تیرہ سال آٹھ مہینے

مصنف : نعيم بيگ

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : نومبر 2023

افسانہ

تیرہ سال آٹھ مہینے

نعیم بیگ

ہیلو۔۔۔ کیا آپ سریش کمار ہیں؟“ ایک کھنکتی ہوئی نسوانی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔جی۔۔۔ میں ہی سریش کمار ہوں۔“ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔میں نگہت ارمانی ہوں۔ میں نے آپ کی تصویر دیکھ رکھی تھی سو پہچان لیا۔ کیا آپ نے مجھے پہچانا؟ کھنکتی آواز میں مصنوعی شگفتگی تھی۔ وہ مجھے زردی مائل چہرے والی ایک مایوس سی عورت لگی۔میں بار ڈیسوزا کے ایک کونے میں بیٹھا، مدہم روشنی کی لو میں سرخ شراب کے تیسرے پیگ سے گھونٹ لے رہا تھاکہ وہ اچانک کہیں سے نکل آئی۔ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن میں نہ صرف اسے پہچان چکا تھا بلکہ مجھے اس کی زندگی کی پوری کتاب از بر تھی۔ اسکا وجود میری زندگی کے حسین لمحوں میں حرفِ بے مہر ہی رہا۔ صرف اس لئے کہ وہ شوبھا کی عزیز ترین سہیلی تھی۔ بقول شوبھا، وہ نگہت کے بغیر ایک ادھوری کہانی اور بے برگ شجرہے۔

یہ مارچ کی ایک شام تھی میں کسی دوست کی طرف سے اٹھ کر واپس گھر جا رہا تھا۔ گاڑی کی رفتار بہت کم تھی جونہی میں چوراہے پر پہنچا کہ اشارے کی سرخ بتی پر رکنا پڑا۔ میں نے رئیر ویؤ مرر میں دیکھا اور بِلا سوچے سمجھے جھٹ سے اپنی کار بائیں جانب ہوٹل شیؤن کی طرف موڑ لی اور پھر اسکے بار روم کے ایک کونے میں بیٹھ کر سرخ شراب سے شغل کرنے لگا۔ جب انسان کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو تو وہ ایسے ہی حادثاتی فیصلے کرتا ہے۔ مجھے یاد آنے لگا کہ جب شوبھا اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اسکی بات کرتی تھی تو کبھی کبھار میرے اندر اس سے حسد اور جلن کا جذبہ پیدا ہو جاتا۔ میں کہتا۔۔۔”خدا کے لئے نگہت کو کچھ دیر کے لئے تو بھول جاؤ۔۔۔ اب میں تمارے قریب ہوں، آؤ کچھ اپنی باتیں کرتے ہیں۔ وہ میرے کہنے پر موضوع بدل تو دیتی لیکن وہی ڈھاک کے تین پات، چند لمحوں میں پھر وہی نگہت ، وہی کالج، وہی اسکول اور اسکی بڑائیاں۔۔۔ آپ نے اُس بچے کا لطیفہ تو سن رکھا ہوگا جو اپنے ہر مضمون میں اپنا رٹا ر ٹایا مضمون ’میرا دوست جگدیش‘ جوڑ دیا کرتا تھا۔ ایک دن اسکے استاد نے کہا بس۔ بہت ہوگیا اس بار تم اپنے کسی یادگار سفر کے بارے میں لکھو گے جو ملک سے باہر تھا۔ استاد کا خیال تھا کہ اس بار بچہ ملک سے باہر کی کہانی لکھے گا تو جگدیش کا ذکر کرنا بھول جائے گا۔ لیکن کیا مجال؟ وہی ہوا بچے نے مضمون شروع کیا۔ اپنے والد کے ساتھ سفر کا آغاز، پھر ایرپورٹ، جہاز اور اسکے ٹیک آف کرتے باہر کا منظر نامہ جہاں اسے کھڑکی سے باہر جگدیش نظر آ جاتا ہے اور اس کے بعد وہی مضمون دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

سو شوبھا کا بھی یہی حال تھا۔ آپ جہاں چاہے اسے لے جائیں، نگہت اس کے ذہن سے محو ہی نہیں ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ٹائٹینک فلم دیکھتے ہوئے فلم کے کسی منظر میں کسی دوسری لڑکی کو دیکھتے ہوئے اسے پھر نگہت یاد آئی تو میں غصہ میں ہال سے باہر نکل آیا، وہ بھی میرےپیچھے باہر نکل آئی۔ اس بار میں بڑی مشکل سے مانا تھا لیکن میں مجبور تھا۔دن رات کا ساتھ اور محبت کا لفظ اس کہانی کے لئے بہت چھوٹا ہے۔ عشق کہہ لیجیے۔ عشق بھی ایسا جس میں اگر نگہت نکل جائے تو چمن کے اس پیڑ پر صرف ایک شاخ ہی ملے گی جس پر دو پھول جو ایک دوسرے سے منہ جوڑے سرگوشیوں میں مصروف، دن اور رات کی پروا کئے بغیر، موسموں کی تند و تیز طوفانی لہروں سے بے نیاز، آس پاس رہتے ہوئے انسانوں کو صرف تصویر کا ایک ساکت و جامد فریم سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کے رنگوں میں رنگے نظر آئیں گے۔اب ایسے میں اگر نگہت ارمانی امریکہ سے آپ کے سامنے آکر یہ پوچھے کہ کیا آپ نے مجھے پہچانا؟ تو کتنا عجیب سا لگتا ہے۔نگہت۔۔۔ میں تمیں بھلا کیسے بھول سکتا ہوں۔میں صرف اتنا ہی کہہ سکاتھا-”اوہ۔ تب تو ٹھیک ہے بابا! میں تو ڈرتے ڈرتے آپکی طرف آئی تھی کہ نہ جانے آپ مجھے پہچانتے بھی ہیں کہ نہیں؟

نگہت اس بار مجھے زیادہ سنجیدہ لگی۔ بابا کہنا اسکا تکیہ کلام تھا یہ بھی مجھے شوبھا ہی نے بتایا تھا۔ وہ شاید اپنے بچوں کو بھی بابا ہی کہتی ہوگی۔آؤ بیٹھو۔۔۔ "میں نے ایک کرسی گھسیٹ کر اسے اشارہ کیا۔ میں خود بے تاب تھا اس سے بات کرنے کو، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ یہ ملاقاتی حادثہ اتفاقی نہیں ہے۔ وہ یقیناً شوبھاکے کہنے پر ہی مجھے ڈھونڈ رہی ہوگی، کیونکہ یہ صرف و ہی جانتی تھی کہ میں جب بھی تنہا ہوتا ہوں تو غم غلط کرنے یہیں آتا ہوں۔ میں نے جلدی سے ویٹر کو اشارہ کیا۔ ویٹر آیا تواس نے کافی لانے کو کہا اور ریلکس ہو کر بیٹھ گئی۔ رسمی گفتگو کے بعد اس نے اچانک شوبھا کی بات چھیڑ دی۔

میں صرف یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ مجھے آپ شوبھاکے بارے میں کچھ بتائیں۔ کیا کبھی اسکی یاد آئی؟اسکے لہجے میں تجسس تھا۔نگہت تم اسکی دوست ہو میں تو اسکی زندگی میں مثلِ مسافر تھا۔ میں ذرا رکا تو وہ آگے نکل گئی۔۔۔میرا لہجہ دکھ بھرا تھا۔ کیا تم اس سے نہیں ملی اب تک، امریکہ گئے تو اسے چار سال ہو گئے ہیں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔کہاں۔۔۔ سریش!؟ امریکہ آنے کے بعد چند دن تو رابطے میں تھی لیکن پھر وہ ایسی غائب ہوئی کہ ناجانے اسے زمین کھا گئی یا آسمان؟“ وہ اداس سے لہجے میں بولی۔

میں نے سنا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہےمیں نے پوچھا۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے آپ کو فون نہ کیا ہو؟ اسکے لہجے میں حیرت تھی۔نگہت!میں بتاتا ہوں۔۔۔ میں ٹھہرا زمانے بھرکا ٹھکرایا ہوا شخص۔۔۔ اسکی شوریدہ سری میری روح میں اترتی رہی اور میں سرشار ہوتا رہا، ہم دونوں خاموش فضاؤں کی اوٹ میں چھپے اپنی روحوں کو سیراب کرتے رہے، ہم خوش تھے کہ ہم نے محبت پا لی، دراصل ہم دونوں ہی خود غرض تھے، مجھے صرف چاہت کی انتہا درکار تھی اور اسے چاہت کے ساتھ اور بھی بہت کچھ چاہیے تھا، آخر عورت تھی نا! سو ہم نے سمجھوتا کر لیا۔ یوں ماہ و سال گزرتے گئے۔

جب میرے پروں میں اڑنے کی سکت نہ رہی تو پھر اس نے ایک دن اچانک پنجرہ کھول دیا۔ اس نے مجھ سے کہا وہ مجھے رہا کرنا چاہتی ہے، مجھے ایک جھٹکا سالگا۔۔۔ میرے ذہن میں پے در پے جھماکے ہونے لگے۔رہائی؟۔۔۔ محبت سے، یا اس بندھن سے؟ مجھے یہ طویل اسیری اپنے حصار میں لے چکی تھی۔ میں اس قید سے رہا ہونے کو تیار نہ تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیااور چپ سی لگ گئی۔

نگہت ارمانی نے کافی پیتے ہوئے اپنی کہنیاں میز کے شیشے پر ٹیک لیں تھیں ۔ اسکے چہرے پر تحیر کے سایے تھے اور وہ مجھے غور سے سن رہی تھی۔ دراصل جب اس نے رہائی کی بات کی تو میں تڑپ اٹھا تھا اسکی یہ بات سن کر، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایک دن یوں سب رشتے، ناتے توڑ دے گی۔

تب میں نے جی کڑا کر مسکراتے ہوئے اِسے کہا۔ میں قید ہی کب تھا ، میں توپہلے بھی آزاد تھا اور اب بھی آزاد ہوں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی خِفت اٹھائے یا نادم ہو۔میں صرف اتنا ہی کہہ سکا تھاکہ ایک بات جان لینا شوبھا۔ راستے بدل لینے سے منزلیں نہیں بدل جاتیں۔ تماری اڑان کامحور میں ہی رہوں گا۔ تمارے قدم جہاں پڑیں گے وہیں تمہيں میرے قدموں کے نشان نظر آئیں گے۔

یہ سب کچھ نگہت کو بتاتے ہوئے میری پلکیں شاید بھیگ چکی تھیں، وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی لیکن خاموش تھی۔یہ کہہ کر میں نے سر جھکا لیا جب نگہت نے دیکھا کہ میں خاموش ہو چکا ہوں تو اس نے اپنی خاموشی توڑی۔سریش۔۔۔ تم جانتے ہو کہ شوبھاجب امریکہ سے یہاں پڑھنے آئی تھی تو اسکے پاپا نے اسکی وہیں شادی کر دی تھی اور شاید وہ اپنے شوہر کے ساتھ چند ہفتے رہی بھی تھی۔

یہ انکشاف میرے لئے جان لیوا تھا۔ میں نے اسے ٹوکا تب اس کہانی میں ولن کون ہے۔۔۔ میں، اس کا شوہر یا شوبھا خود؟میں نے نگہت سے پوچھا اور سرخ شراب کا پیگ ایک ساتھ اندر انڈیل لیااور ویٹر کو مزید لانے کا اشارہ کر دیا۔میرا خیال ہے تم اور شوبھا کا شوہر، دونوں بے قصور ہو اور شوبھا بے چاری ۔۔۔ اسے میں کیا کہوں؟ وہ قسمت کی ماری حالات سے شکست کھا گئی۔“”اب میں تمیں بتاتی ہوں۔ جب وہ امریکہ سے یہاں فائن آرٹس میں تعلیم کے لئے آنے لگی اسِکی عمر صرف اکیس برس تھی۔ اسکے باپ نے بستر مرگ پر ہونے کی وجہ سے اسکی شادی کروا دی۔ جس کے لئے وہ ذہنی طور پر تیار نہ تھی۔ شادی کے چند مہینوں بعد امریکہ میں اسکے پاپا کا انتقال ہوگیا اور وہ یہ صدمہ نہ سہہ سکی اور شوہر کو تعلیم کا کہہ کر یہاں آ گئی۔خاندان میں اور کوئی تھا نہیں لہذا تماری محبت نے اسے آسمان پر پہنچا دیا۔ اسے یہ ہوش ہی نہیں رہا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے۔ اسکی تعلیم تو پانچ سال میں ختم ہوگئی لیکن جب اس نے ڈاکٹریٹ کا سوچا تو میں نے اسے امریکہ یاد دِلایا لیکن اس نے کہا کہ وہ تمارے بغیر نہیں رہ سکتی اور نہ ہی تمیں چھوڑ کر جا سکتی ہے۔۔۔۔ میں نے کہا وہ تم سے بیس سال بڑا ہے تو اس نے جواب دیا تھا تو کیا ہوا؟ لمبی اڑان کے لئے پروں کا بڑا ہونا ضروری ہے۔یہ وہی وقت تھا جب امریکہ مڈل ایسٹ کی جنگوں میں مصروف تھا۔ نائن الیون کا واقعہ ہو چکا تھا اور وہاں کے حالات ایشیئنز کے لئے تکلیف دہ ہو چکے تھے، شوبھا کا شوہر کس ناکردہ جرم میں پکڑا گیا۔ جب وہ کئی سال بعد جیل سے رہا ہوا تو اس نے شوبھا سے رابطہ کیا اور اسکی مدد چاہی۔تم جانتے ہی ہو کہ امریکی ہونے کے باوجود وہ ایک مشرقی لڑکی تھی۔ اس نے باپ کی عزت کی لاج رکھی اور شوہر کا سارا بوجھ خود اٹھا لیا۔۔۔۔ اور یوں وہ دکھوں کی گٹھری اٹھائے اپنی روح کو چار سال تڑپاتی رہی۔ اپنے شوہرکو معا شی و سماجی سہارا دیا اسے دوبارہ زندگی میں داخل کردیا۔۔۔لیکن بے چاری اس ساری بھاگ دوڑ میں اپنے لئے وقت نہ بچا تھا۔جانے سے چند دن پہلے مجھے یہ خط دیا کہ تمہيں پہنچا دوں۔۔۔۔سو آج میں تماری تلاش میں کامیاب ہو گئینگہت نے اپنا بیگ کھولا اور ایک لفافہ میری طرف بڑھا دیا۔میں نے لفافہ تھاما تو شوبھا کی مہک نے مجھے مدہوش سا کر دیا، میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے تہ کیا ہوا کاغذ کھولا۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ یہ مہک اسکی چِتا کی ہے۔

اس خط پر صرف ایک جملہ لکھا تھا۔زندگی کے تمہارے ساتھ گزرے یہ تیرہ سال آٹھ مہینے جنم جنم میرے ساتھ رہیں گے۔مجھے یوں لگا ایک سمندر میرے سامنے ہے اور میں اس میں ڈوب رہا ہوں۔