علما كے نام قرضاوي كي وصيت

مصنف : علامہ یوسف القرضاوی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : نومبر 2022

علامہ قرضاوی مرحوم کی علماءِ امت کے نام آخری وصیت(زیرتیب اعمال کاملہ کے مقدمہ کے لیے لکھی گئی علامہ کی آخری تحریر)
علماء اور دعاۃ کے لیے میں کچھ نصیحتیں کررہا ہوں، تاکہ وہ اپنی امت، اپنے دین اور اپنے رب کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی نجام دے سکیں:
۱- ان کی وفاداری صرف اور صرف اللہ اور اس کے دین کے لیے ہونی چاہیے، نہ کسی قومیت کے لیے، نہ کسی وطنیت کے لیے، نہ ہی کسی تنظیم، جماعت اور شخصیت کے لیے، سوائے اتنی وفاداری کے جتنا کہ وہ اسلام سے قریب ہوں یا اس سے وابستہ ہوں۔
 ۲- ہر مسئلہ میں اللہ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت سنتوں پر ہی اعتماد کریں، اسلام کی روح کو سمجھنے کے لیے اور اسلامی طریقہ کار پر گامزن رہنے کے لیے امت کے سلف صالحین کے اسوہ سے رہنمائی حاصل کریں، اور اسلام کو ان تمام بدعات اور انحرافات سے آزاد کرانے کی کوشش کریں، جو صدیاں گزر جانے کے ساتھ ساتھ اسلام میں غلو پسندوں کی تحریفات، اہل باطل کی دراندازیوں، اور جاہلوں کی تاویلات کی شکل میں اسلام میں داخل ہوگئی ہیں۔ 
۳- سرکش اور جابر حکمرانوں کے سامنے کھل کر حق کا اظہار کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہیں، اس سلسلہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کریں، اور نہ کسی ظالم کے ظلم وجبر کی پرواہ کریں، اس آیت کی عملی تصویر بننے کی کوشش کریں؛ (جو اللہ کے پیغاموں کو پہنچاتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے، اور اللہ حساب کے لیے کافی ہے۔ الاحزاب: 39) 
 ۴- ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کو پیش نظر رکھیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کو یمن روانہ کرتے ہوئے فرمائی تھی: ‘‘آسانیاں پیدا کرو، پریشانی میں نہ ڈالو، خوش خبری دینے والے بنو، متنفر کرنے والے نہ بنو، ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق سے رہو، اختلاف کا شکار نہ ہو’’۔ علماء اور دعاۃ کو چاہیے کہ وہ اس نصیحت کو حرزِجان بنالیں، یہ ان کی ہمیشہ اولین ضرورت تھی، اور خاص طور پر آج کے زمانے میں تو وہ اس کے ازحد ضرورت مند ہیں!اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا شعار نرمی ہونا چاہیے نہ کہ تشدد، رواداری ہونا چاہیے نہ کی سختی، کیونکہ اللہ رب العزت ہر معاملہ میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ رب العزت نے خیرالخلق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: (اگر تم درشت خو اور سخت دل ہوتے تو تمہارے پاس سے یہ منتشر ہوجاتے۔آل عمران: 159)
یہاں رواداری سے میری مراد فروعی باتوں اور وسائل کے سلسلہ میں رواداری ہے، نہ کہ اصولوں اور اہداف کے سلسلہ میں۔ اسی اساس اور بنیاد پر لوگوں کے ساتھ ہمارے معاملات ہونے چاہئیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ہر وہ مسلمان جو آج کے دور میں فرائض کی ادائیگی کرتا ہے اور کبائر سے اجتناب کرتا ہے، اس کو اپنا دوست بناکر رکھیں، ہم اس کو اپنائیت کا احساس دلائیں، گرچہ اس سے کچھ مکروہ، مشتبہ اور صغیرہ گناہوں کا ارتکاب ہوجاتا ہو لیکن وہ ان پر اصرار نہ کرتا ہو، حکمت اور موعظت حسنہ کے ساتھ ایسے لوگوں کی اصلاح کا کام کریں، تاکہ وہ موجود سے بہتر صورتحال تک پہنچ سکے۔ یہ بہت غلط اور خطرناک بات ہوگی کہ ہم ایسے لوگوں کو اسلام مخالف سمجھنے لگیں، اگر ایسا ہوا تو اسلام دشمن ان کو اچک لے جائیں گے، ان کو اپنا بنالیں گے، اور پھر ان کو امت اور دین کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کریں گے۔ 
۵- اپنے زمانے، اپنے دشمن اور اپنے زمانے کے اصل معرکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اپنے زمانے کے اصل معرکہ اور فیصلہ کن جنگ کو چھوڑ کر فروعی، تاریخی یا غیرضروری معرکوں میں نہ تو خود پڑیں، نہ اپنے طلبہ کو ان میں پڑنے دیں اور نہ ہی عوام کو ان کا شکار ہونے دیں۔زمانے کے اصل معرکہ سے میری مراد مشرق ومغرب سے حملہ آور وہ رجحانات ہیں جو ہمارے بچوں کو الحاد اور بے دینی کی طرف لے جارہے ہیں اور شریعت اور ہماری اقدار کو کم تر اور حقیر دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
 یہ تباہ کن رجحانات ہی ہمارے لیے سب سے بڑا دشمن ہیں، ہمیں اپنی تمام توجہ، تمام غوروفکر اور تمام جدوجہد اس محاذ پر لگا دینی چاہیے، تاکہ ہم اپنی امت کی حفاظت کرسکیں، امت کے وجود کی بھی اور امت کی بنیادوں کی بھی، اور ہم امت کو الگ تھلگ ہوجانے اور دوسروں میں گھل مل کر ختم ہوجانے سے محفوظ رکھ سکیں۔ 
۶- امام رشید رضا کے مجلہ المنار کے اس سنہری اصول کو اپنا شعار اور اپنوں سے تعامل کے لیے دستور اور اصول بنالیں کہ ‘‘متفق علیہ چیزوں میں آپس میں تعاون کریں گے اور مختلف فیہ چیزوں میں ایک دوسرے کو معذور سمجھیں گے’’۔ 
۷- زمانے کے علوم و معارف سے خود کو آگاہ اور واقف رکھنے کی کوشش کریں، امام غزالی نے فلسفہ کو اسی وقت شکست دی، علوم الدین کا اسی وقت احیاء کیا، اور تہافت الفلاسفہ کو اسی وقت بیان کیا، جب انہوں نے وقت کے فلسفہ کو ہضم کرلیا تھا اور اپنے زمانے میں فلسفہ کے اساطین میں شمار ہونے لگے تھے۔ 
اسی طرح امام ابن تیمیہ اپنے وقت کے منحرف گروہوں کا اسی وقت رد کرسکے، جب انہوں نے خود انہی کی کتابوں سے ان کے عقائد اور تعلیمات کا گہرا اور تجزیاتی مطالعہ نہ کرلیا، حتی کہ انہوں نے یہودیت اور نصرانیت کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔ چنانچہ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف شرعی علوم کے ہی امام نہ تھے، بلکہ عقلی علوم میں بھی ان کو غیرمعمولی درک حاصل تھا۔ہمارے زمانے کے علماء کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ حسب استطاعت موجودہ علوم و ثقافت؛ سماجیات، تمدن، معاشیات، سیاست، اخلاق، فلسفہ، مذاہب اور تاریخ وغیرہ کا مطالعہ کریں۔ 
۸- ایسا اسی وقت ممکن ہوگا جب علماء کے ذہن سے یہ بات نکل جائے گی کہ وہ اسکول، مدارس یا جامعات میں محض تنخواہ دار ملازم نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک فکر اور ایک دعوت کے علمبردار ہیں۔ ملازمین اور دعاۃ میں اصل فرق یہی ہوتا ہے کہ ملازم اسلام کو روزی روٹی کا ذریعہ بناتے ہیں اور اس سے اپنا پیٹ پالتے ہیں، جبکہ داعی اسلام کے لیے جیتے ہیں اور اسلام کے لیے مرتے ہیں۔
 ۹- عالم اسلام کی سطح پر باہم ربط اور اتصال کی کوشش کریں، مسلم علماء اپنے اندر بڑی قوت رکھتے ہیں، ان کے پیچھے عوام ہوتے ہیں، فالوورز ہوتے ہیں، ان کے اپنے اثرات ہوتے ہیں، کاش کہ وہ اپنے اپنے
 شہر کی سطح پر متحد ہوجائیں، اور پھر عالم اسلام کی سطح پر باہم تعاون اور ربط ضبط بنانے کی کوشش کریں۔
اسلام دشمن جانتے ہیں کہ وہ کون سے چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں جو علماء اسلام کی جمعیت کو پارہ پارہ کرسکتے ہیں، چنانچہ وہ ان اختلافات کو مضبوط کرنے اور بڑا بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ان اختلافات کو ہر حال میں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور وقت آنے پر ان اختلافات کا خوب استعمال کرتے ہیں۔ یہ اسلام دشمن ایک مسلم فرقے کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ان کے فکری مدمقابل دوسرے مسلم فرقے کے خلاف ان کا ساتھ دینے والے ہیں۔ حالانکہ وہ دونوں ہی کے دشمن ہوتے ہیں اور دونوں ہی کے خلاف ہوتے ہیں۔ یہ ایک گندی اور ملعون سازشی چال ہوتی ہے، ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سے زیادہ شعور اور بصیرت کا ثبوت پیش کریں، اور ان کی چالوں کو ان پر ناکام کردیں۔
۱۰۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر اس اسلامی کوشش کا ساتھ دیں، جس کا رخ درست ہو اور جو زندگی کے معرکہ میں اسلامی قیادت کی بازیافت کی کوشش کررہی ہو، اور جو معاشرہ کو اسلامی رنگ میں رنگ دینا چاہتی ہو۔ علماء اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ہر کوشش کو مضبوطی فراہم کریں، ان کا ساتھ دیں، ان کی کمزوریوں کو درست کرنے کی کوشش کریں، اور اگر وہ ان کے ساتھ اگلی صفوں میں کھڑے ہوکر قیادت کرنے، ان کے ساتھ جدوجہد کرنے اور ان کے ساتھ جان ومال کی قربانی دینے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو کم از کم ان سے ہر ممکن تعاون فرمائیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے، اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ فصلت:33)

فکر ونظر
علمائے امت کے نام علامہ قرضاوی کی وصیت
ترجمہ ۔ ابوالاعلیٰ سید سبحانی