے۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا، کہاں کون سا رنگ بھرنا ہے؟ وہ سوچتا رہا۔ بولتے بدن کے زندہ زاویوں میں نقش گری کیسے ممکن ہے۔۔۔؟ یہ لڑکی پاگل ہے، اسے کیسے سمجھایا جائے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ صبح دم جنگل میں بجری کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے اس نے اسے سمجھایا۔ تم اپنا سیلف پورٹریٹ کیوں نہیں بناتیں۔ ’’یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟‘‘ ’’ممکن ہے۔۔۔آؤ‘‘

وہ پگڈنڈی سے اتر کر کچے راستے پر ہو لیے۔ بیلوں تلے اونگھتے برآمدے سے گزر کر وہ TRETYAKOV GALLERY میں کھڑے تھے۔ یہ دیکھو، ZINAIDA ہے۔

SELF PORTRAIT AT THE DRESSING TABLE.

وہ پینٹنگ کو غور سے دیکھتی رہی اور اس میں تحلیل ہو گئی۔ ’’ہاں یہ میں ہوں، بالکل ZINAIDA، میں نے کتنی محنت کی ہے۔ دیکھو میں نے اپنے لمبے براؤن بال بائیں ہاتھ سے پکڑ رکھے ہیں اور دائیں ہاتھ سے کنگھی کر رہی ہوں۔ میرا سراپا دیکھو۔ بدن کے زاویوں پر غور کرو اور سنگھار میز پر بکھرا میک اپ کا سامان، موم بتیاں، پرفیوم، ہار اور سٹیل اسٹک، دائیں کلائی میں چھن چھن کرتی چوڑیاں دیکھ رہے ہو نا، غور کرو، یہ میں ہوں۔ وہ پینٹنگ کے سحر سے نکلی تو بولی، سیلف پورٹریٹ۔۔۔ لیکن؟ لیکن کیا۔۔۔؟

ZINAIDA کی تکمیل تمہارے بغیر نہیں ہوگی۔ تم رات کسی فیصلے پر پہنچے؟ مجھے انکار یا اقرار میں جواب دو، تیسرا راستہ بھول جاؤ۔ اس نے چودھویں کی چاندنی میں نقش گری کا وعدہ کر لیا۔ وہ جنگل میں چاند ڈھونڈنے لگی۔ طلوع و غروب کا حساب رکھنے لگی۔ یہ ایک نیا اور سنسنی خیز تجربہ تھا۔ وہ ہمیشہ سے کیلنڈر کی عادی چلی آ رہی تھی۔ چاند کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا بدن کروٹیں لینے لگا۔ سمندرمیں زیروبم اٹھنے لگے۔ ٹھہرے پانی میں اتھل پتھل ہونے گلی۔ لہریں چٹانوں سے سر پٹخنے لگیں۔ وہ سوچنے لگی، چاند ایک ہی رات میں مکمل کیوں نہیں ہو جاتا۔ اس کے نقوش گھٹتے بڑھتے کیوں ہیں۔ اس کی تکمیل میں ایک رات باقی تھی۔ اس کی بےچینی سوا ہونے لگی۔ بجری کے راستے پر درختوں کی اوٹ میں اس نے اپنے بدن کے خطوط کو غور سے دیکھا اور لوٹ کر آتشدان کے سامنے اپنی پینٹنگز کے درمیان اس کا انتظار کرنے لگی۔ اس نے میز سجائی، دو مگ، کافی، ڈرائی ملک، ڈرائی فروٹ، پینٹنگ کا سامان، سارے برش ایک ایک کرکے دھوئے اور ہاتھ کی ہتھیلی پر ان کی نرمی محسوس کی۔ ساری چیزوں پر ایک نظر ڈال کر تسلی کی۔ اسے آج کی رات امر ہونا تھا، مونا لیزا کی طرح۔

VASILY TROPININ کی LACE MAKER کی طرح اسے بھی پینٹنگ کی دنیا میں ناموری ملےگی۔ پہلے وہ مسکراتی، سیٹی بجاتی اور ٹہلتی رہی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر تفکر کی پرچھائیاں اترنے لگیں۔ وال کلاک کی سرکتی سوئیاں اسے چبھنے لگیں۔ اس نے منفی خیالات کو جھٹکاتے ہوئے سوچا۔نہیں، نہیں وہ ضرور آئےگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نہ آئے۔ کسی مصوّر کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک لڑکی اپنے بدن پر نقش گری کی فراخدلانہ دعوت دے۔

رات آدھی سے زیادہ گزر گئی۔ کھڑکی سے اس نے پردہ سرکایا، چودھویں کا چاند چمک رہا تھا۔ پوری آب وتاب کے ساتھ۔ ابھی وہ نامکمل تھی۔ تکمیل کار جانے کہاں رہ گیا، ‘‘جنگل میں خاموشی تھی۔ گہری اور گمبھیر’’ اس کے دل میں چاند کو پکڑنے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی۔ کھڑکی کے شیشوں پر قطرہ قطرہ نمی اترتی رہی۔ اس کی آنکھ کی کھڑکیوں کے شیشے بھی آنسوؤں کی ہلکی پھوار سے نم ہو چلے تھے۔ وہ کیوں نہیں آ رہا؟ اسے آ جانا چاہیے تھا۔ وہ پلٹی۔ کمرے کی ترتیب پر ایک نظر ڈالی۔ اس کے سوا ہر چیز ترتیب سے تھی۔ وہ ضرور آئےگا۔ اس نے ایک برش اٹھایا۔ دوبارہ اپنے بدن پر اس کی نرماہٹ محسوس کی۔ پینٹنگ ٹرے میں رنگوں کی آمیزش سے ابھرنے والے بے ترتیب نقوش کو دیکھا۔ یہ بھی تو ایک پینٹنگ ہے میری طرح! وہ پلنگ پر آ بیٹھی۔ تکیہ گود میں رکھ کر خاموش آوازیں سننے لگی۔ سناٹے بول رہے تھے۔ جنگل اداس تھا، اس نے موسیقی کی آواز تیز کر دی۔ وہ یہیں کہیں موجود ہے، میری بصارت کو کیا ہوا ہے؟ منظر دھندلا کیوں رہے ہیں؟ میں اسے محسوس کیوں کر رہی ہوں، چھو کیوں نہیں پا رہی؟

اس نے آتشدان میں لکڑیاں ڈالتے ہوئے انگارے غور سے دیکھے، سرخ اور دہکتے ہوئے، یہی جگہ ہے نا۔ پہلی بار آیا تھا وہ، یہی کمرہ، یہی آتشدان، بے ترتیب بال، آنکھوں میں گلابی ڈورے، پتلون سے باہر لٹکتی شرٹ اور ہاتھوں میں سلگتا سگار لیے وہ دیوار پر آویزاں میری پینٹنگز میں کھویا ہوا تھا اور میں اس میں کھو گئی تھی۔ پینٹنگز دیکھتے دیکھتے پلٹا تھا تو میں کھڑی تھی۔ اسے سکتہ ہو گیا۔ میں بھی اپنی پینٹنگز بھول گئی۔ اس نے بے اختیار غیر ارادی طور پر میرا ہاتھ چوم لیا۔ اچانک۔۔۔ اور میں انہی چومے ہوئے ہاتھوں سے تصویریں بناتی رہی۔ میری ہر تصویر میں اس کے لمس کی مٹھاس تھی۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ میری ہر تصویر میں تمہاری خوشبو ہے۔ اس نے میری آنکھیں چوم کر کہا۔ ’’کیا کہا۔۔۔؟‘‘ کچھ یاد نہیں آ رہا، پاگل ہو جاؤں گی میں۔ آنا چاہیے تھا اسے، ایک بار، ہاں ایک بار اس نے کہا تھا، میں تمہارے بدن پر اپنا لمس پینٹ کر نا چاہتا ہوں۔ میں نے انکار ہی کب کیا تھا۔ ایسی ہی رات تھی، یخ بستہ اور تاریک، مشعل کی روشنی میں اس نے مجھے منیر نیازی کی ایک نظم سنائی تھی۔۔۔ حرف حرف یاد ہے مجھے۔

اس کی آنکھیں کالے بھنوروں کی حزیں گنجار ہیں --ہونٹ اس کے عطر میں بھیگے ہوئے یاقوت کی مہکار ہیں

اس کی گردن جیسے مینائے شراب --اس کے نازک ہاتھ جیسے باغ میں رنگیں گلاب

بال اس کے کالی مخمل کا حسیں انبار ہیں--دانت جیسے موتیے کا خوبصورت ہار ہیں

یہ بھنویں ہیں یا گھٹائیں جھوم کر آئی ہوئیں--اور پلکیں کوہِ غم کو چوم کر آئی ہوئیں

پیٹ مرمر کی تراشیدہ چٹان --ناف سکھ کے نشے میں سویا مکان

ساق پورے چاند کی پہلی سریلی تان ہے --سینہِ شیریں شہد میں ڈوبا ہوا پیکان ہے

اس کی ریشم سی کمر کھاتی ہے بل وقت خرام --اس کے کولہے دیکھنے والی نگاہوں کے ہیں تنگ دام

اس کی رنگت شرم سے گلنار ہے --اس کا ہر جذبہ ہوائے عشق سے سرشار ہے!

اور آج شب مشعل کی روشنی، تمہاری آواز، نظم کے مصرعے، سماعت سے سرٹکراتی مصرعوں کی بازگشت، یہ رات، میری تکمیل کی رات، کہاں رہ گئے تم۔ دیکھو تو، میرے ہاتھ سرد رنگین گلاب، پلکیں کوہِ غم کو چوم رہی ہیں، تم نہیں ہو، کیا واقعی تم نہیں ہو؟ سرکتی رات کا کوئی سرا اس کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ اس نے کھڑکی سے پردہ سرکا کر چاند کو دیکھا۔ کٹے پھٹے بادلوں کے درمیان وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا۔ وہ اسے پکڑنا چاہتی تھی۔ اس نے چاند کو ہپناٹائز کرنے کی کوشش کی، مگر بے سود۔ رات اس کے بدن میں سے گزرتی رہی اور وہ اسے نہ روک سکی۔ تم نہیں آئے اور رات کو روکنا میرے بس میں نہیں ہے۔۔۔! آنسو اس کے گالوں پر نقش گری کرتے رہے۔ رات بھر آنسو گالوں کے نرم بستر پر اودھم مچاتے رہے۔ اور تھک کر سو گئے۔ جو آنسو جہاں سو گیا، اس نے اسے نہیں جگایا۔

رات کا آخری پہر تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ آتشدان کے انگاروں کی طرح۔ اس نے برش اٹھا کر پانی میں بھگویا لیکن واپس رکھ دیا۔ شاید وہ آجائے۔ اسے کسی مجبوری نے گھیر لیا ہو۔ لیکن رات کے آخری پہرمیں وہ کیسے آ سکتا ہے؟ انہونی۔۔۔ شاید۔۔۔؟ انتظار نے اسے چور کر دیا۔ چاند ڈوب رہا تھا۔ نیند اس کی پلکوں پر دستک دینے لگی۔ لیکن وہ تو کسی اور دستک کے انتظار میں تھی۔ وہ سونا نہیں چاہتی تھی۔ باتھ روم میں جاکر اس نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اسے ڈر تھا کہ آکر لوٹ نہ جائے۔ وہ ادھوری رہ جائے گی اور ادھوراپن اسے ساری عمر عذاب دےگا۔ وہ ادھورے پن سے خوفزدہ تھی۔ اس نے اسے ٹوٹ کر چاہا تھا۔ اس نے اپنے سارے رنگ اس کے نام کر دیے تھے۔ اس نے ایک ایک لمحے کا حساب جوڑ رکھا تھا۔ وہ کب آیا، اس کے پاس کتنی دیر رکا۔ کتنے دن اس کے انتظار میں رائیگاں گئے۔ کس موقع پر کس رنگ کے کپڑے اس نے پہن رکھے تھے۔ اسے اس کے جوتوں کے رنگ اور شیڈ تک یاد تھے۔ وہ اس کی پینٹنگ کا بنیادی رنگ تھا۔ آج رات وہ نہیں آیا۔ اس نے میری معصوم سی خواہش کو کچل دیا۔ کتنا سفاک ہے وہ۔ میں اپنی بپتا کس سے کہوں؟ میں آج رات کا انتظار کیسے پینٹ کروں؟ اسے کون بتائے کہ میں ریزہ ریزہ ہو چکی ہوں۔

قالین پر بکھری پینٹنگز اٹھا کر اس نے پرزہ پرزہ کر ڈالیں۔ مگ اٹھا کر دیوار پر دے مارا۔ موقلم آتشدان میں جا پڑا۔ وہ باؤلی ہورہی تھی۔ ہوش وحواس سے بیگانہ، بے خود، بے ترتیب اور بکھرے کمرے میں کھڑی وہ پاؤں پٹخ رہی تھی۔ IGNORANCE کا زہریلا نشتر اس کے بدن میں رینگ رہا تھا۔ اسے ذات کی نفی پاگل کیے دے رہے تھی۔ اس نے ایک جھٹکے سے دیوار پر لگی خزاں رسیدہ پینٹنگ اکھیڑی اور آگ میں جھونک دی۔ جل جاؤ تم بھی اچھا ہے۔ تمہارے ساتھ اس کی آنکھیں لپٹی ہیں نا۔ آنکھیں بھی راکھ ہو جائیں۔ تمہیں کیا خبر؟ میں کن عذابوں سے گزر رہی ہوں۔ درختوں کے خطوط سپیدۂ سحر سے نمودار ہونے لگے۔ آتشدان سرد تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے لپک کر ریسیور اٹھایا۔ رات کیوں نہیں آئے؟ اس کی آواز میں پوری رات کی چیخ تھی۔ میں تمہارے پاس موجود تھا۔ جھوٹ۔۔۔ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔ ذرا آئینے کے سامنے جا کر اپنے بدن پر ایک نظر تو ڈال کر دیکھو۔ ریسیور اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ وہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ بدن کے خطوط کو غور سے دیکھا۔

ناف۔۔۔ سکھ کے نشے میں سویا ہوامکان ---ساق۔۔۔ پورے چاند کی پہلی سریلی تان

بالوں کو چھو کر دیکھا۔۔۔ ریشم کے انبار ---ہونٹ۔۔۔ ہونٹوں پر اس کے لمس کی یاقوتی مہکار

بل کھاتی ریشم سی کمر۔۔۔ سینہ۔۔۔ شیریں شہد میں ڈوبا ہوا پیکان --اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔۔۔ تراشیدہ چٹان --اس کی رنگت شرم سے گلنار ہوگئی۔

اس کے بدن پر پوری رات کے انتظار کی کیفیات پینٹ تھیں۔