بڑھاپے كا عمرہ

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مارچ 2023

فكر ونظر

بڑھاپے كا عمرہ

محمد سلیم

یہ بزرگ مرنجان مرنج اور ضعیفی کی انتہاء پر تھے۔ وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ وہیل چیئر کے آدھے حصے پر بے حال گرے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں چمک، چہرے پر طمانیت اور خوشی کا احساس اور یقینا ان کا دل بے چینی اور بے تابی کی انتہا پر تھا۔ لاہور ایئرپورٹ کا ایک ملازم ان کی وہیل چیئر کو دھکیل کر امیگریشن کی طرف لیجا رہا تھا اور ان کی اکلوتی مرافق ان کی گھر والی جو تندرستی میں ان سے سیکڑوں درجے بہتر تھی مگر ایسی بھی کیا تندرستی کہ عمر ستر سے کہیں زیادہ کی تھی، سر پر ایک بیگ رکھے ان کے پیچھے بھاگتی ہوئی جا رہی تھی۔ میں نے وہیل چیئر کے سامنے کر جا کر انہیں روکا، ایئرپورٹ کے ملازم نے مجھے واقف کار سمجھ کر کوئی اعتراض نہ کیا۔ میں نے پاؤں کے بل اُن کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ کر ان کے ہاتھ تھامے، پیار سے اُن کے دونوں ہاتھوں پر ایک بوسہ دیا، مبارکباد دی اور قبولیت کی دعا مانگی۔ آپ کے پیروں کو چھوتے ہوئے آپ سے التجاء کی کہ جب کبھی اپنے لیے دعا کریں تو مجھے بھی یاد کیجیے گا کہ میں بہت عاجز مسکین اور گناہگار بندہ ہوں، آپ کی دعا سے ضرور بخشا جاؤنگا۔ اماں سے جو مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے پوچھا: اماں، آپ کے ساتھ اور کون ہے؟اماں نے کہا: پُتر، بس ہم دو جی ہیں، ہمارے ساتھ اور کوئی نہیں؟اماں: آپ کا کوئی پُتر اُدھر جدے میں آپ کا انتظار کر رہا ہو؟نہیں پُتر، جیوندے رہن، انہوں نے ادھر سے ہی سارا انتظام کر کے عمرے پر روانہ کیا ہے۔ اماں: آپ کو پتہ ہے آپ پر کتنی بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، آپ بہت تھک جائیں گی۔ پُتر، کوئی نہیں، اللّٰہ آسانیاں کرے گا-

میرا سوال بہت سادہ سا ہے۔ عمرہ ایسی کونسی عبادت ہے جو اس ضعیفی میں بھی معاف نہیں ہو رہی۔ دوسرے ملک کا سفر، ایئرپورٹس کی خجالت، بسوں کے دھکے، غیر زبان، پیسوں کے بھوکے اور لالچی اور غیر متعاون ہوٹلوں والے، مہنگے غیر معیاری اور گندے کھانے بیچ رہے ریسٹورنٹس والے۔ یہ سب لوگ اُدھر آپ کی خدمت اور اطاعت کیلیئے نہیں، آپ کی کھال اتارنے کے منتظر ہیں۔ کیا آپ کے والدین کموڈ اور ڈبلیو سی حمامات کے عادی ہیں؟ ایسکلیٹرز اور لفٹ سے آشنا ہیں؟ سفری تکان اور خجالت اٹھانے کی ہمت رکھتے ہیں؟ بیماری کے اندیشوں اور لگی ہوئی بیماریوں سے نبرد آزما ہونے کیلیئے ذہنی و جسمانی طور پر تیار ہیں؟ کیا اُن کے پاس مکمل زاد راہ ہے؟ کیا اُن کے پاس ہر فریضے اور ہر واجب کو ادائیگی کی مکمل سمجھ اور آگاہی ہے؟ جب آپ کے پاس اُن کے ساتھ رفاقت، اُن کے ساتھ جا کر اُن کو عمرہ اور زیارات کرا دینے کی استطاعت اور اُن کو آسائش و راحت کا کوئی معقول اور مناسب بندوبست ہی نہیں ہے تو کیوں اُن کو بھیج رہے ہیں؟ دنیا کے پینسٹھ سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سب سے غریب ملک پاکستان ہی کیوں اس عبادت میں اپنا پہلا نمبر بنانا چاہتا ہے۔ ساری دنیا سے عمرے پر جانے والےمسلمان ایک طرف، پاکستانی تعداد میں ایک طرف کیوں ہیں؟ اور میری کیوں کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے مگر مجھے یقین ہے کہ آپ کو جواب دیتے ہوئے آپ کی ناک آڑے آ جائیگی۔ کچھ اعتقادات ہماری زندگی میں ایسے داخل ہو جاتے ہیں کہ ہم چاہتے ہوئے بھی ان سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ جیسے حج کا تصور یہی ہے کہ یہ تو مکمل ہی چالیس دن والے پیکیج سے ہوتا ہے اور عمرہ کا سفر پورے ایک مہینے کا ہونا چاہیئے۔ آپ مری جانے کا پروگرام بنا لیجیئے۔ سفر اور کھانے پینے کو مد نظر رکھ کر تو پانچ دن بھی بھاری لگتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی کسی غیر ملک کا سیاحتی سفر ہفتے دو ہفتے کا بھی بہت مشکل سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ اس حساب سے عمرہ ہفتہ یا دس دن کا کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر آپ مدینہ میں چالیس نمازوں کو شدت کے ساتھ مکمل کرنا چاہتے ہیں تو پھر بھی پورا عمرہ دس سے بارہ دن میں مکمل کیجیئے۔ اتنا لمبا عرصہ رہنے کیلیئے آپ اپنا بجٹ کیسے ترتیب دے لیتے ہیں؟ انتہائی حد دو ہفتوں سے زیادہ عمرہ کے لیے قیام نہیں ہونا چاہیئے۔

سیدنا عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے بارے میں سنا ہے کہ لوگوں کو سختی کے ساتھ مدینہ میں زیادہ رہنے سے منع فرماتے تھے۔ کہتے تھے کہ تم یہاں زیادہ رہو گے تو تمہارے دلوں سے یہاں کا احترام نکل جائے گا۔ اس روایت کو اپنے اوپر یا اپنے جاننے والے عمرہ گئے لوگوں پر فٹ کر کے دیکھ لیجیئے۔ تیسرے یا چوتھے دن ان پر نمازیں بھاری ہو جاتی ہیں۔ اہتمام جاتا رہتا ہے۔ بریانی کی سبیل کیلیئے کدھر لائن لگتی ہے کا پتہ چلنے لگ جاتا ہے اور حرم مدینہ کے اندر بہتر دسترخوان (رمضان میں افطاری کا اور غیر رمضان میں سوموار/جمعرات/ایام بیض) ہوتا ہے یا باہر کا ، اندازہ ہو جاتا ہے۔

مکہ میں میرے شیئرنگ روم میں کراچی سے محکمہ تعلیم کے ایک گزیٹیڈ آفیسر اپنے موریشس سے آئے ہوئے بھائی کے ساتھ مقیم تھے۔ آپ نے پانچ دن میں سات عمرے کیئے تھے اور ان سات عمروں میں ان کے بقول ایک بڑا عمرہ (مدینہ منورہ سے جا کر احرام باندھ کر آئے تھے) بھی شامل تھا۔ اب ان کی باقی کی حالت کا اندازہ خود لگا لیجیئے۔ نیند ہی پوری نہیں ہو پا رہی تھی۔ ایک صاحب کے بقول وہ تو فٹ پاتھ پر جا کر نماز پڑھ کر آتے تھے جبکہ دوسرے کے نہ جاگنے کی بناء پر یہ بھی نہ پتہ چل پاتا تھا۔ ہاں البتہ وہ نیند کے درمیان درمیان میں نکوٹین کا کوٹہ پورا کرنے کیلیئے ضرور جاگتے تھے۔ آپ دونوں نے مجھے اپنے پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں آرام کیسا، پرسوں ساتویں دن واپس جاتے ہوئے دوبئی میں رُکیں گے تو وہاں کچھ آرام کریں گے۔

سعودی عرب میں کھانے پینے کی اشیاء بہت مہنگی ہو چکی ہیں۔ ایک وقت کا اچھا کھانا اب پندرہ سے بیس ریال کا ملتا ہے اور نااشتہ پانچ سے کم کا نہیں آتا۔ طعمیہ سینڈوئچ جو کبھی دو ریال کا پورا "میل-Meal" ہوتا تھا اب تین ریال کا دو لقموں والا پُھسپُھسا سا سینڈوئچ ہو چکا ہے۔ مقیمین پر ٹیکسز کی بھرمار کی وجہ سے وہاں ہر کوئی پیسہ کمانے کیلیئے جلدی میں ہے اور سارے ادب آداب پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ لوگ بہت دنیا دار بن چکے ہیں۔ آپ صحیح ہوٹل پر پہنچ جائیں پھر بھی آپ پر اپنی حیثیت جتانے کیلیئے ضرور ادھر اُدھر رولا جاتا ہے۔ نمازوں کے اوقات میں حرم جاتے ہوئے، رش میں پاکستانی بھکاری عورتوں کا غول بہت معیوب لگتا ہے۔ عمرہ کے محدود دنوں کے قیام کی وجہ سے ان کا شدت اور لگن سے مانگنا قابل نفرت ہے۔ سبیل سے باحیثیت لوگ بھی لیکر نہیں چھین کر کھاتے ہیں اور اس کو ذرا بھی معیوب نہیں سمجھتے۔ میں نے ایک لاہوری انداز میں پنجابی بولتے شخص کو سنا جو کہہ رہا تھا: میں فیر ہتھ مار کے پنج چھ کھو کے اونوں کہیا: ماماں ایدر پھڑا، توں واپس لے جانڑیاں نیں۔ مزیداری کی بات یہ ہے کہ ان صاحب کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ ہے کیا چیز جو وہ لے آئے ہیں، اپنے ساتھی سے پوچھ رہے تھے کہ: یاڑ ویکھیں ذرا، ہے کیہہ چیز؟حرم میں اوپر جاتے ایسکلیٹر پر صرف پاکستانی خواتین ہی ہوتی ہیں جن کا تماشہ لگا ہوتا ہے۔ تین اوپر پہنچ کر نیچے کھڑی ایک کو زور زور سے ہمت پکڑنے کا کہہ رہی ہوتی ہیں اور نیچے والی نہ خود اوپر جا رہی ہوتی ہے اور نہ اپنے پیچھے رُکے ہوئے پانچ سو زائرین کو اوپر جانے دے رہی ہوتی ہے۔ ایک بات جو انتہائی قابل توجہ ہے کہ اکثر پاکستانی خواتین شاید ارض مقدسہ پر رہ رہے ہر بندے کو فرشتہ صفت جان کر اپنی نسوانیت کے سارے آداب بھلا دیتی ہیں۔ ان کا ہوٹلوں یا بازاروں میں میں آزادانہ گھومنا، کپڑے دھونا اور دیگر اودھم قابل توجہ ہوتا ہے۔ ان کو یہ کون سمجھائے کہ سعودیہ میں مقیم معاشرہ بنگالی مجرمین، سندھی بھگوڑوں (سندھ میں جرائم کے بعد سائیں کے کہنے پر کچھ عرصہ کیلیئے سعودیہ چلے جانے والے) پنجاب کے چھڑے چھانڈ اوباشوں پر ہی مشتمل نہیں ہوتا بلکہ غیر متوازن سڑک چھاپ (ابن الشوارع) مصریوں، جنگ زدہ اور مفلوک الحال یمنیوں کے علاوہ محرومیوں کے مارے ہوئے اور ترسے ہوئے سعودیوں پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔ ہر ادب آداب کو اپنے اوپر ہر جگہ اور ہر حال میں لازم رکھیئے۔ مردوں کے لیے حکومت پاکستان کوئی یونیفارم تجویز کرے۔ کسی بھی عمر اور طبقہ کے کسی ایسے مرد کو عمرہ پر جانے کی اجازت نہ دی جائے جو شلوار نہ باندھ سکتا ہو۔ بہت سارے ملکوں کے معتمرین یونیفارم میں آتے ہیں۔ اگر عمرہ ہے ہی اضافی عبادت اور صاحب ثروت لوگوں کے لیے تو پھر یونیفارم کا نفاذ بھی لازم قرار دیا جائے۔ غیر ملک میں اگر ہم اپنے ملک کے سفیر شمار ہوتے ہیں تو ان سفیروں کیلیئے کوئی تربیتی کورس بھی کرایا جائے جس کے بعد ان کو عمرہ پر جانے کی اجازت دی جائے۔ عمرہ پر جانے والے اگر اپنے حوائض ضروریہ ادا کرنے سے قاصر ہیں تو ان کو کسی مرافق کے بغیر نہ جانے دیا جائے۔ دیہاتی معتمرین سفر کے حساب سے کھانے پینے کا درست نظام الاوقات نہیں بناتے۔ کسی بھی جگہ پر پہنچ کر ان کو جلد از جلد لیٹرین تک پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔یہ رویہ اصلاح طلب ہے۔

جدہ حج ٹرمینل پرمیں نے ایسا کریہہ منظر دیکھا ہے کہ میری ابھی تک طبیعت مکدر ہے۔ امیگریشن کے بعد اپنی فلائٹ کے لاؤنج سے پہلے مجھے ایک ٹوائلٹ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک چھوٹا سیٹ اپ تھا جس میں ایک ٹوائلٹ (کموڈ والا) علیحدہ بند کمرے کے ساتھ بنا ہوا تھا۔ باہر والے حصے میں ایک واش بیسن تھا جس کا پلیٹ فارم چار فٹ سے کچھ زیادہ ہی اونچا ہوگا۔ پلیٹ فارم کے درمیان میں ایک وینیٹی لگی ہوئی تھی اور دیوار پر بڑا آئینہ تھا۔ کموڈ والے ٹوائلٹ کا دروازہ ہونے کی وجہ سے میں اندر چلا گیا اور کنڈی لگا کر بیٹھ گیا۔ اس دوران میں مجھے ایسا لگا کہ کوئی اور بھی کمرے میں داخل ہوا ہے مگر مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کیونکہ میں تو ایک علیحدہ ٹوائلٹ میں بیٹھا تھا اور ایئرپورٹ پر پبلک ٹوائلٹس میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کچھ دیر بعد جب میں فارغ ہو کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پاکستانی بزرگ واش بیسن کے پلیٹ فارم پر چڑھے بیٹھے ہیں، دھوتی کو کندھوں میں ڈال رکھا ہے اور وینیٹی میں پاخانہ کر رہے ہیں۔ اللّٰہ گواہ ہے معتمرین بھلے جتنے بھی عمر رسیدہ ہوں اُن کے کچھ افعال کو کسی بھی صورت میں اُن کا بھولاپن، سادگی یا معصومیت جان کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ جدھر جا رہے ہیں اُدھر آپ کیلیئے ہر شے کھیت اور کھلیان ہوگی جدھر آپ جہاں چاہیں دھوتی اتار کر بیٹھ سکتے ہیں؟ کیا آپ کی حرکتیں آپ کے عمرہ کے ذوق و شوق اور لگن کی عکاس ہیں؟ جدہ ایئرپورٹ کے حج ٹرمینل پر جو شخص آپ کے گند کو صاف کرے گا وہ آپ کو ہی نہیں آپ کو بھیجنے والے کی سات نسلوں کو بھی ضرور یاد کرے گا۔

اگر کوئی بزرگ مجھے ملتان ایئرپورٹ پر جاتے ہوئے احرام دکھا کر پوچھ رہا ہے پُتر اسے کیا کرنا ہے؟ یا کوئی بزرگ مجھے یوں کہہ رہا ہے میرا احرام میرے بکسے میں چلا گیا ہے اب میں مکہ جا کر ہی اسے دیکھوں گا کہ اس کا کیا کرنا ہے تو آپ ان لوگوں کا عمرے کیلیئے کیا ہوا ہوم ورک دیکھ لیجیے۔ عمرہ صرف ثواب ہی نہیں آپ کے لیے دَم نکلنے کا باعث اور قابل گرفت بھی ہو سکتا ہے۔