قرانیات

مصنف : محمد رضوان خالد چوھدری

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : اگست 2019

قرآنیات
اسلام ، دین فطرت
محمد رضوان خالد چودھری

لگ بھگ چھے ہزار آیات والے قرآن سے احکامات والی آیات الگ کریں تو یہ لگ بھگ سوا پانچ سو آیات بنیں گی۔ گویا اسلام ایک مختصر سا منشور ہے۔ اب آپ ان سوا پانچ سو آیات میں سے وہ آیات الگ کر لیجیے جنکا تعلق قانون سازی سے ہے تو آپ کو حیرت ہوگی یہ بس چند درجن احکامات ہیں۔ پھر آپ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک کا آئین اٹھا لیجیے ان احکامات کا بڑا حصہ اس آئین میں شامل ہوگا۔ گویا فطری طور پر آہستہ آہستہ ساری دنیا اسلام کی روح کو اپنا رہی ہے اسکی وجہ بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ اسلام دین فطرت ہے۔ 

بین الاقوامی قانون جو تمام اقوام نے پچھلے تین سو سال میں مل کر بنایا کوئی ایک کلاز بھی ایسی نہیں رکھتا جو خلاف قرآن ہو۔ اگر کوئی خلاف قرآن قانون منظور کروانے کی کوشش کی بھی جاتی ہے تو اکثر قومیں اسے ماننے سے انکار کر دیتی ہیں۔ 

سزائے موت ختم کرنے کی اقوام متحدہ کی کوشش کو ہی لے لیجئے۔ قرآن دو صورتوں میں سزائے موت کا حامی ہے ایک قاتل کے لیے اور دوسرے فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے۔ اقوام متحدہ سزائے موت کا قانون ختم کروانے کے لیے کئی دہائیوں سے پرعزم ہے لیکن چند بااثر ترین ممالک سمیت اٹھاون ملکوں نے اسے ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان ممالک میں انڈیا اور امریکہ تک شامل ہیں جو سزائے موت ختم کرنے کو غیر فطری کہتے ہیں۔ یعنی چودہ سو سال پہلے دنیا کی ایک گمنام اور غیر اہم بستی میں پیدا ہونے والے ایک یتیم بچے پر اسکے بڑے ہونے پر جو کتاب اتری اسکے اجتماعی احکامات کی روح کو بالآخر ساری دنیا کی اقوام نے چاہتے نہ چاہتے اپنے مذاھب کی تعلیمات کے برعکس اپنانا تھا کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین عین فطرت تھا۔ 

بین الاقوامی قانون تو پھر متفقہ عالمی قانون ہے کرسچن ہندو اور دیگر مذاھب کی اکثرئیت والے ممالک نے پچھلی دو صدیوں میں اپنے اپنے مذاھب میں بتائے گئے قوانین کے برعکس جو قوانین اپنائے ہیں ان میں سے دو تہائی سے زیادہ قوانین قرآن کی ان چند درجن آیات کا خلاصہ ہیں جنکا میں نے اوپر تزکرہ کیا۔

سود اور معاشرت سے متعلق جو قرآنی احکامات ابھی تک اقوام عالم اپنے قوانین میں انکارپوریٹ نہیں کر پائی ہیں انسے متعلق بھی ان ملکوں کے عام افراد میں یہ آگہی ضرور پائی جاتی ہے کہ انسانیت کی فلاح انہی کو اپنانے میں ہے۔

پچاسی ممالک پر مشتمل ایک تنظیم پچھلی دو دہائیوں سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کے سود کے خلاف عوامی رائے ہموار کرنے کی کوشش میں لگی ہے لیکن بدقسمتی سے غریب ممالک میں حکمران استعمار کے ایجنٹس ہی بنتے ہیں جو سٹیٹس کو کے برقرار رہنے میں اپنی بقا دیکھتے ہیں ورنہ عوام تو اسلام کے غیر استحصالی اصولوں کو اپنانے کے لیے تیار ہے۔

پچھلے دنوں ایک عیسائی مبلغہ شیری جس نے بعد ازاں اسلام قبول کیا سے میری جب کینیڈین قوانین پر بات ہوئی میں نے اسے چیلنج کیا کہ وہ ثابت کرے کہ عیسائیوں کے ملک کینیڈا کا آئین بائبل کے قوانین کی بجائے قرآن کے قوانین سے مماثلت نہیں رکھتا۔ وہ کئی دن اس سوال پر غور کرتی رہی بالآخر اس پر یہ عقدہ کھلا کہ چونکہ اسلام فطرت کا دین ہے لہذا عقل اور تہذیب بالآخر انہی نتائج پر پہنچے گی جہاں سے اسلام نے شروعات کی۔ بالآخر شیری نے مسلمان ہونے کے بعد جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ اسلام جو کہتا ہے میرا دل اسے پہلے بھی قبول کرتا تھا بس مجھے معلوم نہیں تھا کہ اسلام یہ کہتا ہے۔ اسکے قبول اسلام کی وڈیو میری وال پر موجود ہے جس کا اختتام اسی جملے پر ہوا کہ میں نہیں جانتی تھی یہ اسلام ہے۔

اب اس میں درحقیقت ہماری کمزوری ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کا دین فطرت ہونا باور نہ کروا سکے۔ کرواتے بھی کیسے ہم تو جانتے ہی نہیں اسلام کیا ہے۔

چھے سو صفحات کا قرآن چھوڑ کر ہمیں چھے سو کتابیں اپنانی پڑیں اور ان کتابوں کی طوالت میں قرآن گویا ہم سے کھو گیا۔