اردگان کے دیس میں

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اگست 2018

سفر نامہ قسط۔پنجم
اردگان کے دیس میں
ڈاکٹر خالد عاربی

                                                                                                                        فرمایا؛’’ کھیوڑہ میں جوآئی سی آئی کی فیکٹری ہے نا، انھوں نے نمک کے پہاڑوں سے رِس رِس کر آنے والے معدنی پانی سے اس طرح کا ذخیرہ بناکر رکھا ہے ‘‘میں نے جواب دیا،’’ پھر بھی نجمی صاحب وہ تومصنوعی ہے اور یہ قدرتی۔‘‘ کہنے لگے ہاں یہ بات تو ہے۔پاؤں کی تکلیف کے باعث معذوری تھی،اس لیے ہم کچھ دور چل کر، درختوں کے ایک جھنڈمیں،آرام دہ سایہ دیکھ کر بیٹھ گئے اورمیرے دیگر ساتھی ادھر اُدھر کو بکھر گئے۔
پاموک کلے
(نہ جانے اصل ترکی تلفظ کیا ہے ،البتہ ہماری گائیڈ جس طرح بولتی تھی اُس کو لکھنے کی کوشش کی ہے،لیکن میں خود اس پر مطمئن نہیں ہوں)پاموک کلے قدرت کا ایک عجوبہ ہے ۔ آتش فشانی پہاڑوں کے اندر سے کیلشیم کاربونیٹ سے سیر شدہ(پوری گنجائش تک حل شدہ) پانی نکلتا ہے اور تقریباً سطح پر آکر گرم پانی کے چشمے بناتا ہے ۔ یہی گرم پانی کے چشمے ہیں جو دور سے ہمیں نیلگوں سے نظر آ رہے تھے۔حل شدہ کیلشیم کاربونیٹ سطح پر جم جاتی ہے اور اس کے جمنے سے سفید رنگ کے گولے سے بن جاتے ہیں اور اس سے طرح طرح کے نقوش ترتیب پاتے ہیں ۔ صدیوں سے ایسا ہو رہا ہے اور یہ قدرتی نمونے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلے یہ نرم جیلی کی طرح کے ہوتے ہیں بعد میں یہ جم جاتے ہیں اور سخت ہو جاتے ہیں ۔یہ ایک بہت وسیع علاقہ ہے جو سفید سفید برفیلی سطح کی طرح نظر آتا ہے یاجیسے کپاس کے ان کھلے پھول لگے ہوں یا سطح زمین پر روئی کے گالے بچھے ہوں ۔بہت قابل دید منظر ہے۔ کیلشیم کاربونیٹ ،چونے کے پتھر کو کہتے ہیں۔اس علاقے کی یعنی ڈینزلی صوبہ کی نمایاں پیداوار کپاس ہے۔ کپاس کے وسیع و عریض کھیتوں میں جب سفید سفید گولے پودوں میں لگتے ہیں تو وہ دور دور سے یہی منظربناتے ہیں جوچونے کے پتھروں سے بنا وہ آمیزہ جسے trvertineکہتے ہیں،پہاڑوں پر بچھ کر پیش کرتا ہے، اس لیے پاموک کلے کو cotton castleبھی کہتے ہیں۔ یہ چشمے جگہ جگہ سے پھوٹتے ہیں جس سے نیچے جگہ جگہ گرم پانی کے ذخیرے بنتے چلے جاتے ہیں۔ان چشموں میں لوگ نہا رہے ہیں ۔میرے ایک دو دوست بھی اس پانی میں اترے ہوئے ہیں۔یہ کو ئی خاص گہرے نہیں ہیں۔ نیم گرم پانی بہہ رہا ہے اور سیاح اس سے مزے لے رہے ہیں ۔ وہاں پھسلن بھی ہے۔ عورتیں، بچے جوان بوڑھے،سبھی موجود ہیں اورخوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔میرے ساتھی تو تھوڑے پانی میں ہیں اور مکمل لباس میں ہیں لیکن دیگر سیاح حضرات و خواتین مختصر ترین لباس میں ہیں کہ جس کے باعث اپنی نگاہ شرم کو واپس لانا پڑتا ہے۔اس طرف کو پانی قدرے گہرا بھی ہے۔ 
وہ دور نیچے میدانوں میں دیکھیے، سرسبز کھیتوں اور کھلیانوں کے درمیان مکانات اور کوٹھیاں بھی نظر آرہی ہیں۔ سڑک اور اس پر چلتی گاڑیاں ،گڑیوں کے دیس کا منظر پیش کر رہی ہیں۔اس سامنے والے گاؤں کا نام ہی پاموک کلے گاؤں ہے اوراسکے علاوہ بھی کئی دیگربستیاں نظرآرہی ہیں۔
گرم پانی کے چشموں میں ایلومینیم اور سلفر کی دھاتیں بھی شامل ہیں۔ان منر لز کی موجودگی کی وجہ سے یہ چشمے شفا بخش چشمے مشہور ہو گئے ہیں۔اور دور ونزدیک سے سینکڑوں مریضوں کے لیے کشش کا باعث ہیں ۔خاص طورپر جلدی امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے یہ چشمے صدیوں سے اپنا حکیمانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔میرے سامنے جو لوگ ان پانیوں میں اُترے ہوئے ہیں،اُن میں بھی یقیناً کئی لوگ اپنی اپنی امراض کی شفا یابی کے لیے اترے ہوئے ہیں۔ایک بار پھر وہی بے حجابی کا منظر تھا جو ساحل سمندرپردیکھا تھااس لیے کوئی منظر کشی کرنا ممکن نہیں ہے۔ 
ہیرا پولس 
میں جہاں بیٹھا اِن ’’روئی کے گالوں‘‘ کے ڈھیر کا نظارہ کر رہا تھا یہ ایک پہاڑی تھی جس پر سیاحوں کے لیے ایک پارک بنایا گیا تھا ۔ اسی پر اس شہر کے آثار قدیمہ تھے جسے ہیرا پولس کہتے ہیں جس کے معنی ہیں مقدس شہر۔یہ آثار دو سے تین میل کے علاقے میں پھیلے ہو ئے تھے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ پاموک کلے کے قدرتی عجائبات ہی ہونگے جنھوں نے اُن لوگوں کوattractکیا جنھوں نے یہ شہر آباد کیا۔یہ عجائبات تو جوں کے توں ہیں البتہ یہ شہربنتا اُجڑتا رہا ہے اور آج اس کے آثار رہ گئے ہیں جن کو دیکھنے ہم آئے ہیں۔یہ شہرسیدناحضرت عیسیٰ کی پیدایش سے بھی دوصدیاں قبل یہاں پر بسایا گیا تھا اور اب اس شہر کے کھنڈرات ہمارے سامنے تھے ،اور کھنڈرات بتاتے ہیں کہ شہرعظیم تھا۔ ہمارے سامنے مختلف محرابیں تھیں ، ماربل کے ستون تھے ،دروازے تھے اور گرے ہو ئے کمروں کی دیواریں تھیں۔میں یہاں سے اُٹھا اور اُن آثار کی طرف چلا۔میرے دیگر ساتھی بھی ایک ایک کر آملے ۔حیرت کا ایک جہاں تھاجو بازوکھولے ہمارے استقبال کا منتظر تھا۔ یہاں پر مختلف تہذیبوں کے فن تعمیر کے نمونے موجود تھے ۔دیواروں، ستونوں اور سلوں پر بنے،مختلف ڈیزائنوں سے ہی ماہرین نے یہ اندازے قائم کیے ہیں کہ کب کب کوئی عمارت بنی ہے اور کب کب کوئی تہذیب یہاں حکمران رہی ہے۔میں نے چند ایک پلرز کا مشاہدہ کیا اور اُن پر ڈیزائن سے حیرت زدہ رہ گیا اور صدیوں پہلے کے ان کاریگروں کی مہارت کو داد دئیے بغیر نہ رہا گیا۔اُس دور میں نہ کوئی مشینری تھی اور نہ ہی کوئی سائنسی ہتھیار ، صرف ہاتھوں کی انگلیاں تھی اور ان کاریگروں کا ذہن رسا۔یہ شہر کئی بار زلزلوں اور دیگر آفات سماوی کے ذریعے تباہ ہوا اور کئی بار تعمیر ہوا ۔ کئی حکمران مختلف ادوار میں اس پر حکمران رہے اور اس کے حسن کو چارچاند لگاتے رہے۔کئی حکمران اس شہر کو تاراج کرتے رہے ۱۳۵۴ء میں اس علاقے میں ایک شدید زلزلہ آیاجس سے یہ شہر گر گیا۔اور چونے کے پتھر اورچٹانیں اور ریت کی کئی تہیں اس کے اوپر آگئیں اور شہر مکمل طور پران کے نیچے دب گیا۔۱۸۸۷ ء میں مشہور جرمن آرکیالوجسٹ کارل ہیومن کی نگرانی میںیہاں کھدائی ہوئی اور کئی سالوں تک کئی مراحل میں کھدائی ہوتی رہی اوراس کے نتیجے میں یہ آثار ظاہر ہو گئے جو آج ہم دیکھ رہے تھے۔
ستونوں کی ایک بڑی قطار تھی جس طرح کسی بڑے ہال کمرے کے لیے ستون تعمیر کئے گئے ہوں اور اُن پہ ابھی چھت ڈالنی باقی ہو ۔ ہماری گائیڈ نے بتایا کہ ان ستونوں کے مختلف نمونوں سے ماہرین فن یہ طے کرتے ہیں کہ یہ ستون کس عہد میں تعمیر کیے گئے ہوں گے ۔ گائڈ ہمیں مختلف ڈیزائنوں کا بتا کر اُن کے سن تعمیر کا بتاتی رہی ،یعنی کسی ستون پراگر فلاں پھول اور فلاں بیل کندہ ہو تو وہ ستون فلاں تہذیب کا نمائندہ ہوگا اور اگر فلاں قسم کی بیل کاڑھی گئی ہو تو پھر وہ ستون فلاں تہذیب کا نمائندہ ہوگا ، وغیرہ وغیرہ۔ 
بس سے اُتر کر اور گائڈ کے لیکچر کے بعدہم جس دروازے سے اندر داخل ہوئے تھے اُسے ڈومینیئن دروازہ کہتے ہیں۔یہ قدیمی دروازہ تھا۔بڑے بڑے پتھروں سے بنا ، یہ دروازہ بہت خوبصورت چیز ہے۔ یہ اصل داخلی دروازہ تھا۔اس سے شہر کی مرکزی شاہراہ شروع ہوتی تھی جس کے آثار پر ہم چل رہے تھے۔یہ اصل میں تین بڑے بڑے دروازے تھے جن کے اوپر محرابیں بنی تھیں اور درمیان میں سنگ مرمر کے ستون ایستادہ تھے۔ سائیڈوں پر گول مینار بنائے گئے تھے جن کے اندر کمرے بنے تھے غالباً گارڈز کے لیے ہونگے۔ ایک طرف کاٹاور گر چکا تھا اور اس کا ملبہ بھی جوں کا توں موجود تھا۔گلیاں اور شاہراہیں متوازی اور ایک دوسرے کو قائمہ زاویہ پر کاٹتی تھیں۔شہر میں پانی کی تقسیم کے لیے فوارے ،حوض، پائپس،اور نالیاں بنائی گئی تھیں جن میں سے چند ایک کے ڈھانچے ہمارے راستہ میں بھی آئے۔
رومن اور بازنطینی ادوار میں یہ بہت زیادہ ترقی یافتہ شہر تھا۔اُ س وقت یہ مشرق کا لیڈر کہلاتا تھا۔اُس عہد میںیہ شہر اُن نمایاں ترین شہروں میں سے ایک تھا جو آرٹ ،کلچر،فلسفہ،تجارت ، اور دولت و ثروت میں بے مثال تھے۔اس کی آبادی ایک لاکھ تک پہنچتی تھی۔اس کے اندر کئی مارکیٹیں اور بازار تھے۔ سڑک پر چلتے چلتے ،گائیڈ نے ایک طرف کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کھنڈرات دکانوں اور مارکیٹوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔کھدائی کے دوران میں جو کتبے اورمختلف پتھروں پر کندہ ہوئی جو لکھائیاں ملی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک بڑا تجارتی شہر تھا۔یہاں بھیڑیں پالنے کا رواج تھا۔بھیڑوں کی اون کی یہ بڑی منڈی تھی۔اور اس اون سے ،اور زرعی پیداوار کپاس سے دھاگہ اور کپڑا بنانے کی ملیں بھی موجود تھیں۔
شہر میں قالین بافی کی صنعت بھی نمایاں تھی۔رنگ سازی کی صنعت کا وجود بھی ثابت ہے۔اس کے گرم معدنی چشموں کے پانی کو اس صنعت میں استعمال کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ اس کے گرم پانی کے معدنی چشموں کی صحت یابی کے حوالے سے بھی دور دور تک شہرت تھے اور دور و نزدیک سے لوگ استفادہ کے لیے دوڑے چلے آتے تھے۔اُن مریضوں کے لیے یہاں علاج گاہیں بھی موجود تھیں اور یوں یہ شہر اُ س وقت بھی ٹورزم کا بڑا مرکز تھا۔’’زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا لاکھ کا‘‘کے مصداق،آج بھی جب اس شہر قدیم کے صرف آثار اور کھنڈرات باقی ہیں تو بھی یہ شہر ترکی کو روزانہ لاکھوں لیرے ،ٹورازم کی مد میں کما کے دے رہا ہے۔
ہم پیدل چل چل کر اب تو تھک چکے تھے اور یہ کھنڈرات تھے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہے تھے۔صرف قبرستان کے کھنڈرات دوتین مربع کلو میٹر پر پھیلے ہوئے بتائے جاتے تھے۔ اس لیے بعض چیزوں کی نشاندہی،ایک جگہ پہ کھڑے ہو کر ،ہماری گائیڈ نے بخوبی کر دی۔اس نے بتایا کہ کھدائی کے دوران میں ایک بڑا وسیع و عریض قبرستان بھی دریافت ہوا تھا۔ جس کوnecropolisکہتے ہیں میرے لیے یہ چیز ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھی کہ اہلِ ہیرا پولس اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے گویا وہ کسی الہامی مذہب کے پیروکار تھے۔ہماری تھکاوٹ اور وقت کی تنگی کے باعث ہم ادھر کو نہ جا سکے ۔ البتہ گائڈ نے بتایا کہ ان قبروں میں ایک نظم اور ترتیب پائی جاتی ہے۔یہ قبرستاں کئی حصوں میں تقسیم ہے۔ صاحب قبر کی دنیاوی حیثیت و وجاہت کے باعث مردے کی تدفین کی جگہ کا تعین ہوتا اور قبر کے ڈیزائن اور سائز وغیرہ کا تعین بھی اسی سے ہوتاتھا۔اہم شخصیات ،قومی ہیروز،اورپیشہ ورانہ فضیلت والے لوگوں کی قبریں الگ بنائی جاتیں تھیں۔ انسانوں کی سماجی اور معاشرتی تقسیم ،گویا اُس وقت بھی واضح تھی اور مرنے کے بعد تک بھی یہ تفریق پیچھا نہیں چھوڑتی تھی۔
فلپ ولی کی یادگار:
حضرت فلپ ولی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں میں سے ایک تھے۔آپ اس شہر میں تبلیغ دین کے لیے تشریف لائے تھے۔آپ نے اس علاقے میں عیسائیت کے پرچار و تبلیغ کے لیے بے پناہ کاوشیں کیں۔حکمرانوں اور دیگر عمائدینِ شہر کی طرف سے آپ کوایذاپہنچائی گئیں،حتیٰ کہ سن ۸۷ ء میں آنجناب کو اس شہر میں شہید کر دیا گیا بعد کے آنے والے لوگوں نے ،آپ کی کاوشوں کو سراہا،انھیں سینٹ قرار دیا اور اُن کی شہادت گاہ پر ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کردیا۔یہ مقبرہ ایک پورا کمپلیکس تھاجوکھدائی کے دوران دریافت ہوا۔اس میں کئی کمرے ہیں۔ عبادت خانے یا اعتکاف خانے ہیں آپ کی قبر کے علاوہ آپ کے خاندان کے کچھ لوگوں کی اور آپ کے کچھ شاگردوں کی بھی قبریں اسی کمپلیکس میں ہیں۔اس پوری یادگاری عمارت کا ڈیزائن اورخوبصورت ڈھانچہ قابل دیدہے۔ان کے علاوہ،تھیئٹر،حمام اور علاج گاہیں اور محلات کے کھنڈرات بھی موجود ہیں۔اس کے علاوہ ایک میوزیم بھی ہے جس میں ان کھنڈرات سے ملنے والی کئی اشیاء رکھی گئی ہیں،افسوس کہ وہ اس وقت پر نہ جانے کیوں بند تھا۔
واپسی:
ایک بھر پور تفریحی دورہ اورنہایت قابل دید مقامات کی لذت آمیز سیر کے بعدہم نے واپسی اختیار کی۔چار گھنٹے کا واپسی کا سفردرپیش تھا،لیکن میں نے محسوس کیا کہ میرے ساتھی تھکے ہوئے تو ضرور تھے لیکن پژمردہ نہیں تھے۔مکمل ہشاش بشاش، بالکل تروتازہ اورگپ شپ لگاتے ،واپسی کے لیے ،گاڑی میں سوار ہوگئے ۔ تقریباً چاربج گئے تھے لیکن سورج میں تمازت موجود تھی البتہ گاڑی کا اے سی خوب کام کر رہا تھا۔واپسی پر پہلے وہی ڈینزیلی شہر آیا اور ہماری گاڑی فراٹے بھرتی اس میں سے گزرتی چلی گئی۔ہمارا واپسی کا یہ سفر جلد ہی کٹ گیا۔پہلے تو ہم اپنے ہوٹل میں آئے کچھ دیر سستائے اس کے بعد ڈنر کے لیے شہر میں ایک ریسٹورنٹ میں لے جائے گئے وہاں سے ایک بھر پور روایتی ترکی کھانا کھایا۔اور ہوٹل میں واپس آکر میں نے اپنی پیکنگ کی اور جلد سو گیاکیونکہ اگلی صبح ہم نے انطالیہ کو خیر باد کہہ کر،بائی روڈ سفر کرتے ہوئے قونیہ جانا تھا۔قونیہ میں مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے۔آیئے وہاں جانے سے پہلے میں آپ کو اُن کا تعارف کروا دوں۔
مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ( ۱۲۰۷ ۔ ۱۲۷۳)
اگرچہ فکری اعتبار سے اس عاجز کی اُن اہل علم سے وابستگی ہے جو ہمارے ہاں موجودتصوف کی فکر اور اس کے پورے کے پورے فلسفہ کو دین اسلام سے متوازی ایک دین سمجھتے ہیں۔لیکن اس کے باوجودہم اہل تصوف کی ان کاوشوں کو بھی ضرور سراہتے ہیں جو یہ حضرات ،لوگوں کے تزکیہ نفس کے لیے اور اللہ کے بندوں کی خدمت کے لیے سرانجام دیتے ہیں۔کیونکہ ہمارے نزدیک تزکیہ نفس،ہمارے دین کا مطالبہ،انبیاء علیہم السلام کا مقصدِ بعثت اور اللہ کے بندوں کی خدمت کرنا، انسانوں کا انسانوں پر بڑا حق ہے۔اس لیے مختلف پیران کرام اورصوفیا کے مزاروں یا درگاہوں پر جانے سے ہمیں کوئی کبیدہ خاطری نہیں ہوتی۔
مولانارومی کا مزار ترکی کے شہرقونیہ میں ہے۔اب جب بندہ محض سیروتفریح کے لیے ترکی جا رہا تھا تو یہ ناممکن تھا کہ میں وہاں حضرت رومی کے مزار پر نہ جاتا۔ اس لیے میں نے اپنی میزبان کمپنی سے عرض کہ مجھے وہاں ضرور لے جائیں اور یہ اُن کی مہربانی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے گروپ کا پروگرام اس طرح ترتیب دیاہے کہ ہمارامولانا رومی کے مزار شریف پر جانا ممکن ہو رہا ہے۔ 
آپ کا اصل نام محمد اور جلال الدین لقب تھا۔آپ کے والد گرامی کا نا م بھی محمد تھا اور اُن کا لقب بہاؤالدین تھا۔بعض مورخین کی رائے میں آپ کا شجرہ نسب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے ،جب کہ چند دیگر موئرخین اس چیز سے انکار بھی کرتے ہیں۔شیخ بہاؤ الدین صاحب ایک بہت بڑے عالم دین اوراسلامی علوم کے فاضل آدمی تھے۔آپ اپنے وطن خراسان میں مرجع خلائق تھے۔وہیں بلخ میں،۱۲۰۷ء میں،اُن کے ہاں جلال الدین پیدا ہوئے۔یہ بلخ شہر آج کل افغانستان میں ہے ۔اپنی ابتدائی تعلیم انھوں نے اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ شیخ بہاؤالدین دربار شاہی میں بھی بڑا رسوخ رکھتے تھے۔اس لیے معاصرانہ چشمک کا شکار ہو گئے اوربادشاہ کے کئی مصاحب ان کے خلاف ہوگئے۔اس بنا پر ، آپ نے کسی قسم کے جھگڑے میں پڑے بغیر اپنے وطن کو ہی خیر باد کہہ دیا۔ آپ نیشا پور چلے گئے۔جلال الدین اس وقت ۶ سال عمرکے تھے۔جلال الدین کا جوہر قابل ،اُس وقت بھی عیاں تھا اور فرید الدین عطارؒ نے اس ہونہار بچے کو اپنے باپ کے پیچھے چلتا ہو ادیکھ کر فرما یاتھا کہ ’’دریا کے پیچھے سمندر چل رہا ہے۔‘‘ کچھ عرصہ بعدنیشا پور سے ہجرت کرکے شیخ بہاؤ الدین بغداد چلے گئے اور وہاں کے امراء کے حلقوں میں اچھا رسوخ پیدا کر لیا۔وہاں سے آپ حجاز گئے ،حج کا فریضہ ادا کیا اور پھر دمشق چلے آئے۔ اس ساری صحرا نوردی میں جلال الدین اپنے والد محترم کے ساتھ تھے اور مسلسل اُن سے تعلیم وتربیت پاتے رہے۔آخر کار،مئی ۱۲۲۸ء میں شیخ بہاؤالدین قونیہ پہنچے۔سلطنت سلجوق میں ،آپ کی آمد سلطان علاؤالدین قیقباد کے مسلسل اصرار کے باعث تھی ۔قونیہ میں آپ دربار سے وابستہ ہوگئے اور ساتھ ہی تعلیم و تربیت کے لیے ایک یونیورسٹی قائم کر لی جہاں وہ خود بھی اور جلال الدین بھی تعلیم دیتے رہے۔دربار کی طرف سے آپ کو سلطان العلماء کا خطاب بھی دیا گیا۔ الشیخ بہاؤالدین ،قونیہ میں ہی فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔والد کی وفات کے بعد،جلال الدین یونیورسٹی کے ہیڈ مقرر ہوئے اگرچہ ابھی آپ کی عمر صرف ۲۵ سال تھی۔باپ کی مسند سنبھالنے کے بعد،رومی نے درس و تدریس کا کام جاری رکھااوراس کے ساتھ فتویٰ نویسی ،خطابات جمعہ اور پبلک لیکچرز کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔دربارِ شاہی میں بھی آمدو رفت رہتی تھی۔
رومی کے والد صاحب خودایک بڑی روحانی شخصیت تھے۔یہ انھی کی تربیت کا فیض تھا جس نے رومی کو تصوف کی طرف متوجہ کیا۔رومی کے دوسرے اتالیق شیخ برہان الدینؒ بھی ایک صوفی تھے۔پھر مولانا فرید الدین عطارؒ سے تعلق پیدا ہوا تو ان سے بھی انھوں نے روحانیات کا درس پایا ۔اور سب سے آخر میں اس خام لوہے کو جس شخصیت نے کندن بنایا وہ مولاناسیدشمس الدین تبریز کی صحبت ہے۔
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم 
تا غلام شاہ شمس تبریز نہ بود
مولانا جلال الدین رومی ؒ ۱۷۔دسمبر ۱۲۷۳ء کوترکی کے شہر قونیہ میں فوت ہوئے اور وہیں اپنے والد محترم کے پہلومیں دفن کیے گئے۔آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ 
مثنوی مولانا روم :
مولاناروم ایک قادرالکلام شاعر تھے۔ شاعری میں آپ کی مشہور تصنیف مثنوی مولانا روم ہے۔مثنوی شاعری کی وہ صنف ہے جس میں ایک شعرکے دونوں مصرعوں میں قافیہ ردیف کا اہتمام ہوتا ہے۔مولانا روم کی اس تصنیف کو مثنوی معنوی بھی کہا جاتا ہے،کیونکہ اس میں تصوف کی حقیقت اور اسرارو رموز کا بیان ہے۔ مولانا روم کی مادری زبان فارسی تھی۔ان کی ساری تصانیف اور تقریر و تحریربشمول مثنوی، اسی زبان میں ہیں۔ بلکہ مولانا روم کی وہ کتاب جس نے ان کو حیاتِ جاوداں عطا کی وہ یہی مثنوی ہے یہ فارسی زبان میں ہے بلکہ اس کتاب نے خود فارسی زبان کو یہ شرف بخشا ہے کہ مثنوی ایسی بلند پایہ کتاب اس زبان میں ہے۔ کم و بیش اڑھائی ہزار اشعارپر مشتمل یہ کتاب فارسی زبان کے ادب و شاعری کی سب سے بڑی کتاب ہے اہل علم و فضل میں ، اس کتاب کا شمار تصوف کی امہات کتب میں ہوتا ہے۔ کوئی طالب علم جو تصوف کی وادی کا شاہسوار بننا چاہتا ہو یا کوئی صاحب علم و فضل اگرتصوف پر تنقید ہی کرنا چاہتا ہو، مولانا روم کی اس تصنیف کو پڑھے سمجھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔تصوف کا فلسفہ اور اس کے راہ کی منازل اور اس کے سارے اسرار و رموز اس کتاب میں بیان ہو گئے ہیں۔بڑے بڑے مشکل اور ادق مضامین ہائے فلسفہ کو مولانا نے شعر کے پیرائے میں اس آسانی سے بیان کر دیا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔مثنوی کے چھ دفاتر ہیں،یا چھ کتابیں ہیں یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ چھ ابواب ہیں۔اس میںآغاز سے اختتام تک ،سینکڑوں حکایات اور واقعات بیان ہوئے ہیں اور ان حکایات و واقعات سے اخذ کردہ خوبصورت حکیمانہ اخلاقی نتائج کا بیان اور قاری کواُن پر عمل کی دعوت شامل ہے۔ان نکات کو ثابت کرنے کے لیے ،حضرت رومی نے سینکڑوں آیات و احادیث کو اپنے اشعار میں سمویا ہے۔اس طرح مثنوی اسرار و رموز اور حکمت و دانش کا ایک عظیم مجموعہ بن جاتی ہے۔
بڑے بڑے فاضل علما کرام نے مثنوی کی شرحیں لکھی ہیں،جن میں مولانا اشرف علی تھانوی کی شرح بھی شامل ہے۔کئی علماء کرام نے مثنوی شریف کا درس دینے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں،جس کی ایک مثال ،زمانہ حال میں حضرت مولانا پیر علاؤالدین مرحوم کی شخصیت ہیں جنھوں نے دنیا بھر میں مثنوی شریف کا چرچہ بلند رکھا اورساری زندگی مثنوی کی شرح و وضاحت میں گزار دی۔ آپ حال ہی میں اللہ کو پیارے ہوئے ہیں اور نیریاں شریف آزاد کشمیر میں مدفون ہیں۔ہم نے کافی عرصہ حضرت کے یہ دروس ٹی وی پر سنے اور ہمیں یہ لکھنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ ہم نے مولانا رومی کے بارے میں جو کچھ جانا وہ انھی دروس کی بدولت ہے۔جو کچھ پیر علاؤالدین کے ان خطباتِ مثنوی سے سنا ہے یا جو کچھ خود تراجم سے اخذکیا ہے ،اُس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ مثنوی معنوی میں مولانا روم نے قرانی تعلیمات کو بیان کیا ہے۔یہ جو مثنوی کے بارے میں مولانا جامی نے کہا ہے ،’’ ہست قرآن در زبان پہلوی ‘‘،اگرچہ شاعرانہ تعلی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات کافی حد تک ٹھیک ہے،مثنوی قرآن تو ہر گز نہیں ہے ،کیونکہ قرآن تو کلام اللہ ہے جس کی مثل ہونا ممکن نہیں، البتہ کسی نہ کسی درجے میں یہ اس کی تفسیر ضرور ہے۔اقبال کے ایک شارح اور اقبال شناسی کے ایک عظیم ماہر جناب پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی روایت ہے کہ حضرت علامہ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں یا قرآن مجید پڑھا کرتے تھے یا مثنوی مولانا روم، ؒ اور وہ کہا کرتے تھے کہ’’ مجھے سب سے زیادہ فائدہ دو کتابوں کے مطالعہ سے حاصل ہوا ہے،ایک قرآن حکیم ،دوسری مثنوی (مولانا روم)۔‘‘ 
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃاللہ علیہ بھی اپنے آپ کومولانا رومی کا شاگرد اورمرید گردانتے تھے۔یہ فیض انھوں نے مولانا رومی ؒ کی مثنوی معنوی کے گہرے مطالعے سے پایا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں ، خاص طور پر فارسی کلام میں اس حقیقت کو تسلیم کیاہے اور بار بار کیاہے۔اگرچہ دونوں ہستیوں کے درمیان میں صدیوں کازمانی بُعدپایا جاتا ہے لیکن فکری ہم آہنگی نے اقبال علیہ رحمۃ اُن کو اپنا پیر و مرشد قرار دیتے ہیں اور کھلے دِل سے اس بات کا اظہار اپنے کلام میں کرتے ہیں۔
بال جبرائیل میں،علامہ اقبال ؒ نے ’’پیر و مرید‘‘ کے عنوان سے ایک بڑی دلچسپ اور طویل نظم لکھی ہے،جس میں وہ مولانا روم کو خطاب کرکے فکری سوالات کرتے ہیں اور پھر خود ہی اُن کا جواب نقل کرتے ہیں،صرف ایک دو شعر تبرک کے طور پر،
مرید ہندی 
چشمِ بینا سے ہے جاری بوئے خوں 
علم حاضر سے ہے دین زارو زبوں!
پیر رومی 
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دِل زنی یارے بود
مرید ہندی یعنی علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں سے خون جاری ہے، کیونکہ زمانہ حاضر کے علم نے ہماری دینی اقدار اورروحانی دنیا کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ پیر رومیؒ اس کے جواب میں کہتے ہیں،جس علم کو جسم و جان کے لیے اور دو ٹکے کی ملازمت کے لیے اور دنیاوی فائدوں کے حصول کے لیے حاصل کیا جائے گا ،اُس کانتیجہ یہی نکلے گا کہ وہ تمھاری روح کے لیے سانپ ثابت ہوگا اور جو علم دِل کی دنیا کو آبا د کرنے کے لیے ہوگااور جو روح کو غذامہیا کرنے والا ہوگا وہی دراصل تیرا دوست ہوگا۔
خانقاہ مولویہ:
مولانا روم علیہ الرحمہ کے فوت ہونے کے بعد اُن کے شاگردوں نے طریقت کا سلسلہ شروع کیا اور حسام الدین چلابی کو اس کا سربراہ یعنی سجادہ نشین مقرر کیا گیا ۔ یہ آگے جا کر تصوف کا ایک عظیم سلسہ بن گیا جس کو سلسلہ مولائے روم کہا جاتا ہے۔باقاعدہ خانقاہ قائم ہوگئی،اس کے سجادہ نشین طے ہوئے اور مریدین کے مختلف درجات مقرر کیے گئے۔اس سلسلے کا نشان امتیاز وہ مخصوص رقص ہے جو سلسلے کے درویش انجام دیتے ہیں۔موسیقی کی مخصوص لے پر،اور کلام مثنوی کے پڑھے جانے پر،ایک مخصوص شکل کا رقص کرتے ہوئے ،ایک دائرے میں گھومتے ہیں۔جس کے آداب و رسومات ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہیں۔یہ ایک روحانی تعلیم وتربیت کا طریقہ کہا جاتا ہے۔موسیقی ،سماع اور رقص کی یہ تعلیم اور طریق ،کہا جاتا ہے کہ مولانا روم نے خود ایجاد کی تھی۔واللہ اعلم۔۱۲۷۳ء میں یہ سلسلہ شروع ہوا اور سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں سلسلہ مولویہ ایک طاقت ور خانقاہ کا روپ اختیا کر گیا۔ ان کے کارکنان اور خانوادہ مولانا روم کو دربار خلافت میں ایک بلند مقام حاصل تھا۔گاؤں گاؤں اور شہر شہر ،ان کی خانقاہیں کھل گئیں۔ مولانا روم ،مثنوی مولانا روم اور گھومنے والے رقاص،یہ تین نام ،اس خانقاہی نظام کی پہچان بن گئے۔ 
کمال اتاترک نے جب اقتدار سنبھالا تو اُس نے ،۱۹۲۷ء میں ایک قانون کے ذریعے دیگر اسلامی شعائر پر پابندی کے ساتھ ساتھ صوفیاء کرام کی سب خانقاہوں ، تکیہ خانوں،زاویہ جات ،درگاہوں کی مجالس اوردیگرمشاغل پر پابندی لگا دی۔ تمام سلسلہ جات غیر قانونی قرار دے دیے گئے۔مولاناروم کا سلسلہ تصوف اوراس سے وابستہ درویشوں کا رقص اور درگاہ کے ہر طرح کے اجتماعات بھی بند کر دیے گئے۔درگاہ کی انتظامیہ نے اپنے سارے سلسلہ کو شام کے شہر حلب میں منتقل کر دیا۔اب قونیہ کی بجائے حلب ان کا ہیڈکوارٹرقرارپایا۔سجادہ نشین صاحب نے اپنے بیٹے کو درگاہ کے امور کی نگرانی کے لیے وہاں بھیج دیا۔میرے لیے حیران کن بات یہ ہے کہ مصطفی کمال جب یہ اقدامات کر رہا تھا تواُس وقت خانقاہ مولانا روم کے سجادہ نشین عبدالعلیم چلپائی آفندی نہ صرف اتاترک کا ایک ساتھی تھا بلکہ گرینڈ اسمبلی کا نائب صدر بھی تھابجائے اس کے کہ وہ اس قانون کی مزاحمت کرتے بلکہ وہ قانون امتناع کے پاس ہونے میں شامل تھے اور انھوں نے اس قانون پر عمل کرتے ہوئے ،قونیہ میں اپنی روحانی سرگرمیاں معطل کردیں ، خانقاہ بند کر دی اور اپنی درگاہ کا مرکزہمسایہ ملک شام کے شہر حلب منتقل کردیا اور اپنے بیٹے کو اُس کا انچارج بھی بنا دیااور عجیب دورنگی ہے کہ ایک چیز ترکی میں حرام ہے اور وہی چیز شام میں جائز ہے،اور تو اور ان صاحب نے ایسا کرنے کی باقاعدہ اجازت لی مصطفی کمال صاحب سے،مصطفی کمال کے ضمیر نے بھی اسے کوئی کچوکا نہ لگا یا کہ جس چیز کو آپ ترکی میں لوگوں کے لیے نقصان دہ خیال کر کے پابندی لگا رہے ہیں وہ آخر شام میں جا کر کیسے سود مند ہو جاتی ہے۔(جاری ہے ) 
***