نفرت کی نفسیات کا ایک خاص رد عمل

مصنف : ڈاکٹر عرفان شہزاد

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اگست 2018

فکرو نظر
نفرت کی نفسیات کا ایک خاص رد عمل
ڈاکٹرعرفان شہزاد

                                                                                                                              انسانی نفسیات کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ جس شخص یا طبقے کی جن برائیوں سے وہ نفرت کرتا ہے، وہی برائیاں بالآخر خود اپنا لیتا ہے۔ مشہور امریکی ناول نگار ہیمنگ وے کے والد نے خود کشی کی تھی۔ ہیمنگ وے ساری زندگی اس خدشے کا شکار رہا ہے کہ مبادا وہ بھی خود کشی کر لے گا۔ اسی خدشے کی وجہ سے وہ ساری زندگی اپنی جان خطروں میں جھونکتا رہا ، جنگی رپورٹر بنا۔ تین بار شدید زخمی ہوا۔ دو بار اس کا جہاز کریش ہوا۔ لیکن ہر بار وہ موت کے منہ میں گھس کر زندہ واپس آ جاتا۔ اورپھر آخر کار وہی ہوا۔۔اس نے آخری عمر میں خود کشی کر لی۔بنی اسرائیل جب تک مصر میں رہے، فرعون اور اس کی قوم کے ظلم و ستم کے باوجود اپنے عقیدہ توحید پر قائم رہے، اگرچہ عملی کوتاہیوں کا شکار تھے، لیکن عقیدہ میں مضبوطی سے جمے رہے۔ عقیدہ توحید ان کی گروہی شناخت اور عصبیت کا پیمانہ تھا۔ مزاحمت کی نفسیات بھی اس کی ایک وجہ تھی۔ بہرحال، انہوں نے اپنے عقیدے پر استقامت دکھائی۔ اس پر خدا نے بھی ان کی تعریف کی:"اور اْن (فرعونیوں) کی جگہ ہم نے اْن لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اْس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیر پورا ہوا کیونکہ اْنہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔" ( سورہ الاعراف، آیت 137)لیکن جب یہی بنی اسرائیل موسی علیہ السلام کے ساتھ معجزانہ طریقے سے سمندر پار کر کے محفوظ ہو گئے تو پہلا مطالبہ جو انہوں نے موسیٰ سے کیا وہ یہ تھا کہ ن کے لیے کچھ بت بنا دیئے جائیں تاکہ وہ ان کی عبادت کریں۔ بتوں کی پوجا فرعونیوں کا مذہب تھا جس کو بنی اسرائیل اپنانا چاہ رہیے تھے۔ چنانچہ مذکورہ بالا آیت جس میں ان کے صبر اور استقامت کی تعریف کی گی ہے، اس سے اگلی ہی آیت میں ان کا یہ مطالہ سامنے آنے پر ان کی مذمت کی گئی ہے:"بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر اْن کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی کہنے لگے، "اے موسیٰ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے اِن لوگوں کے معبود ہیں" موسیٰ نے کہا "تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو۔"(سورہ الاعراف آیت 138)پھر یہی نہیں، بنی اسرائیل نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کر کے ہی چھوڑی۔ انہوں نے سونے چاندی کے بنے ایک بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ درج ذیل آیات ملاحظہ کیجیے۔"تمہارے پاس موسیٰ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے۔ پھر ذرا اْس میثاق کو یاد کرو، جو طْور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا کہو: اگر تم مومن ہو، تو عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے۔"
ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ محکوم قوم حاکم قوم کی صرف برائیوں میں تقلید کرتی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے۔ ہم مغربی تہذیب کی برائیاں اختیار کرنے میں جتنا ان کے ہم قدم ہیں، اس کے مقابلے میں ان کی اچھائیاں اختیار کرنے کے معاملے میں صدیوں ان سے پیچھے ہیں۔اسی طرح ملازم جب باس بنتا ہے تو بالکل اپنے اس باس کی طرح برتاؤ کرنے لگتا ہے، جس کی حرکتوں اور برتاؤ سے وہ نفرت کرتا تھا۔ ساس بہو کے معاملہ بھی یہی نفسیات کار فرما ہے۔ ہر بہو اپنی ساس کے ساس پن سے نفرت کرتی ہے، لیکن جب وہ خود ساس بنتی ہے تو وہ بالکل اپنی ساس کی طرح بن جاتی ہے اور وہ سب کچھ اس سے بے ساختہ سرزد ہوتا ہے جو اس کی ساس سے ہوتا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو جب ساس بہو کا مسئلہ پیدا ہوا تھا، وہ پہلی نسل میں ہی ختم ہوجاتا۔ لیکن یہ مسئلہ اگر زندہ ہے تو اسی لیے کہ ہر بہو اپنی ہی ساس کی شخصیت میں ڈھل جاتی ہے۔ تاہم انسان کوئی مجبورِ محض نہیں کہ اپنی اس نفسیاتی کمزوری پر قابو نہ پا سکے۔ بلکہ اس کمزوری پر قابو پانا اس کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اس کے لیے شعوری کوشش اور بہتر تعلیم تربیت کی ضرورت ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ "ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے۔" (سورہ مدثر آیت 38)