روشن خیالی کیا ہے؟

مصنف : ڈاكٹر مہدی حسن

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مارچ 2024

فكر ونظر

روشن خیالی کیا ہے؟

روشن خیالی ہرگز لا دینیت کا نام نہیں ہے

ڈاکٹر مہدی حسن

ہمارے دائیں بازو کے دانشور "روشن خیالی" کی ترکیب آتے ہی بھڑک اُٹھتے ہیں اور رقص و موسیقی کو روشن خیالی تصور کرتے ہیں۔روشن خیالی کی اصطلاح ایک تو سیاسی ہے جن معنوں میں جنرل پرویز مشرف نے اسے استعمال کیا ہے تو وہ تمام لوگ جنرل پرویز مشرف کے مخالف ہیں یا اُن کے طرز حکومت سے اتفاق نہیں رکھتے اُن کے خیال سے روشن خیالی کا نعرہ بھی ایک سیاسی نعرہ ہے۔ اُن کی کچھ سیاسی وجوہ ہیں اور سیاسی ضرورتیں ہیں جن کی وجہ سے اُنہوں نے یہ نعرہ لگایا۔ میں ذاتی طور پر روشن خیالی کو سیاسی نعرے کے طور پر نہیں دیکھتا۔ ہر دور میں روشن خیالی کی تحریک رہی ہے اور وہی معاشرے آگے بڑھتے ہیں جو روشن خیال ہوتے ہیں اور روشن خیالی کو اپناتے ہیں۔اگر آپ روشن خیالی کو جنرل پرویز مشرف سے الگ کر کے دیکھیں اور آج کے سیاسی حالات سے الگ کر کے دیکھیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے کسی بھی معاشرے کے سرفراز ہونے کے لئے اُس کا روشن خیال ہونا ضروری ہے۔ جو معاشرے روشن خیال نہیں ہوتے وہ معاشرے ختم ہو جاتے ،مٹ جاتے ہیں۔ اُن کا حشر وہی ہوتا ہے جو دُنیا میں مُسلمانوں کا ہو رہا ہے۔ روشن خیالی کا مطلب ہے وقت کی رفتار کو پہچاننا اور اس کے مطابق چلنے کو روشن خیالی کہتے ہیں۔دُنیا میں بے شمار روشن خیالی کی تحریکیں چلیں۔ دُنیا میں جتنے پیغمبر آئے سب روشن خیال تھے۔ اُنہوں اُس وقت کے جو ایگسٹنگ (موجود) معاشرے تھے انہوں نے اُن میں جو خرابیاں تھیں برائیاں تھیں اُن میں ایسی خرابیاں آ گئی تھیں جن کا بدلنا ضروری تھا اُنہوں نے اسے بدلنے کی جو تحریک شروع کی وہ ان گوِین معاشرے مین کنٹمپریری حالات میں وہ روشن خیالی کی موومنٹ تھی۔

یورپ میں روشن خیالی کی کئی تحریکیں چلیں ان میں ایک بڑی تحریک جسے رینی سینس کہتے ہیں اس کے بعد سے یورپ ساری دنیا پر حکومت کر رہا ہے یا کرتا رہا ہے۔اُس کی ابتدا پندرھویں سولہویں صدی میں اس وقت ہوئی جب علم عام آدمی تک پہنچنے لگا۔ اور اس علم کا پہنچنا پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے مُنسلک تھا۔ کیونکہ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے علم زبانی پہنچا کرتا تھا۔ نئے خیالات نئے آئیڈیاز نئے فلسفے زبانی لوگوں تک پہنچا کرتے تھے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر حکمران نئے خیالات اور نئے فلسفوں کا مخالف ہوتا ہے کیونکہ نئے فلسفے نئے خیالات اُن کے اقتدار کے لئے خطرہ ہوا کرتے ہیں۔ جب زبانی علم ترسیل کیا جاتا تھا اُس وقت حکمرانوں کو ایسے خیالات ایسے فلسفے کو روکنا بہت آسان ہوتا تھا۔ ایسے فلسفی ایسے شخص کو جیل میں ڈال دیا جاتا تھا اور پھر بھول جاتے تھے۔ کوئی عقل مند وزیر آتا تو کسی خوشی کے لمحے میں اس کی سفارش کرتا تو اسے جیل سے رہائی ملتی ورنہ وہیں مر مرا جاتا۔ اور کوئی شخص زیادہ روشن خیال ہوتا تو بادشاہ اسے قتل کروا دیتا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ سُقراط کو اس لئے موت کی سزا دی گئی تھی کہ اس وقت حکمرانوں کا خیال تھا کہ یہ نئی نسل کو گمراہ کر دے گا۔ نئے خیالات دے رہا ہے جو ان کے اقتدار کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ جب پرنٹنگ پریس کا استعمال شروع ہوا تو یورپ میں چرچ اور باشاہ نے جن کا آپس میں گٹھ جوڑ تھا اور اقتدار کے لئے ہمیشہ ہوتا ہے اُنہوں نے پرنٹنگ کو حکومت کے خلاف بغاوت قرار دیا۔ اور اس کی سزا موت قرار پائی۔ 1664 تک کتابیں چھاپنے کے الزام میں یورپ میں موت کی سزائیں دی جاتی رہیں انگلستان میں کتاب چھاپنے کے الزام میں آخری موت کی سزا 1663 میں دی گئی۔جس کتاب میں یہ کہا گیا تھا (کتاب میں لکھنے والے کا نام نہیں تھا) باشاہ عوام کے سامنے اپنے عمل کے لئے جوابدہ ہے۔ اور اگر وہ جواب دینے سے انکار کرے تو عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ بادشاہ کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ پبلشر سے مصنف کا نام پوچھا گیا اُس نے انکار کر دیا تو اس پر اسے سزائے موت دی گئی۔ پبلشر کا نام جان ٹوائن تھا اور یہ 1663 کا واقعہ ہے۔ اور اس کو سٹار چیمبر کی عدالت کے فُل بینچ نے مُتفقہ طور پر سزائے موت سنائی تھی جس پر عمل ہوا۔ کتاب چھاپنے کے الزام میں یہ آخری سزا تھی جو دی گئی۔ لوگ سزائیں بھگتتے رہے اور نئے نئے فلسفے نئی نئی سوچ نئی نئی فکر کو عام آدمی تک پہنچاتے رہے۔ اس سے پہلے علم عام آدمی کے لئے نہیں تھا۔ بادشاہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے محل میں اور حویلیوں میں اتالیق رکھ لیا کرتے تھے۔ برہمن علم حاصل کرتا تھا اور لوگوں کے لئے علم کی باتیں بتاتا تھا اور معاشرہ اس کے روٹی روز گار کا روٹی کپڑے کا زندہ رہنے کا بندوبست کیا کرتا تھا ۔ عام لوگوں کے لئے علم ضروری نہیں سمجھا گیا تھا۔ پانچ ہزار سال قبل صرف برہمن کو علم حاصل کرنے کا حق حاصل تھا۔ آپ دیکھتے ہیں  ہندوستان  ميں باہر سے جوحملہ آور آئے انہوں نے ہندوستان کو فتح کیا۔ بہت بڑے بڑے بادشاہ اُن کے آثار آپ دیکھتے ہیں کہ قلعے ہیں مسجدیں ہیں مندر ہیں گورو دوارے ہیں باغات ہیں جہاں وہ سیر کیا کرتے تھے اُنکی بیویوں کے اُن کے اپنے مقبرے ہیں اُن کے پالتو جانوروں تک کے مقبرے ہیں۔ہمیں کوئی سکول کوئی ہسپتال ان بادشاہوں کا بنایا ہوا نظر نہیں آیا۔ کیونکہ علم دینا ریاست کی ذمہ داری نہیں تھی۔ جب کتاب نے یورپ میں ہاتھ کاٹنے، کان کاٹنے پاؤں کاٹنے اور موت جیسی سزاؤں کے باوجود پابندیوں کے باوجود مقبولیت حاصل کی اس سے جب علم عام آدمی تک پہنچا اس علم کی تاریخ کو ہم رینی سانس کی تاریخ کے نام سے جانتے ہیں۔ لوگوں نے اس کے بعد بادشاہ کی حیثیت کو چیلنج کر دیا۔ اس تحریک نے صنعتی انقلاب برپا کر دیا۔ اس انقلاب نے ایسا معاشرہ پیدا کیا جس میں میرٹ اور ٹیلنٹ کی قدر تھی۔ کیونکہ اس کے پہلے کا ہزار سال کا معاشرہ صرف زراعت پر اکتفا کر تا تھا۔اور زراعت کا دارو مدار قدرت کی طاقتوں پر تھا اگر بارش نہ ہو خُشک سالی ہو ۔ کہا جاتا ہے کہ جب خُشک سالی ہو تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں اللہ تعالی پانی دے دیتے ہیں۔ تو جب خشک سالی ہوتی ہے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ ہی سے نماز پڑھ کے دعا مانگتے ہیں۔ ہندو مندر میں پوجا پاٹھ کر کے اپنے دیوتا سے بارش کی دعا مانگتا ہے ہم بارش کروا نہیں سکتے ہم صرف دعا مانگ سکتے ہیں دعا مانگنے کے لئے کسی ٹیلنٹ اور میرٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔لہٰذا اُس معاشرے میں ٹیلنٹ اور میرٹ کو ریکگنائز نہیں کیا جاتا تھا لیکن انڈسٹرئل سوسائٹی میں جس میں ہر پیسہ لگانے والے کاخیال یہ ہوتا ہے کہ اُسے بہترین ٹیلینٹڈ لوگ ملنے چاہئیں جس نے کروڑوں روپے لگا کر فیکٹری لگائی ہے یہ اس کے مفاد میں ہے کہ اس کے پاس بہترین انجنئر ہو مکینک ہو اس کے پاس بہترین مارکیٹنگ مینجر ہو اس کے پاس بہترین سکلڈ مزدور ہو۔بہترین لوگ خود بخود ریکگنائز ہو جاتے ہیں اور ان کو ان کی پوری قیمت ملتی ہے۔جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کی مہارت کتنی قیمتی ہے تو انہوں نے بادشاہ کے اختیارات کو چیلنج کیا جس سے اک نیا ادارہ وجود میں آیا یہ ایک روشن خیالی کی تحریک تھی۔ جب ہندوستان ميں مسلمانوں کی حکومت پیچھے رہتے رہتے ختم ہو گئی ڈس انٹگریٹ ہو گئی اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے قبضہ کر لیا صرف تین ہزار سپاہیوں نے 22 کروڑ کے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ 1757 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا کیوں کامیاب ہوئے وہ اگر اکبر کے دور کو اس دور کے ہندوستان کو اس دور کے انگلستان سے موازنہ کریں تو ملکہ الزبتھ اول اس وقت وہاں حکمران تھی اس موازنے میں انگلستان ہندوستان کے مقابلے میں ایک بیک ورڈ اور جنگلی معاشرہ نظر آتا ہے وہاں۔ اُس دور کا انگلستان یورپ کے نقشوں میں نہیں دکھایا جاتا۔ اگر آپ ماہرین سے پوچھیں کہ انگلستان اس وقت یورپ کے نقشے میں تو نہیں ہے تو وہ بتائیں گے کہ اس وقت اس کی اتنی اہمیت ہی نہ تھی کہ اس کو نقشے میں دکھایا جائے۔بہت چھوڑا سا جزیرہ تھا کہ اس کو دکھانے کی ضرورت نہ تھی۔ سمندری لُٹیروں کا جزیرہ سمجھا جاتا تھا۔ ہم بہت آگے تھے ان سے اکبر کا دور ہندوستان کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسی جزیرے نے جو چار سو سال پہلے نقشے پر نہیں نہیں ہوتا تھا 65 فی صد دنیا پر قبضہ کیا اور اس کے حدود حکومت میں سورج غروب ہونا بند ہو گیا۔ یہ کس لئے ہوا؟ تین ہزار سپاہیوں سے ہندوستان فتح کرنے میں اس لئے ایسٹ انڈیا کمپنی کامیاب ہوئی کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی کمپنی تھی جو اپ کمنگ معاشرہ تھا جو متحرک معاشرہ تھا جو تبدیل ہو رہا تھا اور ہندوستانی معاشرہ بہت تیزی سے تنزل کی طرف جا رہا تھا اس کے حکمران پندرہ پندرہ دن لگا تار مشاعرے کر رہے تھے ہجڑوں کی فوج بھرتی کر رہے تھے رُستم اور سُراب کے مرنے پر چالیس چالیس دن کا سوگ منا رہے تھے وہ رُستم اور سہراب کون تھے؟ نواب صاحب کے لڑاکا تیتر اور بٹیر تھے۔ کہ وہ مر گئے ہیں ان کا چالیس دن کا سوگ منایا جائے۔ یہ معاشرہ تھا جس کو ایک ترقی پذیر معاشرے نے شکست دی۔ وہ معاشرہ ایک روشن خیال معاشرہ تھا اور یہ ایک گلا سڑا اور تنزل پذیر معاشرہ تھا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ آج بھی تنزل کا شکار ہے اور ہم اس تنزل کو ابھی روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی جنہیں چار قدم آگے نظر نہیں آتا وہ بینک پلازہ کی چھت پر کھڑے ہو کر عید کا چاند دیکھتے ہیں۔ جبکہ آپ دو سوسال تک چاند کی پیشگوئی کر سکتے ہیں۔ کہ کس دن کس وقت چاند نظر آئے گا۔ روشن خیالی کا مقصد ناچ گانا رقص نہیں ہے وہ بھی ایک چھوٹا سا حصہ ہے معاشرے کا رقص اگر بُرا ہوتا تو مور جنگل میں کبھی رقص نہ کرتا موسیقی اگر بُری ہوتی توقدرت کوئل اور بُلبل کی چہچہانے کی آوازیں پیدا نہ کرتی۔میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ناچ گانا اپنا لیجئے مت اپنائيے کوئی زبردستی نہیں ہے آپ پر ۔ لیکن اگر موسیقی بری ہوتی تو قدرت لے سُر کو کبھی ایجاد نہ کرتی۔ یہ تو قدرت کے بس کی بات تھی۔ ہم شکائت کرتے ہیں کہ امریکہ نے ہمیں غلام بنا لیا خاص طور پہ مسلمانوں کو غلام بنا لیا ہمیں کیوں غلام بنایا ہمیں اس کے لئے کیا کرنا چاہئیے- ہمیں اس لئے غلام بنا لیا کہ ہم دنیا کا ساتھ دینے کے قابل نہیں رہے۔ ہم نے علم کو دو سوسال پہلے، تین سو سال پہلے ہزار یا پندرہ سو سال پہلے تک قید کر کے رکھ دیا۔زمانہ ہمیشہ آگے کی طرف چلتا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنا اپرائٹ چھوڑ دیں میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنے فنڈا مینٹل کو چھوڑ دیں میں کہتاہوں کہ اگر آپ اپنے عقائد کو اپنے فنڈا مینٹلز کو اس دور کے مطابق نہیں کر سکتے تو و ہ آؤٹ ڈیٹڈ ہیں اور اگرآپ کا ایمان یہ ہے جو میرا ہے کہ اسلام ہر دور کے لئے ہے پھر اُسے ہر دور میں کامیاب ہونا چاہئیے۔ اور اس کی کامیابی کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُسے ہر دور میں نافذ ہونے کے قابل ہونا چاہئیے۔ 50 سال میں فلسفے آؤٹ ڈیٹ ہو جاتے ہیں پندرہ سوسال یا دو ہزار سال تو بہت لمبا عرصہ ہے آج آپ جس مائک پر بات کرتے ہیں جس ٹیلیویژن پر تصویریں دیکھتے ہیں جو ریڈیو سنتے ہین وہ آج سے پچاس سال پہلے دستیاب نہیں تھیں مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر پر فساد بھی ہوئے ریڈیو کو شیطانی آلہ بھی قرار دیا گیا طالبان نے ٹیلیویژن بھی ختم کئے افغانستان سے سوال یہ ہے کہ آپ کے ان چیزوں کو ختم کر دینے سے دنیا کا رنگ بدل جائے گا؟ دنیا اپنے راستے پر چلتی رہے گی آپ دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے ہم پہلے ہی دنیا سے پیچھے رہے ہیں لہٰذا روشن خیالی کی تعریف کو سمجھنا ضروری ہے روشن خیالی ہرگز لا دینیت کا نام نہیں ہے