گورکن

مصنف : خلیل جبران

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : اكتوبر2023

افسانہ

غير ملكی ادب

گورکن

خليل جبران- تر جمہ ، ابوالحسين آزاد

سایۂ زیست کی وادی میں جہاں ہر طرف کھوپڑیوں اور ہڈیوں کے ڈھیر لگے تھے میں میلوں تنہا چلتا رہا۔ ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ دھند کے بادلوں نے ستاروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور رات کے پُر اَسرار سکوت میں خوف اور دہشت کے عفریتوں کا خاموش اور بے آواز رقص جاری تھا۔میں دریائے اشک و لہو کے کنارے پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ جس کی لہریں چتکبرے سانپ کی طرح بل کھا رہی تھیں اور سرکش مجرموں کی طرح جوش مار رہی تھیں۔ میں وہاں کھڑا کان لگا کر بدروحوں کی سرگوشیاں سن رہا تھا اور خلاؤں کو تاک رہا تھا۔آدھی رات کا وقت ہوا اور بدروحوں کی ڈاروں کی ڈاریں اپنی غاروں سے نکل کر ہلڑ مچاتی جنگل کی طرف چل پڑیں۔ ایسے میں مجھے اپنے عقب سے بھاری بھاری قدموں کی آہٹ قریب آتی محسوس ہوئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک دیوہیکل ڈراؤنی سی پرچھائی میرے سامنے کھڑی تھی۔ میرے پورے بدن میں خوف کی لہڑ دوڑ گئی۔ میں نے کپکپاتی ہوئی آواز سے چیخ کر کہا: ”کون ہو تم؟ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟اس نے اپنی چراغ جیسی بھڑکتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا پھر دھیرے سے کہا: “مجھے کچھ نہیں چاہیےاور مجھے سب کچھ چاہیے۔“”میرے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ میری جان چھوڑو اور اپنی راہ لو۔“ میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔میری اور تمہاری راہ ایک ہی ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”جہاں تم کوچ کرو گے وہیں میں کوچ کروں گا اور جہاں تم پڑاؤ ڈالو گے وہیں میں پڑاؤ ڈالوں گا۔“”میں یہاں خلوت اور تنہائی کی غرض سے آیا ہوں۔ خدا کے لیےمجھے تنہا چھوڑ دو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔“ میں نے جھلّا کر کہا۔میں ہی تو تنہائی ہوں۔۔۔ مجھ سے کس لیے ڈر رہے ہو؟“”تم سے ڈرتی ہے میری جوتی۔اگر تم مجھ سے ڈر نہیں رہے ہو تو آندھی کی زد میں آئے بانس کی طرح تھرتھرا کیوں رہے ہو؟“”ہوا کی وجہ سے میرے کپڑے ہل رہے ہیں۔ میں خودمطمئن کھڑا ہوں۔“ میں نے منہ بناتے ہوئے کہا۔میری بات سن کر وہ انتہائی زور زور سے قہقہے لگانے لگا۔ اس کے قہقہوں میں بیسیوں آندھیوں کا شور سمایا ہوا تھا۔ پھر وہ مجھ پر طنز کرتے ہوئے کہنے لگا: ” ڈرپوک کہیں کے! تم مجھ سے ڈرتے ہو اور اس بات سے بھی ڈرتے ہو کہ تم مجھ سے ڈرتے ہو۔ تم دوہرے خوف کا شکار ہو لیکن اپنے ناکام حیلوں اور مکڑی کے جالے جیسے کمزور بہانوں کے ذریعے اپنے خوف کو مجھ سے چھپا رہے ہو۔ تمھاری اس چھچھوری حرکت پر مجھے ہنسی بھی آرہی ہے اور غصہ بھی۔پھر وہ ایک بڑی سی چٹان پر بیٹھ گیا، میں بھی بیٹھ گیا اور ٹکٹکی باندھ کر اس کے چہرے کے خوفناک نقوش دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد (جو مجھے ایک ہزار برس طویل محسوس ہوئی) اس نے مجھ پر طنزیہ سی نگاہ ڈالی اور پوچھا: ”کیا نام ہے تمہارا؟“”میرا نام عبد اللہ (خدا کا بندہ) ہے۔“”یہ خدا کے بندے بھی کتنے زیادہ ہیں اور اِن بندوں کی وجہ سے خدا کی الجھنیں کتنی بڑھ گئی ہیں! کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم خود کو عبد اللہ کی بجائے سید الشیاطین (شیطانوں کا سردار) کہتے۔ یوں شیطانوں کی مصیبتوں میں ایک اور مصیبت کا اضافہ ہو جاتا۔“ میرا نام سن کر وہ کہنے لگا۔میرا نام عبد اللہ ہے۔ اور یہ نام مجھے بے حد عزیز ہے۔ میرے والد نے میری پیدائش کے وقت میرا یہ نام رکھا ہے اور میں مرتے دم تک اسے کسی اور نام کے ساتھ تبدیل نہیں کروں گا۔ ہر گز نہیں۔“ میں نے جذباتی ہو کر جواب دیا۔یہ والدین کے ہدیے اور تحفے ہی تو اولاد کی تمام تر مصیبتوں کی جڑ ہیں۔ جو شخص اپنے آباء و اجداد کی دی ہوئی چیزوں کو ترک نہیں کرتا وہ زندگی بھر مُردوں کا غلام رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن خود بھی مُردوں میں شامل ہو جاتا ہے۔“ میری بات سن کر وہ تاسُّف بھرے لہجے میں کہنے لگا۔میں سر جھکا کر اُس کی باتوں کو سوچنے لگا۔ اس وقت مجھے اپنے وہ ڈراؤنے خواب یاد آرہے تھے جن میں اسی جیسی خوفناک شکلیں نظر آتی تھیں۔ وہ دوبارہ میری طرف متوجہ ہوا اور پوچھنے لگا: ”کیا کرتے ہو؟میں شاعر اور ادیب ہوں۔ شاعری کرتا ہوں، نثر لکھتا ہوں۔ زندگی اور اس کے مظاہر کے متعلق میرے اپنے نظریات اور خیالات ہیں جنھیں میں لوگوں تک پہنچاتا ہوں۔“ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔بڑا ہی فرسودہ، بے ہودہ اور دقیانوس کام کرتےہو۔ اس سے دنیا والوں کو کوئی نفع پہنچتا ہے نہ ہی نقصان۔“ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔تو پھر میں کون سا ایسا کام کروں جس سے لوگوں کو نفع ہو گا؟“ میں بے بسی سے پوچھا۔گور کنی کا پیشہ اختیار کرو۔ قبریں کھودو اور دنیا والوں کو ان مُردوں سے نجات دلاؤ جو گھروں، کارخانوں، دفتروں، عدالتوں اور عبادت گاہوں میں ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔“” مجھے تو آج تک ان جگہوں پر کوئی مردے بکھرے پڑے نظر نہیں آئے۔“ میں نے استعجاب سے کہا۔تم وہم اور گمان کی آنکھوں سے دیکھتے ہو۔ تم لوگوں کو زندگی کی آندھی کے سامنے لرزتا، کپکپاتا دیکھ کر انھیں زندہ سمجھ لیتے ہو۔ حالاں کہ یہ پیدائش کے دن سے ہی مردے ہیں۔ لیکن انھیں کوئی دفن کرنے والا نہیں ملا، جس کی وجہ سے یہ بے گور و کفن زمین پر پڑے ہیں اور بدبو کے بَھبْکے ان سے اٹھ رہے ہیں۔میرا تھوڑا بہت خوف زائل ہو چکا تھا۔ میں نے اس استفسار کرتے ہوئے کہا: ”میں زندوں اور مردوں میں فرق کیسے کروں گا جب کہ دونوں ہی زندگی کی آندھی کی زد میں آکر لرز رہے ہیں؟“”آندھی کی زد میں آکر تو مُردے لرزتے ہیں جب کہ زندہ آدمی تو اس کے ہم قدم دوڑ لگاتا ہے اور اس وقت تک نہیں رکتا جب تک یہ آندھی نہ رک جائے۔اُس نے اپنی کہنی کے بل ٹیک لگا لی۔ اس کے بلوط کی جڑوں جیسے مضبوط پٹھے زندگی اور عزم سے لبریز نظر آرہے تھے۔ پھر وہ مجھ سے پوچھنے لگا: ”تم شادی شدہ ہو؟“”ہاں! اور میری بیوی بڑی ہی خوب صورت عورت ہے۔ میں اسے بے حد پسند کرتا ہوں۔آہ! تمہاری برائیاں اور تمہارے گناہ تو بہت ہی زیادہ ہیں۔۔۔ شادی تو نری غلامی ہے۔ اگر تم آزادی چاہتے ہو تو اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور اکیلے زندگی گزارو۔“”میرے تین بچے ہیں۔ سب سے بڑا گیند سے کھیلتا اور سب سے چھوٹا ابھی کچھ کچھ بولنا شروع ہوا ہے۔ میں اُن کا کیا کروں گا؟“ میں نے بےچارگی سے کہا۔وہ کہنے لگا: ”انھیں بھی گورکنی سکھاؤ۔ ایک ایک بیلچہ سب کو دے دو پھروہ جانیں اور اُن کا کام۔میں نے کہا: ”مجھ میں اکیلا رہنے کی ہمت نہیں ہے۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ پُرلطف زندگی گزارنے کا عادی ہو چکا ہوں۔اگر میں نے ان کو چھوڑ دیا تو میری خوش بختی مجھ سے چھوٹ جائے گی۔“”بیوی بچوں کے ہمراہ انسان کی زندگی نِری بدبختی ہے اگر بظاہر یہ بہت خوشنما نظر آتی ہے۔۔۔ لیکن خیر! تم نے اگر شادی کرنی ہی ہے تو جنات کی لڑکیوں میں سے کسی سے کر لو۔میں نے تعجب سے اس سے کہا: ”جنات کی تو کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ مجھے کیوں الو بنا رہے ہو؟

وہ کہنے لگا: ”احمق کہیں کے! جنات کے علاوہ اور کسی چیز کی کوئی حقیقت ہے ہی نہیں۔ جو جن نہیں ہوتا وہ تو شک اور وہم کی دنیا کا ہوتا ہے۔“”تو کیا جنات کی لڑکیوں میں کوئی سلیقہ، شعور اور خوب صورتی ہوتی ہے؟“”کیوں نہیں!۔۔۔ ایسی سگھڑ لڑکیاں ہوتی ہیں کہ کچھ نہ پوچھو اورحُسن! حسن ایسا کہ کبھی ماند ہی نہیں پڑتا۔“”مجھے کوئی جننی دکھاؤ گے تو تب مجھے یقین آئے گا۔“”اگر جننی کو دیکھا اور چھوا جا سکتا تو میں تمھیں اس سے شادی کا مشورہ دیتا؟“ اس نے پھیکی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔تو پھر ایسی بیوی کا کیا فائدہ جسے نہ دیکھا جاسکے نہ ہی چھوا جا سکے؟“ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔دیکھو اس کا فائدہ آہستہ آہستہ ظاہر ہوگا۔“ اس نے سمجھانے والا انداز اختیار کرتے ہوئے کہا۔ ” انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ رک جائے گا۔ یعنی ان مُردوں کی پیدائش جو آندھی کے ساتھ ادھر ادھر لہراتے پھرتے ہیں اور اس کے ہمراہ چلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔پھر اس نے تھوڑی دیر کے لیے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا۔ اُس کے بعد پلٹ کر مجھ سے پوچھنے لگا: “تمھارا مذہب کیا ہے؟میں نے کہا: ”میرا خدا کی ذات پر ایمان ہے، انبیاکی تعظیم کرتا ہوں،نیکی سے محبت کرتا ہوں اور آخرت پر یقین رکھتا ہوں۔وہ کہنے لگا: ”یہ پچھلی نسلوں کے مرتب کردہ الفاظ کا ایک مجموعہ ہے جو رٹا لگا لگا کر تم نے اپنی زبان پر چڑھا رکھا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تم اپنے نفس کے علاوہ کسی اور پر ایمان نہیں رکھتے، تمھیں اِس کی خواہشات کے علاوہ کسی سے محبت نہیں اور تمھیں اِس کی بقا و ہمیشگی کے علاوہ اور کسی چیز کا یقین نہیں۔ انسان روز اول ہی سے اپنی ذات کی پوجا کر رہا ہے۔ لیکن وہ اسے اپنی خواہشات اور رجحانات کے مطابق مختلف نام دیتا چلا آیا ہے۔ چناں چہ کبھی وہ اسے بعل کہتا ہے،کبھی مشتری اور کبھی خدا۔۔۔پھر وہ زور زور سے ہنسنے لگا اور ہنسی کی وجہ سے اس کے چہرے کی شکنیں مزید گہری ہوتی چلی گئیں پھر وہ مزید کہنے لگا: ”لیکن سب سے زیادہ تعجب اور حیرت تو اُن لوگوں پر ہے جو اپنی ذات کو پوجتے ہیں جب کہ ان کی ذات ایک مردار اور بدبودار لاشہ ہے۔

میں کافی دیر اس کی باتوں میں غور و فکر کرتا رہا۔ مجھے اس کی باتوں میں زندگی سے بھی زیادہ عجیب، موت سے بھی زیادہ خوفناک اور حقیقت سے بھی زیادہ گہرے اسرار نظر آئے۔ میری عقل چکرا گئی اور میرا ذہن ماؤف ہو کر رہ گیا۔ میرا جی چا ہ رہا تھا کہ میں چیخ چیخ  كردنیا والوں کو اُس کی باتوں کے اسرار و رموز سے آگاہ کروں۔ پھر میں نے چلا کر اس سے کہا: ”اگر تمھارا کوئی پالنہار ہے تو تمھیں اس کا واسطہ،مجھے بتاؤ تم کون ہو؟وہ کہنے لگا: ”میں خود ہی اپنا پالنہار ہوں۔“”تمھارا نام کیا ہے؟“”معبودِ مجنون“”تم کہاں پیدا ہوئے؟“”ہر جگہ“” اور کب پیدا ہوئے؟“”ہر زمانے میںمیں نے اس سے پوچھا: ”تم نے یہ حکمت اور دانش وری کی باتیں کہاں سے سیکھیں؟ تمھیں زندگی کے حقائق کس نے بتائے اور وجود کے باطنی اسرار سے تمھیں کس نے آگاہ کیا؟وہ کہنے لگا: ”میں کوئی دانش ور نہیں ہوں۔ یہ دانش وری تم جیسے حقیر انسانوں کی صفت ہے۔ میں تو طاقت ور دیوانہ ہوں۔ جب میں چلتا ہوں زمین میرے قدموں تلے لرزنے لگتی ہے اور جب میں رکتا ہوں تو ستاروں کی گردش میرے ہم راہ تھم جاتی ہے۔ میں نے انسانوں کا ٹھٹھا اڑانا ابلیسوں سے سیکھا ہے اور وجود و عدم کے اسرار جنات کے شہنشاؤں اور شبِ تاریک کی بدروحوں کی رفاقت میں رہ کر مجھے معلوم ہوئے۔“”تم ان پرپیچ وادیوں میں کیا کرتے ہو؟ تمھارے دن رات کے معمولات کیا ہیں؟“ میں نے اُس سے پوچھا۔کہنے لگا: ”صبح سویرے میں سورج کو گالیاں دیتا ہوں۔ دوپہر ڈھلے بنی نوع انسان پر لعنت بھیجتا ہوں۔ شام سمے فطرت سے استہزاکرتا ہوں اور رات گئے اپنے نفس کے آگے جھک کر اپنی عبادت کرتا ہوں۔“”تم کھاتے کیا ہو؟ پیتے کیا ہو؟ سوتے کہاں ہو؟“ میں نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات کر ڈالے۔وقت، سمندر اور میں۔۔۔ ہم سوتے نہیں ہیں۔ ہاں البتہ انسانوں کا گوشت کھاتے ہیں، ان کا خون پیتے ہیں اور ان کی ہڈیوں کا زیور پہنتے ہیں۔اس کے بعد وہ اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑا ہو گیا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آہستگی سے کہنے لگا: ”خدا حافظ۔۔ الوداع۔ کیوں کہ اب میں نے وہاں جانا ہے جہاں غول بیابانی اکٹھے ہوتے ہیں اور سرکش بدروحوں کا اجتماع ہوتا ہے۔میں نے اونچی آواز میں کہا: ”ایک منٹ رکو۔ میں نے کچھ پوچھنا ہے۔اس کا آدھا بدن رات کے کہر میں چھپ چکا تھا، اس نے کہا: ”معبودِ مجنون کسی کے لیے نہیں رکتا۔۔۔ پس الوداع!۔۔جب میں اس جگہ سے واپس پلٹنے لگا تو مجھے فلک بوس سنگلاخ چٹانوں سے اس کی آواز کی صدائے باز گشت گونجتی سنائی دی:”الوداع الوداع!۔۔۔

دوسرے دن میں نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی اور جنات کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کر لی۔ پھر میں نے اپنے تمام بچوں کو ایک ایک بیلچہ اور کدال تھمادی اور ان سے کہا: ”جاؤ اور جہاں کہیں تمھیں کوئی مردہ نظر آئے اسے مٹی میں دفنا دو۔

وہ دن اور آج کا دن، میں قبریں کھودتا جارہا ہوں اور مردوں کو دفناتا جارہا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ مردے بہت زیادہ ہیں اور میں اکیلا ہوں۔ میری مدد کرنے والا کوئی نہیں۔