گاؤں كا غير ضروري آدمي

مصنف : محمد حامد سراج

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : جون 2023

ادب  و افسانہ

گاؤں کا غیرضروری آدمی

محمد حامد سراج

زمین پر سورج کتنے قرنوں سے طلوع اور غروب کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یہ اندازہ تخمینہ لگنا ممکن ہی نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے محور میں گھوم رہے ہیں۔ چاند، ستارے، سورج، زمین، انسان، چرند پرند اور دکھ سکھ۔۔۔ سب گھوم رہے ہیں۔ اپنے اپنے حصے کی عمریں پوری کر رہے ہیں۔ وہ بھی ایک ایسی ہی صبح تھی۔ میں مسجدکے صحن میں بیٹھا کھلتی صبح کے اوراق گن رہا تھا۔ ایک شخص جس نے میلی سی پگڑی باندھ رکھی تھی، میرے پاس آکر بیٹھا اور دھیرے سے کہا۔ جی وہ خیرولوہار مر گیا ہے۔ اس کے مرنے کا اسپیکر پر اعلان کر دیں۔ اس کے چہرے پر دکھ کا کوئی پرتو نہیں تھا۔ کیا کہا۔۔؟ خیرولوہار مر گیا۔۔۔! کل تک تو وہ بھلا چنگا تھا۔کھلتی صبح کے اوراق بے ترتیب ہو گئے۔ مسجد کے گنبدوں سے نکلنے والا ایک سا اعلان۔۔۔ ’’حضرات، ایک ضروری اعلان سنیں۔ خیر محمد لوہار قضائے الٰہی سے فوت ہو گیا ہے۔ اس کی نماز جنازہ دن کے گیارہ بجے عیدگاہ میں اداکی جائےگی۔ ‘‘ اس کا پورا نام شاید زندگی میں دوسری بار لیا گیا تھا۔ پہلی بار جب اس کے ماں باپ نے رکھا ہوگا اور اب دوسری بار اس کی موت پر۔ فضامیں چپ سی گھل گئی۔ میں یقین اوربےیقینی کے کندھوں پر ہاتھ رکھے مسجد سے باہر آیا تو سامنے کے احاطے سے صدوبھینسوں کی پیٹھ تھپکتا باہر نکل رہا تھا۔اس کے چہرے پرصرف کام کی تھکن تھی۔ اسے ساتھ لے کر جب میں خیرو کے گھر ٹوٹی لکڑیوں کے ادھ کھلے گیٹ سے اندر داخل ہوا تو کچے کمرے کے سامنے کچے صحن میں ایک چارپائی پر خیرو ابدی نیند سو رہا تھا۔ اس پر اس کے کردار کی طرح سفید چادر تھی۔ بےداغ، اجلی اجلی، دھلی دھلی۔۔۔ وہ مجھے ہمیشہ میلے کپڑوں میں نظر آیا۔ اس کے مکمل نام کی طرح میں نے پہلی بار اسے اجلی چادرمیں دیکھا۔دری پر دو عورتیں اپنے سامنے رکھی چائے کی کیتلی میں سے کم دودھ والی چائے پیالیوں میں ڈال رہی تھیں۔ ان کے ہاتھوں اور چائے کا رنگ ایک جیسا تھا۔ نیم کے درخت تلے اکیلی چارپائی پر اس کا نیم پاگل بیٹا اپنی داڑھی کھجا رہا تھا۔ لوہے کے اوزار خاموش تھے۔ چھوٹی سی بھٹی جس میں کوئلے اس کے سینے میں دبے ارمانوں کی طرح دہکا کرتے تھے اور اس میں دھواں اس کے سانس کی طرح آہیں بھرتا نکلتا تھا۔ آج خیرو کا سینہ اور بھٹی دونوں خاموش تھے۔

جتنی تیزی سے بستی کے اسپیکروں پراس کی موت کا اعلان ہوا اتنی تیزی سے ایک بھی شخص اس کے گھر نہ پہنچا۔ اس کی ایک بیٹی کو دور میں نے کھیتوں میں باپ کے سائے کے بجائے شیشم کے سائے تلے کھڑا دیکھا۔ وہ اکیلی کھڑی رور ہی تھی۔ اس کے سر پر پھٹا دوپٹہ اور پاؤں میں ٹوٹی چپل تھی۔ نوبجے جب کفن پہنچا تو اس وقت دو کی بجائے چار عورتیں بیٹھی تھیں۔ کوئی ہوک، کوئی کوک نہ تھی۔ عجب سناٹا تھا۔ میرا دم گھٹنے لگا۔ موت کے قدموں کی چاپ سننے میں باہر نکلا۔ زندگی معمول پر تھی۔ کسی نے بھی اس کی موت کا نوٹس نہ لیا۔ کسی زبان پر اس کا تذکرہ نہ تھا۔ ابھری ہڈیوں، دھنسے گالوں، بڑھی شیو اور کرخت ہاتھوں والا خیرو لوہار گاؤں والوں کے درمیان نہ تھا۔ غربت نے اس کا لہو چوس کر ہڈیوں پرصرف چمڑہ رہنے دیا تھا۔ اس کی ہڈیاں اس کی مفلسی کی طرح نمایاں تھیں۔ اس کی صحت گرتی رہی۔ سناہے اسے یرقان تھا۔ اسے کوئی سنبھالنے والا نہ تھا۔ زمین نے جب زندہ انسانوں کی بےحسی دیکھی تو اسے اپنی آغوش میں سلا لیا۔ وہ خوش قسمت تھا اسے جمعہ کا دن نصیب ہو گیا۔ میں سوچنے لگا اس کی تاریخِ وفات کون نکالےگا۔۔۔؟ اس پر کس اخبار کا ایڈیشن اور کس رسالے کا نمبر نکلےگا۔۔۔؟ غریب کے جنازے پر کس کا انتظار ہوتا ہے۔ میں پونے گیارہ بجے وضو کرکے گھر سے نکلا تو جنازہ عید گاہ جا چکا تھا۔ وہاں پہنچا تو صفیں ترتیب پا رہی تھیں۔ شرینہہ کے درختوں تلے لوگ اپنی اپنی باتوں اور مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ گندم کی بالیاں پک چکی تھیں۔ جنازے پر خاموشی کی بجائے گندم کی کٹائی سے لے کرتھریشرتک کے معاملات زیرِ بحث تھے۔ علاقے میں ہونے والی گھوڑوں کی دوڑ بھی موضوعِ سخن تھی۔۔۔ کون جیتا، کون ہارا.....؟ امام صاحب نماز جنازہ پڑھانے کا طریقہ بتا رہے تھے۔۔۔ نماز جنازہ۔۔۔ فرض کفایہ۔۔۔ چار تکبیریں۔۔۔ ثناء واسطے اﷲ تعالیٰ کے، درود واسطے حضرت محمد کے۔۔۔ دعاواسطے حاضرمیت کے۔۔۔ اﷲاکبر۔۔۔ بھنبھناتے لوگوں کی دو صفوں کو توڑکر طاق کیا گیا۔صفیں ٹوٹنے کے بعدجب جنازہ کندھوں پراپنی منزل کو چلا گیا تو لوگ چند قدم اس کے ساتھ چلے۔ پھر اپنے اپنے گھروں کو مڑ گئے۔ نہرکے کنارے شیشم کے درختوں کے نیچے اس کا جنازہ جا رہا تھا۔ چارپائی اٹھانے والوں کے علاوہ پانچ سات آدمی ساتھ تھے کہ اسے دفن کرنا ضروری تھا، وگرنہ شاید وہ بھی لوٹ آتے۔میں ایک دکان پر رک گیا۔ کچھ لوگ اکٹھے تھے۔ میں نے سوچا، یقینی طور پر خیرو لوہار کی باتیں ہو رہی ہوں گی۔ لیکن وہ تو اپنے مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ تھوڑا آگے گیا تو خیرو کا ہمسایہ آرے پر بیٹھا گپیں ہانک رہا تھا۔ دو قدم جنازہ گاہ تک نہ جا سکا۔ اگلی صبح بستی کے منیاری کے کھوکھوں، گوشت کی دکان، راہوں اور ہٹیوں کے قریب میں نے لوگوں سے اس کا تذکرہ کیا۔ طیفے مرغی والے سے جاکر میں نے پوچھا۔ یار طیفے۔۔۔ خیرو کا بڑا گہرا دکھ ہے۔ جی جی۔۔۔ اس نے مرغی کی کھال کھینچتے ہوئے کہا۔ اسلم نائی سے بات کرنی ویسے ہی فضول تھی۔ اس کی دکان میں لگے دیسی ڈیک سے علاقائی گلوگار عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی کی آواز پورے زورسے گونج رہی تھی۔ ’’قمیض تیڈی کالی۔۔۔ تے سوہنڑے پھلاں والی‘‘ وہ موسیقی کی دھن پرایک آدمی کی شیو بنا رہا تھا۔ سائیکلوں کی دکان پر بیٹھا سفید ریش شخص پنکچر لگا رہا تھا۔ دوسا کھوکھے والا قریبی شہرسے سائیکل پر تازہ سبزی اور سودا سلف لا رہا تھا۔ آرائیوں والی ہٹی پر حسبِ معمول رش تھا۔ بشیر آرائیں اپنے ستے ہوئے چہرے سمیت ماتھے پر بل ڈالے گاہکوں کو بھگتا رہا تھا۔ بستی کی پلی پر چائے کے دو چھپر ہوٹل تھے۔ وہاں دو ٹریکٹر کھڑے تھے۔ مزدور ٹھٹھہ مخول کرتے چائے پی رہے تھے۔ تو کیا کسی کو بھی خیرو کی موت کا دکھ نہیں ہے۔ کوئی تو ان کو خبر کرے۔ لوگو۔۔۔ خیرو لوہار مر گیا۔ ہم میں سے ایک انسان کم ہو گیا۔ وہ علاقے کا نہ سہی گھر کا تو سربراہ تھا۔کل تک گاؤں کی پگڈنڈیوں پر اپنا گدھا ہانکتا، میلے دانتوں میں اجلی مسکراہٹ لیے سر ہلاتا، دو ہڑے الاپتا وہ شخص کہاں گیا۔؟ وہ تو تمہارے ہر دکھ میں رہا۔ تم لوگ اس سے اپنی درانتیاں تیز کراتے تھے، ہلوں کے پھالے، ترینگل اور کھرپیاں بنواتے تھے۔ گم چابیوں والے تالے تڑوایا کرتے تھے۔ تمہاری آنکھیں کیوں عقیدت غم سے خالی ہیں۔ خیرو کی رسم قل اس کے مرنے کے بتیس گھنٹے بعد ادا کر دی گئی۔ گلی کے موڑ پر بچھی چارپائی پراس کا اداس بھائی، بیٹا فیضو اور ایک ریٹائرڈ سپاہی رہ گئے۔ سڑک پر سے گزرنے والے سائیکل سوار اور تانگے والے گردن موڑ کر ایک نظر دیکھ لیتے۔ کوئی اکا دکا فاتحہ خوانی کے لیے رک جاتا۔

اچانک۔ ایک بےحس آواز کے بےجان پتھرنے ان کے درمیان رکھے خاموشی کے برتن کو کرچی کرچی کر دیا۔ فیضو کے سامنے درانتیاں اور ٹوکے رکھے تھے۔