وہ پانچ سوال جن کا جواب سائنس آج تک نہیں دے سکی

مصنف : بی بی سی

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : فروری 2024

سائنس و ٹيكنالوجی

وہ پانچ سوال جن کا جواب سائنس آج تک نہیں دے سکی

بی بی سی 

 آج سائنسی تحقیق نے جہاں بے پناہ ترقی کر لی ہے لیکن اب بھی چند ایسے سوال ہیں جن کے جواب تلاش نہیں کیے جا سکے ہیں۔ان میں سے کچھ سوال ہمیشہ سے تھے اور کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں اضافے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے آپ کسی چیز کے بارے میں جتنا جانتے جاتے ہیں آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس متعلق اتنا ہی کم جانتے ہیں۔لہٰذا سائیکل کس طرح سیدھی رہتی ہے سے لے کر ناقابل فہم نایاب پرائم نمبرز تک ایسے نامعلوم سوالات کا ایک وسیع سمندر ہے۔یہ بہت اچھی بات ہے، انسان کے پاس سوالات کبھی ختم نہیں ہونے چاہیے، اور وہ صرف اس لیے نہیں کہ اس سے جواب ملنے کی امید رہتی ہے بلکہ یہ انسانی ذہن کی جبلت ہے جیسا کہ فلسفی تھامس ہابز نے کہا تھا کہ سوال انسانی دماغ کی حرص ہے۔لیکن قدرت کے ان ان گنت سوالوں میں سے کون سے پانچ سوال ایسے ہیں جو ہمیشہ سے انسان کے لیے ایک کسوٹی بنے رہے ہیں- 

1. کائنات کس چیز سے بنی ہے؟

کائنات بذات خود سوالوں کا ایک گڑھ اور ذریعہ ہے جیسا کہ اس کے وجود سے پہلے کیا تھا، کیا یہ لامحدود، بے پناہ اور لامتناہی ہیں، کیا یہ منفرد ہے اور ایسے بہت سے سوالات۔مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ سائنسدان آج تک اس کائنات کے صرف پانچ فیصد حصے کے متعلق جان سکے ہیں۔ اگرچہ یہ جاننا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ہم کائنات کے ایٹم کے بارے میں بات کر رہے ہیں جیسے کہ اس کے اجزاء، پروٹون، الیکٹران اور نیوٹران اور نیوٹرینو وغیرہ یعنی وہ پراسرار ذرّات جو مادے (یہاں تک کہ پوری زمین کے بیچ سے گزر سکتے ہیں جیسا كہ ان کا وجود ہی نہ ہو۔)یہ سب کچھ ہمیں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اس کے بارے میں جانتے ہيں۔ لیکن  یہ قابل غور ہے کہ اگرچہ ایٹم کا تصور پانچویں صدی قبل مسیح میں سامنے آیا اور یونانیوں نے اسے یہ نام دیا تھا لیکن 19ویں صدی کے آغاز تک اس کی شناخت نہیں ہوئی تھی۔ 19ویں صدی میں کیمیا دان جان ڈالٹن نے ایک بہت ہی قائل کرنے والا نظریہ پیش کیا کہ کائنات کے تمام مادے بہت چھوٹے، ناقابل تقسیم۔۔۔ ایٹمی ذرات سے بنے ہیں۔اس کے بعد سے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے۔ لیکن اب بھی بہت سے سوالات باقی ہیں یہ جو اپنی جگہ اہم ہیں جیسا کہ کائنات کا باقی ماندہ 95 فیصد حصہ کس چیز سے بنا ہوا ہے؟اب تک ہمیں جو پتا ہے اس کے مطابق کائنات کا تقریباً 27 فیصد حصہ تاریک مادہ ہے۔ اسے پہلی بار 1933 میں دریافت کیا گیا تھا اور یہ ایک غیر مرئی گوند کے طور پر کام کرتا ہے جو کہکشاؤں اور کہکشاؤں کے جھرمٹ کو ایک ساتھ جوڑے رکھے ہے۔

اس کے بارے میں یہ بھی علم ہے کہ یہ کائنات میں قریب ہی موجود ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کشش ثقل کی قوت ہے اور یہ کائنات کے معلوم پانچ فیصد حصے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔اور اگر کائنات میں یہ دکھائی نہ دینے والی چادر پراسرار ہے بھی تو اس سے بھی بڑھ کر یہ سوال ہے کہ باقی بچ جانے والا 68 فیصد حصہ کیا ہے؟ کیا یہ تاریک قوت یا ڈارک انرجی ہے؟ہمیں اس کی موجودگی کا سنہ 1998 سے علم ہے۔ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ایتھر سے ملتی جلتی چیز ہے، جو خلا کو بھرتی ہے اور کائنات کے پھیلاؤ اور وسعت کو تیزی سے آگے بڑھاتی ہے۔ اور مزید یہ کہ اس كے متعلق کئی مفروضے ہیں لیکن کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد بھی اس کا اسرار برقرار ہے۔

2. زندگی کی شروعات کیسے ہوئی؟

اگر اس بارے میں آپ کے ذہن میں ’ابتدائی جنم‘ کے الفاظ آتے ہیں تو آپ صحیح سوچ رہے ہیں۔یہ نظریہ جو 1920 کی دہائی میں سابق سویت یونین کے سائنسدان الیگزینڈر اوپرین اور برطانوی ماہر جینیات جے بی ایس ہالڈین نے بیک وقت تجویز کیا تھا اس دور کے متعدد مسابقتی نظریات میں سے ایک ہے۔اس مفروضے میں یہ تصور پیش کیا گیا کہ جب ابتدا میں زمین کا وجود ہوا تھا تو اس کے سمندر زندگی کے لیے ضروری اہم کیمیکلز سے بھرے ہوئے تھے اور یہ کہ فضا میں گیسوں کے اختلاط اور بجلی کی توانائی سے امینو ایسڈز اور پروٹینز کی تعمیر ہوئی اور اس طرح سے زندگی کا وجود عمل میں آیا۔بہت سے سائنسدانوں کے مطابق یہ نظریہ زمین پر زندگی کی شروعات کی بہترین وضاحت ہے۔ لیکن عالمی سطح پر اس نظریے کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور یہ زمین پر انسانی زندگی کی شروعات سے متعلق واحد نظریہ نہیں ہے۔درحقیقت زندگی کی شروعات کیسے ہوئی اس بارے میں سائنسدانوں کا اتفاق نہیں ہے۔ایسے سائنسدان بھی ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ زندگی کے لیے ضروری مادے سمندر میں اور دیگر جیوتھرمل تالابوں میں، برف میں یا زمین سے بہت دور شہابییوں کے گرنے یا خلائی دھول کے ساتھ یہاں پہنچے ہیں۔مگر کب اور کیسے؟ یہ بالکل معلوم نہیں، زندگی کی شروعات کا لمحہ اب تک مشکوک ہے۔صرف ایک چیز جو ہم یقینی طور پر جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ 4.5 ارب سال پہلے زمین کی تشکیل کے بعد 3.4 ارب سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ اور اس کا حساب اس وقت کے ملنے والے ہڈیوں کے ڈھانچے اور نوادرات کی تصدیق سے لگایا گیا ہے۔ زمین پر زندگی کے آغاز سے بھی زیادہ پیچیدہ سوال یہ ہے کہ اس کا طریقہ کار کیا تھا۔اس کا امکان ہے کہ امینو ایسڈز، پروٹین میں جمع ہوئے ہوں، لیکن یہ اتنا مشہور نہیں ہے جتنا کہ یہ مفروضہ ہے کہ زندگی کا آغاز ایک انزائم آر این سے ہوا، جو ڈی این اے جیسا ہے جو جاندار کے جین لے سکتا ہے اور اس کی نقل کر سکتا ہے اور ان جینز کو جوڑ کر ایک ساخت بنا سکتا ہے۔ایک اور خیال یہ ہے کہ پہلے جاندار سادہ ماس یا بلبلے تھے جنھیں ’پروٹو سیلز‘ کہا جاتا ہے جو زندگی کے اجزا کے لیے کنٹینرز کے طور پر کام کرتے تھے۔لہذا سائنس کے سب سے پیچیدہ سوالوں میں سے ایک کے جواب پر ابھی تک کوئی اتفاق نہیں ہے۔اور ہم نے دوسرا سوال کرنے کی ہمت نہیں کی کہ زندگی کیوں شروع ہوئی؟

3. کیا چیز ہمیں انسان بناتی ہے

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینا زیادہ مشکل ہے۔اس سے پہلے کے انسان نے خود کو پہچانے کے لیے ایسے پہلو یا خصوصیات بنائی تھیں جو غیر معمولی سمجھی جاتی تھی جیسے زبان، خود کی شناخت، اوزار بنانے اور استعمال کرنے یا پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت وغیرہ۔لیکن آکٹوپس اور کوّے جیسے جانوروں نےآہستہ آہستہ اس انسانی برتری کے معیار کو چھین لیا۔بعد ازاں تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ انسانی جینوم چمپینزی سے 99 فیصد مماثلت رکھتا ہے۔ جب چارلس ڈارون نے اس بنا پر اپنا نظریہ پیش کیا کہ انسان پہلے بندر تھا تو بہت سے لوگ اس وقت خوفزدہ ہو گئے تھے۔یہ سچ ہے کہ ہمارا دماغ زیادہ تر جانوروں کے دماغ سے بڑا ہے۔ ہمارے پاس، مثال کے طور پر گوریلوں سے تین گنا زیادہ نیوران ہیں۔ لیکن جب ہم مزید تحقیق کرتے ہیں تو ہاتھی جیسے جانور ہم سے آگے نکل جاتے ہیں جس کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب موجود ہے۔ابھی تک اس کا جواب کہیں بھی نہیں ہے۔ مگر اس پر مزید سوالات بھی ہیں۔کیا ہمارے دماغ کے اگلے حصے کی موٹی پرت جسے فرنٹل کورٹکس کہتے ہیں اس کی وجہ سے ہم انسان ہیں۔ دماغ کا یہ حصہ انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، بول چال، جذبات کے اظہار کو ممکن بناتا ہے۔شاید ہماری ثقافت یا کھانا پکانے کی صلاحیت، یا آگ پر ہماری مہارت؟ شاید تعاون، ہمدردی اور مہارتوں کا اشتراک؟ یہ سب خصوصیات ہمیں انسان بناتی ہیں۔لیکن کیا اس میں سے کوئی چیز ہمیں انسان بناتی ہے یا محض غالب تصور ہے۔

4. شعور کیا ہے؟

یقیناً شعور ہمیں انسان بناتا ہے لیکن سمجھے بغیر جاننا مشکل ہے کہ یہ کیا ہے۔ماہرین کے مطابق شعور کا عضو انسانی دماغ ہے، جو معلوم کائنات کی سب سے پیچیدہ چیز ہے۔ سینکڑوں اربوں مسلسل فعال اعصابی خلیے جو حیاتیاتی افعال کو کنٹرول کرتے ہیں اور سوچنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔یہ نہ صرف ہمیں آوازوں، خوشبوؤں اور ہر قسم کے ماحولیاتی سگنلز کا جواب دینے کی اجازت دیتا ہے بلکہ معلومات کو یاد رکھنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ مزید یہ کہ بہت ساری معلومات کو یکجا کرکے اور اس پر کام یا عمل کرنا ہے۔مزید یہ کہ یہ ہمیں حقیقت اور فسانے کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت دیتا ہے اور مستقبل کے متعدد منظرناموں کا تصور کرنے صلاحیت دیتا ہے جو ہمیں صورتحال میں ڈھلنے یا اپنانے اور زندہ رہنے میں مدد دیتے ہیں۔لیکن یہ کمپیوٹر نہیں ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ ہے۔ یہ (شعور) ہمیں ایک اندرونی زندگی دیتا ہے جس سے ہم نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم سوچتے ہیں۔یہ خود سے ہمارے اندر منفرد ہونے کا احساس کیسے پیدا کرتا ہے؟ یہ ہمیں منطقی سوچ اپنانے میں کیسے مدد دیتا ہے۔

شعور دماغ کے بارے میں سب سے حیران کن چیز ہے اور ایک ایسا سوال ہے جسے ہم کبھی حل نہیں کر سکتے۔

5. ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟

سائنسدان اور نیند کے ماہرین جانتے ہیں کہ ہم خواب کب دیکھتے ہیں: عام طور پر نیند کے دورانیے میں آنکھ کی حرکت کے دوران جسے ریپڈ آئی موومنٹ کہا جاتا ہے۔لیکن جس بات کا انھیں نہیں پتا وہ یہ ہے کہ ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں۔سائنسدان سگمنڈ فرائیڈ کا خیال تھا کہ خواب ہماری ادھوری (اکثر جنسی) خواہشات کا اظہار ہیں۔ دوسرے لوگ یہ قیاس کرتے ہیں کہ خواب آرام کے وقت دماغ کی بے ترتیب تصاویر سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔کچھ مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواب یادداشت، سیکھنے اور جذبات میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔اگرچہ وہ روزمرہ کی زندگی کے تناؤ کی عکاسی کرنے یا اسے دور کرنے کا ایک طریقہ بھی ہوسکتے ہیں، یا یہاں تک کہ مشکل تجربات سے نمٹنے یا ان کا سامنا کرنے کا ایک بے ہوش طریقہ بھی ہیں۔ہمارے خواب ہمیں ممکنہ خطرات کا اشارہ دینے یا سماجی حالات کی پیشگی مشق کرنے کی اجازت دے کر بقا کا ایک قسم کا طریقہ کار بھی فراہم کر سکتے ہیں۔لیکن شاید وہ کسی خاص کام کو پورا نہیں کرتے۔ اچانک وہ سوتے وقت ہمارے دماغ کی مسلسل سرگرمی کے ضمنی پیداوار سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔اگر شاعر کالڈرن ڈی لگ بارسا کی زبان میں کہیں تو خواب زندگی ہیں اور زندگی خواب ہے۔

بي بي سي 14 جنوري 2024