آٹزم

مصنف : خطیب احمد

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : جولائی 2023

طب و صحت

آٹزم (خود محویت)

خطيب احمد

آٹزم پر ریسرچ کے دوران میرے اوپر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ میں نے خود کو آٹسٹک پرسن سمجھنا شروع کر دیا۔ میں ایک بات شروع میں واضح کر دوں یہ کوئی معذوری نہیں ہے۔ بلکہ ایک نیورو ڈیویلپمنٹل ڈائیورسٹی (تنوع) ہے۔ جسکے آگے مختلف درجے ہیں۔ اور اسکے ساتھ کچھ مزید چیزیں جڑی ہو سکتی ہیں۔ ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی اسکی وجوہات اور علاج ممکن نہیں ہے۔ مگر کریں کیا؟

آٹزم یا آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کی بات کریں۔ تو اسکی علامات دو تین سال کی عمر سے لیکر عمر کے کسی بھی حصے میں نمایاں ہو سکتی ہیں۔ یہ علامات مائلڈ اور شدید دونوں طرح کی ہو سکتی ہیں۔ ماہرین نفسیات و ورکنگ سپیشل ایجوکیشنسٹس کے مطابق آٹزم کی بعض علامات یہ ہیں-

سماجی تعلقات سے کترانا۔طبیعت میں جارحانہ پن۔نام سے پکارے جانے پر جواب نہ دینا۔ہر وقت کی بے چینی اور خوف۔بہت ہی ظالم یا بہت ہی نرم دل۔توجہ دینے میں دشواری ۔تنہائی پسند اور گوشہ نشین۔بات کرتے وقت آنکھیں چرانا۔الفاظ اور جملوں کو بار بار دہرانا۔ذرا سی بات پر پریشان ہو جانا۔

اپنا مطلب سمجھانے یا بات کا اظہار کرنے میں دشواری ہونا-ہاتھوں کو چڑیا کے پروں کی طرح پھڑپھڑانا (Hand Flapping)ایک ہی کام کو بار بار کرنا -ایک جگہ پر سکون سے نہ بیٹھنا، بیٹھے ہوئے اچھلنا کودنا

بات کرتے ہوئے آئی کانٹیکٹ نہ دینا -بات سن لینا مگر کوئی رسپانس نہ دینا -بہت زیادہ ضد کرنا، شور مچانا، چیزیں توڑنا، نقصان کرنا، اگریشن -عام بچوں سے زیادہ شرمیلا ہونا -بات کو سمجھنے اور اپنی بات کا اظہار کرنے میں دشواری ہونا-اپنی مرضی کے موضوع پر ہی بات کرنا۔

ایم فل ڈیویلپمنٹل ڈس ابیلیٹیز کرنے کے ساتھ دس سال کے فیلڈ ایکسپیرئنس اور گزشتہ بارہ دنوں میں 120 گھنٹوں کی متواتر گہری (deep) و جدید (latest) ریسرچز کو پڑھنے، دنیا بھر کے آٹسٹک افراد کے انٹرویوز سننے کے بعد میں آٹزم کو ایک مختلف نظر سے دیکھنے کے قابل ہوا ہوں۔ مجھے لگتا ہے مضمون تھوڑا لمبا ہوجائے گا مگر مجھے آج وہ سب کچھ کہنا ہےجو بہت کم کہا سنا اور لکھا گیا۔

حالیہ برسوں میں آٹزم کی ریشو بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ ایک راؤنڈ نمبر میں ہر سو میں سے ایک بچہ آٹزم کے ساتھ ہے۔ اسی تناسب سے دنیا کی 7.9 ارب آبادی کا ایک فیصد یعنی 8 کروڑ آٹزم کے ساتھ ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو 22 کروڑ میں سے 22 لاکھ افراد آٹزم کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان آٹزم سوسائٹی کی آٹزم کے عالمی دن 2 اپریل 2021 کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستان میں اس وقت 4 لاکھ بچے آٹزم کے ساتھ ہیں۔ ہمارے ہاں شناخت کے عمل سے وہی آٹسٹک گزرتا ہے۔ جس میں آٹزم کی اوپر بیان کرنا انتہائی علامات پائی جاتی ہیں۔ اور بے شمار لوگ اپنے آٹسٹک بچوں کی وسائل و شعور کی کمی کے باعث باقاعدہ اسسمنٹ ہی نہیں کروا پاتے۔

آٹسٹک کی اسسمنٹ کرتا کون ہے؟ عموماً ڈاکٹرز یا ماہر نفسیات؟ یہ دونوں فریق اور تیسرا فریق والدین آٹزم کو زیادہ تر ڈس ابیلیٹی کے میڈیکل ماڈل میں دیکھتے ہیں۔ میڈیکل ماڈل میں آٹزم کو ایک ذہنی بیماری، نیورو لاجیکل یا جنیٹک ڈس آرڈر، کوئی میڈیکل کنڈیشن یا ٹریجڈی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ نیورو لاجیکل ڈیویلپمنٹل ٹھیک نہیں ہوئی۔ تو یہ بچہ نارمل نہیں ہے جسے نارمل کرنے پر کام شروع ہو جاتا۔ اسکا علاج ہونا چاہئے۔ پہلی یہی ازمشپن والدین ڈاکٹرز اور کچھ ماہر نفسیات اپناتے ہیں۔ اور بچے کا علاج کے چکروں میں ابتدائی سالوں میں ہی بیڑہ غرق کرکے رکھ دیتے۔میں بحثیت سپیشل ایجوکیشنسٹ اس میڈیکل ماڈل کو آٹزم کے تناظر میں کلی طور پر رد کرتا ہوں۔ ڈاکٹرز کیا کرتے ہیں؟ ٹیسٹ وغیرہ؟ اور سائیکالوجسٹ اسسمنٹ کرتے یا ان میں سے کچھ انکے ساتھ سیشن بھی لیتے ہيں؟ اور سپیشل ایجوکیشنسٹ کیا کرتے؟ اسسمنٹ کے ساتھ دنیا بھر میں ان بچوں کے ساتھ والدین کے بعد زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ایک آٹسٹک بچہ جیسے خود کو ڈس ایبلڈ نہیں سمجھتا اور نہ وہ حقیقت میں ہوتا ہے۔۔ڈس ایبلٹی کے سوشل ماڈل میں ہم سپیشل ایجوکیشنسٹ آٹزم کو کوئی بیماری یا معذوری نہیں سمجھتے۔ کہ جسکا علاج کیا جائے۔ اسے ٹھیک کیا جا سکے یا اسکی روک تھام ہو سکے۔

دنیا بھر میں ہر سال کروڑوں اربوں ڈالر آٹزم کی ریسرچ پر لگائے جا رہے ہیں۔ میں نے جب آٹزم کی فنڈنگ پر ریسرچ کی تو میرے سامنے بات کچھ یوں آئی۔

40 فیصد فنڈز اس فیلڈ میں خرچ ہو رہے ہیں کہ اسکی جنیٹک اور بائیولوجیکل یا دیگر وجوہات کیا ہیں؟ اسکی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ ایک سو سال کی ریسرچ کے بعد بھی یہ سوال جوں کا توں ہے۔

20 فیصد فنڈز اس بات پر کی جانے والی ریسرچ پر لگ رہے ہيں کہ اسکا علاج کیا ہے؟ ہم آٹزم کو کیسے نارمل کر سکتے ہیں؟ 20 فیصد فنڈز آٹزم کے مسائل اور رویوں کی تلاش میں کی جانے والی سالوں پر محیط تحقیقات میں کھپ رہے ہیں۔صرف 7 فیصد فنڈز آٹسٹک لوگوں کی ویلفیئر اور انکی مدد کرنے میں لگ رہے۔

آٹسٹک لوگوں میں خود کشی کا رجحان عام لوگوں سے 9 گنا زیادہ ہے۔ آٹزم کی ایوریج لائف دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی 54 سال ہے جبکہ نارمل لائف سپین 68 سال تک ہے۔ اور کچھ ممالک میں 80 سال تک بھی ہے۔

دنیا کی ترجیحات ہی آٹزم کو لیکر غلط ہیں۔ کینیڈا انگلینڈ امریکہ فرانس جرمنی دوبئی میں مقیم پاکستانی والدین سے میری بات ہوئی تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہاں بھی ان بچوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہم خود ہی کرتے ہیں جو بھی کریں۔ میڈیکل ماڈل پر ہی کام ہوتا ہے۔ شدید ذہنی اضطراب میں نیند کی گولیاں دے دی جاتی ہیں۔ یا ہمیں نہیں معلوم ہمارے بچے کے ساتھ ری ہیبلی ٹیشن سنٹر میں کیا کرتے ہیں۔

آٹزم خواتین کی نسبت مردوں میں بہت زیادہ ہے۔ دس آٹسٹک بچوں میں سے ایک لڑکی اور نو لڑکے ہو سکتے ہیں۔ یا سولہ میں سے ایک لڑکی ہو سکتی ہے۔

آٹزم سوشل ماڈل کے تحت ہے کیا؟

آٹزم کوئی ڈس ایبلٹی نہیں ہے۔ یہ ایک نیورولوجیکل ڈیویلپمنٹ کا مختلف پیٹرن ہے۔ ان بچوں کی سوچنے سمجھنے رسپانس کرنے برتاؤ کرنے گفتگو کرنے میل جول رکھنے کی عادات اکثریت سے مختلف ہوتی ہیں۔ اور آٹزم کے ساتھ لوگوں کی آپس میں بھی ان ایریاز میں ترجیحات اور علامات ایک دوسرے مختلف ہیں۔کچھ لوگ نارمل لوگوں کی ڈیفی نیشن میں بھی انٹرو ورٹ Introvert اور ایکسٹرو ورٹ Extrovert ہوتے ہیں۔ MBTI کا ٹول استعمال کرکے آپ اپنی پرسنیلٹی ٹائپ معلوم کر سکتے ہیں۔ میں ENFP ہوں۔ یہ میرا ایک پرسنیلٹی کوڈ ہے۔ میں ایکسٹرو ورٹ ہوں۔ اس کوڈ کو میں نے ایک لائف کوچ سے فیس دے کر اپنی پرسنیلٹی اسسمنٹ کروا کر معلوم کیا ہے۔ آپ کا بھی کوئی پرسنیلٹی کوڈ ہوگا؟ جو ہمارے سیکھنے اور زندگی گزارنے کے مخصوص طریقے بتاتا ہے۔ جب کوڈ معلوم ہوجائے تو ہمارے لیے یہ آسان ہوجاتا ہے۔ ہم کس فیلڈ کے لیے بنے ہیں؟ کس کام میں تھوڑا کام کرکے زیادہ اور جلدی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ کونسا کام کرتے ہوئے ہم تھکیں گے نہیں۔ اکثریت ساری عمر اپنی ناپسند کے کام میں ہی لگی رہتی۔ اور لوگ زندگی میں کچھ بھی بڑا نہیں کر پاتے۔آپ بھی اپنا پرسنیلٹی کوڈ معلوم کیجئے۔ اور پھر اس کام میں جت جائیے۔ بس دس سال سر نہیں اوپر اٹھانا۔ ٹکا کر محنت کرنی ہے۔ اور انشاء اللہ اگلےسو سال آپکا نام اس فیلڈ میں زندہ رہے گا۔ جتنی محنت زیادہ مقصد بڑا ہوگا اتنا نام معتبر ہوگا۔

آٹزم کی اسسمنٹ تو کروا لی۔ والدین اب کیا کریں؟

اس بچے کو اپنے دیگر بچوں سے مختلف بچہ قبول کریں۔ یہ مشکل ہے خصوصاً ایک ماں کے لیے۔ مگر میری بہن آپ اس بات کو لیکر کسی دکھ یا صدمے میں پلیز ہر گز نہ جائیں۔ نہ ہی اس بچے کو ٹھیک کرنے کے غلط راستے پر چل پڑیں۔ یہ بچہ ساری عمر دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہو سکے گا۔ یہ اپنے انداز میں ایک شاندار زندگی گزار سکتا ہے۔ اگر آپ اسے جو ہے جیسے ہے کی بنیاد پر قبول کر لیں۔۔اور اسکی بہتری پر کام شروع کر دیں۔اس بات کو چھپائیں بھی نہیں۔ سب کو بتائیں فخر سے کہ آپکا بچہ آٹسٹک ہے۔ اسکی پسند ناپسند عادات و اطوار تھوڑی یا زیادہ مختلف ہیں۔ فیملی و خاندان والوں کو ایجوکیٹ کریں۔ کہ اسکے ساتھ برتاؤ کیسے کرنا ہے۔کچھ بچے وربل اور اکثریت نان وربل کی ہوتی ہے۔ کچھ بچے ساری عمر ایک لفظ بھی نہیں بول پاتے۔ اشاروں کی زبان سیکھ جاتے ہیں۔ یا کوئی مخصوص الفاظ بولتے ہیں۔ جیسے انڈہ امی ابو آم کوئی ایک ایک لفظ وہ بھی جب انکی مرضی ہو۔

تفصیلی اسسمنٹ جو ایک فرد واحد نہیں بلکہ پروفیشنلز کی ایک پوری ٹیم کرے۔ اور کئی دن پر وہ اسسمنٹ محیط ہو۔ وہ طے کرے گی کہ آٹزم کے ساتھ کونسی کنڈیشنز جڑی ہوئی ہیں؟ جنکی وجہ سے اسے سپیکٹرم کہا جاتا۔ اوراسکا علاج نہیں کرانا (جو دنیا بھر میں ہے بھی کوئی نہیں) بلکہ مینجمنٹ اور ایجوکیشن کا پلان کیسے بنانا ہے۔

آٹزم کے ساتھ سب سے شدید کنڈیشن جو جڑتی ہے وہ نابینا پن (Blindness) ہے۔ دنیا کی سب مشکل کنڈیشن ہے یہ اگر آٹزم شدید ہو۔اسکے علاوہ لرننگ ڈس ایبلٹیز،

Expressive language disorder

Receptive language disorder

Sensory processing issues

Obsessive compulsive disorder

ADHD

Hydrocephalus

Epilepsy

Schizophrenia

Bipolar Disorder

Depression

Anxiety

Disrupted sleep

Gastrointestinal (GI) problems

Feeding issues

یہ بچے عام بچوں سے مختلف انداز میں سیکھتے ہیں۔ انکو سب سے پہلے بنیادی باتوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی کام کیسے خود کرنے ہیں۔ ممکنہ توجہ اور بول چال پر ماہرین سالوں سال کام کرتے ہیں۔ تو جا کر کوئی معمولی سا آؤٹ پٹ ملتا ہے۔ ان بچوں کی ون ٹو ون ٹیچنگ ہے۔ دو بچے بھی ایک وقت میں ایک جگہ نہیں پڑھ سکتے۔ پنجاب سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ان بچوں کو اس وجہ سے نہیں لیتا۔ کہ وہاں ہر کیٹگری میں بچوں کی ریشو استادوں کی تعداد سے پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ ہمارے بے شمار سکولوں میں دانشورانہ پسماندگی کے ساتھ بچوں والے پورشن میں ایک ٹیچر کے پاس دس بیس بچوں کے ساتھ ہی ایک کونے میں یہ بچہ بھی چپ چاپ سہما ہوا بیٹھا رہتا ہے۔ دس بیس سال بھی وہاں بیٹھا رہے۔ کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ اسے انفرادی توجہ اور ون ٹو ون ٹیچنگ کی ضرورت ہے۔ جہاں ان بچوں کو پڑھایا جاتاہے  وہاں کوئی ڈسٹریکشن نہیں ہوتی۔ کوئی آواز کسی فرد کا گزر نہیں ہونے دیا جاتاکہ یہ بچے انسٹرکشن پر فوکس کر سکیں۔

ان بچوں کے علاج اور بحالی پر دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی ہزاروں نیم حکیم، عطائی، پیر، ڈاکٹر، ماہر نفسیات، سپیچ تھراپسٹ، سپیشل ایجوکیشنسٹ، آکو پیشنل تھراپسٹ اور کئی بغیر کسی ڈگری کے ہی صرف ماہرین کے ساتھ کام کرکے سیکھے ہوئے افراد، والدین و بچے کا وقت برباد کرنے کے ساتھ انکا پیسہ بھی برباد کر رہے ہیں۔ والدین کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ والدین کو کچھ پتا ہی نہیں۔ نیٹ سے معلومات لے کر کوئی نتیجہ نکالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس فیلڈ کے ماہرین ہی کوئی حتمی رائے قائم کر سکتے ہیں۔۔ایک عام آدمی سب کچھ نیٹ سے نہیں سیکھ سکتا۔ ناں ہی سب کچھ جان سکتا ہے۔ جان بھی لے تو بہت زیادہ وقت لے گا۔ اس سارے سین کے بعد خوشی کی بات کیا ہے؟

ان بچوں میں اگر کچھ خرابیاں ہیں تو خدا کی ذات نے کچھ خوبیاں بھی رکھیں ہونگی؟ عقل مانتی ہے ناں اس بات کو؟ مثبت ایریاز کو تلاش کرکے ان پر کام کرکے ان بچوں سے غیر معمولی کام لیے جا سکتے ہیں۔

تو یہ لیں ان بچوں کے کچھ مثبت ایریاز:

مثبت سوچ -انتہائی پاورفل و شاندار یاداشت -حد سے زیادہ مخلص-فوکس کرنے کی اعلی ترین خوبی

باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کی صلاحیت -لوگوں کو گلے لگانا چومنا پیار کرنا -پڑھنا بہت چھوٹی عمر میں شروع کر دینا Hyperlexia-تصویری اشیا سے سیکھنے کی صلاحیت -لاجیکل تھنکنگ-سائنس ریاضی طب انجینرنگ کے مضامین بلا کی ذہانت و فطانت-ٹیکنکل اور لاجیکل مضامین میں مہارت-تخلیقی صلاحیتوں کے سمندر ان بچوں میں قید ہوتے ہيں-انتہائی ذمہ دار ہوتے ہيں یہ بچے

ایسا تب ہو سکتا ہے۔ اگر ان بچوں کے علاج کو چھوڑ پر انکی تعلیم و تربیت پر فوکس کیا جائے۔ گو قابل ماہرین بہت کم ہیں مگر موجود ہیں۔ آپکو ان بچوں کے لیے کچھ پیسے زیادہ کمانے ہونگے۔ ایک ماہر ٹیچر آپ ہائیر کریں گے جو آکے گھر پڑھائے گا۔ وہ ایک ماہ روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ٹائم دینے کا بیس ہزار سے کم کسی صورت نہیں لے گا۔ اور یہ سلسلہ چار پانچ سال سے لیکر دس سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں دو سے تین لوگ بشمول ماہر نفسیات و آکو پیشنل تھراپسٹ بھی ضرورت کے تحت سیشن لیتے ہیں۔ پاکستان کی ہر ڈویژن اور پنجاب کے ہر ضلع تحصیل ٹاؤن سپیشل ایجوکیشن سنٹر سے کسی ٹیچر کا پتا کر لیں جو سکول کے بعد ٹائم دے سکے۔ آپ بچے کی ماں ہیں یا والد خود بھی ساتھ ٹریننگ لیں۔ دنیا بھر میں کامیاب آٹسٹک بچوں کے ٹیچر اکثریت میں انکے والدین ہی تھے۔ یہ بچے ٹیچر کو منہ پر تھپڑ مارتے ہیں۔ تھوک دیتے ہیں۔ چکیاں کاٹتے ہیں۔ اوپر پانی گرا دیتے دھکا وغیرہ دے دیتے ہیں۔ ٹیچر یہ سب کیوں برداشت کرتا ہے؟ کہ اسے اسکا معاوضہ ملے گا۔ پانچ دس ہزار میں کوئی قابل ٹیچر یہ سب سہنے کے لیے نہیں ملے گا۔ آپکو تو پیسوں سے غرض نہیں؟ آپ ٹیچر سے کہیے آپکو بھی ٹرین کرے۔ اگر نہیں کر سکتے تو پیسے زیادہ کمائیے اور بچے کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کیجیے۔ ورنہ بچہ گلیوں میں لوگوں کے ٹھٹھہ مذاق کا سورس ہوگا۔۔یا گھر کے کسی کونے میں پڑا زندگی کے دن پورے کرتا رہے گا۔ یا آپکی ساری زندگی اسکی اور آپکی ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے مشکل میں گزرے گی۔

یہ بچے ارلی انٹروینشن کے بعد تعلیمی نظام کا حصہ بن کر پی ایچ ڈی تک کر سکتے ہیں۔ کئی آٹسٹک پی ایچ ڈی ہیں۔ انکے لیے بہترین ملازمت کے چند پیشے یہ ہیں۔ جن میں یہ اپنی سپر پاورز دکھا سکتے ہیں۔ اور یقیناً آپکی سہی ہوئی تکلیفیں اور خرچا ہوا سرمایہ سب کچھ یہ واپس لوٹا دیں گے۔ اگر آپ نے انہیں کسی قابل بنا دیا۔

انیمل سائنسز جیسے زووالوجی یا جانوروں کو کسی کام کے لیے ٹرین کرنا (دنیا بھر میں ہر نسل کتوں کو سدھارنے اور مختلف کام سکھانے والے ماہرین آٹسٹک لوگ ہیں) ریسرچر کوئی بھی ان جیسا نہیں بن سکتا-آرٹ اینڈ ڈیزائن (گرافک ڈیزائننگ) -پینٹنگ (کہا جاتا ہے صادقین، اسمائیل گل جی اور جمیل نقش صاحب ملک کے تینوں عالمی شہرت یافتہ پینٹر بھی آٹسٹک تھے) ان لوگوں کی پینٹنگز آج کروڑوں میں بکتی ہیں۔ جمیل نقش صاحب کی بیٹی بتا رہی تھی کہ اسکے ابو اپنی ساری زندگی میں بس چند ایک دفعہ ہی گھر سے باہر نکلے۔ ایک بار جب انکی شادی ہوئی پھر جب انکی مسز فوت ہوئی جنازہ کے لیے۔ تیسری دفعہ جب پاسپورٹ بنوانا تھا اور چوتھی دفعہ جب انہوں نے لندن جانا تھا۔ سنہ 2019 میں جمیل نقش صاحب لندن میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آج انکے کام کو دنیا جانتی ہے۔ وہ کسی سے بھی نہیں ملتے تھے بس اپنے کام میں کھوئے رہتے تھے۔

مینو فیکچرنگ (کسی بھی چیز کی) -انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے سافٹ ویئر اور موبائل ایپس بنایا۔ سافٹ ویئر کی خرابی چیک کرنا (امریکہ میں ایک آئی ٹی کمپنی ہے جو فرمز کے بڑے بڑے خراب سافٹ ویئر ٹھیک کرتی ہے۔ ان کے سارے ملازمین اسپرجر سنڈروم کے ساتھ ہیں۔ یہ آٹزم کی ہی مائلڈ شکل ہے)

کسی بھی قسم کی انجینرنگ ملازمت-یہ بچے سائنسدان بن سکتے ہیں (کیونکہ سائنسدان بھی کسی سے بات نہیں کرتے بس اپنے تجربات میں کھوئے رہتے ہیں۔ تین بڑے سائنسدان آئزک نیوٹن، البرٹ آئنسٹائن اور ہینری کیویندش (ہائیڈروجن کا موجود) بھی آٹسٹک تھے۔

جرنلزم میں یہ لوگ کمال کے کالم نگار ہوتے ہیں کہ لکھنا ریسرچ کرکے ہوتا ہے۔۔ریسرچ کرنا ان پر ختم ہے -کسی بھی مشین کے مکینک یہ بہترین ہو سکتے ہیں۔ جان ڈئیر مشینیں بنانے والی مشہور زمانہ امریکن کمپنی میں ٹاپ مکینک آٹسٹک لوگ ہیں۔دنیا کے ٹاپ وکلاء کے پیرالیگل سٹاف میں آٹسٹک لوگ ہو سکتے جو کسی کیس کی اسٹڈی میں رسرچ کرتے ہیں۔ سپیس سائنسز کاسمالوجی میں ان سے بہتر کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ ناسا میں کئی آٹسٹک لوگ ہیں۔ ان تمام شعبوں کے بائی ڈیفالٹ و بائی برتھ بادشاہ آٹسٹک لوگ ہیں۔ یہ سب شعبے انتہائی ذہانت اور لاجیکل تھنکنگ مانگتے ہیں۔ حد سے زیادہ فوکس اور لگن مانگتے ہیں۔ اینٹی سوشل لوگ ہی ہمیشہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ اور انکی تو گھٹی میں پڑی ہوئی یہ خوبی کہ کسی سے بات ہی نہیں کرنی جاؤ جو ہوتا ہے کر لو۔ بس اپنی دنیا میں ہی مگن رہنا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈس ایںبلٹی کے میڈیکل ماڈل کی بجائے سوشل ماڈل کو اپناتے ہوئے ان بچوں کو قبول کیا جائے۔ اور انکی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے۔  

آٹزم (خود محویت) اور لڑکیاں

آٹزم کے لیول 1 اور 2 میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی شناخت بڑی مشکل سے ہو پاتی ہے۔ اگر آٹزم سے متاثرہ پانچ بچے ہونگے تو ان میں سے 4 میل ہونگے اور ایک فی میل۔ یعنی آٹزم کی شرح فی میل میں کافی کم ہے۔ اسکی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں بے شمار لڑکیاں عام طور پر ہر کسی سے فری نہیں ہوتیں۔ ہر کسی کی بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتیں۔ اور مشرقی معاشرے میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کسی لڑکی کا نیچے دیکھتے ہوئے جواب دینا نا صرف نارمل بلکہ اچھا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ گھر کی سیٹنگ بھی لڑکیوں کے ذمے ہوتی ہے تو سمجھا یہی جاتا ہے وہ جہاں جو چیز رکھیں وہ وہیں ہونی چاہیے۔ اسے بدلنے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی۔ تو آٹزم کی بے شمار علامات کا کسی پروفیشنل کے علاوہ اتنی جلدی کوئی نوٹس نہیں کر پاتا۔ وہ زیادہ سوشل ہونا کم ہی پسند کرتی ہیں۔ کہ عورت کی فطری خوبصورتی میں شرم و حیاء اور محدودیت کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اور آٹسٹک لڑکیوں کو اس خصوصیت کا کوّر مل جاتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ہر 55 میں سے ایک بچہ آٹزم کے ساتھ ہے۔ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہر 36 میں سے ایک بچہ آٹزم کے ساتھ ہے۔ اور پاکستان میں شناخت کا کوئی واضح سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ایسے کیس پیش آتے ہيں کہ بیس پچیس سال کی عمر تک معلوم نہیں ہوتا کہ لڑکا یا لڑکی آٹسٹک ہیں۔ اور تب تک انکے ساتھ مختلف ہونے کی وجہ سے جو کچھ ہوتا قابل بیان نہیں ہے۔ اور ایسا پوری دنیا میں ہے۔ لوگوں کو تیس سے چالیس سال کی عمر میں جا کر بھی علم ہوتا ہے کہ ہم آٹزم کے ساتھ ہیں۔ اور وہ یقیناً آٹزم لیول 1 ہوتا ہے۔

آٹزم ہے کیا؟ میری وال پر Pin کی گئی پوسٹ پڑھیں۔ لیول 1 اس سے پہلی پوسٹ میں لکھا ہے۔ لیول 2 اور 3 ایک دو دن میں شئیر کرتا ہوں۔ مضامین لکھ لیے ہیں۔

آٹزم لیول 1 (سب سے کم درجے کا آٹزم)

چند سال قبل میں نوشہرہ ورکاں ایک فلیٹ پر رہا کرتا تھا۔ فلیٹ کے قریب ہی گھر میں ایک بوڑھی ماں جی مجھے آتے جاتے سر پر ہاتھ پھیرتیں۔ وہ اکثر گھر سے باہر اپنی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوتی تھیں۔ کبھی کبھار ہماری ایک دو منٹ گپ شپ بھی ہو جاتی۔ میں ان کو اماں جی کہتا۔ ایک دن میں عشا کی نماز پڑھنے مسجد جا رہا تھا وہ گھر سے نکلی تو بہت رو رہی رہیں تھیں۔ اور گھر سے رونے کی آواز آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ اماں جی کی پوتی جس کی شادی کو ابھی بیس بائیس دن ہی ہوئے تھے۔ اسے طلاق ہو گئی ہے۔ سن کر بڑی پریشانی ہوئی۔ چند دن بعد اماں جی اور اس لڑکی کے والد نے میرے دروازے پر دستک دی اور مجھے کہا کہ ہم نے اپنی پوتی کا سامان جہیز اسکے سسرال سے اٹھانا ہے۔ ان کو معلوم تھا میں ٹیچر ہوں۔ وہ مجھے ماسٹر کہہ کر مخاطب کرتی تھیں انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ لسٹ لے کر جائیں اور تمام چیزیں پوری کر لیں۔ سامان ٹرالی پر مزدور لاد لیں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی ان لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ آپ نے بس لسٹ میں موجود سب چیزیں پوری کرنی ہیں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں میں چلا جاتا ہوں۔ ہم وہاں گئے۔ وہ بہت ملن سار لوگ تھے۔ انہوں نے ہمیں بٹھا دیا اور کہا کہ ہم خود سارا سامان لاد دیں گے۔ کوئی ایک بندہ لسٹ سے سامان پورا کرلے۔ ہم نے ایک چیز بھی نہیں ادھر ادھر کی۔ واقعی سامان پورا تھا۔ میں نے لڑکے سے پوچھا جس سے لڑکی کی شادی ہوئی تھی۔ کہ اتنی جلدی یار ایسا کیا ہوگیا کہ طلاق ہی ہوگئی۔ بولا سر میری بیوی پتا نہیں کن خیالوں میں گم رہتی تھی۔ بات کرو تو آنکھیں جھکائے رکھتی تھی۔ اور جواب بھی بڑا سوچ سوچ کر دیتی تھی۔ کسی سے بھی کھل کر بات نہیں کرتی تھی۔ کسی عورت سے بھی گلے ملتے ہوئے اسکی جان نکلتی تھی۔ ہم پہلے سمجھے کہ سسرال میں نئی ہے اور لڑکیاں شرمیلی ہی ہوتی ہیں۔ چند دن بعد ٹھیک ہو جائے گی۔ مگر میں جب اسکے قریب جاتا تو وہ جیسے کراہت کا اظہار کرتی۔ منہ سے تو کچھ نہ کہتی مگر خود کو جیسے سمیٹ رہی ہو۔میں اسکا ہاتھ ہی پکڑتا تو خود میں جیسے سکڑنے لگی ہو۔ مجھ سے جیسے ہر وقت ڈر رہی ہو۔ ہم نے مولوی صاحب کو بلا کر دم کرایا۔ اس سے بھی پوچھا کہ تمہیں کوئی ڈر ہے تو بتاؤ۔ تو آگے سے کوئی جواب بھی نہ ٹھیک سے دیتی۔ بس یہی کہتی کہ نہیں میں ٹھیک ہوں۔ تین چار دن بعد معلوم ہوا کہ وہ کسی سے گفتگو نہیں کر سکتی۔ بس ہوں ہاں اور عجیب و غریب سی باڈی لینگویج۔ جیسے کوئی کسی سے نظریں چرا رہا ہو۔ وہ جہاں کوئی چیز رکھتی وہ یہ چاہتی کہ اسے کوئی وہاں سے ہلائے بھی نہ۔ کوئی باہر سے آتا تو اسے ملتی تک نہ تھی۔ایک رات اسے ہیضہ ہو گیا ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انجکشن نہیں لگوا رہی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا یہ ضروری ہے۔ ہمیں زبردستی اسکے ہاتھ پکڑنے پڑے۔ اس بات سے وہ شدید ہائپر ہوگئی۔ چیخنے چلانی لگی اور میری امی کے منہ پر تھپڑ پر مار دیا۔ اپنے سر پر ہاتھ مار کر اونچی اونچی باتیں کرنے لگی کہ چلو چلو چلو یہاں سے چلو۔ جیسے اس میں کوئی بھوت پریت آگیا ہو۔ اور خود ہی ہسپتال سے بھاگ کر باہر نکل گئی۔ بڑی مشکل سے ہم نے اسے پکڑا وہ کسی کو بھی اپنے قریب نہ آنے دیتی تھی۔ اگلی صبح ہم نے ایک عامل بابا کو گھر بلایا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔ کوئی جن بھوت یا جادو سایہ وغیرہ نہیں ہے۔ جب ہم نے ماہر نفسیات کے پاس جانے کی بات کی تو کہتی میں نہیں جاؤں گی۔ میں ٹھیک ہوں۔ حالانکہ جو کچھ ہسپتال میں ہو چکا تھا اس نے ہمیں شدید پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔ ہم نے سوچا ماہر نفسیات کو گھر بلا لیتے ہیں۔۔وہ اس پر بھی نہ مانی۔ یہاں تک ہم نے اسکے میکے بات نہیں کی تھی۔ اب ہم نے ضروری سمجھا کہ ان سے بات کی جائے کہ یہ کیا مسئلہ ہے۔ جب ان سے بات کی تو وہ لوگ کہنے لگے اسے تھوڑا سا ایسا مسئلہ تھا۔ اور ڈاکٹروں اور پیروں وغیرہ نے ہمیں کہا تھا کہ اسکی شادی کر دو ٹھیک ہو جائے گی۔ کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ وہ بولے ہم نے سب ان کو بتایا کہ یہاں وہ کسی سے بھی بات نہیں کرتی۔ کھانے پینے میں اسکی لسٹ صرف ابلے آلو دال چنا اور چاول تک محدود ہے۔ یہ نارمل نہیں ہے۔ وہ کوئی سبزی نہیں کھاتی۔ اور جب تک اسے کہیں نہ وہ کھانا کھاتی بھی نہیں ہے۔ ہر وقت ڈری سہمی رہتی ہے۔ اس لڑکے نے بتایا کہ وہ یہاں بیس دن رہی۔ ان بیس دنوں میں اپنی بیوی کا میں صرف ہاتھ پکڑ سکا۔۔اس سے آگے بڑھنے کی مجھے اجازت نہیں تھی۔ یہاں سے میکے گئی کہ میں چند دن بعد آجاؤں گی۔ وہاں جاکر مجھے میسج کیا کہ مجھے طلاق چاہیے۔ میں واپس نہیں آؤں گی۔ اور ہمارے تو پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ ہم سب گھر والے فوراً رات کو ہی وہاں چلے گئے۔ اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ اسکے ماں باپ نے کہا کہ آپ چلیں جائیں۔ ہم آپ کو بلا لیں گے یا خود آجائیں گے۔ اور چند دن بعد میرے سسر کی کال آئی کہ ہم آپ لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں طلاق بھجوا دیں۔ ہماری بیٹی کہتی ہے میں خودکشی کر لوں گی اگر مجھے وہاں بھیجا تو۔ وہ اس شادی پر بھی خوش نہ تھی۔ ہم نے زبردستی شادی کی۔ ہم آپ کے مجرم ہیں۔ ہم نے آپ سے یہ چھپایا کہ لڑکی کو تھوڑا سا مسئلہ ہے۔اور یوں یہ رشتہ ختم ہوگیا۔ میں واپس آیا تو بڑی اماں سے کہا کہ میں آپکی پوتی سے مل سکتا ہوں؟ بولیں ہاں کیوں نہیں ۔ اس نے مجھے ملنے سے انکار دیا۔ فیملی سے تمام افراد سے ہسٹری لی۔ تو معلوم ہوا وہ لڑکی لیول 1 آٹزم کے ساتھ ہے۔ اور اس بات کا والدین کو بھی نہیں معلوم۔ وہ ہر کسی سے نہیں ملتی۔ دوستی کسی سے بھی نہیں کرتی۔۔اپنء کمرے میں بند رہتی ہے۔ غصے میں کبھی آجائے تو بہت نقصان کرتی ہے۔ اور کئی ماہ تک بلکل ٹھیک بھی رہتی ہے۔ کہیں بھی جانے سے گریز کرتی ہے۔ اور کسی سے گفتگو کرنے میں دشواری محسوس کرتی ہے۔ گھر کے سب لوگوں سے بلکل ٹھیک بات کرتی ہے۔ اور سب کچھ جانتی ہے سمجھتی ہے۔ صفائی کا بہت خیال رکھتی ہے۔ کھانے پینے میں کافی چوزی ہے۔ اور یہ آج کل نارمل ہے جدید ماؤں نے بچے بگاڑے ہوئے کہ بچے آدھی سبزیاں اور آدھی دالیں کھاتے ہی نہیں ہیں۔ اور یہ انکی عادت ساری عمر ساتھ چلتی ہے۔مگر جب وہ ایک نئے گھر اور نئے لوگوں میں گئی تو اسے بہت کچھ نجا سیکھنا پڑا جو اسکے لیے شاید اتنی جلدی سیکھ پانا ممکن نہ تھی۔ ایسے اور اس سے ملتے جلتے رویوں کے حامل افراد آٹزم لیول 1 کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ آٹزم کی تشخیص ایک انتہائی پیچیدہ اور محنت طلب کام ہے۔۔جو بہت زیادہ ٹائم اور ٹیسٹنگ لیتا ہے۔ ایک دم سے کسی کو آٹزم کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا۔ پوری دنیا میں لوگوں کو اپنی زندگی کے بیس تیس اور چالیس سال بعد بھی جاکر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو آٹسٹک تھے۔ مگر انہوں نے یا انکے گرد موجود لوگوں نے ماحول نے ان کو ایڈجسٹ کرنے میں مطلوبہ مدد فراہم کی۔ انکے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں کیں ہوتی کہ وہ ڈائگناسز کی طرف جائیں۔

دوسری طرف لڑکیوں کی فطرت میں موجود نیچرل شرم و حیاء اور محدود رہنے کی عادت ان میں موجود آٹزم کی معمولی علامات کو چھپا لیتا ہے۔ اور وہ اپنی ساری زندگی بھی بغیر تشخیص کے کامیابی کے ساتھ گزار لیتی ہیں۔ مگر ایاے کیس لاکھوں میں چند ایک ہی ہوتے ہیں۔ دوسری طرف آٹزم کو جن بھوت کے سایے یا جادو کے اثرات سے جوڑ کر تعویذ گنڈے کروائے جاتے ہیں۔ اور بچیوں کو جاہل پیروں کے سپرد کرکے انکی اس کیفیت کو اور بڑھا دیا جاتا ہے۔

اب الحمدللہ حالات کافی بدل رہے ہیں۔ ضرورت اب بھی اس امر کی ہے کہ آٹسٹک لوگوں کی دنیا کو سمجھا جائے اور ان کو انکے زون میں رہنے کی آزادی دی جائے۔ شادی کے لیے وہ خود دل سے آمادہ ہوں تو یہ فیصلہ کیا جائے۔ ورنہ ایسا بلنڈر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جو اس کہانی میں موجود بچی کے والدین نے کیا۔ خود بھی پریشان ہوئے اور اگلے گھر کو بھی نہ صرف پریشان بلکہ گاؤں اور خاندان میں بھی مشکوک کر دیا کہ اتنی جلدی کیوں انہوں نے طلاق دے دی۔ اس لڑکے کی دوسری شادی اب اتنی آسان نہیں ہوگی۔ جب کہ اس سب میں اسکا کوئی قصور نہیں ہے۔

ایک آخری بات یہ کوئی بیماری نہیں ہے ۔ جس کا ڈاکٹروں کے پاس علاج ہو۔ بس ہم نے ان افراد کو آسانیاں اور space دینی ہوتی ہے کہ وہ اپنی دنیا میں رہتے ہوئے ہمارے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ جب بھی ان کو انکے دائرے سے زبردستی نکالنے کی کوشش کریں گے مسئلہ خراب ہوگا۔ وہ سب سمجھ رہے ہوتے کہ آپ کیا کر رہے تھے۔ بس آپ کو بتا نہیں پاتے کہ ہم اپنی دنیا میں بہت خوش ہیں۔ ہم ٹھیک ہیں ہمیں ٹھیک کرانے کے لیے نہ کسی جگہ لے کر جاؤ۔ جو کرنے کا کام ہے وہ ہمیں قبول کرو۔ اور ہمیں اپنی مرضی سے اپنی اس دنیا میں رہنے کی اجازت دے دو۔ ہمیں تھوڑا ٹائم دو ہم ضرور ایڈجسٹ کر لیں گے۔

آٹزم لیول 2 (درمیانے درجے کا آٹزم)

جیسا کہ آپ جانتے ہیں آٹزم لرننگ ڈس ایبلٹیز کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ڈس ایبلٹی ہے۔ امریکہ میں اس وقت 36 میں سے 1 بچہ کسی نہ کسی درجے میں آٹزم کے ساتھ ہے۔ اس سے کسی بھی درجے میں متاثرہ افراد کو سماجی تعامل، گفتگو کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے، لوگوں سے ملنے جلنے اور دوستیاں کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ DSM-5 (Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders-five) کے مطابق آٹزم کے تین لیول ہیں۔ اج ہم لیول 2 کے بارے میں بات کریں گے۔

یہ افراد لیول 1 کی طرح باڈی لینگویج سے اپنی بات کا اظہار نہیں کر سکتے۔ نہ یہ کسی اشارے کنائے کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ جھوٹ نہیں بولتے۔ مکار نہیں ہوتے اور بات کرتے وقت آپکی آنکھوں میں دیکھنے سے کتراتے ہیں۔ یہ ہاتھ سے سلام نہیں لیتے، لیں بھی تو ہاتھ ایک سیکنڈ میں پیچھے کھینچ لیں گے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ٹچ نہیں کرنے دیتے۔ آپ ان سے بات کریں گے تو کوئی دھیان نہیں دیں گے۔ یا کچھ دیر بعد جواب دیں گے۔ تب تک آپ شاید بھول چکے ہوں کہ آپ نے کوئی سوال پوچھا تھا۔ ممکن ہے آپ کے سوال کا کوئی جواب نہ ملے۔

لیول 2 کی علامات تو پیدائش کے چند ماہ بعد ہی واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ عموماً شناخت ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ کہ اسسمنٹ کا کام ایک انتہائی پیچیدہ اور وقت طلب صبر آزما مرحلہ ہے۔ لیول 1 میں بچے کی سیکھنے اور پڑھنے لکھنے کی صلاحیت اس حد تک متاثر نہیں ہوتی۔ جتنی لیول 2 میں ہوتی ہے۔ ان بچوں کو سکول میں جب ڈالا جاتا ہے تو انکے رویے کو باقی بچوں کی نسبت awkward کہا جاتا ہے۔ والدین ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہمارا بچہ آٹسٹک ہے۔ بے شک وہ نان وربل ہو۔ پھر بھی اسکی قبولیت ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔

یہ بچے ایک ہی کام کو بار بار کریں گے۔ ایک ہی لفظ یا بات کو کئی دن تک دہرائیں گے۔ واش روم میں بہت ٹائم لگائیں گے۔ کھانا کھانے میں صرف چند چیزیں ہی کھائیں گے۔ تھوڑی محنت درکار ہوتہ ہے مگر ٹائلٹ ٹرینڈ بھی ہو جاتے ہیں۔ پڑھائی لکھائی میں کوئی خاطر خواہ گریڈز نہیں لا سکتے۔ والدین ہر سال سکولز بدلتے رہتے ہیں اپنی سوچ نہیں بدلتے۔ کہ یہ بچے عام سکولوں میں نہیں پڑھ سکتے۔ آٹزم ون ٹو ون ٹیچنگ مانگتا ہے۔ اور اتنے زیادہ مضامین ریگولر پڑھنا ایک آٹسٹک بچے کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان کو تو ایک لفظ سکھانے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اور میٹرک کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا انکے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ The good doctor ڈرامہ سیریز میں ڈاکٹر شان مرفی کو لیول 1 کا آٹزم ہے۔

جولائی سال 2021 کو میری ملاقات کسو وال میں ایک لیول 2 کے آٹسٹک بچے ریحان ملک سے ہوئی۔ وہ بچہ Zafar Iqbal Muhammad محمد صاحب کا لخت جگر ہے۔ اس وقت وہ بچہ گاؤں میں رہتا تھا اور اسکی والدہ کو اکہلے اس بچے کو سنبھالنا پڑتا تھا۔ گاؤں میں لوگوں کو ان افراد سے بات کرنے کی کوئی خاص سینس نہیں ہوتی اور ان کو تنگ کیا جاتا ہے۔ تو یہ بچے ہائیپر ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں ریحان ملک خود کو ایک لڑکی سمجھتے تھے۔ دوپٹہ لیتے تھے اور اپنا نام بھی کسی لڑکی کا بتاتے تھے۔ نیند کے مسائل تھے اور واش روم جانے میں کچھ دشواریاں تھیں۔

میں نے ظفر جی کو مشورہ دیا کہ فی الفور اس بچے اور اپنی اہلیہ کو کراچی اپنے ساتھ شفٹ کریں۔ انہوں نے میرا مشورہ مان لیا۔ دو سال اس بچے کے ساتھ ظفر جی نے ماشاءاللہ خود بہت کام کیا۔ اسے بہت ٹائم دیا۔ آج جب مجھے ریحان ملک کی باتیں بتائی جاتی ہیں تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا کہ وہ خود کو مختلف بچہ ماننا شروع کر چکے ہیں۔ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ میں آٹسٹک ہوں۔ حالانکہ پہلے ان کو ایسا کہا جاتا تو سخت ناراض ہوتے تھے۔ اور اپنے بارے میں کوئی بھی بات سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ اب آٹزم پر بنی ویڈیوز خود دیکھتے ہیں۔ اور اپنے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری زندگی کا یہ پہلا کیس ہے کہ لیول 2 کا بچہ وہ تمام کام کر رہا ہے جو لیول 1 والے آٹسٹک بچے کرتے ہیں۔ یعنی خود کو قبول کرنا اور اپنے مسائل کو خصد سمجھ کر انکو حل کرنے کی کوشش کرنا۔ نئے الفاظ سیکھنا ایک لفظ کے دیگر معانی جاننے کی کوشش کرنا۔ یاد ریے آٹزم Progressive نہیں ہے۔ یعنی یہ عمر کے ساتھ بڑھنے والی کنڈیشن نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ عمر کے ساتھ ختم ہونے والی کنڈیشن ہے۔ اس میں جو بہتری آ سکتی ہے قہ متاثرہ فرد کا اپنی ذہنی استعداد کا ادراک اور اپنے مسائل کی قبولیت ہے۔ کوئی یہ جان سکے میں آٹسٹک ہوں ہم سپیشل بچوں کے اساتذہ کے لیے وہ دن دیگ بانٹنے جتنی خوشی والا ہوتا ہے۔ والدین چاہ رہے ہوتے کہ یہ چیز بچے کا مکمل پیچھا چھوڑ دے۔ اور ایسا تو کبھی نہیں ہونا ہوتا۔ جب متاثرہ فرد یا بچہ خود کو مختلف سمجھ کر اپنے آپ کو قبول کرکے اپنا سفر شروع کرتا ہے تو زندگی بڑی آسان ہو جاتی ہے۔۔مگر یہاں تک پہنچنے میں والدین کی شاید ساری زندگی گزر چکی ہو۔

ان بچوں کے مسائل کو کم کرنے کے لیے جو تھراپیز دی جاتی ہیں ۔۔وہ یہ ہیں۔۔

Sensory integration therapy

یعنی اونچی آوازوں اور تیز لائٹ کا سامنا کیسے کرنا ہے۔ اگر یہ تربیت نہ دی جائے تو یہ افراد اونچی آواز نہیں سن سکتے اور تیز روشنی کی طرف نہیں دیکھ سکتے۔ اور اکثر ہائپر ہو جاتے ہیں۔ اپنے سر کو پیٹنے لگتے ہیں۔ شور مچاتے ہیں۔

Occupational therapy

اپنے روز مرہ کے کام کیسے سرانجام دینے ہیں۔ کپڑے بدلنا، برش کرنا، تسمے باندھنا، کھانا کھانا، پانی پینا، چمچ کا استعمال، بٹن بند کرنا، ناک منہ صاف کرنا یا اس سے ملتے جلتے دیگر روز مرہ کے کام

ABA therapy

لیول 2 کے آٹسٹک بچوں کے لیے دنیا بھر میں یہ تھراپی ریکمنڈڈ ہے۔ کہ وہ دوسروں سے بات کس طرح کر سکیں۔ اپنے رویوں میں بہتری کیسے لا سکیں۔ کسی ان وانٹٹڈ عادت کا کیسے چھوڑ سکیں۔ "سیکھنا" سیکھ سکیں۔ کچھ یاد کر سکیں۔ خیالات کا اظہار کر سکیں۔ اور اپنی پسند و ناپسند بہتر طریقے سے بتا سکیں۔

آٹزم لیول 3 (شدید نوعیت کا آٹزم)

ایک سال قبل میں نے دو آٹسٹک بچوں سے ملنے کے لیے اسلام آباد کا سفر کیا۔ دونوں کے بچے آٹزم لیول 3 کی شدید علامات کے ساتھ تھے کہ 15 سے 20 سال کے ہو کر بھی ٹائلٹ ٹرین نہیں تھے۔ ان کو پیمپر لگا کر رکھنا پڑتا تھا۔ نان وربل تھے۔ یعنی ایک لفط بھی نہیں بولتے تھے۔ ہر وقت موبائل سکرین استعمال کرتے تھے۔ والدین ان کو کہیں نہ لیکر جا سکتے تھے نہ ان کو گھر چھوڑ کر کہیں بھی خود جا سکتے تھے۔ 24/7 سروس تھی۔ روز مرہ کے مسائل الگ۔ ان دونوں میں لڑکی بہت زیادہ وائلنٹ تھی۔ ماں باپ بہن بھائیوں کو کئی بار مار چکی تھی۔ خود کو کمرے یا واش روم میں بند کر لیتی۔ کئی بار دروازوں کی چٹخنیاں توڑنی پڑیں۔

وہ لڑکی میرے سامنے آئی تو میرے منہ پر تھوک دیا۔ بات یہاں نہیں رکی چائے کا کپ بھی چائے سمیت بھی پکڑ کر مجھے دے مارا۔ اسکا مطالبہ تھا کہ مجھے گھر سے فی الفور نکالا جائے۔ وہ کسی بھی ڈاکٹر یا تھراپسٹ کے پاس جانے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ انکے گھر میں کسی رشتہ دار تک کو بھی داخل ہونے کی اجازت تھی۔ وہ لڑکی جان لیوا حملہ کر دیتی تھی۔ یا اپنا سر دیوار میں مارنے لگتی۔ اپنا سر پیٹنے لگتی۔ چیخنا چلانا شروع کر دیتی۔ دونوں کو ہر روز کھانا خود کھلانا پڑتا تھا۔ پانی بھی خود پلانا پڑتا تھا۔

واش روم بالفرض چلے جاتے تو اگر ان کو کموڈ سے نہ اٹھایا جائے تو گھنٹوں وہیں بیٹھے رہیں گے۔ کھانے پینے میں انتہائی محدود آپشن۔ بیٹے کو والد کھانا کھلاتے اور بیٹی کو والدہ۔ اندھیرے اور اکیلے رہنا سب سے محبوب مشغلہ۔ نہ گرمی کی پرواہ نہ سردی کی۔ اور ایسا بلکل بھی نہیں ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوں۔ گھر میں کون آیا کون باہر گیا۔ گھر میں کیا بات ہو رہی ہے۔ سب کچھ ان کو معلوم ہے۔ اور انکی نیچر سے مخالف یا انکی پسند سے ہٹ کر کوئی بات یا کام کیا گیا تو وہ اس پر اپنا ری ایکشن ضرور دیں گے۔ احتجاج کریں اور کچھ بھی نیا ہونے سے روکیں گے۔ اپنے کمرے میں جو کچھ جہاں پڑا ہوا ہے وہ ہمیشہ ویسا ہی رہے گا۔ کسی کی جرات نہیں ہے کوئی اس میں تبدیلی کر سکے۔

دونوں ماؤں کہ یہ پہلی اولاد تھے۔ ایک بیٹا تھا اور دوسری بیٹی تھی۔ دونوں بچوں کی ماؤں کی عمر 40 کے قریب تھی۔

اس کنڈیشن کو دعاؤں یا دواؤں سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ان بچوں کو انکے پیٹرن میں ہی زندگی گزارنے کی آزادی دینی ہوتی ہے۔ جو کہ اپنی پوری زندگی ان پر قربان کر دینے کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔ غصہ مار یا سختی کرنے سے ان کے رویے مزید بگڑ جاتے ہیں۔ دیہاتوں میں آٹزم لیول تھری کو مجذوب کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ لگتے ہر چیز سے بے خبر ہیں مگر ہوتے پل پل کے عوامل سے باخبر ہیں۔ ان کو پہنچی ہوئی ہستی مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں کئی آٹزم لیول 3 کے لوگوں کی وفات کے بعد ان کو ولی کا درجہ دے کر ان کی قبر پر مزار بنا گیا۔ اور لوگ وہاں اپنی منتیں مرادیں لیکر جاتے ہیں۔ حافظ آباد شہر میں بھی آٹزم لیول 3 کے بابا جی تھے۔ ان کو مجذوب سمجھا جاتا تھا۔ اور آج انکا دربار بھی ہے۔ ان کا نام تھا سائیں شریف۔ اور محلہ شریف پورہ میں ہی وہ مدفون ہیں۔ ان کے ماننے والے شاید مجھ سے ناراض ہوں۔ میں ان سے خود انکی زندگی میں ملا ہوا ہوں۔ وہ آٹسٹک لیول تھری پر تھے۔ جنہیں لوگ مجذوب کہتے تھے۔

ایک ماں سے مجھے مل کر تو جیسے لگا یہ اس بچے کی بڑی آپی ہیں۔ عمر میں 10 سال اپنی حقیقی عمر سے کم نظر آئیں۔ اور ماشاءاللہ بظاہر خوش و مطمئن۔ بچے کے والد صاحب کچھ دیر بعد ملے وہ بھی بلکل ینگ و ہیپی بوائے۔ "میری طرح"۔ جب کہ مجھ سے 10 سے 12 سال بڑے تھے۔ دونوں میاں بیوی نے مجھے اتنا متاثر کیا جتنا اب تک کسی والدین نے نہیں کیا۔ آپ کو شاید میری سوچ عجیب لگے۔ میں والدین کو ایسا دیکھنا چاہتا ہوں۔

دوسری طرف راولپنڈی چاندنی چوک گیا تو ماں نے خود کو شوگر بلڈ پریشر کی بیماریوں کے ساتھ موٹاپے کا شکار کر رکھا۔ والد صاحب بھی جوانی میں بزرگ بنے ہوئے کہ ہماری بیٹی کا کیا بنے گا۔ ماں مسلسل روئے ہی جا رہی تھی۔ جیسے دنیا جہاں کے دکھوں نے انکا گھر دیکھ لیا ہو۔

پہلے والی ماں کی فٹنس کا راز پوچھا تو انہوں نے کہا سر میں ریگولر کراٹے کھیلتی ہوں۔ اور غالباً کالے بیلٹ لیول پر ہوں۔ لگ بھی رہا تھا لڑکی کراٹا مار کر کوئی ہڈی پسلی توڑ سکتی ہے۔ فزیکلی بلکل سمارٹ، کلائی پر سمارٹ واچ اور چہرے پر خوشی و اطمینان۔ ان کو کسی کی ہمدردیاں اور ترس بھرے جملے سننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ وہ ایسے سب عام لوگوں سے کنارہ کر چکے تھے۔

آپ کا بچہ سپیشل ہے۔ آپ روتے ہی رہیں گے خود کو بیماریاں لگا لیں گے۔ اپنے پلے کچھ نہ چھوڑیں گے۔ تو وہ ٹھیک ہو جائے گا؟ ایسا کریں خود کو رو رو کر مار ہی لیں۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا؟ کبھی بھی نہیں۔ اس کے جو سانس میرے مالک نے لکھے ہیں وہ اس نے لینے ہیں۔ اور ویسے ہی لینے ہیں جیسے لکھے ہیں۔ کوئی دعا کا دوا اس حالت کو بدلنے والی نہیں۔ ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی اسکی ایک قسم ہے۔ بچہ دن بدن موت کی طرف جا رہا ہوتا۔ پوری دنیا ملکر پر بھی اس بیماری کے ہر روز بڑھنے کو نہیں روک پا رہی۔

یہاں سپیشل بچوں کے اکثریتی والدین کو روتے دھوتے دکھوں میں ڈوبے ہی دیکھا ہے۔ وہ بچوں کو ٹھیک کرنا چاہ رہے ہوتے۔ جو اکثر کیسز میں کبھی بھی نہیں ہونا ہوتا۔ اور انکے خود ساختہ دکھ کبھی ختم ہی نہیں ہوتے۔ جو ہو گیا سو گیا اب باقی بچوں کا حق اور پیار تو اس سپیشل بچے کو نہ دیں۔ باقی بچوں کے حصے کے وسائل اس پر ضائع نہ کریں۔ یہ آپ اپنے ساتھ اس سپیشل بچے کے ساتھ اور دوسرے سب بچوں کے ساتھ زیادتی کریں گے۔

اس بچے کے ایسا ہونے میں آپکا کوئی قصور نہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہو پا رہا تو بھی آپکا کوئی قصور نہیں۔ جذباتی ہونا اپنے بس میں نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اتنے مضبوط نہیں ہوتے کہ سپیشل بچوں کو سپیشل ہی قبول کر سکیں۔ مگر آپ کو یہ کرنا ہے۔

اگر آپ خوش رہیں گے۔ اپنا خیال رکھیں گے۔ اس بچے کی معذوری کو ہر وقت اپنے سر پر سوار نہیں کریں گے۔ تو اس بچے کے لیے واقعی کچھ کر پائیں گے۔

آپ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ معیار زندگی میں کچھ بہتری اور بس!

پلیز ابھی ایموشنل نہیں ہونا۔ دھیان سے میری بات سنیں۔

جاہل لوگ تو کہیں گے کہ اسے تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ بچہ سپیشل ہے اور اسکے فیشن دیکھو۔ ہر بیوہ یا طلاق یافتہ جو خوش رہتی ہے اپنا خیال رکھتی ہے اسے بھی بیوقوف لوگ یہی کہتے ہیں کہ بیوہ ہو کر طلاق لے کر بھی اسکے فیشن نہیں ختم ہوئے۔ یا بار بار وہی بات کریں گے جو آپ نہیں کرنا چاہتے۔ ایسے لوگوں کو اپنی زندگی سے باہر کر دیں۔ دور کر دیں۔ ڈیلیٹ کر دیں۔ یا ملنا ملانا بہت ہی کم کر لیں۔ یہ آپ کی مشکلات کو کبھی بھی کم نہیں ہونے دیتے۔ تسلی و ہمدردی کے نام پر مسلسل ذہنی اذیت دے کر آپ کو برباد کر دیں گے۔ زندگی جینے کا حوصلہ چھین لیں گے۔

ان لوگوں سے ملیں جو آپ کو آگے بڑھنے میں مددگار ہوں۔ جو ہوگیا وہ واپس نہیں ہونا۔ یا ٹھیک نہیں ہونا۔ اس پوائنٹ سے اگلا قدم اٹھائیں۔ میں آپکا بچہ سو فیصد ٹھیک نہیں کر سکتا۔ ہاں آپکو آگے بڑھنے میں مدد کر سکتا ہوں۔ یہی کرتا ہوں۔

خوش رہنا ہے۔ رونا دھونا بند کریں پلیز۔ کراٹے گرل بنیں۔ یوگا گرل بنیں۔ سماج میں کچھ بڑا اور مثبت رول پلے کریں۔ آپ کو کس نے روکا ہے؟ اپنی زندگی بھرپور جئیں۔ اس بچے کی وجہ سے اپنی زندگی ختم نہ کریں۔ اس کی جو زندگی ہے وہ اپنی جئیے گا۔ آپ کی محبت یہ نہیں کہ آپ خود کو بھی مار لیں۔

بلکہ خود کو ٹھیک رکھیں۔ اپنی ریگولر کئیر کریں۔ معذوری کو قبول کر لیں اگر دائمی ہے تو۔ کہ یہ کبھی بھی سو فیصد ٹھیک نہیں ہونی۔۔ کوئی بیماری تو ہے نہیں جس کا علاج ہو۔ یہ تو عمر بھر ساتھ رہنے والی کنڈیشن ہے۔ آٹسٹک بچہ بس اپنی دنیا سے ایک حد تک ہی نکل پائے گا۔ آپ جو مرضی کر لیں۔ اسے اسکی دنیا میں جینے دیں آپ اپنی دنیا میں جئیں اور خوش رہیں۔