1935 كے ہندستان كی سياسی اور سماجی زندگی

مصنف : خالدہ اديب خانم

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اكتوبر2023

 

تاريخ

1935 كے ہندستان كی سياسی اور سماجی زندگی

خالدہ اديب خانم

خالدہ خانم ادیب کا پہلی دفعہ نام صغرا ہمایوں مرزا کے سفرنامہ کشمیر میں پڑھا۔ اس کے بعد ان کا نام تحریک نسواں کے حوالے سے بار بار پڑھنے کو ملا تو تھوڑا سرچ کرنے پر ان کے بارے تو بہت زیادہ معلومات نہیں ملی لیکن ان کی ایک کتاب انسائیڈ انڈیا کا اردو ترجمہ ہاتھ لگ گیا۔۔۔ترکی سے تعلق رکھنے والی خالدہ، ریاست حیدرآباد کے ڈاکٹر انصاری کی دعوت پر ہندوستان کے دورے پر آئیں اور کوئی اڑھائی ماہ یہاں گزار کر اور کئی شہروں، اداروں کی سیر اور ملاقاتوں کے بعد انہوں نے انسائیڈ انڈیا کے نام سے کتاب لکھی۔ ان کی تحریر کی سحر انگیزی نے تو ابتدائی صفحات سے اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔۔ لیکن 1935 کے ہندستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کا جس طرح انہوں نے نقشہ کھینچا اس نے مجھے حیران کر دیا ۔ ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ان کی رائے اور تجزئیے سے ان کی سیاسی بصیرت کا پتا چلتا ہے۔ کتاب مکمل کرنے کے بعد جب میں اس زمانے کی ہندوستان کی عورت کا خالدہ کے خیالات سے مقابلہ کرتا ہوں تو مجھے شعور میں صدیوں کا فرق دکھائی دیتا ہے۔۔۔ممکن ہے بہت سے لوگوں کو ان کی باتوں سے مبالغہ ارائی کا تاثر ملے۔ان کی اپنی باتوں میں بھی معمولی نوعیت کا کچھ تضاد ملتا ہے۔ گاندھی سے جس عقیدت کا اظہار نظر آئے گا اس پر بھی بہت سوں کو اعتراض ہو سکتا ہے۔لیکن مجھے گاندھی کی عوام میں مقبولیت کے اسباب سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ ہندستان کی سیاست کو سمجھنے کے کئی نئے زاوئیے ملے ہیں۔۔۔

کتاب پڑھنے کے بعد ہندوستان کی سیاست اور تاریخ کی ایسی شکل کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے جس میں تقسیم سے پہلے کے سیاسی معاشی اقتصادی نقوش بہت واضح ہیں۔۔۔۔

کتاب سے کچھ اقتباس:

ریل روانہ ہوئی ہم روشن اسٹیشنوں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے تو سرخ پگڑیوں کے بالائی شملے نظر آنےلگے ۔قلی ادھر ادھر پھر رہے تھے ۔ ایک ساتھ بیسیوں آوازیں سنائی دیتی تھیں ٹیپ یہ تھی۔ ہندو چائے مسلمان چائے “ ، ” ہندو پانی “ ،”مسلمان پانی “ عجیب بات ہے کہ ہندو اور مسلمان پانی اور چائے بھی الگ الگ پیتے ہیں ؛ پارسی یا دوسرے فرقوں کے لیے کیوں علیحدہ پانی یا چائے کوئی نہیں بیجتا ؟ معلوم ہواکہ متحرک قوتوں میں ہندو اور مسلمان ہی ہیں ۔

ایک لاکھ انگریزوں کا پینتیس کروڑ ہندستانیوں پر حکومت کرنا مغرب کی فتح کے مترادف ہے۔ جو اسے اپنی کاریگری ، مادی تمدن اور اخلاقی استقامت کی بدولت حاصل ہوئی ۔ یہ قوت آج بھی ہندستان کے ہر پہلو پر اثرانداز ہورہی ہے-;جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہندو صرف امن اور محبت کے جذبات رکھتا ہے اور مارنے یا مرجانے کی قابلیت سے عاری ہے تو وہ غلطی پر ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہندوظلم و قانون شکنی تک ہر چیز کا مذہبی جواز ڈھونڈتا ہے۔ کالی اسی چیز کو پورا کرتی ہے۔جس وقت گاؤ خوروں کو ہندو قتل کرتے ہیں تو گویا ان دیوتاؤں کا بدلہ لیتے ہیں جو نہیں چاہتے کہ جانوروں کا خون کیا جائے لیکن اسی کے ساتھ وہ کالی کو بھی جو انسانی قربانی چاہتی ہو ،خوش کرتے ہیں ۔ بایں ہمہ دوسرے مذہب والوں کو کالی کے ہندؤ پرستاروں پر ناک بھوں نہیں چڑھانی چاہیے کیونکہ افسوس ہے ہر مذہب والے کے دل میں ایک بے نام کی کالی موجود ہے۔ فنا کرنا بھی انسانی قلب کا ایساہی ایک فطری جذبہ ہے۔ جیسے محبت۔

سرجے سی بوس نے مجھے اپنا تجربہ خانہ دکھایا اور اپنے مشہور سائنس کے نظریے کا مشاہدہ کرایا۔ وہ نباتیات کے بڑے ماہر ہیں اور ان کا قول ہے کہ بجلی کی رو کا اثر ایک پتے پر ہوتا ہو تو اس درخت کے سارے پتے متاثر ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دلکش باغ کے ایک بڑے درخت پر تجربہ دکھایاجو مجھے بخوبی یادہے ۔ ان کے مددگار نے ایک پتی کو چھوا اور چھوتے ہی پورا درخت اس پتی کے ساتھ لرزنے لگا : الہی میں نے اپنے دل میں کہا اگر محض درخت کے پتے ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں کہ جو دکھ یا سکھ ایک کو ہوتا ہو اس کا تمام پتوں پراثر پڑتاہو تو ہم سب زمین کے بچوں پر بنی نوع کے کسی فرد کی راحت یا تکلیف کالازماً اس سے کہیں زیادہ اثر کیوں نہ ہو؟

بیچ میں شہر کا گندا نالا میلا ، غلیظ ،گھناؤنا پانی ، دریا میں آکر گرتا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہیضہ ، تپ محرقہ یا اور اسی قسم کی وبا کیوں نہیں پھیل جاتی لیکن مجھ سے کہا گیا کہ جن سائنسدانوں نے گنگا کے پانی کاتجزیہ کیا ان کی رائے ہو کہ اس پانی میں جراثیم کش مصفی اجزا ہوتے ہیں ۔

اگر مذہب جدا کرتا ہے تو وہ متحد بھی کر سکتا ہو ۔ انھوں نے یہ سوچا اور اسی واسطے بنارس میں ایک نیامندر بنانا شروع کیا جس میں کوئی دیوی دیوتا نہ ہو گا ملک کا بڑا معبود ہندستان کے نقشے کو بنایا جائے گا ۔ یہ سنگ مرمر کا نقشہ ہو گا جس میں ہندستان کے دریا ، پہاڑ جھیلیں ،شہر ابھار کر دکھائے جائیں گے جب میں بنارس آئی تو یہ بنایا جارہا تھا اور بہت سے دیسی نقاش اور کاریگر ہندستان کے اس نئے خدا کو مرمر پر تراش رہے تھے۔ روزانہ چاروں وید کے بھجن گائے جاتے تھے اور مسلمان بدھوں ، یہودو نصاری وغیرہ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنی اپنی نمازیں اور دعائیں آکر پڑھیں قبل اس کے کہ اس مندر کا اپنے پوجنے والوں کے لیے افتتاح کیا جائے ۔

لکھنؤ کے خوبصورت شہر سے جب میں روانہ ہوئی تو میری وہ خوشدلی جس کے ساتھ میں یہاں وارد ہوئی تھی درجہ کم ہوگئ تھی ۔ تقدیر نے اور بھی کہیں نہیں لکھنو میں مجھے اس ملک اور ملک والوں کا جن سے میں انتہائی محبت کرنا سیکھ گئی تھی ،تاریک ترین پہلو میرے سامنے جبراً پیش کر دیا ۔

ہم آگے بڑھے تو گائوں کے گدلے جوہر کے گرد کچھ بچے تھے ۔ سب برہنہ پیٹ پھولے ہوئے اور کسی قسم کی جلدی بیماری میں متبلا ۔ وہ مریل جاں سے ادھر ادھر چلتےتھے اور ان کی ٹانگیں ربر کے خالی نلکوں کی طرح لڑکھڑاتی تھیں اور ان کی کمریں ابھی سے خمیدہ ہوگئی تھیں ۔ نو واردوں کو دیکھ کر انھوں نے کوئی توجہ نہ کی لیکن اس منظر نے میرے قدم پکڑ لئے ۔ ایک چھوٹا سابچہ تھاجو زمین پر بیٹھا تھا۔ اس کا پیٹ سارے جسم سےقریب قریب دگنا ہو گا اور خود جسم میں ہڈیوں کی مالا تھا۔ اس نے مٹی میں اپنے پائوں پھیلا رکھے تھے اور آسمان کی طرف تک رہا تھا ۔ ان آنکھوں میں میں نے عجیب دلکشی پائی ۔ ان میں اپنے ماحول سے تعلق کی کوئی جھلک نہ تھی بلکہ ایسے متنفس کی دکھن تھی جو زندگی ختم کرچکا ہو اور جانتا ہو کہ چند انفاس کا مہمان ہے۔ حالانکہ وہ محض ایک شیرخوار بچہ تھا اور ابھی زندگی کے دروازے میں داخل ہوا تھا۔.... میں نہیں سمجھتی کہ اس بچے میں رونے کی بھی قوت ہوگی خواہ اسے کسی قدر تکلیف پہنچادی جائے ۔۔

دروازے کے اندر ذرا ساصحن اور تین چھوٹے موٹے تاریک حجرے تھے ۔ جن میں ایک عورت بیٹھی تھی او چیتھڑوں سے اپنا بدن ڈھانک رکھا تھا۔ دولڑکے لنگوٹی باندھے اور اپنے باپ کی لڑکپن کی تصویر تھے۔ یہ تینوں مل کر دو تانبے کی رکابیاں ،جس میں ممکن ہو انھوں نے کچھ کھایا ہو ، مل مل کے صاف کر رہے تھے۔ میں نے کہا ممکن ہے کچھ کھایا ہو ، کیونکہ معلوم ہوتا تھا کہ سارے کنبے کو سالہا سال سے ایسی چیز جیسے پورا کھانا کہا جا سکے ، میسر نہ ہوئی تھی تن بہ تقدیر اور بالکل بے حس ہونے کی کیفیت سر سے پاوں تک نمایاں تھی جسے دیکھ کر خیال ہوتا تھا کہ اب وہ اشتہا محسوس کرنے کی قوت کھو چکے ہیں مسلسل نیم فاقہ کشی کا لوگوں پر یہی اثر ہوتا ہے۔ وہ ان کی ساری زندگی کاست نکال لیتی ہے اور ان کے حواس اور تاثرات کو کند کر دیتی ہے۔

مسٹر وسیم خاصی بڑی اراضی کے مالک زمیندار ہیں ۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ" مجھے ان زمینوں سے کچھ آمدنی نہیں ہوتی اور اگر شہرمیں میری جائیداد اور اتنی کامیاب وکالت نہ ہوتی تو سارا کنبہ بھوکا کلاش رہ جاتا ۔ اس وقت میں یہ نہ سمجھ سکی کہ ایک زمیندار کو اپنی زمین سے کچھ آمدنی کیوں نہیں۔ اسی سلسلے میں مجھے لکھنو کے قریب چند گائوں دیکھنے کا موقع ملا کیونکہ مجھ سے کہا گیا تھا کہ ان کا شمار سب سے مفلس دیہات میں ہوتا ہے۔ ہم نے جن دیہات کو دیکھا وہ اکثر ہندوؤں کے تھے ۔

میری نظر میں لاہور ، سرحد اور باقی ہندستان کے درمیان کی وسطی منزل ہے۔ نہ صرف جغرافی اعتبار سے ، بلکہ ذہنی اعتبار سے بھی۔ اس میں اپنے جداگانہ خیالات کے ساتھ ان دونوں کے اثرات بھی موجود ہیں۔ سرحد کی اصلی سرشت کا مظہر پشاور ہے۔

اہل پنجاب کو ہمیشہ شعلہ خو اور مائل بہ افراط پسندی کہا جاتا ہے لیکن لاہور میں اتنے مختلف نمونے نظر آتے ہیں کہ تعیين کرنا مشکل ہے ۔ یہاں دیوپیکر لوگ موجود ہیں جن کے چہرے اتنے متین اور ساکت ہیں کہ وہ شاذ و نادر مسکراتے یا بات کرتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ پستہ قامت، بکواسی اورشیخی خوروں کے نمونے بھی موجود ہیں۔ بیگم شاہنواز مجھے شالا مار باغ لے گئیں ۔ یہ وہ باغ ہے جہاں مسلمان سلاطین عہد گزشتہ میں آرام وعیش کرنے آتے تھے بیگم کا خاندان اس باغ اور اس کے قریبی دیہات کا امین رہا ہے۔ باغ میں سنگ مرمر کے حوض اور فوارے ہیں اور پانی کے عجیب عجیب انتظامات کیے ہیں ۔ خوبصورت پھولوں کی وہ افراط کہ جیتا جاگتا مشرقی قالین نظر آتا ہے۔ پرشکوہ درخت ، غلام گردشیں اور ذکور داناث ، دونوں کے لیے شاہانہ عمارات - مولانا شوکت علی کی ایک جوان قبول صورت انگریز بیوی ہے ۔ کارٹونوں میں ان کو ایک بھاری بھرکم بچہ بنایا جاتا ہے۔۔ ان کی حاضر دماغی کے قصے برابر بنائے جاتے رہتے ہیں ۔ تازہ ترین یہ تھا:۔ایک بڑے انگریز عہدے دار نے ان کی بیوی کے متعلق ان سے کہا۔ میں سنتا ہوں تم اپنی بیوی کو بھبکیاں دیتے ہو۔ شوکت علی  صاحب نے بیوی پر نظر ڈالی اور جواب دیا " یورایکسیلنسی کو اس بات کے جاننے کا بہت اچھا موقع حاصل ہے کہ کون کس کو بھبکیاں دیتا ہوں -تقریر کے ہر جملے سے ان اثرات کی شہادت ملتی تھی جو انگریزی افکار نے ہندستانی دل و دماغ پر رچا دیے ہیں ۔ میں نے مہاتما گاندھی سے دریافت کیا۔ ہندستان کو انگریزوں کا سب سے بڑا عطیہ کیا ہے ؟انھوں نے بغیزتامل جواب دیا : " قومیتاچھوت بن اپنی مقررہ حدود سے بہت آگے بڑھ چکا ہو اور پوری قوم کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں ۔ ساری فضا میں چھوئی موئی کی کیفیت پھیلی ہوئی ہے ۔ اس لیے اگر اس دیمک کے اصلی منبع پر ہاتھ ڈالا گیا تو مجھ کو یقین ہے کہ ہم ذاتوں اور مذہب کے درمیان جو فرق پایا جاتا ہے۔ اسے بہت جلد بھول جائیں گے اور یہ باور کرنے لگیں گے کہ جس طرح تمام ہندو واحد اور نامنقسم قوم ہے۔ اسی طرح تمام مسلمان سکھ یہودی اور عیسائی ایک ہی پیڑ کی شاخیں ہیں۔