مذہبی حکایات نگاری مذہبی تعلیم کیسے بنی

مصنف : لالہ صحرائی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اكتوبر2023

فكر ونظر

مذہبی حکایات نگاری مذہبی تعلیم کیسے بنی

لالہ صحرائی

یہ تبصرہ منصور ندیم صاحب کے ایک مضمون پر کرنا تھا لیکن بروقت پوسٹ نہیں کر سکا اسلئے یہاں پبلش کر رہا ہوں، اس میں سے کوئی فائدے کی بات ملے تو لے لیں بصورت دیگر ٹینشن نہیں لینا۔برصغیر میں مذہبی قصہ گوئی یا مذہبی حکایات کو دینی تعلیم کیوں سمجھ لیا گیا ہے یہ بات تصوف کا سفر جانے بغیر سمجھ میں نہیں آئے گی۔مزید برآں یہ قصہ گوئی صرف برصغیر میں نہیں بلکہ پورے عجم میں دینی حجت کے طور پر ہی مستعمل رہی ہے اور اس کا بڑا ماخذ عربی ادب کی بجائے مشرق وسطیٰ اور ہندی ادب پر مبنی ہے یعنی بدخشاں و نیشاپور سے مصر، بغداد سے خراسان اور کابل سے ہندوستان تک ایک جیسی چلتی رہی ہے۔

حکایت نگاری میں گلستان، بوستان اور ان جیسی دیگر کچھ کتابوں کے قصے محض اخلاقی تربیت کیلئے لکھے گئے تھے یا پھر کسی معاملے کی گرہ کھولنے کیلئے ہوتے تھے۔جیسے شیخ سعدی نے دو بادشاہوں کے درمیان فتح و شکست میں عوامی خوشحالی کے عنصر کو فتح کی کلید کے طور پر اجاگر کیا تھا، ایسے بعض قصے آج کے حالات میں بھی گھمبیر معاملات کی بہت عمدہ عقدہ کشائی کرتے ہیں۔ماضی کی بادشاہتیں اپنے ادوار میں عوامی لگاؤ کو کسی بھی سماجی شخصیت کے حق میں جمع نہیں ہونے دیتی تھیں، اسی وجہ سے اقتدار میں آنے والا ہر بادشاہ اپنے پیش رو کی وظیفہ خوار اور وفادار سماجی شخصیات، علماء، فقیہان اور سائنسدانوں تک کو بھی تہہ تیغ کر دیتا تھا جنہیں بڑے پیمانے پر عوامی پزیرائی حاصل ہوتی تھی۔پھر اس بادشاہی جبر کی وجہ سے عمومی حکایت نگاری میں گپت نگاری کا رجحان پیدا ہوگیا، آپ نے سنا ہوگا کہ بزرگوں کی باتوں میں گہری رمزیں پوشیدہ ہوتی ہیں، یہ اس وجہ سے تھیں کہ وہ مواخذے یا بادشاہی قہر سے بچنے کیلئے اپنی باتوں کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں چھپا کے رمزیہ انداز میں کلام کرتے تھے جنہیں صرف ذہن رسا کے مالک لوگ ہی سمجھتے تھے اور باقیوں کو مرشد سرکار کا حکم کہہ کے پہنا دی جاتی تھی۔ان اطوار کی وجہ یہ تھی کہ عوامی طاقت جمع کرنے کی پاداش میں اہل تصوف کیساتھ بھی بادشاہوں کی چشمک اور مدبھیڑ کا سلسلہ جاری رہتا تھا- امام جعفر صادق علیہ السلام کو بھی تنبیہ کیلئے قصر شاہی میں بلوایا گیا تھا، جنید بغدادی صاحب اور ان کے شاگرد شیخ شبلی صاحب کو بھی بلوایا گیا، دیگر صوفیاء کے قصے بھی موجود ہیں، محمود غزنوی کے طاقت میں آنے سے قبل اس کے پیر ابوالحسن خرقانی صاحب کو بھی یہ دباؤ درپیش رہا ہے، اس سفر میں بیشمار سانحات بھی ہوئے، چند اماموں اور کئی صوفیاء کو اس چشمک میں شہید بھی کر دیا گیا تھا۔یہ جبر اتنا تھا کہ صوفیاء کو حکایات کی گپت نگاری کا سلسلہ اپنی ذاتی شخصیت میں بھی لانا پڑا، ملامتی اور مجذوبی طریقت اسی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، اکثر ملامتی صوفیاء اور مجذوب نارمل انسان تھے لیکن بچت کیلئے ایسا لبادہ اوڑھ لیتے تھے کہ پھر ان کی باتوں کو حکمران سنجیدہ نہیں لیتے تھے اور عوام ان کی باتوں میں معارف تلاش کیا کرتی تھی۔اس کی ایک بڑی مثال بہلول دانا کی ہے جس کی اپروچ وسیع سماجی حلقوں کے علاوہ ہارون الرشید کی ملکہ زبیدہ تک بھی تھی مگر مجہول یا دیوانہ سمجھ کے کوئی اس کو کچھ نہیں کہتا تھا، یوں اس کا تبلیغی کام کامیابی سے چلتا رہا۔اس سفر میں بادشاہوں کے ہاتھوں صوفیاء کا استحصال بہت ہوا ہے اور اس ڈومین کے پختہ ہونے کے بعد خود صوفیاء نے بھی عوام کا کوئی کم استحصال نہیں کیا، یہ ایک الگ کہانی ہے بلکہ تاریخ کے کئی نامی بزرگوں کے ہاتھ بھی اس خرابے میں رنگے ہوئے ہیں، یہ کام اب بھی ہوتا ہے مگر حکایات کے بوجھ تلے دبے عوام کو کم ہی پتا چلتا ہے کہ واردات کیا ہے۔

دو عشرے قبل تک دینی علم اس طرح سے دستیاب نہیں تھا جیسے آج انٹرنیٹ پر احادیث اور تفاسیر کی صورت میں دستیاب ہے، ماضی میں احادیث و تفاسیر کا ذخیرہ عام بھی نہیں تھا اور عوام کی قوت خرید میں بھی نہیں تھا اور لوگوں کے پاس اتنی تعلیمی اہلیت بھی نہیں تھی جو ان کو ازخود پڑھ اور سمجھ سکتے اسلئے بیشر تبلیغی کام صرف سنی سنائی باتوں پر ہی چلتا تھا۔ان حالات میں اہل تصوف اپنی حکایات اور قصوں کے ذریعے سے عوام کی اخلاقی تربیت کی کوشش کرتے تھے لیکن اس کوشش میں وہ دینی تعلیم اور حکایت کا بنیادی فرق برقرار نہیں رکھ سکے جس کی وجہ سے حکایات کو ہی دینی حجت تسلیم کر لیا گیا، مزید یہ کہ ان کی گپت نگاری میں سے لوگ جب گہری رمزیں تلاش کرتے ہیں تو یہ ایک الگ سحر کا کام کرتا ہے، یہ سحر اتنا کارگر ہے کہ اشفاق احمد جیسے پختہ کار ادیب بھی اس سے بچ نہیں پائے۔حکایات کو بزرگوں کی ناقابل تردید گفتگو سمجھ کے اس کیساتھ تین طرح سے تعامل پیدا ہوا، کچھ نے اس کے ظاہری معنی کو من و عن دین سمجھ لیا، کچھ نے اس کی گہری رمز کو عیاں کرکے باطنی معنی کو لیا اور کچھ نے منظر نگاری میں نظر آنے والی محیرالعقول باتوں کو بھی دینی مدعا کے طور پر ہی لے لیا جیسے پانی پر چلتے ہوئے کسی نے کچھ کہا تو جو کہا وہ ایک طرف رہ گیا اور پانی پر چلنا مومن کا بنیادی وصف بن گیا اور پھر لوگ انہی چیزوں کے حصول میں یا ان سے مرعوبیت میں کہیں سے کہیں نکل گئے۔حکایات میں لکھا ہے کہ امام جعفر صادق صاحب جب دربار میں گئے تو بادشاہ کو ان کے ساتھ اتنا بڑا اژدھا نظر آیا جس کے مونہہ میں سارا دربار آسکتا تھا لہذا وہ کانپ گیا اور عزت و تکریم سے انہیں واپس بھیج دیا، اسی طرح جنید و شبلی صاحب کو دربار میں بلوا کے جب بادشاہ نے بازپرس شروع کی تو شبلی صاحب نے قالین پر بنے ہوئے شیر کو تھپکی دی تو وہ اٹھ کے کھڑا ہونے لگا لیکن جنید صاحب نے واپس بٹھا دیا یہ معاملہ دیکھ کے بادشاہ نے معافی مانگ کے ان کو بھی واپس بھیج دیا۔

یہ باتیں جب اس دور کے جبر اور طاقت بمقابلہ روحانی طاقت کے قصے بیان کرتی ہیں تو سماجی عدم تحفظ کے مارے ہوئے لوگ اپنے فائدے کیلئے آج بھی ایسی روحانی شخصیات کے دامن میں پناہ تلاش کرنے کیلئے ان کے سب قصے کہانیوں کو حق مان لیتے ہیں جن کے پاس زرا سی بھی روحانی طاقت ہونے کا شائبہ ہوتا ہے۔

کسی شخصیت کی روحانی طاقت کو جب آپ خدا کی ودیعت اور نصرت سے تعبیر کریں گے تو پھر اس کی کسی بات کو بھی جھٹلانے کی جرآت نہیں کر سکیں گے کیونکہ یہ طے شدہ امر بتایا جاتا ہے کہ حق جس کیساتھ ہے اس کی ہر بات حق ہے۔اس نظریئے کو حافظ شیرازی صاحب کے حوالے سے یوں بیان کیا جاتا ہے کہ مرشد اگر جائے نماز کو شراب میں بھگونے کا کہے تو جائے نماز کے تقدس کو بچانے کیلئے انکار مت کر بیٹھنا کیونکہ جو بات مرشد جانتا ہے وہ تم نہیں جانتے لہذا حکم عدولی کے مرتکب نہیں ہونا، اب جو بندہ اس لاجک میں پھنس گیا اس سے جو مرضی کراتے جائیں وہ کبھی حکم عدولی نہیں کر پائے گا۔

امید ہے اب بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ مذہبی قصے یا حکایات کس طرح سے دینی حجت کے مرتبے کو جا پہنچتے ہیں اور عام آدمی کیلئے اس سے انکار کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔