نمازكی اجتماعی اہميت

مصنف : ڈاکٹر محمود احمد غازی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : فروری 2024

دين و دانش

نمازكی اجتماعی اہميت

محمود احمد غازی

نماز کے بارے میں ہر مسلمان جانتا ہے کہ یہ اسلام کی سب سے اولین اور آخری عبادت ہے۔ بقیہ تمام عبادتوں سے انسان بعض حالات میں مستثنٰی ہو سکتا ہےلیکن نماز سے آخری دم تک مستثنٰی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہلنے جلنے کی قوت نہیں اور زبان تک نہیں ہلا سکتا تو دل میں سوچے کہ نماز پڑھ رہا ہوں۔ جب تک دل اور دماغ کام کر رہے ہیں نماز سے استثنا نہیں ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جو سب سے پہلی بھی ہے اورسب سے آخری بھی ہے۔ لیکن اس عبادت کی ایک اجتماعی اہمیت بھی ہے۔ یاد کیجئے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور صحابہ کرام کا اجتماع سقیفہ بنی ساعدہ میں ہوا۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کے لیے مختلف نام تجویز ہورہے تھے۔ بڑے سے بڑے صحابہ کے نام زیرغور تھے۔ لیکن جس عظیم ترین اور عالی مرتبت شخصیت کے اسم گرامی پر تمام صحابہ کرام نے جو دلیل دی وہ یہ تھی کہ جن کی بے مثال شخصیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری نماز کی امامت کے لیے موزوں قرار دیا وہ ہماری دنیا کے معاملات میں بھی قیادت کے لیے موزوں ترین ہوگا۔ گویا انہوں نے نماز اور عملی زندگی کو ایک دوسرے پر قیاس کیا تھا۔ کل آپ میں سے ایک بہن نے کہا تھا کہ قیاس کی ایک اور مثال دیں۔ یہ قیاس کی ایک بہت اہم مثال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی عبادت کے لیے جس شخصیت کا انتخاب فرمایا، اسی شخصیت کا انتخاب مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی قیادت کے لیے بھی ہونا چاہیئے۔ اس سے پتہ چلا کہ صحابہ کرام کے نزدیک نماز اور مسلمانوں کی سیاسی زندگی میں بڑی گہری مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کی سیاسی اور اجتماعی زندگی نماز کی طرح ہونی چاہیئے۔

نماز میں ایک روحانی ماحول ہوتا ہے۔مسلم معاشرہ میں بھی ایک روحانی ماحول کار فرما ہونا چاہئیے۔ نماز میں خوف خدا نمازیوں پر طاری ہوتا ہے۔ مسلم معاشرہ میں بھی سب پر خوف خدا طاری ہونا چاہئے۔ نماز کے دوران کوئی شخص اپنے مادی مفادات کی زیادہ پروا نہیں کرتا، الّا یہ کہ کوئی بڑا مادی مفاد ہو، مسلم معاشرہ میں لوگوں کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ نماز میں نظم و ضبط کی انتہائی پابندی ہوتی ہے، مسلم معاشرہ میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ مسلمانوں کی قیادت نماز میں وہ شخص کرتا ہے جو ان میں سب سے زیادہ عالم اور سب سے زیادہ متقی ہو، اجتماعی قیادت بھی ایسی ہی ہونی چاہئے۔ مسلمانوں کا امام الصلٰوۃ مسلمانوں کی قیادت کا اس وقت تک حق دار ہے جب تک وہ شریعت کے مطابق قیادت کر رہا ہو۔ جب وہ غلطی کرے تو ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اسے ٹوک دے۔ امام ابو حنیفہ (رحمہ اللہ) بھی نماز پڑھا رہے ہوں، امام بخاری (رحمہ اللہ) بھی نماز پڑھا رہے ہوں اور نماز پڑھانے کے دوران تلاوت میں کوئی غلطی کر گزریں تو میرے جیسے گناہ گار انسان کو بھی نہ صرف حق ہے بلکہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ ان کو اس غلطی پر ٹوک دوں اور ان کی ذمہ داری ہے کہ اس غلطی کو درست کریں۔ اس میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی فرق نہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا مقتدی بھی غلطی کی نشاندہی کرے گا تو بڑے سے بڑے امام کی ذمہ داری ہے کہ غلطی کو درست کرے۔ بڑے سے بڑے آدمی کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوراً اپنی غلطی تسلیم کرے اور درست کرے۔ حتیٰ کہ پیغمبر کی بھی ذمہ داری ہے کہ نماز میں اگر بتقاضائے بشری کوئی بھول چوک ہو جائے تو جیسے ہی توجہ دلائی جائے اس غلطی کو درست کرے۔ آپ نے ذوالیدین کی حدیث پڑھی ہوگی۔ ذوالیدین نے رسول اللہ صلّٰی علیہ وسلم کو یاد دلایا کہ: أَقُصِرَت الصّٰلٰوۃِ أَم نَسِیتَ یَا رَسُولَ الله؟ یارسول اللہ، نماز میں کمی کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے۔ آپ (ص) نے فرمایا: کُلُّ ذَلِك لَم یَکُن. دونوں میں سے کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ تفصیل آپکے علم میں ہے۔ تو جس طرح سے نماز میں ہر شخص اپنے قائد اور امام کی غلطی کو ٹھیک کرنے کا پابند ہے، اسی طرح اجتماعی زندگی میں ہر شخص پابند ہے۔ جس طرح امام پابند ہے کہ غلطی کو درست کرے، اسی طرح اجتماعی زندگی میں امام اور قائد پابند ہیں کہ غلطی کو درست کریں۔ اگر امام امامت کا اہل نہ رہے۔ مثال کے طور پر اس کا وضو ٹوٹ گیا تو اس کو اسی لمحے قیادت سے الگ ہو جانا چاہئیے اور اس کی جگہ کسی دوسرے آدمی کو امام کی جگہ لینی چاہئیے ۔ اجتماعی زندگی میں بھی امام اور عوام کا رخ ایک ہی طرف ہونا چاہئیے ۔ اس طرح سے آپ غور کریں تو ان چند مثالوں کے علاوہ بھی، جو میں نے یہ بتانے کے لیے دی ہیں کہ نماز اور اجتماعی زندگی میں بڑی گہری مشابہت ہے۔ نماز اور مسلمانوں کی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں بہت سی گہری مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ جب قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو جب اقتدار ملے تو وہ سب سے پہلے نماز قائم کریں۔ تو گویا قرآن مجید یہ یاد دلانا چاہتا ہے کہ وہ حکومت کا کام سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے نہ صرف نماز کا نظام باقاعدگی سے قائم کریں بلکہ سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی اجتماعی زندگی بھی نماز کی اسپرٹ کے مطابق ہو۔