غیر ملکی ادب
تبدیلی
او ہنری ۔ ترجمہ ، رومانیہ نور

                                                                                                                          

جیل کے جفت سازی کے کارخانے میں جمی ویلنٹائن دلجمعی سے جوتے سینے میں مصروف تھا کہ ایک محافظ اندر داخل ہوا اور اسے دفتر جانے کے لئے بلایا۔ وہاں وارڈن نے اسے پروانہ رہائی تھمایا جس پر آج صبح ہی گورنر نے دستخط کئے تھے۔ اسے بتایا گیا کہ اب وہ آزاد ہے۔ جمی نے کسی خوشی اور دلچسپی کا اظہار کئے بنا تھکن زدہ انداز میں پروانہ رہائی وصول کیا۔ اسے چار سال کے لئے جیل میں بھیجا گیا تھا اور وہ دس مہینوں سے وہاں تھا۔ مگر اسے توقع تھی کہ وہ تین مہینوں سے زیادہ وہاں نہیں ٹھہرے گا۔ جمی ویلنٹائین کے جیل سے باہر بہت سے کرم فرما تھے۔ ایسا شخص جس کے بہت سے کرم فرما ہوں وہ زیادہ عرصہ جیل میں قیام کی توقع نہیں رکھتا۔ ''ویلنٹائن!' وارڈن بولا '' تم کل صبح رہا کئے جاؤ گے۔ یہ تمہارے لئے ایک اچھا موقع ہے۔ اب سدھر جاؤ اور بندہ بن جاؤ۔ تم دل کے برے نہیں ہو۔ تجوریاں توڑنا بند کرو اور ایک بہتر زندگی کی گزر بسر کا سوچو۔'' میں؟'' جمی نے حیران ہو کر کہا '' میں نے پوری زندگی میں کبھی کوئی تجوری نہیں کھولی۔ ''''ارے ہاں۔ نہیں کبھی نہیں ''۔وارڈن طنزیہ طور پر ہنسا۔''غور کرتے ہیں اس معاملے پر کہ تمہارے ساتھ ایسا ظلم کیوں ہوا کہ سپرنگ فیلڈ میں تجوری ٹوٹنے پر تمہیں گرفتار کر لیاگیا۔ کیا یہ اس وجہ سے تھا کہ تم ثابت نہیں کر سکے تھے کہ جرم کے ارتکاب کے وقت تم کسی اور مقام پر تھے؟ تم شاید کسی اعلیٰ طبقے کی خاتون کے ساتھ تھے اور اس کا نام لینامناسب نہیں سمجھتے تھے اس وجہ سے؟ یا پھر اس کی وجہ یہ تھی کہ جج تمہارے ساتھ کوئی عناد رکھتا تھا جس کی وجہ سے سزا سنا دی؟ تم جیسے 'معصوم متاثرین' کوہمیشہ ایسی ہی وجوہات درپیش ہوتی ہیں تم کبھی جیل نہ جاتے سوائے اس کے کہ تم نے تجوری توڑی تھی۔''''میں؟'' جمی بولا۔ اس کے چہرے پر تا حال حیرت کے تاثرات تھے۔ '' میں تو زندگی بھر کبھی سپرنگ فیلڈ نہیں گیا'''اسے لے جاؤ '' وارڈن نے حکم دیا۔ '' اسے کپڑے اور باہر جانے کے لئے دیگر اشیائے ضرورت مہیا کرو اور کل صبح سات بجے یہاں لے کر آنا۔ اور ویلنٹائن صاحب! ان باتوں پر غور ضرور کرنا جو میں نے کہیں۔ ''
اگلی صبح سوا سات بجے ویلنٹائن دفتر میں موجود کھڑا تھا۔ اس کے جسم پر نیا لباس تھا جو اسکی جسامت پر پورا نہیں تھا۔ اس کے پاؤں میں نئے جوتے تھے جو اسے کاٹ رہے تھے۔ یہ وہی لباس تھا جو حسبِ معمول جیل سے رہا ہونے والے افراد کو فراہم کیا جاتا تھا۔ مزید برأں اسے قریب ترین شہر میں جانے کے لئے ریل کا کرایہ بھی دیا گیا۔ انھوں نے جمی کو پانچ اضافی ڈالر اس مفروضے کی بنیاد پر دئیے کہ وہ اسے ایک اچھا فرد بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔وارڈن نے اسے ایک سگار پیش کیا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ اور یوں جرم کی کتاب میں ویلنٹائن قیدی نمبر 9762 کاباب بند ہو گیا۔ 
مسٹر جیمز ویلنٹائن کھلی اور روشن فضا میں چلا آیا۔ اس نے پرندوں کے گیت سنے نہ ہرے بھرے درختوں کی قطاریں دیکھیں اور نہ ہی پھولوں کی مہک سونگھی۔ وہ سیدھا ایک ریستوران پر پہنچا۔ وہاں سب سے پہلے اس نے بھنے ہوئے مرغ اور وائٹ وائن کے ساتھ بھوک مٹا کرآزادی کا میٹھا مزہ چکھا۔ پھر اس نے سگار پیا جو معیار میں اس سگار سے کہیں بہتر تھا جو وارڈن نے اسے پیش کیا تھا۔ اس کے بعد وہ ریلوے سٹیشن آ گیا۔ اس نے چند سکے ایک اندھے فقیر کے کشکول میں اچھال دئیے جو وہاں بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا اور پھر ریل پر سوار ہو گیا۔تین گھنٹوں کی مسافت کے بعد وہ ایک چھوٹے سے قصبے میں ٹرین سے اتر گیا۔ یہاں وہ مائیک ڈولین کے کیفے میں پہنچا۔مائیک ڈولین وہاں اکیلا بیٹھا تھا۔ مصافحے کے بعد وہ گویا ہوا'' جمی میرے بچے! مجھے افسوس ہے کہ ہم جلد از جلد تمہارے لئے کچھ نہ کر سکے کیونکہ اسپرنگ فیلڈ میں ہمیں احتجاج کا سامنا تھااور گورنر راضی نہیں ہو رہا تھا۔ یہ بہت آسان کام نہیں تھا۔ بہر حال اب سب کچھ ٹھیک محسوس ہو رہا ہے نا؟''''ہاں بہت اچھا!'' جمی نے کہا۔ '' کیا میرا کمرہ ویسے ہی میرا منتظر ہے؟ مہربانی فرما کر چابی تو میرے حوالے کر دیں۔ چابی لے کر وہ اوپر چلا گیا۔ اور گھر کے عقب میں ایک کمرے کا دروازہ کھولا۔ سب کچھ ویسے ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ جب وہ جمی کو گرفتار کرنے آئے تھے تو وہ انھیں یہیں ملا تھا۔ فرش پر کپڑے کا چھوٹا سا ٹکرا گرا ہوا تھا۔ یہ سپاہی کے کوٹ سے پھٹا تھا جب وہ گرفتاری کے لئے جمی سے ہاتھا پائی کر رہا تھا۔ دیوار کے ساتھ ایک مسہری رکھی تھی۔ جمی اسے کھینچ کر کمرے کے وسط میں لے آیا۔ اس کے پیچھے کی دیوار کسی بھی عام دیوار کی طرح ہی دکھائی دیتی تھی۔ مگر اب جمی نے ڈھونڈ کر اس میں ایک چھوٹا سا دروازہ کھولا اور اندر سے گرد میں اٹا ایک سوٹ کیس کھینچ لایا۔ اس نے سوٹ کیس کھولا اور نقب زنی کے آلات پر محبت بھری نظر ڈالی۔ ایسے عمدہ آلات مشرق میں کہیں ملنے کے نہیں تھے۔ وہ مکمل سیٹ تھا۔ ان میں ہر سائز اور وضع کی تمام ضروری چیزیں موجود تھیں۔ وہ سٹیل کی خصوصی دھات سے بنے ہوئے تھے۔ ان کا ڈیزائن جمی نے خود تیار کیا تھا اور بہت سی جدتیں متعارف کروائی تھیں۔ جمی کو اس بات پر بہت فخر تھا۔ ان پر نو سو ڈالر لاگت آئی تھی۔ اس نے یہ اوزار ایسی جگہ سے بنوائے تھے جہاں پیشہ وروں کے لئے ایسی اشیا تیار کی جاتی تھیں۔آدھے گھنٹے بعد جمی نیچے آیا اور کیفے میں داخل ہو گیا۔ اب وہ عمدہ لباس میں ملبوس تھا جو اس کے جسم پر موزوں تھا۔ اس کے ہاتھ میں گرد آلود بریف کیس صاف ستھری حالت میں تھا۔ 
'' تمہارے ذہن میں کوئی منصوبہ ہے؟'' مائیک ڈولین نے استفسار کیا۔ میں؟'' جمی نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔ '' میں سمجھا نہیں۔ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ میں تو نیو یارک کی مشہورِ زمانہ بریڈ اور کیک بنانے والی کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ اور ملک بھر میں بہترین بریڈ اور کیک فروخت کرتا ہوں '' مائک ڈولین اس بیان سے بہت محظوظ ہوا اور نتیجتاً جمی کو اس کے ساتھ تھوڑا سا دودھ پینا پڑا ورنہ تو وہ توانائی بخش مشروب کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا۔ 
ویلنٹائن قیدی نمبر 9762 کی جیل سے رہائی کے ایک ہفتے بعد ریاست انڈیانا کے شہر رچمنڈ میں نقب زنی کا واقعہ رونما ہوا اور آٹھ سو ڈالر نکال لئے گئے۔ واردات اس صفائی سے کی گئی تھی کہ نقب زن نے پیچھے کوئی سراغ نہیں چھوڑا تھا۔اس واقعہ کے دو ہفتے بعد لاگن سپورٹ کے شہر میں ایک تجوری ٹوٹی اور مجرم پندرہ سو ڈالر لے اڑا۔ یہ ایک جدید طرز کی تجوری تھی جس کے متعلق دعویٰ تھا کہ یہ نقب زنی سے محفوظ ہے۔ پھر جیفر سن شہر میں بینک کی ایک پرانی طرز کی تجوری ٹوٹی اور پانچ ہزار ڈالر نکال لئے گئے۔ بین پرائس کی توجہ ان معاملات کی طرف مبذول کرانے کیلئے یہ ایک بہت بڑا نقصان تھا۔ بین پرائس ایک سپاہی تھا جو ایسے جرائم کی چھان بین کرتا تھا۔ سو اس نے ان معاملات پر کام کرنا شروع کر دیا تھا وہ ان تمام مقامات پر گیا جہاں یہ نقب زنی کے وقوعے ہوئے تھے۔
دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ نہایت صفائی اور مہارت سے تمام وارداتیں ایک ہی انداز میں کی گئی ہیں۔ شواہد کی روشنی میں بین پرائس کو یہ کہتے سنا گیا،میں دیکھ سکتا ہوں کہ ان تمام وارداتوں کے پسِ پردہ جمی ویلنٹائن ہے۔ اس نے پھر سے دھندہ شروع کر دیا ہے۔ انداز تو دیکھو جس طرح اس نے نقب زنی کی ہے۔ وہ یہ سب کچھ یونہی آسانی سے کر لیتا ہے جیسے نم زمین میں سے گاجر اکھاڑ لی جائے۔ صرف جمی وہ شخص ہے جس کے پاس ایسا کرنے کے ماہرانہ اوزار ہیں۔ اور صرف وہی وہ شخص ہے جو جانتا ہے کہ کس طرح ان اوزاروں کو یوں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ ہاں مجھے مسٹر ویلنٹائن مطلوب ہے۔ اگلی مرتبہ وہ جیل کی ہوا کھاتا ہے تو تب تک وہاں رہے گا جب تک اس کا قصہ تمام نہیں ہو جاتا۔ ''
بین پرائس جان گیا تھا کہ جمی کا طریقہ واردات کیا ہے۔ جمی ایک سے دوسرے دور دراز شہر میں جاتا تھا۔ تنہا واردات کرتا تھا۔ جب کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا تو وہ نکلنے میں ہمیشہ پھرتی دکھاتا تھا۔ وہ اعلیٰ طبقے کے نفیس اور مالدار لوگوں کی معیت میں رہتا تھا۔ یہ تمام حقائق مل کر اسے کامیاب مجرم بناتے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ اس پر ہاتھ ڈالنا آسان نہ تھا۔ بہر حال یہ سن کر مال و دولت سے بھری تجوریوں کے مالکان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کہ بین پرائس نے ویلنٹائن کی گرفتاری کی کوششوں پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ 
ایک سہ پہر جمی ویلنٹائن اپنے سوٹ کیس کے ہمراہ ریاست آرکنساس کے ایک چھوٹے سے قصبے ایلمور میں اترا جو ریلوے سٹیشن سے پانچ کلو میٹر کی دوری پر واقع تھا۔ جمی اس وقت کالج کے ایک نوجوان طالبعلم کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ وہ ہوٹل کی جانب جانیوالی گلی میں چلا جا رہا تھاجب گلی کی نکڑ پر اس کے پاس سے ایک نوجوان لڑکی گزری اور ایک دروازے میں داخل ہوئی جس پر جلی حروف میں لکھا تھا'' ایلمور بینک'' جمی ویلنٹائن نے لمحہ بھر کو اس کی آنکھوں میں دیکھا اور خود کو فراموش کر بیٹھاکہ وہ کیا تھا۔ وہ یکسر ایک اور شخصیت میں ڈھل گیا۔ لڑکی نے آنکھیں جھکا لیں مگر ایک شوخ رنگ کی لہر اس کے چہرے پر بکھر گئی تھی۔ جمی جیسے انداز و شخصیت کے نوجوانوں کی شاذ و نادر ہی قصبے میں آمد ہوتی تھی۔جمی کو بینک کے دروازے پر ایک لڑکا نظر آیا۔وہ اس سے وقفے وقفے سے قصبے کے متعلق سوالات پوچھنے اور معلومات لینے لگا۔ کچھ توقف کے بعد نوجوان حسینہ بینک سے باہر نکلی اور اپنی راہ چل دی۔ اس نے یوں ظاہر کیا جیسے اس نے جمی کو نہیں دیکھا۔
'' یہ نوجوان لڑکی بھلا پولی سمپسن نہیں ہے؟'' جمی نے مشتبہ انداز میں کہا۔ نہیں، یہ تو اینابل ایڈم ہے۔ اس بینک کا مالک اُس کا باپ ہے۔ تم ایلمور کس سلسلے میں آئے ہو؟'' لڑکے نے پوچھا۔جمی ہوٹل چلا آیا۔ وہاں اس نے رالف ڈی سپنسر کے نام سے رجسٹریشن کروائی اور ایک کمرہ کرائے پر حاصل کر لیا۔ وہ کاؤنٹر پر جھک گیا اور کلرک سے اپنی آمد کا مدعا بیان کیا۔ اس نے کلرک کو بتایا کہ وہ ایلمور میں کاروبار شروع کرنے کی غرض سے آیا ہے۔ قصبے میں ''جفت فروشی کا کاروبار کیسا رہے گا؟ کیا یہاں پر پہلے سے کوئی اچھی دکان ہے؟''
کلرک جمی کے عمدہ اطوار و لباس سے بہت مرعوب ہوا۔ وہ بھی جمی کی طرز کا فیشن پرست اور قصبے کا نمایاں نوجوان تھا۔ مگر جمی سے مل کر اسے اپنی کمی و کجی کا احساس ہوا۔ اس نے خلوصِ دل سے معلومات مہیا کیں
'' ہاں ایلمور میں ایک اچھی جوتوں کی دکان کی ضرورت ہے۔ یہاں ایسا کوئی مرکز نہیں جہاں صرف جوتے بیچے جاتے ہوں۔ وہ صرف بڑی دکانوں پر دیگر اشیاء کے ساتھ فروخت ہوتے ہیں۔ ایلمور میں ہر طرح کا کاروبار خوش آئند تصور ہو گا۔ ''اس نے توقع ظاہر کی کہ مسٹر سپنسر ایلمور میں قیام پذیر ہونے کا فیصلہ کریں گے۔ رہنے کے لئے یہ ایک خوشگوار قصبہ ہے اور یہاں کے لوگ دوست خُو ہیں۔
مسٹر سپنسر نے سوچا کہ وہ کچھ دن یہاں رہ کر حالات کا جائزہ لے گا اور قصبے کے متعلق کچھ جانے گا۔ اب کلرک نے اس کا سوٹ کیس اوپر پہنچانے کے لئے لڑکے کو بلانے کی چنداں ضرورت محسوس نہ کی اور خود ہی سوٹ کیس اوپر پہنچانے کی ٹھانی۔ سوٹ کیس معمول سے کچھ زیادہ وزنی تھا۔
جمی ویلنٹائن کا وجود خاک ہو گیا تھا اور اس میں سے رالف ڈی سپنسر کی نادر الوجود شخصیت ظہور پذیر ہوئی۔ راکھ میں دبی چنگاری سے دفعتاً محبت کا شعلہ بھڑکا اور جمی ویلنٹائن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مسٹر سپنسر 'ایلمور' میں ہی قیام پذیر ہو گیا۔ اس نے جُفت فروشی کا کاروبار شروع کر دیا۔ کاروبار اچھا چل نکلا۔ اس نے وہاں وسیع حلقہ احباب بنا لیا۔ اس کی دلی تمنا بر آئی تھی۔ اس کی اینابل ایڈمز سے راہ و رسم ہو گئی تھی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی محبت شدید سے شدید تر ہوتی گئی اور وہ اینابل کی اداؤں اور دلکشی میں کھوتا چلا گیا۔ ایک سال کے اختتام تک ہر کوئی مسٹر رالف کا گرویدہ تھا۔ اس کا جفت فروشی کا کاروبار خوب فروغ پا رہا تھا۔ وہ اور اینابل دو ہفتوں بعد شادی کے بندھن میں بندھنے والے تھے۔ مسٹر ایڈم جو اس چھوٹے سے قصبے کے بینکار تھے انھیں مسٹر سپنسر بہت پسند آیا تھا۔ اینابل کو اس پر بہت فخر تھا۔ وہ ایڈمز خاندان کا ہی فرد دکھائی دیتا تھا۔ ایک روز جمی اپنے کمرے میں بیٹھا اورایک پرانے دوست کو مندرجہ ذیل متن پر مبنی خط لکھاجو اس نے سینٹ لوئیس میں ایک محفوظ پتے پر روانہ کر دیا۔
پیارے پرانے دوست!
میں تمھیں اگلے بدھ لٹل راک میں سلیوان کے مقام پر رات نو بجے ملنا چاہتا ہوں۔ میں تمہارے ساتھ اپنے کچھ معاملات نمٹانا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے آلات کی کِٹ بھی بطورِ تحفہ عطا کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ انھیں پاکر تمھیں انتہائی مسرت ہو گی۔ تم انھیں ہزار ڈالر میں بھی نہ لے سکتے۔ بِلی! میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں نے سال بھر پہلے پرانا دھندہ ترک کر دیا ہے۔ میرا ایک بہت عمدہ سٹور ہے۔ میں اب ایماندارانہ زندگی بسر کر رہا ہوں۔ اور میں دو ہفتوں کے بعد اس کرہ ارض کی سب سے اچھی لڑکی سے شادی کرنے والا ہوں۔ یہی زندگی ہے۔۔ صراطِ مستقیم پر چلنا ۔میں کسی دوسرے کی دولت کو اب ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔ شادی کے بعد میں یہاں کاروبار بیچ کر مغرب میں چلا جاؤں گا جہاں کوئی مجھے اور میری سابقہ زندگی کے بارے میں جاننے والا کوئی نہ ہو۔ بِلی! وہ ایک فرشتہ صفت لڑکی ہے۔ مجھ پر بہت اعتبار کرتی ہے۔ میں اپنی کل کائنات کی خاطر مزید کوئی غلط قدم نہیں اٹھانا چاہتا۔ اپنی آمد کو یقینی بنانا۔ میں لازماً تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ اوزار میں اپنے ہمراہ لیتا آؤں گا۔
تمہارا پرانا دوست!
جمی!
جمی کے یہ خط روانہ کرنے کے بعد سوموار کی رات بین پرائس رازداری اور خاموشی سے ایلمور پہنچ گیا۔ وہ خاموشی سے اس وقت تک قصبے میں گھوما پھرا جب تک کہ تمام مطلوبہ معلومات حاصل نہ کر لیں۔ گلی کے پار ایک دوا خانے سے وہ سپنسر ڈی رالف اور اس کی دکان پر بہتر انداز سے نظر رکھ سکتا تھا۔ اچھا تو جمی صاحب بینکر کی بیٹی سے شادی کرنے چلے ہیں۔'' بین نے خود کلامی کی۔ '' بہر حال مجھے اس کا کامل یقین نہیں۔''اگلی صبح جمی نے ناشتہ مسٹر ایڈم کے گھر پر کیا۔ اس روز وہ شادی کے لباس اور اینابل کے تحفے کی خریداری کے لئے 'لٹل راک ' جا رہا تھا۔ جب سے وہ ایلمور آیا تھا تو قصبے سے باہر یہ اس کا پہلا سفر ہوتا۔ ان وارداتوں کو سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا اور اس کا خیال تھا کہ اب وہ بے خوف وخطر گھوم پھر سکتا ہے۔
ناشتے کے بعد ایڈم کا خاندانی گروہ جس میں مسٹر ایڈم، اینابل، جمی، اور اینابل کی شادی شدہ بہن اپنی دو چھوٹی بچیوں کے ہمراہ جن کی عمریں پانچ اور نو سال تھیں، شامل تھے وہ سب بینک کی طرف محوِ سفر ہوئے۔ راستے میں وہ اُس ہوٹل کے پاس سے گزرے جہاں جمی ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ بھاگ کر اپنا بریف کیس اٹھا لایا۔ پھر وہ بینک آ گئے۔ وہاں ڈولف گبسن بگھی کے ساتھ جمی کو ریلوے سٹیشن پر چھوڑنے کے لئے اس کا منتظر تھا۔ سب لوگ بشمول جمی بینک میں داخل ہو گئے۔ جناب ایڈم کے ہونیوالے داماد کو ہر جگہ خوش آمدید کہا گیا۔ کلرک اس وجیہہ اور پسندیدہ نوجوان سے مل کر بہت خوش تھے جو مس اینابل سے شادی کرنے والا تھا۔ جمی نے سوٹ کیس نیچے رکھ دیا۔ اینابل جس کا دل خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا بہت خوشگوار موڈ میں تھی۔ اس نے جمی کا ہیٹ سر پر رکھ کر سوٹ کیس ہاتھ میں اٹھا لیا۔ میں کیسی لگتی ہوں؟'' اس نے شوخی سے پوچھا۔ رالف یہ کس قدر وزنی ہے۔ اس طرح محسوس ہوتا ہے جیسے اس میں سونے کی اینٹیں بھری ہوں۔''
''اس میں کچھ ایسی اشیاء ہیں جن کی دکان پر ضرورت نہیں تھی۔ میں شہر جا رہا ہوں تو سوچا واپس کرتا آؤں گا۔ اس طرح الگ سے پہنچانے کا خرچ بچ جائے گا۔ میں شادی شدہ ہونے والا ہوں۔ مجھے اب بچت کے طریقے سیکھنے چاہئیں۔''
'بینک ایلمور' میں ایک نئی تجوری آئی تھی۔ جناب ایڈم کو اس پر بہت فخر تھا۔ اور وہ ہر کسی کو دعوتِ نظارہ رہے تھے۔ یہ ایک چھوٹے کمرے جتنی بڑی تھی جس میں ایک مخصوص دروازہ تھا۔ دروازے کا کنٹرول اس کی گھڑی میں تھا۔ گھڑی کا استعمال کرتے ہوئے بینکار نے تجوری کھولنے کا وقت طے کرنا تھا۔ اس طے شدہ وقت کے علاوہ کوئی بھی حتیٰ کہ بینکار خود بھی تجوری نہیں کھول سکتا تھا۔ جناب ایڈم نے سپنسر سے بہت صراحت کے ساتھ اس کی تفصیلات بیان کیں۔ سپنسر نے عاجزانہ دلچسپی تو ظاہر کی مگر لگتا تھا بات اس کے سر سے گزر گئی ہے۔ چمکتی ہوئی دھات کی گھڑی اور نابیں دیکھ کر مے اور اگاتھا بہت لطف اٹھا رہی تھیں۔
جب وہ اس تجوری کی مدح میں مصروف تھے تو بین پرائس چپکے سے اندر داخل ہوا۔ اپنی کہنیاں ریلنگ پر ٹکا کر وہ عمومی طور پر اندر کا منظر دیکھنے لگا۔ اس نے ملازم کو بتایا کہ وہ کوئی لین دین کرنے نہیں آیا بلکہ وہ ایک واقف کار سے ملاقات کے لئے آیا ہے۔ اچانک ہی خواتین کی جانب سے چیخ وپکار کی آواز بلند ہوئی۔ ناگہانی طور پر نو سالہ اگاتھا نے پانچ سالہ مے کو کھیل ہی کھیل میں تجوری کے اندر بند کر دیا تھا۔ بوڑھے بینکار نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی اور چند ثانیے اسے کھینچے رکھا۔ '' دروازہ نہیں کھل سکتا۔'' وہ چلایا۔ '' گھڑی پر تو ابھی کوئی وقت ہی طے نہیں کیا گیا تھا۔''
اگاتھا کی ماں دوبارہ ہسٹریائی انداز میں چلائی۔ خاموش!'' ایڈم نے کربناک انداز میں کہا اور لرزتا ہوا ہاتھ بلند کیا۔ ''ایک لمحے کے لئے سب خاموش ہو جائیں''
''اگاتھا! '' وہ باآوازِ بلند پکارا۔ '' میری بات سنو!'' اس خاموشی میں وہ خوف اور دہشت سے وحشیانہ طور پر چلاتی ہوئی بچی کی مدہم آواز سن سکتے تھے۔''میری پیاری بچی ! میری جان!'' ماں بین کرنے لگی۔ '' وہ خوف سے مر جائے گی۔۔دروازہ کھولو۔اسے توڑ ڈالو۔لوگو! کیا تم کچھ نہیں کر سکتے؟''شہر کے آس پاس کوئی ایسا شخص نہیں جو یہ دروازہ کھول سکے؟'' مسٹر ایڈم نے کپکپاتی ہوئی آواز میں پوچھا۔''اوہ میرے خدایا! سپنسر ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟ وہ معصوم بچی زیادہ دیر اندر نہیں رہ سکتی۔
اندرسانس لینے کے لئے ہوا ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ خوف اور دہشت اسے مار ڈالیں گے۔ ''اگاتھا کی ماں اب دیوانہ وار ہاتھوں سے دروازہ پیٹ رہی تھی۔ کسی نے ڈائنا مائیٹ کا جاہلانہ مشورہ دیا۔ اینابل سپنسر کی جانب پلٹی۔اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں درد نمایاں تھا مگر ان میں ابھی امید کی کرن بھی جگمگا رہی تھی۔ کوئی بھی عورت جس مرد سے پیار کرتی ہے،اس کی قوتوں کے سامنے ہر ناممکن کو ہیچ سمجھتی ہے۔ رالف! تم کچھ نہیں کر سکتے؟تم کوئی کوشش کیوں نہیں کرتے؟''اپنی ہوشیار آنکھوں اور ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ سجائے اس نے اینابل کی طرف دیکھا۔ اینابل!'' وہ بولا '' جو گلاب تم نے سجایا ہوا ہے وہ مجھے دے دو۔ کیا تم دو گی؟''وہ پُر یقین نہیں تھی کہ اس نے درست طور پر سنا ہے تاہم اس نے لباس سے پھول کو علیحدہ کیا اور جمی کے ہاتھ پر دھر دیا۔ جمی نے اس پھول کو واسکٹ کی جیب میں رکھ لیا۔ کوٹ اتار پھینکا اور آستینیں اوپر چڑھا لیں۔ اس کے ساتھ ہی رالف ڈی سپنسر کا وجود مٹ گیا اور اس میں جمی ویلنٹائن کی روح حلول کر گئی۔''سب لوگ دوازے سے دور رہیں'' اس نے حکم جاری کیا۔ اس نے سوٹ کیس میز پر رکھا اور اسے الٹا کر خالی کر دیا۔ اس لمحے اسے کسی کی بھی موجودگی کا ہوش نہیں تھا۔ اس نے چمکدار عجیب وغریب آلات اٹھائے اور سیٹی بجاتے ہوئے کام میں مگن ہو گیا جیسا کہ وہ عموماً واردات کے وقت کرتا تھا۔ گہری خاموشی میں دیگر افراد اسے یوں ساکت و جامد کھڑے دیکھ رہے تھے گویا کسی جادو کے زیرِ اثر ان سے حرکت کی قوت چِھن گئی ہو۔ ایک منٹ کے اندر اندر ہی جمی کی لاڈلی ڈرل سٹیل کے دروازے کو بہت ہمواری کے ساتھ کاٹ رہی تھی۔ صرف دس منٹ میں جو کسی بھی واردات کے لئے اس کا ریکارڈ وقت تھا، جمی نے بولٹ کھینچ کر دروازہ کھول دیا۔ اگاتھا تقریباً گرنے والی تھی مگر اس کی ماں نے آگے بڑھ کر بازوؤں کی محفوظ پناہ گاہ میں تھام لیا۔ جمی ویلنٹائن نے اپنا کوٹ پہنا اور ریلنگ سے باہر صدر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ چلتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ دور سے اسے کسی نے پکارا ہے'' رالف'' مگر وہ رکا نہیں۔ صدر دروازے پر اس کے راستے میں ایک تنو مند شخص کھڑا تھا۔ '' ہیلو بین!'' جمی نے کہا۔ اس کے ہونٹوں پر ہنوز عجیب مسکراہٹ تھی۔ '' آخرکار میں تمہارے ہتھے چڑھ ہی گیا۔ بہر حال آؤ چلتے ہیں۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔'' 
بین پرائس نے جمی سے بھی زیادہ عجیب رویے کا مظاہرہ کیا۔ '' میرا اندازہ ہے کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے مسٹر سپنسر! میرا نہیں خیال کہ میں آپ کو پہچانتا ہوں۔ جائیے باہر بگھی آپ کی منتظر ہے۔''