قرآن كا اسلوب

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : نومبر 2022

حسن الیاس: غامدی صاحب ایک سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اگر ایک کتاب کو قیامت تک کیلیے انسانوں کی رہنمائی کیلیے مقرر کرنا تھا تو یہ کیوں نہیں ہوا کہ ایک سادہ سا مجموعہ ہدایت، جس طریقے سے ہم انسان واقف ہیں، ایک ابتداء ہو یعنی اللہ میاں کا تعارف کروایا جاتا پھر اس کے بعد دین کے احکام دیے جاتے پھر اس کے بعد خاتمہ ہو جاتا، اتنی زحمت اور مشقت میں انسانوں کو کیوں ڈالا گیا کہ پہلے وہ زبان، ادبی اسلوب پھر کریکٹر یہ سب سیکھیں اور پھر اس سے دین ڈھونڈ کے اس ہر عمل کریں۔ تو یہ کتاب کی مشکل نہیں ہے؟ 
غامدی صاحب: یہ کتاب اس کیلیے ہے ہی نہیں جو مقصد آپ بیان کر رہے ہیں۔ جہاں تک دین کا تعلق ہے یعنی دین کے احکام، ہمیں عمل کرنا ہے، نماز پڑھنی ہے، روزہ رکھنا ہے، حج کرنا ہے، عمرہ کرنا ہے، طہارت کے کچھ آداب ہیں جو بتائے گئے ہیں، تجہیز وتکفین ہے اس طرح کی اور چیزیں جو معاشرت سے متعلق ہیں، جانوروں کے ذبیح سے متعلق ہیں یہ تو ایک سنت کے طور پر پہلے سے چلی آ رہی ہیں۔ یعنی ان کی کوئی فہرست قرآن مجید میں فراہم کرنا کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ میں کئی مرتبہ توجہ دلا چکا ہوں کہ قران مجید دین کی آخری کتاب ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی جو ہدایت آسمان سے آتی ہے پیغمبروں کے ذریعے سے اس کا آخری اظہار قرآن مجید میں ہوا ہے، یہ نہیں کہ وہ ابتدا قرآن میں آئی ہے۔ تو قرآن مجید سے پہلے صدیوں کی تاریخ ہے سیدنا آدم علیہ سلام سے لے کر محمد رسول اللہ ﷺ تک یہ دین ہی کی روایت ہے جو ایک سنت کے طور پر جاری تھی۔ قرآن مجید خود اس کو رسول اللہ ﷺ کے پس منظر کے اعتبار سے ملت ابراہیم سے تعبیر کرتا ہے اور آپ ﷺ کو ہدایت کرتا ہے کہ یہ پیغمبر آئے ہیں، پیغمبروں کے نام لے کے فبھدا ھم اقتدہ آپ کو انہی کے طریقے کی پیروی کرنی ہے۔ یعنی جیسے وہ نماز پڑھتے تھے، جیسے وہ روزہ رکھتے تھے، جیسے وہ حج کرتے تھے، جیسے وہ عمرہ کرتے تھے۔ ایسے ہی سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب میں آباد کیا اور کم و بیش یعنی آپ اندازہ کیجیے نا دو اڑھائی ہزار سال پہلے تاریخ کی ابتداء ہو گئی۔ اس وقت جو انہوں نے دینی روایت چھوڑی وہ ملت ابراہیم ہے، دین ابراہیمی ہے یا دین حنیف اس کو کہتے تھے۔ یہ روایت رسالت مآب ﷺ کے اور قرآن کے پس منظر میں موجود ہے۔ تو آپ کو مثلاً یہ جاننا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ نماز پڑھو تو کیسے پڑھوں، وہ تو سنت میں موجود ہے، اجماع اور تواتر سے منتقل ہو رہی ہے۔ روزہ کیسے رکھنا ہے، حج کیسے کرنا ہے یہ سب چیزیں جو ہیں یہ قران کے پس منظر میں ہیں، وہ ان کا ذکر کرتا ہے اگر کسی موقع پر یا کہیں تجدید کے پہلو سے یا اصلاح کے پہلو سے یا کوئی نئی ہدایت دینی ہے یا اس سے متعلق پیدا ہونے والے کسی سوال کا جواب دینا ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ قرآن سے نماز برآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، قرآن مجید سے حج برآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی چیز سے واقف نہیں ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں اس پورے دین کی تاریخ کیا ہے۔ تو قران مجید کے پس منظر میں ہیں یہ چیزیں، تو آپ وہ جاننا چاہتے ہیں تو آپ سنت کی طرف رجوع کریں۔ اب لوگ پوچھتے ہیں سنت کہاں پائی جاتی ہے؟ وہ مسلمانوں کے اجماع اور تواتر سے منتقل ہو رہی ہے بالکل اسی طرح جیسے قرآن منتقل ہو رہا ہے۔ یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ کی بہت بڑی جماعت ہے جس نے تاریخ کی روشنی میں یہ سنت آگے منتقل کی ہے، یعنی ان کے عمل سے منتقل ہوئی ہے اور نسلاً بعد نسلاً منتقل ہو رہی ہے۔ آپ پوچھیں گے اس کا کوئی تحریری ریکارڈ بھی کہیں کیا گیا، تو وہ ہمارے فقہاء نے کیا ہے یعنی عام طور پر یہ غلط فہمی ہے کہ وہ محدثین نے ریکارڈ مرتب کیا یا حدیث میں ہوتا ہے، نہیں وہ فقہاء کے ہاں ہوتا ہے۔ اچھا اس پر بعض لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ غالباً اس سے مراد فقہ ہے، نہیں فقہ جب بیان کی جا رہی ہوتی ہے تو اس میں تحریری طور پر بھی ہمارے فقہاء، ظاہر ہے وہ دین کے علماء ہیں وہ جو بتاتے ہیں کہ یہ سنت ہے جو چلی آ رہی ہے۔ تو اس طرح گویا وہاں ریکارڈ بھی ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح وہ تاریخ میں آپ کو ملے گی، وہ علماء کی تعلیم تدریس میں آپ کو ملے گی، تو وہ مسلمانوں کے عمل میں پہلے سے موجود ہے۔ تو اس کیلیے کسی کتاب کی ضرورت ہی نہیں۔کتاب تو اصل میں انذار کیلیے ہے، خبردار کرنے کیلیے ہے، دلوں کو بیدار کرنے کیلیے ہے۔ جیسے میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا کہ وہ بجلی کا کڑکا بن کے افق پر نمودار ہوگی، وہ دلوں کو بیدار کرے گی اور انہیں جگائے گی، آخرت کی منادی کرے گی، تو اس میں تو ایک زندہ کلام ہونا چاہیے۔ یعنی جس میں جذبات بھی ہوں، جس میں تصویریں بھی ہوں، جس میں کہیں جنت کی تصویر ہے، کہیں جہنم کی تصویر ہے، جس میں کہیں مکالمے ہیں۔ تو اس کتاب کو آپ غلط چیز تلاش کرنے کیلیے پڑھ رہے ہیں۔ اگر کسی جگہ شریعت یا اس کے احکام زیر بحث آئیں گے تو اس پہلو سے زیر بحث آئیں گے کہ جو سنت چلی آ رہی ہے اس سے متعلق کوئی غلط فہمیاں ہیں یا کہیں اس کی کوئی غلط تعبیر ہو رہی ہے تو قرآن مجید اس کو درست کر رہا ہوتا ہے یا اس سے متعلق کوئی سوالوں کے جواب دے رہا ہوتا ہے، اس وجہ سے وہ آپ کو کسی باب میں نہیں ملتی۔ یعنی ایک موضوع چل رہا ہے اس کے ذیل میں زیر بحث آ گئی تو وہاں اس کی تفصیل کر دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے قرآن کے پاس جائیے اللہ کو جاننے کیلیے، تو اللہ کی جو صفات ہیں ان کا ایک عملی ظہور ہوتا ہے۔ اسی طرح سے جس ہستی سے آپ کو یہ قرآن ملا ہے وہ خدا کی عدالت بنا کے بھیجے گئے ہیں یعنی یوں نہیں ہے کہ وہ محض آپ کو ایک ہدایت نامہ دینے کیلیے آئے تھے، ان کے ذریعے سے اس زمین پر خدا کی عدالت لگی اور اس عدالت میں خدا نے اپنا فیصلہ سنایا، منکرین کو اسی دنیا میں سزا دی گئی، ایمان والوں کو اسی دنیا میں جزا دی گئی۔ تو وہ ساری سرگزشت کہاں سے آپ پاتے۔ وہ تو اسی صورت میں ہو سکتی تھی تو اس کا ایک ایک جز محفوظ ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے تعجب ہوتا ہے جب میں بعض چیزوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ وقتی تدبیر تھی، یہ رسالت مآب ﷺ کی ذاتی زندگی کے متعلق بات ہو گئی، تو لوگ کہتے ہیں اچھا قران مجید میں یہ کیوں ہے۔ قرآن مجید میں یہ سب ہے یعنی کس طرح رسالت مآب ﷺ کھڑے ہوئے ہیں، کیا حالات پیش آئے ہیں، کبھی بدر پر تبصرہ ہے، کبھی احد پر تبصرہ ہے، کبھی احزاب پر تبصرہ ہے، اس کے ذیل میں اللہ تعالیٰ توحید بیان کر رہے ہیں، آخرت بیان کر رہے ہیں، آخرت کی منادی کر رہے ہیں، تو یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے تاکہ زندہ کلام سے، زندہ تاریخ سے، اس پیغمبر سے آپ واقف ہوں کہ جس کے ذریعے سے خدا کی آخری عدالت کا زمین پر ظہور ہوا ہے۔ یہ سب نہیں ہے تو پھر تو ایک کتاب ہے جس میں دین بیان کیا گیا ہے
قرآنيات
 قرآن کا اسلوب
جاوید غامدی