سوال و جواب

مصنف : ڈاکٹر محمود احمد غازی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اگست 2018

جواب : اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کا وعدہ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ دشمنان اسلام سے آپ کی جان کی حفاظت کی جائے گی جب رسولﷺ میدان جنگ میں تشریف لے جاتے تھے تو آپ ﷺ کی خواہش ہو تی تھی کہ نبوت کے ساتھ ساتھ آپ کو شہادت کا منصب بھی حاصل ہو صحیح بخاری کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یعنی میری دلی آرزو ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھروقتل کیا جاؤں ۔۔۔۔۔گویا شہادت ایک ایسا رتبہ ہے جس کی آرزو نبی بھی کرتا ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف تھا کہ کو ئی نبی آخرزماں کی جان لینے کا ذریعہ بنے یہ بات ہوتی تو شاید پوری امت پر عذاب آتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی خواہش جزوی طور پر پوری کردی کہ حضور ﷺ اللہ کے راستہ میں کئی با ر زخمی ہو ئے اور پروردگار کے حضور میں اپنا خون بہایا اور کئی بار ایسا ہو ا۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب : وہ ملت ابراہیمی کے طریقے کے مطابق حج کرتے تھے ملت ابراہیمی کے بہت سے آثارعرب میں موجو د تھے کچھ چیزیں اس میں غلط شامل ہوگئی تھیں بعض قبائل غلط چیزوں میں مبتلا تھے بعض کم مبتلا تھے لیکن حج کے اکثر و بیشتر مراسم ملت ابراہیمی کے مطابق ادا ہوتے تھے۔
 

()

جواب : حضور اکرم ﷺ کو قیامت کے وقت کا قطعی او ر حتمی علم تھا یا نہیں یہ مجھے معلوم نہیں لیکن مشہور حدیث جبرائیل میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا مالمسؤل عنھا باعلم من السائل ؛یعنی میرا علم قیامت کے بارے میں جبرئیل کے علم سے زیادہ نہیں۔ یہ بات بہرحال واضح ہے کہ اس سے زیادہ قیامت کے بارہ میں حضورﷺ نے بتایا نہیں اگر کسی نے پو چھا کہ قیامت کب آئے گی مثلاً صحابی نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی تو آپ ﷺ نے جواب میں قیامت کا وقت نہیں بتایا بلکہ سائل سے پوچھا کہ تم نے قیامت کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟ ان صاحب نے کہا کہ میں نے نماز روزہ زیادہ نہیں کیا لیکن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم اس کے ساتھ ہو گے جس کے ساتھ تم محبت رکھتے ہو حضورﷺ نے قیامت کے دن یا وقت کا تعین نہیں کیا کیونکہ یہ اللہ کی حکمت اور سنت کے خلاف تھا ۔
 

()

جواب:نبی ﷺ کو معصوم کلی تو ہر مسلمان مانتا ہے ہر پیغمبر کو معصوم کلی ماننا ایمان کا تقاضا ہے اس میں اہل سنت اور کسی اور میں کو ئی فرق نہیں ۔
 

()

جواب:کم سے کم میری یہ حیثیت نہیں کہ میں حضور ﷺ کے علم کا وزن کر کے اس کی مقدار بیان کر سکوں حضور ﷺ کا علم بہت وسیع اور غیر معمولی تھا تمام انسانوں سے زیادہ اور تمام انبیاء ؑ کے علم سے بڑھ کر تھا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اولین اور آخرین کا علم دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں حضور ﷺ کا علم محدود علم تھا اس لئے جب اللہ تعالیٰ اور رسول کے علم کا تقابل ہو گا ( اگرچہ یہ ایک غیر ضروری اور بے فائدہ مشغلہ ہے ) تو اور بات کہی جائے گی اور جب حضور ﷺ کے علم کا موازنہ بقیہ انسانوں کے علم سے ہوگا ( جو کوئی فضول شخص ہی کرے گا ) تو پھر یہی کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کے علم کی کو ئی انتہا نہیں ہے۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب : جس حدیث میں یہ بات آئی ہے اس کی فنی حیثیت کے بارے میں بہت سی باتیں ہو ئی ہیں ان بحثوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک چیز یاد رکھنے کی ہے کہ عربی زبان میں ستر کا لفظ کثرت کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے یہاں ستر سے مراد سترکا عدد نہیں بلکہ کثرتِ تعداد مراد ہے۔ بتانا صرف یہ ہے کہ میری امت میں بہت سے فرقے ہوں گے اس کا یہ مطلب نہیں کہ میری امت میں لازماً ستر فرقے ہوں گے بیان یہ کیا گیا ہے کہ طرح طرح کی گمراہیاں پیدا کرنے والے آئیں گے تم لوگ میرے طریقے پر قائم رہنا اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ ماانا علیہ واصحابی کہ ان تمام گمراہیوں کے سیلاب میں میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ ہی حق کا محفوظ راستہ ہو گا۔ اسی روایت کے مطابق صحابہ نے پوچھا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اور میرے ا صحاب جس طریقے پر ہیں تم اس پر قائم رہنا حضورﷺ کے صحابہ کے طریقے پر جو رہے گا تو وہ کامیاب رہے گا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش ضرور ہو نی چاہئے ۔
 

()

جواب:ازواج مطہرات کے لئے پردہ لازمی تھا۔ قرآن مجید میں سخت پردے کا جو حکم ہے وہ براراست ازواج مطہرات ہی کے لئے تھا بعض فقہا کا یہ کہنا ہے کہ پردہ کے احکام ازواج مطہرات کے لئے نسبتاً زیادہ سخت تھے ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب : جی ہاں یہ بالکل درست ہے لیکن یہودیت کی تاریخ میں بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جنہوں نے یہودیت اختیار کیا عربوں میں کئی قبائل نے یہودیت اختیا ر کی عرب کے علاوہ بھی بعض لوگوں نے یہودیت اختیار کی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ یہودی سمجھے جا نے لگے آج یہ تعین کرنا کہ سا ئیبریا سے کر امریکہ تک جتنے یہودی ہیں وہ سارے یہو دی ماؤں کی اولاد ہیں یہ بڑا مشکل ہے ۔

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: احابیش سے مراد بعض غیر قریشی قبائل کا ایک مجموعہ تھا جو مکہ مکرمہ کے باہر آباد تھا قبیلہ قریش سے ان کا معاہدہ تھا ۔ ان کا سردار ابن الدغنہ قبیلہ قریش میں اثر رسوخ رکھتا تھا ۔ یہ لوگ احابیش کہلاتے تھے مکہ کے باشندے تھے لیکن قریش میں شامل نہیں تھے ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب:شریعت کی رو سے ہر منکر ختم نبوت اور مدعی نبوت دائرہ اسلام سے خارج ہے قادیانی ایک مدعی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں یہ تو شریعت کی بات تھی۔ ہمارے ہاں قومی اسمبلی کی متفقہ رائے سے ان کو غیر مسلم قرار دیا جاچکا ہے اور پاکستان میں ۱۹۴۷سے لے کر آج تک اتنے بڑے پیمانے پر اتفاق رائے کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ نیشنل اسمبلی جب یہ ترمیم کر رہی تھی توا س میں اس وقت ۱۰۰ فیصد حاضری تھی میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ ۱۰۰ فیصد ووٹ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حق میں ڈالے گئے۔ سینٹ میں بھی ۱۰۰ فیصد حاضری اور ۱۰۰ فیصد ووٹ تھا کوئی ایک ووٹ بھی غیر حاضر نہیں تھا۔ سب نے اتفاق رائے سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ اس لئے آپ اپنی اصلاح کیجئے ایسا غیر مسلم گروہ حنفی شافعی کی طرح اسلامی مسلک کیسے ہو سکتاہے ؟ پاکستا ن کے علاوہ بہت سے دوسرے اسلامی ممالک بھی قادیانیوں کو کافر قرار دیتے ہیں پاکستان سے بہت پہلے یہ فیصلہ متعدد دوسرے ممالک میں کیا جا چکا ہے مصر میں ۱۹۳۵ میں یہ فیصلہ کیا جاچکا تھا سعودی عرب میں ۱۹۷۴ کے اوائل میں یہ فیصلہ ہو اتھا کئی اور ممالک میں اس سے پہلے ہو چکا تھا ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: اصل میں یہودی تو وہی مانا جاتا ہے جو نسلاً یہودی ہو ۔یہودی اس کے علاوہ کسی اور کو یہودی نہیں مانتے لیکن یہودی دوسروں کو گمراہ کرنے میں ہمیشہ دلچسپی لیتے رہے ہیں ۔اگر کوئی عرب اپنے مذہب کو چھوڑکر اپنے آپ کو یہودی کہلوانا شروع کرتا تھا تو یہودی اس کو نہ روکتے تھے اس لئے کہ اس میں یہودیوں کا فائدہ تھا ان کے ہمدردوں میں اضافہ ہو تا تھا کم سے کم عامتہ الناس کی نظر میں ان کی تعداد بڑھتی تھی ۔
 

()

جواب: مدینہ منورہ میں شادی بیاہ کی وہی رسومات تھیں جو اسلام سے پہلے عرب میں رائج تھیں ان میں کچھ طریقے اسلام کے نقطہ نظر سے ناجائز تھے اس لئے اسلام نے ان کی ممانعت کردی رسول اللہ ﷺ نے ایسے تمام اخلاقی طریقوں کو منع فرمادیا جو طریقہ اب مسلمانوں میں رائج ہے اس کی آپ نے اجازت دے دی ۔ نکاح و طلاق کے احکام میں اصطلاحات آپ ﷺ نے فرمائی ہیں وہ شریعت کا ہر طالبعلم جانتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ نکاح رضامندی سے ہونا چاہئے ۔نکاح اعلان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ نکاح میں جو شرائط اور قیود رکھنی چاہییں ان کا ذکر قرآن اور حدیث میں صراحت سے ہوا ہے۔ جو چیزیں سراسرنا جائز تھیں ان کی آپ ﷺ نے ممانعت فرمائی ۔
 

()

جواب : اگرا س کا مفہوم یہی ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں تو بہت افسوس کی بات ہے ۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ اور تعبیر و تشریح بہت ذمہ داری کا کام ہے اس طرح سے تھوڑی سی عربی سیکھ کر مفتی نہیں بن بیٹھنا چاہے فاقتلوا ھم حیث وجدتمواھمکا مفہوم سمجھنے کے لئے سیاق وسباق کو سامنے رکھیں جس میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ سورۃ بقرہ میں جہاں یہ آیت آئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ لوگوں نے تم پر حملہ کیاہے تمہیں گھروں سے نکال دیا تھا تمہارے اوپر بیس سال سے مظالم کر رہے ہیں جب ان کے ساتھ جنگ میں مقابلہ کی نوبت آئے تو پھر بزدلی مت دکھاؤ جہاں پاؤ قتل کرو ۔یہ حکم تمام غیر مسلموں کے لئے نہیں ہے بہت سے غیر مسلموں کے ساتھ تو حضور ﷺنے معاہدے کئے مدینہ میں اور پورے جزیرہ عرب میں غیرمسلم رہتے تھے یہ سارے معاہدات حدیث میں موجود ہیں اس سارے ذخیرے کو نظر انداز کر کے آپ کہیں کہ فاقتلوا ھم حیث وجدتمواھمکا حکم ہر غیر مسلم کے لئے ہے یہ تفسیر کا صحیح طریقہ نہیں ہے یہ تو تحریف قرآن ہے ۔
 

()

جواب: بغیر عدالتی تحقیق کے کسی کو قتل نہیں کرنا چاہے جب تک عدالت سے ثابت نہ ہو کہ مجرم مستو جب قتل ہے اس وقت تک اس کے خلاف کوئی یک طرفہ کروائی کی اجازت کسی بھی قانون میں نہیں ہے۔ایسے ہی اسلا م میں بھی نہیں ہے۔
 

()

جواب:میرے خیال میں تو ضرورت کے وقت جائز ہے اگر بیٹھنے کا صحیح انتظام نہ ہو توکھڑے ہو کرکھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے ترمذی میں راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پیا شرب قائماً اسی شمائل ترمذی میں جس کا میں نے کئی بار ذکر کیا ہے اس میں ذکر ہے کہ حضورﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پیا ؛جہاں جگہ نہ ہو یا زیادہ لوگ ہوں اور بیٹھنے کا بندوبست نہ ہو سکتا ہو تو وہاں کھڑے ہو کر کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
 

()

جواب : عام اور پرامن حالات میں کسی تجارتی قافلہ کو لوٹنا بالکل ناجائز اور حرام ہے رسول اللہ ﷺ ازخود تو قافلہ روکنے کے لئے نہیں نکلے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے قریش اور بعض دشمن قبائل کے تجارتی قافلوں کو روکنے کا حکم دیا تھا ۔یہ بالکل درست ہے وہ حالت جنگ تھی جب دشمن کے خلاف اعلان جنگ ہو چکا ہو تو اس کی مدد کے لئے آنے والے سامان کے قافلے روکے جاسکتے ہیں آج پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہو جائے تو پاکستان کے لئے بھارت کے تجارتی جہازوں کی نقل و حرکت کو روکنا جائز ہوگا ۔یہاں ملک کے قابل احترام امیر البحر تشریف فرماہیں ان کی بحریہ بھارت کے لئے پٹرول وغیرہ لے جانے والے جہازوں کو کبھی نہیں چھوڑے گی یہ دنیا کے ہر قانون میں جائز ہے اسی طرح جب کفار مکہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے جنگ کی تیاری کر رہے تھے اور اسلحہ جمع کر رہے تھے تو ان وسائل کو روکنا اور ان کو مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو نے سے منع کرنے میں کوئی چیز غیر اخلاقی یا غیر قانونی نہیں تھی ۔
 

()

جواب : شیخ الاسلام علامہ ابن قیم فقہی اعتبار سے حنبلی تھے انہوں نے جہاں جہاں فقہی مسائل بیان کئے ہیں اکثر حنبلی نقطہ نظر کے حوالہ سے بیان کئے ہیں کہیں کہیں انہوں نے اپنے مسلک سے اختلاف بھی کیا ہے اور دوسری رائے ظاہر کی ہے ۔
 

()

جواب : میرے نزدیک تویہ عمل درست ہے میں تو جب بھی موقع ملتا ہے، ایسے بابرکت اور تاریخی مقامات پر نوافل ادا کرتا ہوں ۔ دوسرے ممالک مثلاً مصر ،اردن اور شام وغیرہ میں ایسے مقامات پر نوافل ادا کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیںآتی ؛لیکن چونکہ ہمارے سعودی بھائی اس کو بدعت سمجھتے ہیں اسلئے سعودی عرب میں ایسا کرتے وقت شرطہ سے بھی اپنی حفاظت کرنی پڑتی ہے یہ ذرا مشکل کام ہے کہ آپ نوافل بھی ادا کریں اور شرطہ سے بھی اپنی حفاظت کریں اگر آپ کو موقع ملے تو اس احتیاط کے ساتھ ضرور نوافل ادا کریں ۔
 

()

جواب : میرے خیال میں مسلمانوں کی طرف سے پڑھا اور بھیجے جانے والا درود شریف حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچایا جاتا ہے جو آپ درود بھیجتے ہیں وہ حضور ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے اور آپ کے علم میں آتا ہے۔ یہ بعض روایات سے ثابت ہے میں کوئی سخت لفظ نہیں بولنا چاہتا لیکن دور جدید کے بعض متشدد محققین کو ہر اس بات کی تردید سے دلچسپی ہے جس کا تعلق مسلمانوں کی ذات رسالت ماب ﷺ سے محبت اور عقیدت سے ہو ۔انہوں نے تحقیق کر کے ان احادیث کو بھی کمزور قرار دیا ہے ممکن ہے کہ یہ احادیث واقعی کمزور ہوں لیکن میں سردست اس بحث میں نہیں جاتا اگر کمزور بھی ہوں تو اس طرح کی احادیث کے بارے میں ہمیشہ دو آراء ہو سکتی ہیں 
(۱) ایک بات میں ذرا وضاحت سے کہ دوں نکیر اسلام کی ایک اصطلاح ہے اس کا مطلب ہے منکر پر اظہار ناپسند ید گی کرنا ۔
منکر پر ناپسندیدگی کا حسب استطاعت اظہار کرنا مسلمان کی ذمہ داری ہے منکر وہ ہے جو قرآن پاک اور حدیث کی نص قطعی کی رو سے براکام ہو اور ناجائز ہو۔ معروف اور منکر دو اصطلاحات ہیں ۔ بدکاری منکر ہے ،چوری،فحاشی ، جھوٹ بولنا، جعل سازی اور توہین انبیامنکر ہیں ان چیزوں کے منکرات ہو نے میں کوئی اختلاف نہیں ان پر نکیر کرنا مسلمان کی ذمہ داری ہے ،من راٰی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ یہ جو مشہور حدیث ہے اس میں منکر سے یہی منکر مراد ہے ۔
لیکن جو چیزیں مختلف فیہ ہوں جہاں قرآن و حدیث کی تعبیر کا مسئلہ ہو اور اس تعبیر کی بنیاد احادیث یا قرآن کی آیات پر ہو اس رائے سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن وہ منکر نہیں ہو تی اس پر نکیر نہیں کرنی چاہیے اگر کو ئی اس طرح کی مختلف فیہ بات پر نکیر کرتا ہے تووہ شریعت کو نہیں سمجھا ہے میں یہ با ت پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ جو شخص مختلف فیہ چیزوں پر نکیر کرتا ہے وہ شریعت کو نہیں سمجھتا۔

()