سائنو ميگا وائرس

مصنف : خطیب احمد

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : اپريل 2023

طب و صحت

سائٹو ميگا وائرس

خطيب احمد

سائٹو میگالو وائرس Cytomegalovirus ایک ایسا انفیکشن ہے جو بچوں میں پیدائشی طور پر بے شمار عمر بھر کی معذوریوں کا سبب بنتا ہے۔ حاملہ ماں سے بچے میں منتقل ہونے والا یہ سب سے کامن وائرس ہے۔ یہ ایسی معذوریوں کی وجہ بنتا ہے جنکا دنیا بھر میں کوئی علاج نہیں ہے۔جیسے آٹزم، مرگی، ڈیویلپمنٹ ڈی لے (یعنی بچے کا اپنی عمر کے دیگر بچوں سے جسمانی یا ذہنی طور پر پیچھے رہ جانا) نان جنیٹک سماعت سے جزوی یا کلی محرومی، سیری برل پالسی یعنی جسم کا پیدائشی مفلوج ہونا یا بچے کا کھڑے نہ ہو پانا توازن برقرار نہ رکھ پانا، نان جنیٹک بصارت سے محرومی، سر کا بہت چھوٹا ہونا Microcephaly (جسے پنجاب میں عام لوگ شاہ دولا پیر کے بچے کہتے ہیں) بچے کا دوران حمل گروتھ نہ کرنا، پھپھڑوں اور جگر کے مسائل وغیرہ-

علاج یا ویکسین تو خیر اس وائرس کا بھی کوئی نہیں ہے ایک بار جسم میں آگیا تو تاحیات ساتھ ہی رہے گا۔ مگر یہ خطرناک تب ہوتا ہے جب کوئی حاملہ ماں دوران حمل زندگی میں پہلی بار اس وائرس کے حملے کا شکار ہوتی ہے۔ اور بچہ Congenital یعنی پیدائشی CMV کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔ وہ نو ماہ کس مشکل میں گزار کر دنیا میں آتا ہے یہ وہ اور اسکا خدا جانتا ہے۔ کہ اکثر حمل تو یہ وائرس پہلے یا دوسرے ٹرائی سمیسٹر میں ضائع کر دیتا ہے۔

یہ وائرس اتنا زیادہ عام ہے کہ  دنیا بھر میں ہر گھنٹے میں ایک بچہ اس وائرس کی وجہ سے عمر بھر کی معذوری کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے۔ اسقاط حمل کی ایک بڑی وجہ یہی سائٹو میگالو وائرس ہے۔ ہر سال صرف امریکہ میں چار سو نومولود بچے اس وائرس کی وجہ سے وفات پا جاتے ہیں۔ زندہ پیدا ہونے والے ہر 200 میں سے ایک بچہ اس وائرس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اور ہر 5 میں سے 1 بچہ معذوری کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔

اس وائرس کی آگہی کا اندازہ لگائیں۔ اس سے پہلے ایک پوسٹ میں 320 خواتین سے پوچھا گیا کہ آپ کو اس کا علم ہے جس میں سے صرف 7 نے کہا ہاں۔ اور ان میں سے پانچ ڈاکٹر ہیں۔ ایک میٹرنٹی کلینک پر میں نے دس دن پہلے پرچی کاٹنے والی لڑکی کو ایک پیڈ اسائنمنٹ دی کہ حاملہ خواتین سے پوچھنا ہے کہ ان کو CMV کا علم ہے یا اسکا نام سنا ہوا ہے۔ کلینک پر دس دن میں آنے والی 945 حاملہ خواتین میں سے صرف 2 نے کہا کہ ہاں وہ جانتی ہیں یہ ایک انفیکشن ہے اور دوران حمل خطرناک ہے۔ ان میں سے ایک کا خاوند ڈسپنسر تھا اور دوسری ڈی فار میسی میں بی ایس کر رہی تھی۔ ان نمبرز کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر میں کہوں کہ پنجاب میں رہنے والی پانچ سو میں سے ایک لڑکی کو CMV کا علم ہے غلط نہ ہوگا۔ اور یہی وجہ ہے آگہی کا نہ ہونا مس کیرج اور دیگر دوران حمل ہونے والی بے شمار پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔

میرا گائنی ڈاکٹرز سے اپنا شکوہ قائم ہے اول تو وہ کوئی خاص گائیڈ ہی نہیں کرتیں۔ اگر وہ ٹیسٹ کرانے کو کہہ بھی دیں تو مریض سمجھتا ہے پتا نہیں اس ٹیسٹ میں سے اسے کتنی کمیشن جانی اور یہ فضول ہی ہے۔ ٹیسٹ کرایا ہی نہیں جاتا۔ دوران حمل ٹیسٹ ہو بھی جائے اور CMV LGg ٹیسٹ پازیٹو آ بھی جائے تو ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ وائرس حاملہ ماں کو ابھی لگا ہے یا وہ اسکی پہلے ہی کیریر تھی۔

اس ساری کہانی کے بعد کرنے کا کام کیا ہے؟

صرف اور صرف احتیاط اور بہت زیادہ احتیاط

حمل سے قبل اگر اس وائرس کا ٹیسٹ کرا لیا جائے تو بہت ہی بہتر ہے۔ یعنی معلوم ہو جائے گا کہ جو لڑکی ماں بننے کا سفر طے کرنے جا رہی وہ اس وائرس کی کیریر ہے یا نہیں۔ اگر پہلے سے ہی کیریر ہے تو پریشانی کی کوئی خاص بات نہیں ہے۔ جسم اس وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بنا چکا ہوا ہے۔ اور اگر ٹیسٹ نیگیٹو آتا ہے تو خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ اور اس وائرس سے خود کو حمل کے پورے نو ماہ بچانا ہے۔یہ احتیاط اس وقت سے شروع ہوگی جب آپ بچہ پیدا کرنے کا پلان کریں گے۔ یہ نہیں کہ حمل کا ٹیسٹ پازیٹو آئے تو احتیاط کرنی ہے۔

اگر آپ کے 6 سال کی عمر تک کے پہلے بھی ایک دو تین بچے ہیں یا آپ چھوٹے بچوں کی ٹیچر ہیں، ڈے کئیر سنٹر کی ورکر ہیں یا کسی ہسپتال وغیرہ میں نرس ہیں اور چھوٹے بچوں کو ڈیل کرتی ہیں تو آپ ہائی رسک پر ہیں۔ آپ نے کسی بھی بچے کو نہ خود چومنا ہے نہ اسے خود کو چومنے دینا ہے۔ نہ انکے گلاس میں سے خود پانی پینا نہ انکو اپنے گلاس سے منہ لگانے دینا ہے۔ بچے کی جوٹھی آئسکریم یا کوئی بھی چیز ہر گز نہیں کھانی، اسے کھانا کھلاتے وقت خود کھانا نہیں کھانا۔ یعنی اسکو پہلے کھلاديں یا ہاتھ اچھی طرح اینٹی بیکٹیریل سوپ سے دھونے اور پھر خود کھانا کھانا ہے۔ انکی ناک صاف کرنی تو اپنے ہاتھ فی الفور اچھی طرح دھونے ہیں۔

یہ وائرس بچوں کی تھوک، ڈائپر بدلنے کے دوران یورین اور سٹول ٹچ ہونے سے اور دوران زکام ناک سے بہنے والے پانی سے بہت سی حاملہ ماؤں میں منتقل ہوجاتا ہے۔

اگر آپکے پارٹنر میں یہ وائرس ہے اور آپ میں نہیں ہے تو سیکس کے ذریعے بھی دوران حمل آپ اس سے انفیکٹڈ ہو سکتی ہیں۔ وائرس کا حملہ کوکھ میں موجود بچے پر کتنا شدید ہوگا وائرس لگے گا یا نہیں یہ ہر انسی ڈینس حاملہ لڑکی میں مختلف ہوگا۔ ہم اس انفارمیشن کو جنرلائز نہیں کر سکتے۔ مگر ہر ممکن حد تک احتیاط ضرور کر سکتے ہیں۔

یہ وائرس ہمارے جسم کے ہر مادہ میں موجود ہوتا ہے۔ آپ کو کسی انفیکٹڈ پرسن کا خون لگتا تو بھی یہ وائرس لگ سکتا ہے۔ کسی کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے چمچ بدلا لیا یا کسی کا چمچ ایک بار اپنے منہ میں لے لیا اسکے گلاس سے پانی پی لیاتو یہ وائرس آپ میں منتقل ہو سکتا ہے۔ بیوٹیشن جو لپ اسٹک استعمال کرتی وہ کسی انفیکٹڈ لڑکی کے ہونٹوں پر لگی ہو اور اسکے فوراً بعد آپ پارلر چلی جاتی ہیں۔ اور وہ لپ اسٹک آپکے ہونٹوں پر لگ جاتی تو بھی آپ پچھلی کسٹمر کا وائرس لے سکتی ہیں۔ دوران حمل پارلر جانے سے بھی گریز کریں۔

عموماً شادی کے فوراً بعد یہاں لڑکیاں حاملہ ہوجاتی ہیں۔ اور دلہن کو ایک سال تک لوگ دیکھنے آ رہے ہوتے ہيں۔ وہ آکر اسے گلے ملتے، خواتین منہ ماتھا بھی چوم لیتی ہیں۔ اگر پہلے ماہ ہی حمل ہوگیا تو کسی کو منہ ماتھا نہیں چومنے دینا بس دور سے ملنا ہے یا صرف ہاتھ ملانا ہے۔ شادی کے بعد پہلے ہی ماہ حمل ہو چکا ہوتا اور دعوتیں چل رہی ہوتیں ، وہاں برتنوں کا استعمال بڑی ہی احتیاط سے کرنا ہے۔ شادی کے بعد چند ماہ میاں بیوی ایک دوسرے کا جوٹھا میٹھا کھا رہے ہوتے، اگر خاوند کیریر ہے کوشش کریں ایسا نہ کریں۔ باقی ساری زندگی پڑی ہوئی بعد میں کر لیجئے گا یہ چند ماہ کے ہی چونچلے ہوتے ہیں۔ جو آپکی پہلی اولاد کے لیے خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔

یہ وائرس عموماً چھوٹے بچوں سے جلدی لگتا ہے۔ احتیاط تو بتائی گئی سب چیزوں سے کرنی ہے۔ اور اپنا مطالعہ بھی بڑھانا ہے۔