نظم قرآن

مصنف : مولانا امین احسن اصلاحی

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : اكتوبر2022

قرآن مجید کے اکثر طلبہ مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات سے شیفتگی کے باوجود، بعض اوقات نظم قرآن کے بارہ میں مشتبہ ہو جاتے ہیں کہ ان کے خیال میں مولانا موصوف اس دعویٰ میں بالکل منفرد ہیں، علمائے عرب و عجم میں سے جن لوگوں کو معارف قرآن پر غور کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، کوئی شخص بھی ان کا ہم نوا نہیں ہے۔ اگر قرآن مجید میں نظم ہوتا تو یہ راز ان لوگوں سے مخفی نہ رہتا جن کی دیدہ وری اور نکتہ رسی پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ پھر کیونکر باور کیا جا سکتا ہے کہ سلف کی نگاہ کشف و تحقیق جس حقیقت کا سراغ لگانے سے عاجز رہی، اس کا دروازہ ایک ایسے شخص نے کھول دیا جو ان آخری صدیوں میں پیدا ہوا، جبکہ علم و تحقیق کی تمام روشنیاں گل ہو چکی ہیں۔ اس لیے درحقیقت ائمہ سلف کے خلاف جو شخص نظم قرآن کا دعویٰ کرتا ہے، وہ ایک ایسی بات کا دعویٰ کرتا ہے، جس کے خلاف گویا تمام سلف کا اجماع ہے۔
اس باب میں ان لوگوں کی سب سے بڑی عقلی و نقلی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید بالکل کھلی ہوئی کتاب ہے۔ اس کے سمجھنے کے لیے کسی خاص ذہنی کاوش کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے اپنا نام ‘کتاب مبین’، ‘سراج منیر’ اور ‘نور’ بتایا ہے اور خداوند تعالیٰ نے اس کی تعریف ایسے لفظوں میں کی ہے جن سے اس کا سہل اور آسان ہونا نہایت واضح لفظوں میں ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً فرمایا:وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ.(القمر ۴۵: ۷۱)‘‘ہم نے قرآن مجید کو یاددہانی کے لیے آسان بنایا۔ پس ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا؟’’
اس مضمون کی آیتیں قرآن مجید میں متعدد ہیں۔پس اگر قرآن مجید میں نظم ہوتا، جیسا کہ علامہ فراہی کا دعویٰ ہے، تو لازماً یہ نظم بھی نہایت سہل الحصول ہوتا اور جس طرح ہر عربی دان بغیر کسی خاص کاوش کے اس کی آیتوں کا ترجمہ سمجھ لیتا ہے، اسی طرح ہر طالب نظم بہ ادنیٰ تامل اس کے نظم کا بھی سراغ لگا لیتا، لیکن صورت واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ نظم کی راہ نہایت دشوار ہے۔ سلف کی آہنی ہمتیں بھی اس کی مشکلات پر قابو نہ پا سکیں اور دنیائے علم و تحقیق کے تمام فاتحین اس قلعہ کو مسخر کرنے سے عاجز رہے۔ اس لیے یہ لازماً تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نظم کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مجاز ہے جس کے پیچھے کسی لطائف پسند اور موشگاف طبیعت نے اپنے تئیں محض زور آزمائی اور جولانی کے شوق میں ڈال دیا ہے اور میں اس طرح ایک لایعنی سعی میں، جو شریعت اسلام میں ممنوع ہے، الجھ کر رہ گئی ہے۔
استاد مرحوم نے مخصوص اس موضوع پر ‘‘دلائل النظام’’ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں انھوں نے اس خدشہ سے تعرض کیا ہے اور تمام دعاویٰ پر اپنے اصول کے مطابق، نہایت محکم اور قطعی دلیلیں قائم کی ہیں۔ لیکن اس قسم کے اہم مباحث پر اس مختصر مضمون میں اطمینان بخش تفصیل کی گنجایش نہیں ہے۔ البتہ اس موضوع سے متعلق چند باتیں، جو استاد مرحوم کے خطبات درس میں سے حافظہ میں محفوظ رہ گئی ہیں، اختصار کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔
یہ بات اصول کی حیثیت سے پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس باب میں ہمارا اصلی اعتماد نفس قرآن پر ہے۔ وہ بہتر سے بہتر صور ت میں منظم ہے۔ یہ نظم، بعض مخصوص مقامات کے علاوہ، ایک صاحب نظر کے لیے ہر جگہ بالکل واضح ہے۔ جن مقامات پر حجاب ہے، وہاں ہم قرآن کے بجائے اپنی نگاہ کو متہم کرتے ہیں۔ نظم قرآن پر ہمارا عقیدہ خارجی دلائل پر قائم نہیں ہے، بلکہ اس کی خوشبو ہم نے خود قرآن میں سونگھی اور یہی ہمارے پہلے قدم کی محرک ہوئی۔لیکن ان تفصیلات کی یہاں گنجایش نہیں، البتہ قرآن کے علاوہ جو بعض خارجی دلائل ہیں، وہ مضطرب طبیعتوں کے اطمینان کے لیے ذیل میں اجمالاً پیش کیے جاتے ہیں:
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ علامہ فراہی دعوائے نظم میں منفرد نہیں ہیں، بلکہ علمائے سلف کی ایک جماعت کا پہلے سے یہ مسلک رہا ہے، اور اس پر انھوں نے کتابیں لکھی ہیں۔ علامہ سیوطی ‘‘الاتقان’’ میں لکھتے ہیں:
‘‘علامہ ابوجعفر بن زبیر شیخ ابوحیان نے نظم پر ایک خاص کتاب لکھی اور اس کا نام ‘‘البرہان فی مناسبۃ ترتیب سور القرآن’’ رکھا۔ اور ہم عصروں میں سے شیخ برہان الدین البقاعی کی ‘‘تفسیر نظم الدرر فی تناسب الاٰی والسور’’ اسی اصول پر لکھی گئی ہے۔’’(۲/ ۸۸۲)اس کے بعد انھوں نے خود ہی ایک تصنیف کا ذکر کیا ہے جس میں نظام کے علاوہ وجود اعجاز پر بھی بحث کی ہے۔ پھر لکھتے ہیں:‘‘ترتیب و نظم کا علم ایک اعلیٰ علم ہے، لیکن اس کے اشکال کی وجہ سے مفسرین نے اس کی طرف بہت کم توجہ کی۔ امام فخرالدین رازی کو اس کے ساتھ سب سے زیادہ اعتنا رہا اور ان کا قول ہے کہ لطائف قرآن کا اصلی خزانہ نظم و ترتیب میں چھپا ہوا ہے۔’’(۲/ ۸۸۲)
امام رازی (التفسیر الکبیر ۴۱/ ۵۳۱ میں) آیت ‘وَلَوْ جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا لَّقَالُوْا’ (حٰم السجدہ ۱۴: ۴۴) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:‘‘اس آیت کے سبب نزول کے بارہ میں لوگ روایت کرتے ہیں کہ کفار نے ازراہ شرارت کہا کہ اگر قرآن کسی عجمی زبان میں اتارا جاتا تو بہتر ہوتا، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کو جواب دیا ہے، لیکن اس طرح کی باتیں کہنا میرے نزدیک کتاب الٰہی پر سخت ظلم ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآن مجید میں ایسی آیتیں اتری ہیں جن میں باہم دگر کوئی تعلق نہیں ہے، حالاں کہ یہ قرآن مجید پر سب سے بڑا طعن ہے۔ ایسی صورت میں قرآن مجید کو معجزہ ماننا تو الگ رہا، اس کو ایک مرتب و منظم کتاب کہنا بھی مشکل ہے۔ صحیح مسلک میرے نزدیک یہ ہے کہ یہ سورہ شروع سے آخر تک بالکل مربوط کلام ہے۔ (اس کے بعد انھوں نے تقریباً اٹھارہ سطروں میں سورہ کی اجمالی تفسیر لکھی ہے۔ پھر لکھتے ہیں) ہر مصنف، جو انکار حق کا عادی نہیں ہے، تسلیم کرے گا کہ اگر سورہ کی تفسیر یوں کی جائے جس طرح ہم نے لکھی ہے تو پوری سورہ ایک ہی مضمون کی حامل نظر آئے گی اور اس کی تمام آیتیں ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کریں گی۔’’ (دیباچہ تفسیر نظام القرآن، فراہی۶۱)
اس سلسلہ کی ایک اہم شخصیت، علامہ مخدوم مہائمی ہیں۔ ان کی تفسیر، آیات کی باہمی مناسبت کے بیان میں ہے، اور اس چیز کی ان کی نظر میں اس درجہ وقعت تھی کہ اپنی کتاب کا نام انھوں نے ‘‘تبصیر الرحمان وتیسیر المنان’’ رکھا۔
اسی عقیدہ کے ایک بزرگ علامہ ولی الدین ملوی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:‘‘جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ قرآن مجید کا نزول بہ اقتضائے حالات جستہ جستہ ہوا ہے، اس لیے آیات میں باہمی تعلق نہیں تلاش کرنا چاہیے، ان کو سخت دھوکا ہوا۔ بلاشبہ، قرآن مجید کا نزول حسب حالات جستہ جستہ ہوا، لیکن اس کی ترتیب میں نہایت گہری حکمت مضمر ہے۔’’
یہ وہ علمائے امت ہیں جنھوں نے نظم کی خوشبو سونگھی ہے۔ ان کے اقوال پیش نظر رکھیے۔ بعینہٖ یہی حال علامہ ابن جریر وغیرہ کا ہے۔ باوجودیکہ ان کاخاص مقصد صرف روایات سلف کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں جمع کر دینا ہے، لیکن بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ تمام اقوال سلف میں سے اس قول کو ترجیح دے دیتے ہیں جو نظم کلام اور سیاق و سباق سے زیادہ لگاؤ رکھتا ہے اور دوسری روایات جو اس سے مانع ہوتی ہیں، ان کی ذرا پروا نہیں کرتے۔ بالکل یہی طریقہ علامہ زمخشری کا ہے، وہ بھی تمام موانع سے بے پروا ہو کر صرف نظم کا تتبع کرتے ہیں۔ اور اگر بعض جگہ حمایت اعتزال کے جوش میں وہ آگے نہ بڑھ جاتے تو میرا خیال ہے کہ ان کی کتاب اس فن کے مبتدیوں کے لیے نہایت مفید ہوتی۔ یہی بات حضرت امام رازی کی تفسیر میں بھی ہے، وہ اشعریت کے علم برداروں میں ہیں، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کی حمایت کے جوش میں کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں۔
اوپر جن مفسرین کا تذکرہ ہوا ہے، وہی ائمہ تفاسیر ہیں اور انھی کی کتابیں اس فن کی امہات ہیں۔ وہ سب لوگ نظم کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن بعض وجوہ سے، جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں، یہ لوگ نظم کو پوری طرح بے نقاب نہ کر سکے۔ باقی رہی یہ بات کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب ‘‘الفوز الکبیر’’ میں نظم کا انکار کیا ہے تو یہ بات بھی کچھ زیادہ اہم نہیں ہے۔ ایک ایسے قول کی بنا پر جس کی تاویل اس کے علاوہ بھی آسانی سے ہو سکتی ہے جو باول وہلہ ذہن کے سامنے آتی ہے، میں ایسے بلند رتبہ امام سے بدگمانی نہیں پسند کرتا۔ علما کی جماعت میں ٹھیک بات قبول کرنے میں وہ سب سے آگے ہیں، اپنی تصنیفات خصوصاً ‘‘حجۃ اللہ البالغہ’’ میں شریعت کے جو اسرار و حکم انھوں نے بیان کیے ہیں، وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ معرفت نظم میں ان کا مقام بہت بلند تھا۔ پھر ابن العربی کے ساتھ ان کو جو حسن ظن ہے، وہ سب کو معلوم ہے، اور نظم کے بارے میں ابن العربی اہل علم سے پوشیدہ نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اس بارہ میں ان کے کلام کی ایسی تاویل کی جائے جو ان کی شان اور ان کے رجحانات کے مطابق ہو۔ اور یہ بات آسانی سے ممکن ہے۔ اس باب میں انھوں نے جو کچھ کہا ہے، اس کے مختلف پہلو ہیں۔ اگر ہم کو ایک غیر متعلق بحث میں پڑ جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم تفصیل سے دکھاتے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
۲۔ جو علما نظم کے منکر ہیں، وہ بھی بادل ناخواستہ منکر ہیں، کیونکہ اس خیال کی بنیاد محض اس بات پر ہے کہ قرآن مجید حالات کے لحاظ سے جستہ جستہ اترا ہے۔ اس بنیاد کا ضعف بالکل ظاہر ہے، کیونکہ بعض طوال اور اکثر قصار پوری پوری ایک ہی دفعہ میں نازل ہوئی ہیں۔ نیز بعض سورتوں کا نظم بالکل واضح ہے اور احادیث سے ثابت ہے کہ آیات کی ترتیب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مناسبت کا لحاظ فرماتے تھے۔ انھی وجوہ کی بنا پر امام رازی نے وہ بات کہی ہے جو اوپر گزر چکی ہے، اور سورہ انعام کی تفسیر میں انھوں نے اپنے خدشہ کو بالکل صاف صاف ظاہر کر دیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ نظم قرآن کے منکر علما کا انکار کرنا بھی ان کی دینی غیرت پر مبنی تھا۔ انھوں نے خیال کیا کہ نظم کا دعویٰ کرنا اور پھر یہ اعتراف کرنا کہ وہ اکثر یا بعض سورتوں میں مخفی ہے، قرآن کے حق میں مضر ہے۔ اس سے معاندین کو اس پاک کتاب پر نکتہ چینی کی جرأت ہو گی۔ اس خیال کی بنا پر وہ ایک ایسی بات کہہ گئے جس کا ضرر اس کے فائدہ سے زیادہ ہے، لیکن اعمال کا مدار نیت پر ہے، ان شاء اللہ وہ آخرت میں اپنے حسن نیت کا اچھا صلہ پائیں گے۔
۳۔ جن لوگوں نے جمع و ترتیب قرآن سے متعلق روایات پر غور کیا ہے، وہ واقف ہیں کہ قرآن اگرچہ جستہ جستہ نازل ہوا ہے، لیکن آیات کی ترتیب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہوئی ہے۔ آپ آیات کی جگہ سورتوں میں متعین فرما دیتے تھے اور کاتبین وحی ان کو ان کی متعینہ جگہوں میں رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے ترتیب آیات کے توقیفی ہونے پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ اگر قرآن مجید میں نظم نہ ہوتا، جیسا کہ لوگوں کا خیال ہے، تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کا حکم کیوں دیتے؟ اور اگر کوئی عظیم الشان حکمت داعی نہ ہوتی تو نزولی ترتیب کو چھوڑ کر جو سب سے زیادہ قابل لحاظ تھی، ایک نئی ترتیب کیوں اختیار فرماتے؟ بہرحال جب ہر آیت کے لیے ایک مخصوص جگہ متعین ہوئی تو لازماً اس تعین کے سبب پر غور کرنا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ بجز رعایت نظم کے اس کا کوئی اور سبب نہیں بتایا جا سکتا۔ اس لیے جو لوگ ایک سورہ کے مضامین میں بھی ربط و نظام کے قائل نہیں ہیں، ان کا خیال صحت پر مبنی نہیں۔ علامہ ملوی نے، جن کا قول اوپرگزر چکا ہے، اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔
ہمارے خیال کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جن آیات میں کسی سابق حکم کی تخفیف وارد ہوئی ہے، ان کو ہمیشہ ماسبق حکم کے پہلو میں جگہ دی گئی ہے۔ مثلاً آیت ‘اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا’ (الانفال ۸: ۶۶) ماسبق آیت کے بہت بعد نازل ہوئی ہے، لیکن چونکہ اس میں اسی ماسبق حکم کی تخفیف تھی، اس لیے اس کو اسی کے بعد رکھا گیا۔ اسی طرح سورۃ مزمل کی آخری آیت ایک مدت کے بعد نازل ہوئی ہے، اس کو بھی پہلے حکم کے بعد ہی رکھا گیا۔ یہی حال آیت ‘وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ’ (البقرہ ۲: ۰۴۲) اور آیت ‘اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِیَّامِ’ (البقرہ ۲: ۷۸۱) کا ہے۔ بعض جگہ جہاں اس قاعدہ کے خلاف ہوا ہے، اس کے اسباب دوسرے ہیں۔ ایسے مواقع پر زیادہ تر عمود یا بعض دوسرے مصالح کی رعایت کی گئی ہے، جو اس قسم کی تبدیلی کے مقتضی ہوتے ہیں۔ لیکن جب تک کوئی شخص ان تغیرات کو سمجھ لینے کا عادی نہ ہو جائے، وہ جزئیات سے اصول تک نہیں پہنچ سکتا۔
۴۔ علیحدہ علیحدہ سورتوں کا قائم کرنا اور ان کا چھوٹا بڑا ہونا بھی نظم کی دلیل ہے۔ اگر قرآن مجید غیر منظم ہے تو الگ الگ سورتیں قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور یہ بات اپنی جگہ ثابت ہے کہ سورتوں کی تجدید وحی الٰہی سے ہوئی ہے، کوئی عقلی یا نقلی دلیل اس کے خلاف نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اس سے اختلاف کیا ہے، ان کے پاس قرآن مجید یا حدیث صحیح کی کوئی سند نہیں ہے، اس لیے ان کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ ہر صاحب عقل محسوس کرتا ہے کہ الگ الگ سورتیں قائم کرنا، اور ان کا مختلف المقدار ہونا اس امر کا صاف ثبوت ہے کہ سورتوں کے مضامین الگ الگ ہیں۔ نیز ہر سورت کسی مخصوص وحدانیت کی حامل ہے جو اس کو دوسری سورتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو جامعین قرآن آیتوں کے مجموعے لیتے اور برابر برابر سورتوں میں رکھتے چلے جاتے۔ تسہیل تلاوت، حفظ قرآن اور دوسرے مقاصد کے لیے یہ ترتیب اور بھی آسان ہوتی۔
۵۔ سورتوں کی موجودہ ترتیب جو بالاتفاق تمام مصاحف میں پائی جاتی ہے، وجود نظم کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں سورتوں کی ترتیب میں جو تقدیم و تاخیر ہے، وہ بلاسبب نہیں ہو سکتی۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے سورتوں کی مقدار سب سے زیادہ قابل لحاظ چیز تھی، لیکن اس کا لحاظ ہر شخص کو معلوم ہے، قرآن مجید میں بالکل نہیں ہے، کیونکہ ترتیب میں سورہ فاتحہ کو بقرہ سے پہلے جگہ دی گئی ہے اور سورہ کوثر جو قرآن کی سب سے چھوٹی سورہ ہے، متعدد اس سے بڑی سورتوں سے پہلے رکھی گئی ہے۔ یہ بھی مسلم ہے کہ یہ ترتیب نزولی نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس تقدیم و تاخیر کا کوئی اور سبب تلاش کیا جائے۔ ہمارے نزدیک رعایت نظم کے سوا اس کا کوئی اور سبب نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ سورتوں کی ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے سے ہوئی ہے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ بات قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے بالکل خلاف ہے۔ استاذ امام نے اپنی کتاب ‘‘تاریخ القرآن’’ میں اس کی مدلل تردید کی ہے، اس لیے یہاں اس پر مفصل بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لو کہ سورتوں کی ترتیب صحابہ کی راے سے ہوئی، اس سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ انھوں نے نظم کی کوئی پروا نہیں کی اور بلالحاظ ربط و تعلق سورتوں کو جمع کر دیا۔ ہر شخص کو معلوم ہے کہ سورۃ توبہ کے بارہ میں جب صحابہ میں اختلاف ہوا کہ اس کو کس جگہ رکھا جائے تو یہ گتھی نظم ہی کی مدد سے سلجھی، اور معنوی مناسبت کی رعایت سے اس کو سورۃ انفال کے بعد جگہ دی گئی۔ یہ بات عام خیال کے لحاظ سے کہی گئی ہے، ورنہ ہمارے نزدیک، جیسا کہ ہم پہلے ظاہر کر چکے ہیں، سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے اور قرآن مجید ہمارے اس دعوے پر حجت ہے۔ سورۃ قیامہ میں ہے:
اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ.(۵۷: ۷۱۔۹۱)
‘‘بے شک، ہمارے اوپر ہے اس (قرآن) کا جمع کرنا اور پڑھنا، پس جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی پیروی کرو۔ پھر ہمارے اوپر ہے اس کی تشریح کرنا۔’’
استاذ امام مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
‘‘اس آیت میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں: ایک یہ کہ قرآن مجید عہد نبوت ہی میں جمع ہو کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص ترتیب سے سنا دیا جائے گا، کیونکہ یہ وعدہ اگر آپ کے بعد پورا ہونے والا ہوتا تو آپ کو اس جمع و ترتیب کی پیروی کا حکم نہ دیا جاتا۔ دوسری یہ کہ اس قراء ت ثانیہ کے مطابق جو جمع کے بعد ہوئی، آپ کو قرآن مجید سنانے کا حکم ہوا اور عقلاً و نقلاً ناممکن ہے کہ پیغمبر کے پاس کوئی حکم آئے اور وہ اس کو امت تک نہ پہنچائے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: ‘یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ’، اس حکم عام کا تقاضا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قراء ت اخیرہ کے مطابق، جو لوح محفوظ میں ہے، امت کو قرآن مجید کی تعلیم کی ہو اور آخری قراء ت کا اصل کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس جمع و ترتیب کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو تعمیم و تخصیص اور تکمیل و تخفیف چاہی، وہ بھی فرما دی۔ قرآن مجید ان تینوں مراحل سے عہد نبوت ہی میں گزر گیا، کیونکہ یہ معلوم ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پوری پوری سورتیں لوگوں کو سناتے تھے اور یہ بغیر اس کے ناممکن ہے کہ قرآن مجید ایک خاص ترتیب کے ساتھ آپ کو سنایا گیا ہو۔ اسی ترتیب کے مطابق صحابہ نے آپ سے قرآن مجید سیکھا، آپ آیات کو مناسب جگہوں میں رکھنے کا حکم دیتے تھے اور اس حکم کی تعمیل کی جاتی تھی۔ اگر کوئی تشریحی آیت اترتی تو وہ مناسب جگہ میں شامل کر دی جاتی۔ اس طرح جب پورا قرآن مجید مکمل ہو گیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے، جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہے، آخری مرتبہ پورا قرآن مجید سنایا.... اس حقیقت کے معلوم ہو جانے کے بعد نظام کی بہت سی مشکلات خود بخود حل ہوجاتی ہیں۔’’ (تفسیر سورۃقیامہ، مصنفہ فراہی)
اس تشریح سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی جو ترتیب ہمارے زمانہ میں موجود ہے یہ وحی الٰہی کے مطابق عہد نبوت ہی میں مکمل ہو چکی تھی، لیکن چونکہ اس عہد کی دنیا لوازم تمدن سے محروم تھی، پڑھنا لکھنا شاذ و نادر اور کاغذ وغیرہ ناپید تھا، اس لیے ایک عرصہ تک قرآن مجید کھجور کے پتوں، ہڈیوں، تختیوں اور حفاظ کے سینوں ہی میں رہا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے منتشر آیات کو ایک مصحف میں محفوظ کیا اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی متعدد نقلیں کرا کے تمام ممالک اسلامیہ میں بھجوائیں۔
۶۔ چھٹا پہلو یہ ہے کہ کسی کلام کی اصلی روح نظم ہے۔ اس کے الگ کر دینے کے بعد صرف یہی نہیں کہ کلام اپنی بعض خوبیوں سے محروم ہو جائے گا، بلکہ پورا کلام بالکل مہمل اور بے معنی ہو جائے گا۔ جو کلام نظم سے خالی ہو، وہ ازقسم خرافات ہے، کوئی عاقل اپنا ایک لمحہ بھی اس پر ضائع کرنا پسند نہیں کرے گا۔ قرآن مجید کی نسبت تمام دنیا کو معلوم ہے کہ اس نے عربوں کو تحدی کی اور عرب، باوجودیکہ ان کو اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا، اس کے جواب میں ایک چھوٹی سے چھوٹی سورہ بھی نہ پیش کر سکے۔ قرآن مجید کی اس جلالت کے لحاظ سے اس میں سب سے پہلے جو چیز ہونی چاہیے، وہ نظم ہے، کیونکہ ایک ایسی کتاب جو سب سے زیادہ منتشر اور بے نظم خیال کی جاتی ہو، ایک لمحہ کے لیے بھی قابل تحدی نہیں ہو سکتی۔ یہیں سے ایک اور نکتہ کی طرف رہبری ہوتی ہے کہ قرآن مجید نے جہاں کہیں تحدی کی ہے، اپنے مثل ایک کتاب یا دس سورتوں یا بحدیث ‘مِنْ مِّثْلِہٖ’ یا کم از کم ایک سورت کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک آیت سے تحدی نہیں کی ہے، کیونکہ ایک مفرد آیت کتنی ہی عظیم الشان علم و حکمت کی حامل کیوں نہ ہو، تحدی کے قابل نہیں ہو سکتی۔ متفرق آیات کی مثال قیمتی موتیوں یا شیریں الفاظ کی ہے جن کو کسی صفحہ پر آپ نے بکھیر دیا ہو، ان کے آب و رنگ سے تم محظوظ ہو سکتے ہو، لیکن ان کو ایسے شخص کے سامنے مقابلے کے لیے پیش نہیں کر سکتے جس نے اپنے قیمتی موتیوں کو کسی رشتہ میں اور اپنے شیریں الفاظ کو کسی عمدہ نظم یا نثر میں پرویا ہو، کیونکہ اس نے ان کے ذاتی آب و رنگ پر نظم و ترتیب کا اضافہ کر کے ان کے حسن کو دوبالا کر دیا۔ اسی وجہ سے عرب و عجم کے تمام علمائے بلاغت کا اتفاق ہے کہ کلام کی اصلی روح نظم ہے، اسی سے اس کی تمام خوبیاں ظہور میں آتی ہیں۔ اگر کسی شخص کو اس کے باور کرنے میں تامل ہو، وہ کسی بلیغ سے بلیغ خطیب کا کوئی کلام لے اور اس کو اس کے نظم کے شیرازہ سے الگ کر دے۔ وہ دیکھے گا کہ کلام کا تمام حسن و جمال دفعۃ
ً برباد ہو گیا۔ پس ایک پوری سورہ، جو ایک مخصوص وحدانیت کی حامل ہے، اپنے اندر دو حسن رکھتی ہے: ایک اس کے اجزا کا حسن ہے، دوسرا نظم کا، ‘نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ وَّیَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ’۔
۷۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو شعر و شاعری سے منزہ قرار دیا ہے:وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ. (یٰسٓ ۶۳: ۹۶)
‘‘اور ہم نے اس کو شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ یہ چیز اس کے لیے زیبا ہے۔’’
اور دوسری جگہ ہے:
وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ.(الحاقہ ۹۶: ۱۴)
‘‘اور یہ قرآن مجید کسی شاعر کا کلام نہیں ہے۔’’
اور شاعروں کا ایک بہت بڑا عیب یہ بتایا ہے کہ ‘اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ’ (وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں)، یعنی جو خیال سامنے آ گیا، بے سوچے سمجھے اسی سے مشغول ہو گئے۔ اس قسم کی بے تکی ہرزہ سرائی شعرا کی خصوصیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کو اس عیب سے منزہ قرار دیا ہے، اس لیے قرآن مجید کو غیر منظم خیال کرنا کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو ‘ھیمان’ سے تعبیر کیا ہے، اقتضاب یعنی بے نظمی اسی کی ایک شاخ ہے۔ یہیں سے ان لوگوں کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے، جو قرآن مجید کو اس بنا پر بے نظم خیال کرتے ہیں کہ وہ شعرائے عرب کے کلام کے انداز پر ہے، کیونکہ قرآن مجید نے ان کے کلام کی صرف خوبیاں لی ہیں، اس کے معائب سے آلودہ نہیں ہوا ہے۔ نیز یہ حقیقت بھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ اہل عرب کا کلام صرف شاعری ہی نہیں تھا۔ یہ ان کے کلام کی صرف ایک قسم ہے اور شرفائے عرب عموماً اس کو وقار کے منافی سمجھ کر اس سے احتراز کرتے تھے۔ ان کے شوق و رغبت کی اصلی چیز خطبات ہوتے تھے اور جو لوگ ان کے کلام کی اس صنف سے واقف ہیں، وہ اعتراف کریں گے کہ خطبات عرب جملہ محاسن کلام کے حامل ہوتے تھے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان کا بیش تر حصہ مٹ گیا اور بہت تھوڑا حصہ آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔
۸۔ قرآن مجید کی بعض سورتوں میں ترجیعات ہیں۔ مثلاً سورۃرحمن میں ‘فَبِاَیِّ اٰلٓاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ’ والی آیت بار بار دہرائی
 گئی ہے۔ اسی طرح سورۃ مرسلات میں ‘وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ’ اور سورۃ شعراء میں ‘اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً’ کی تکرار ہے۔ اسی طرح بعض سورتوں میں ہر چند آیات کے بعد کوئی آیت مطلع یا مقطع کی حیثیت سے بار بار آتی ہے۔ مثلاً سورۃ نور میں تھوڑے سے تغیر کے ساتھ ‘وَاَنْزَلْنَا فِیْہَآ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ’ تین مرتبہ وارد ہے۔ تعجب ہے کہ ان سورتوں کے اجزا کو کیونکر بے نظم کہا جا سکتا ہے، جبکہ بہ اعتبار ترجیع یہ بالکل متحد معلوم ہوتے ہیں۔ اس باب کا ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی ہر سورت میں کلام بار بار عمود یا مرکز کی طرف لوٹتا ہے، لیکن مقام کی رعایت سے الفاظ میں ایسی تبدیلی یا کمی بیشی ہو جاتی ہے کہ مبتدی، جو قرآن مجید کی ان اداؤں سے ناآشنا ہے، سررشتہ نظم کو نہیں سنبھال سکتا، بلکہ اگر مجھ پر غلو کا الزام نہ لگایا جائے تو یہ کہنے کی جرأت کی جا سکتی ہے کہ ترجیعات تمام قرآن میں پائی جاتی ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں: لفظی اور معنوی۔ لفظی کا ذکر اوپر گزر چکا ہے، معنوی ترجیعات کے متعلق یہ بات خیال میں رکھنی چاہیے کہ معرفت نظم کا زیادہ تر نظام انھی پر ہے، لیکن بغیر ممارست ان کا تتبع مشکل ہے۔ یہاں یہ بات بھی ظاہر کر دینی چاہیے کہ مجھ کو نظم کا یقین سب سے زیادہ ترجیعات ہی کی رہنمائی سے ہوا۔ جب میں ترجیعات والی سورتوں کی تلاوت کرتا ہوں، ظاہری اقتضاب کے باوجود، مجھ کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی تیر انداز نے اپنے ترکش کے تمام تیر اپنے سامنے پھیلا دیے ہیں، اور وہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد ایک مخصوص نشانہ کی طرف ان میں سے ایک تیر اٹھا کر پھینک دیتا ہے۔
۹۔ قرآن مجید میں قوافی کی رعایت کی گئی ہے، اس سے بھی نظم کا ثبوت ملتا ہے۔ جن لوگوں نے کبھی اس پہلو سے قرآن مجید پر غور کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ان کی مدد سے نظم کے کن نکتوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث کرنے کا موقع نہیں ہے، البتہ اتنی بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قرآن مجید کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نازل ہونے کے باوجود اس میں قافیہ کی رعایت اقتضاب کے بالکل منافی ہے، کیونکہ قافیہ کا ظاہری اقتضا ارتباط و تعلق ہے اور کوئی عقل مند انسان ایک لمحہ کے لیے بھی یہ باور نہیں کر سکتا کہ قرآن مجید کے جستہ جستہ نازل ہونے کی وجہ سے اس کے اجزا
 میں کوئی نظم نہ پیدا ہو سکا، لیکن اللہ تعالیٰ یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نغمہ یا سجع کی حفاظت کے خیال سے اس کے قوافی کی رعایت باقی رکھی۔ سجع و قافیہ کلام میں مقصود بالذات چیزیں نہیں ہیں کہ ان کے لیے اس درجہ اہتمام کیا جائے، اس لیے اگر قرآن مجید کا جستہ جستہ نازل ہونا فساد نظم کا باعث ہوتا، جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے، تو اس کا سب سے زیادہ اثر قوافی پر پڑتا، حالاں کہ وہ تمام سورتوں میں بالکل محفوظ ہیں۔
(مقالات اصلاحی ۲/ ۵۳۔۵۶، بہ حوالہ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ، جولائی ۱۹۶۳ء)