استخارہ

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : دسمبر 2022

کشف و کرامات سے متاثر ہمارے معاشرے میں استخارہ کو بھی اسی قبیل کی کوئی شے سمجھا جانے لگا ہے جہاں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں استخارہ کرنے کے بعد انسان کو اس کے متعلق کوئی خواب آئے گا، کوئی رنگ دکھائی دے گا یا پھر کوئی اشارہ کردیا جائے گا۔ ایسے میں استخارے میں ''جو کچھ آئے'' اس پر عمل کرنا لازم ہے وگرنہ بہت بڑا ''انرتھ'' ہوجائے گا۔ ہندو پاک میں استخارے کا سب سے زیادہ استعمال بچے بچیوں کے رشتے کے سلسلے میں کیا جاتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ یہ استعمال بھی محض بہانہ بازی ہی ہوتا ہے۔جب بھی متوقع زوجین کے گھر والوں کو کسی رشتے سے منع کرنا ہوتا ہے تو وہ اسی استخارے کی آڑ لیتے ہیں کہ ہم نے استخارہ کیا تھا، اس میں ''نہ'' آیا۔ البتہ اگر لڑکا امیر کبیر ہو یا لڑکی خوبصورت، پڑھی لکھی اور متمول خاندان سے تعلق رکھتی ہو تو پھر یا تو استخارہ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور اگر پڑ بھی جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو ''ہاں'' آنے سے نہیں روک سکتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ استخارہ کرنے کے بھی الٹے سیدھے بدعتی طریقے رائج ہوئے پڑے ہیں۔ باقاعدہ استخارہ سینٹر کھلے ہوئے ہیں جہاں کوئی بابا صاحب جو ولی اللہ کی گدی پر براجمان، استخارہ کرنے کی خدمات مہیا کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی لوگوں نے جن علماء سے بیعت کررکھی ہوتی ہے ، ان کو اپنے معاملات کے لیے استخارہ کرنے کی درخواستیں کرتے ہیں۔ پھر یہ ولی، پیر، مرشد تین دن تک بعد از نمازِ عشاء دو رکعت نفل پڑھ کر استخارہ فرماتے ہیں اور کچھ ہدئیے و تحائف کی وصولی کے بعد اس کا رزلٹ استخارہ کروانے والے کے گوش گزار کردیتے ہیں۔ اللہ ہی جانے کہ عوام تو عوام خواص میں بھی استخارے سے متعلق یہ بدعی طریقہ و فکر کہاں سے رائج ہوگئی ہے جبکہ کتبِ احادیث و روایات میں ان کا وجود تک نہیں۔
یاد رکھیے استخارہ محض ایک دعا ہے جو کسی بھی کام کے کرنے سے پہلے فاعل اللہ سے کرتا ہے۔ اس دعا کے معنی و مفہوم خود اس دعا کی غرض و غایت اور طریقِ کار میں اس قدر واضح ہے کہ استخارے کے سلسلے میں موجود ہمارے ہاں مروج ہر رسم و طریقے کو باطل و بدعی ٹھہرانے کو کافی ہے۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ۶۳۸۲ ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام کاموں میں استخارہ کی تعلیم اس طرح دیا کرتے تھے، جس طرح قرآن مجید کی سورت سکھلایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تم میں سے اگر کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو وہ(فرض کے علاوہ)دورکعت نماز ادا کرے اور پھر یہ کہے:
اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ العَظِیمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الغُیُوبِ، اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ خَیْرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی فَاقْدُرْہُ لِی، وَیَسِّرْہُ لِی، ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیہِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی فَاصْرِفْہُ عَنِّی وَاصْرِفْنِی عَنْہُ، وَاقْدُرْ لِی الخَیْرَ حَیْثُ کَانَ، ثُمَّ أرْضِنِی بِہ
یعنی اے اللہ! بے شک میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعے خیر طلب کرتا ہوں، اور تیری قدرت کے ذریعے طاقت مانگتا ہوں، اور میں تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں، کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔ اور تو غیب کے امور جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام(کام کا نام لے ) میرے لئے میرے دین میں میری معاش، اور میری آخرت کے انجام کے لئے بہتر ہے تو اسے میرے مقدر میں کردے، اور اسے میرے لئے آسان کردے، پھر میرے لئے اس میں برکت ڈال۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (کام کانام لے)میرے لئے میرے دین میں، میری معاش اور میری آخرت کے انجام کے لئے برا ہے تو اسے مجھ سے ہٹا دے اور مجھے اس سے ہٹادے اور میرے لئے بھلائی کردے جہاں کہیں بھی ہوپھر مجھے اس پر راضی کردے۔
قارئین یہ حدیث اور اس میں مروی دعا کا لفظ لفظ پڑھ جائیے۔ اس میں نہ تو عشاء کی صلوٰۃ کے بعد تین دنوں کو مخصوص کرکے استخارہ کرنے کی بات بیان کی گئی ہے، نہ کسی خواب کا کوئی ذکر ہے، نہ کسی طرح کے اشارے کا اور نہ ہی
 یہ مذکور ہے کہ کوئی بابا یا پیر یا عالم یا مرشد کسی دوسرے کی طرف سے استخارہ کرے ۔ اس میں فقط یہ مذکور ہے کہ کسی بھی کام کا ارادہ کرنے سے قبل اللہ سے اس کام کے لیے دعا مانگو کہ اگر وہ کام تمہارے دین، معاش اور عاقبت کے لیے بہتر ہے تو اس میں فضل ڈال کر اسکو میرا مقدر کردے اور اگر یہ کام میرے دین، معاش اور عاقبت کے لیے مضر ہے تو اس کو مجھ سے دور کردے اور میرے لیے بھلائی کے اسباب مہیا کردے وہ جہاں بھی ہو۔ گویا استخارہ فقط ایک طرح کی دعا ہے اپنے ارادہ کیے کاموں میں بھلائی مانگنے کی اور بھلائی نہ ہونے کی صورت میں ان کو خود سے دور کرنے کی۔
گویا آپ کے ہاں بچی کا رشتہ آیا تو آپ بچی سے کہیں کہ وہ خود بھی استخارہ کرے اور آپ بھی بطور والد، بھائی اس کے لیے استخارہ کریں کہ اس رشتے کی ہاں ناں میں آپ کا بھی دخل ہوگا۔ یوں اگر وہ رشتہ آپ کے حق میں، آپ کی بچی کے حق میں بہتر ہوگا تو اللہ اس کو آپ کے مقدر میں کردے گا اور اگر اس میں خیر نہیں ہوگی تو مالک خود اس کو آپ سے دور کردے گا۔ رشتوں کے سلسلے میں استخارے کے ''ہاں ناں'' کے چکروں کا بہانہ بنانا چھوڑ کر اس معاملے میں استخارے اور اسلام کے استعمال کو ترک کردینا چاہیئے۔ اپنے ہر کام کے لیے کسی پیر و مرشد کے چکر میں پڑے بغیر اپنا استخارہ خود کریں، پھر اپنے مومن بھائیوں سے مشورہ کریں اورازاں بعد جو بہتر محسوس ہو، جس پر دل مطمئن ہو، پوری مستعدی سے اس کام میں جُت جائیے۔ باقی سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیجئے 

دین و دانش
استخارہ
محمد فہد حارث