كہربا

مصنف : ادریس آزاد

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : مارچ 2024

سائنس و ٹيكنالوجی

كہربا

ادريس آزاد

ایک خیال ہے کہ قدیم دور میں جب اہل ِ یورپ کے صرّاف زیورات بیچتے تو کہربا کے نگینوں پرانگلی رکھ کر کہتے، یہ کہرباہے۔یہ خدا کے جسم کا ٹکڑاہے۔اس کی بے قدری نہ کرنا۔یہ بہت مقدس اور قیمتی پتھر ہے۔یونانی دیومالا میں ہے کہ سُورج دیوتا (ہیلیَس) کے کئی بیٹے تھے۔رومن شاعر اووِڈ(Ovid)نے اپنے ایک ’’ میٹامورفاسس‘‘ میں لکھاہے کہ ہیلیَس کا ایک بیٹا ’’فائتھان(Phaethon) ‘‘ تھا، جسے ہیلیَس کی جائز اولاد نہ ہونے کا طعنہ ملا کرتا تھا۔فائتھان نے اپنے باپ سے درخواست کی کہ وہ اسے جائز اولاد ہونے کا ثبوت فراہم کرے۔ہیلیَس نے وعدہ کرلیا کہ وہ ، یہ ثابت کرنے کےلیے کہ فائتھان اس کی جائز اولاد ہے، فائتھان کو ، کوئی بھی منہ مانگی چیز دےگا۔ یہ سن کر فائتھان نے ہیلیَس سے کہا کہ وہ اسے سُورج کا رتھ عارضی طورپر دے دے، جس پر سوار ہوکر وہ آسمانوں کی سیر کرےگا۔ ہیلیَس وعدے کی وجہ سے مجبور تھا، چنانچہ اس نے فائتھان کو رتھ دے دیا۔ فائتھان رتھ پر سوار ہوکر رتھ کو آسمانوں میں اڑانے لگا۔ جب رتھ کے گھوڑوں کی رفتار بہت تیز ہوگئی تو فائتھان انہیں قابو نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ سُورج کا رتھ زمین سے رگڑ کھاکرگزرا تو زمین زخمی ہونے لگی۔یہ دیکھ کرزیوس دیوتا نےآسمانی بجلی کا ایک کڑکا فائتھان پر فائر کیا۔اس کڑکے کی ضرب کھا کر فائتھان زمین پردریائے پو(Po) میں گرا اور ڈوب گیا۔فائتھان کی بہنوں نے اپنے بھائی کا یہ حال دیکھا تو رونے لگی۔ وہ دریا کے کنارے کھڑی روتی رہیں، روتی رہیں۔ یہاں تک کہ دیوتا ان کے اِس ضدی رویّے اور آہ و بکا سے تنگ آگئے اور انہیں درخت بنادیا۔ وہ جب درختوں میں تبدیل ہوگئیں تو تب بھی روتی رہیں۔ چنانچہ درختوں کے آنسو بہہ بہہ کر درختوں پر جمنے لگے۔ وہ چیز جسے ہم اردو میں کہربا اور انگریزی میں ایمبر(Amber) کہتے ہیں، وہ دراصل فائتھان کی بہنوں کے آنسو ہیں۔

کہربا کیا ہے؟ درختوں کے تنوں پر نمودار ہونے والی گوند یا لعاب تو آپ نے دیکھی ہوگی۔نہیں یہ گوند یالعاب براہِ راست کہربا نہیں ہے۔ یہ گوند جب بہت زیادہ پرانی ہوجائے تو کہربا کہلاتی ہے۔اورکہربا کا تلفظ پیش کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ زبر کے ساتھ ہے، یعنی کَہرُبا۔یہ گوند شفاف ہوتی ہے اور عموماً پیلے، سنگتری، گلابی یا سرخ رنگ کی ہوتی ہے۔ بہت زیادہ شفاف ہونے کی وجہ سے اس گوند کے ایک موٹے قطرے کو اندر تک دیکھاجاسکتاہے۔ درخت کے تنے یا کسی بھی حصے میں جہاں کہربا کے بہت زیادہ قطرے جمع ہوتے رہیں، وہاں بڑے سائز کا کہربا وجود میں آجاتاہے۔یہ گوند جتنی پرانی ہوتی چلی جاتی ہے، اتنی زیادہ سخت ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ ہزاروں یا لاکھوں سال پرانی گوند پتھر یا نگینے کی طرح سخت ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہربا کو قیمتی زیورات میں نگینوں کے طورپر استعمال کیا جاتاہے۔ اور آج نہیں بلکہ کئی ہزار سال سے یہ قیمتی زیورات کا لازمی جزو ہے۔ دراصل درخت اپنے بدن سے یہ لعاب کیڑے مکوڑوں اور جراثیم سے اپنی حفاظت کے لیے خارج کرتے ہیں۔کئی دفعہ ایسا ہوتاہے کہ کوئی مکھی یا کیڑا مکوڑا اس لعاب میں پھنس کر مرجاتاہے۔ جب یہ لعاب صدیوں یا ہزاروں سال بعد دیکھی جائے تو وہ جاندار اپنے تمام اجزأ کے ساتھ سالم حالت میں موجود دیکھاجاسکتاہے۔جیوریسک پارک فلم میں اسی کہربا کے اندر جما ہوا ڈائناسار کا جین نکال کر اسے کلوننگ کے ذریعے دوبارہ پیداکیا جانا دِکھایا گیاہے۔

کہربا میں یہ خاصیت ہے کہ اگر اِسے کسی اون یا فَریا ریشمی کپڑے کے ساتھ رگڑا جائے تو یہ ہلکی پھلکی چیزوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، مثلاً پرندے کے پروں ، کاغذ کے ٹکڑوں یا خشک مٹی کے ذرّات کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔قدیم دور میں ابھی پلاسٹک یا شیشہ تو ایجاد نہیں ہوئے تھے، اس لیے عام گھریلو کنگھی یا کسی شیشے کے راڈ کو ریشمی کپڑے کے ساتھ رگڑ کر وہ لوگ یہ تجربہ ابھی انجام نہ دے سکتے تھے۔سب سے پہلے یونانی فلسفہ کے بابا آدم تھیلیس نے کہربا کی اس قوتِ کشش پر فلسفیانہ نگاہ سے غورکیا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آئی تو اس نے اسے زندہ شئے سمجھ لیا۔ اس نے کہا کہ کہربا میں رُوح ہے۔ اس نے مزید کہا کہ’’ کائنات کی ہرشئے میں خدا ہے‘‘۔

یہ تو صدیوں بعد یعنی سولہویں صدی میں ’’ولیم گِلبرٹ‘‘ نے جب مقناطیس کے موضوع پر کتاب لکھی تو اسے کہربا یعنی ایمبر کا بھی خیال آیا۔ اسے خیال آیا کہ کہربا بھی تو مقناطیس کی طرح باریک چیزوں کو اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔اُس کے ذہن میں سوال پیدا کہ کہیں یہ بھی مقناطیس ہی تو نہیں؟ بس یہ خیال آنے کی دیر تھی کہ ولیم گلبرٹ کے دل و دماغ پر کہربا کی کشش کسی دیوانگی کی طرح سوار ہوگئی۔ اس کے بعد تو وہ جہاں جاتا، جس چیز کو ہاتھ لگاتا ، اُسے ایک بار ضرور ہرقسم کےکپڑے یا ریشم یا اُون کے ساتھ رگڑ کر چیک کرتا کہ آیا اِس میں بھی کشش ہے یا نہیں۔کسی قوم کی نشاۃ کے لیے ایسے ہی بچگانہ وار سائنسدانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اُن کا یہی بچوں جیسا تجسس ہوتاہے جو انہیں صدیوں بعد بابائے فُلاں اور بابائے فُلاں بنادینے کا سبب بنتاہے۔برقیات(Electricity) کے اگرچہ تین چار بابے ہیں، لیکن ’’ولیم گِلبرٹ‘‘ کا نام سب سے اُوپر ہے۔گلبرٹ کی یہ دیوانگی بھی دنیا کے بڑے کام آئی۔اس پر منکشف ہوا کہ فقط کہربا یعنی ایمبر(amber) ہی باریک اور ہلکی چیزوں کو اپنی طرف نہیں کھینچتا بلکہ دنیا میں بےشمار اشیأ ایسی ہیں جو ہلکے باریک اجسام کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ اِسی طرح اِن چیزوں کا صرف اُون یا فَر کے ساتھ رگڑنا ہی ضروری نہیں بلکہ کئی قسم کے ایسے کپڑے اور اشیأ ہوسکتی ہیں جن کے ساتھ رگڑنے سے یہ کشش پیدا ہوجاتی ہے۔ گلبرٹ اس نتیجے پر بھی پہنچا کہ یہ کشش مقناطیس کی کشش سے مختلف ہے۔ اس نے تین فرق لکھے،

۱۔ مقناطیس صرف لوہےیا لوہے کی خصوصیات جیسی دھاتوں کو اپنی طرف کھینچتاہے، جبکہ کہربا ہرشئے کو اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔

۲۔ مقناطیس مستقل طورپر مقناطیس ہوتے ہیں جبکہ کہربا کو رگڑنا پڑتاہے۔

۳۔ مقناطیس آپس میں ایک دوسرے کو کشش بھی کرتے ہیں اور پَرے بھی دھکیلتے یعنی دفع بھی کرتے ہیں، جبکہ کہربا صرف کشش کرتے ہیں۔

آپ غور کریں تو گلبرٹ کا تیسرا نتیجہ غلط تھا۔ کہربا بھی دونوں قوتوں کے حامل ہوتے ہیں، کشش بھی اور دفع بھی۔البتہ اس پر تفصیلی بات اگلے مضمون میں کرونگا، انشااللہ۔

گلبرٹ نے کہربا کی اس قوتِ کشش کو اپنی کتاب میں جو نام دیا، وہ نام تاریخِ سائنس میں بڑی اہمیت اور شہرت کا حامل ہے۔ درختوں کی ہزاروں سالہ پرانی گوند کو، جسے ہم کہربا یا ایمبر کےنام سے جانتے ہیں، یونانی زبان میں الیکٹران کہا جاتاہے۔ یونانی زبان والا الیکٹران ’’کے‘‘ کے ساتھ الیکٹران(Elektron) ہے۔گلبرٹ نے اس نام کو لاطینیایا اوراس قوت کو ’’الیکٹریشس‘‘ یعنی الیکٹرک فورس کا نام دیا۔چونکہ یونانی میں الیکٹران، کا اُردو میں بعینہ معنی ’’ کَہرُبا‘‘ہے، اس لیے ہم چاہیں تو الیکٹران کو ہی کہربا کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح الیکٹرک فورس کو کہربائی قوت، اور الیکٹرک فیلڈ کو کہربائی میدان بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ الیکٹران کو الیکٹران ہی رہنے دیا جائے تو اس میں سب کی ہی بھلائی ہے۔

نشانی کے لیے بتاتا چلوں کہ گلبرٹ کا دور ، وہ دورہے جب ہمارے ہاں مغلِ اعظم جلال الدين محمد اکبر کی حکومت تھی۔ عرب پر خلافتِ عثمانیہ کا پرچم لہراتا تھا جبکہ حجاز میں نجدی قبائل مکے پر متواتر حملے کررہے تھے۔محمد بن عبدالوھاب نجدی کی پیدائش اِس دور کے لگ بھگ سوسال بعد ہوئی۔