سكون مودت اور رحمت كي تفسير

مصنف : مولانا ابوالکلام آزاد

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : جنوری 2024

قرآنيات

سكون ،مودت اور رحمت كی تفسير

ابوالكلام آزاد

(مولانا محمد اکبر باقوي کے نام مولانا ابو الکلام آزاد کا شادی کی تہنیت۔مکتوب الیہ مولانا آزاد کے نیاز مندوں معتقدوں میں سے ہیں -حضرت مولانا کو بھی ان سے خصوصی تعلق خاطر تھا تحصیل علم کے بعد ان کی شادی ہو رہی تھی حضرت مولانا کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔مولانا نے شرکت سے معذوری کا اظہار فرمایا اور دُعائیں دیں۔ جواب میں مولانا کے قلم سے قرآن کی آ يت  كی بے مثال تفسیر نکل گئی۔ یہ ہر مسلمان خاوند کے لئے ایک نظریہ حیات اور لائحہ عمل ہے جو اسے اپنی ازدواجی زندگی میں پیش نظر رکھنا چاہئیے۔)

عزیزی!

تمہارا خط پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد اب تمہیں زندگی کی وہ منزل پیش آ گئی ہے جہاں سے انسان کی شخصی زندگی کی ذمہ داریوں کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے یعنی تمہاری شادی ہو رہی ہے۔ میرے لئے ممکن نہیں کہ شریک ہو سکوں۔ لیکن یقین کرو کہ میرے دل کی دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ میں اپنی جگہ اپنی دعائیں تمہارے ساتھ بھیج رہا ہوں۔زندگی باشی و کامراں باشی!

اللہ تعالیٰ اس تقریب کو برکت و سعادت کا موجب بنائے اور تمہاری یہ نئی زندگی ہر اعتبار سے کامیاب ہو

کہ بحیثیت مسلمان ہونے کے تمہیں چاہئیے ازدواجی زندگی یعنی شادی کی زندگی کا وہ تصور اپنے سامنے رکھو جو قرآن نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے " وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ خدا کی حکمت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تُم ہی میں سے جوڑے پیدا کر دئے یعنی مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد، لیکن خدا نے ایسا کیوں کیا؟ اس لئے کہ تمہاری زندگی میں تین چیزیں پیدا ہو جائیں جن تین چیزوں کے بغیر تم ایک مُطمئن اور خوشحال زندگی حاصل نہیں کر سکتے وہ تین چیزیں یہ ہیں۔ سکون، مودت، رحمت، أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً سکون عربی میں جماؤ اور ٹھہراؤ کو کہتے ہیں مطلب یہ کہ انسان کی زندگی میں ایسا ٹھہراؤ اور جماؤ پیدا ہو جائے کہ زندگی کی بے چینیاں اور پریشانیاں اسے ہلا نہ سکیں۔

مودّت سے مقصود محبت ہے قرآن کہتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی تمام تر بنیاد محبت پر ہے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے اس لئے رشتہ جوڑتی ہے تا کہ ان کی ملی جُلی زندگی کی ساری تاریکیاں محبت کی روشنی سےمنور ہو جائیں۔ لیکن محبت کا یہ رشتہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر رحمت کا سورج ہمارے دلوں پر نہ چمکے۔ رحمت سے مقصود یہ ہے کہ شوہر اور بیوی نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کریں بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی غلطیاں اور خطائیں بخش دینے اور ایک دوسرے کی کمزوریاں نظر انداز کر دینے کے لئے اپنے دلوں کو تیار رکھیں ۔ رحمت کا جذبہ خود غرضانہ محبت کو فیاضانہ محبت کی شکل دے دیتا ہے۔ ایک خود غرض محبت کرنے والا صرف اپنی ہی ہستی کو اپنے سامنے رکھتا ہے لیکن رحیمانہ محبت کرنے والا اپنی ہستی کو بھول جاتا ہے۔ اور دوسرے کی ہستی کو مقدم رکھتا ہے۔ رحمت ہمیشہ اس سے تقاضا کرے گی کہ دوسرے کی کمزوریوں پر رحم کرے ، غلطیاں خطائیں بخش دے، غُصّہ، غضب اور انتقام کی پرچھائیں بھی اپنے دل پر نہ پڑنے دے۔

میری دلی آرزو ہےے کہ خدا تُم دونوں کو توفیق دے کہ اپنی ازدواجی زندگی کو اول دن سے اسی رنگ میں شروع کرو جس رنگ میں قرآن کی مقدس تعلیم نے اس معاملے کو دیکھا ہے اور نوع انسان کے آگے رکھا ہے۔ والسلام و علیک و رحمۃ اللہ و برکاتہُ