سوال ، جواب

مصنف : ڈاکٹر محمود احمد غازی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جنوری 2019

جواب: غسل کی ضرورت ہو اور پانی موجود نہ ہو توغسل کے لیے بھی وضو والا تیمم ہی کیا جاتا ہے ۔

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: قرآن پاک میں آیا ہے کہ اتمواالصیام الی للیل، کہ روزے کو مکمل کر رات تک ۔ یہاں دو لفظ آئے ہیں لیل اور الیٰ یعنی رات اور تک ۔ اس کا مفہوم فقہا کی بڑی تعداد نے یہی سمجھا ہے کہ جب تک رات داخل نہ ہوجائے اس وقت روزہ رکھا جائے۔ جب لیل کا دخول شروع ہو جائے تو سمجھا جائے کہ نہا ر کا وقت ختم ہو گیا ہے اس وقت روزہ کھول دیا جائے گا لیکن لیل کیا ہوتی ہے اور کب شروع ہوتی ہے فقہا کی غالب اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ جب سورج کی ٹکیا نظروں سے اوجھل ہو جائے اور ڈوب جائے تو رات یعنی لیل شروع ہو جاتی ہے۔ سورج کے لئے ٹکیا کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اگر آپ ریگستان یا میدانی علاقے میں کھڑے ہو جائیں تو غروب ہو تا سورج ایک گیند کی طرح نظر آتا ہے جیسے فٹ بال ہو تا ہے اس گیند کو فقہا ٹکیہ کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔ تو فقہا کہتے ہیں کہ جب سورج کی ٹکیا ڈوبتے ڈوبتے اس کاآخری حصہ بھی ڈوب جائے تو اس وقت سمجھا جائے گا کہ دن ختم ہو گیا ہے اور رات شروع ہو گئی ہے اس وقت روزہ کھول لیا جائے گا۔ بعض فقہا جن میں شیعہ فقہا بھی شامل ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ محض ٹکیا کا ڈوبنا کا فی نہیں ہے بلکہ شفق کا غائب ہونا بھی ضروری ہے ۔شفق وہ سرخی ہے جو سورج کی ٹکیا غائب ہونے کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔جب تک یہ سرخی غائب نہیں ہوتی اس وقت تک گویا یہ سمجھا جائے گا کہ ٹکیا پوری طرح نہیں ڈوبی۔ شفق ٹکیا کے تابع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک چیز کسی دوسری چیز کے تابع ہو تی ہے تو تابع کا بھی وہ ہی حکم ہوتا ہے جو اصل کا حکم ہوتا ہے لہٰذا اصل اور تابع دونوں ڈوب جائیں تب رات شروع ہو گی۔ اس عمل میں دس بارہ منٹ مزید وقت لگتا ہے اس لئے وہ بارہ منٹ مزید انتظار کرتے ہیں۔ یہ محض لیل کی تعبیر میں اختلاف ہے کوئی قرآن یا سنت میں اختلاف نہیں۔ اکثریت کے خیال میں سورج کی ٹکیا کے غائب ہو نے سے رات شروع ہو جاتی ہے دوسرا فریق کہتا ہے کہ جب ٹکیا کے اثرات بھی ڈوب جائیں گے تو تب لیل شروع ہوگی ۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ فقہا کی غالب اکثریت کا کہنا درست ہے اس لئے کہ دن اس وقت شروع ہو تا ہے جب سورج نکلنے لگتا ہے۔ سورج کی ٹکیا کے ظہور سے قبل جب اس کی سرخی یا شفق ظاہر ہوتی ہے اس کو دن کا آغاز قرار نہیں دیا جاتا اس سے پہلے کے وقت کو نہار کہتے ہیں اور اس وقت تک فجر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے یہی اصول ٹکیا کے غائب ہو نے کے وقت بھی پیش نظر رکھنا چاہئے بہرحال یہ دو مختلف آرا ہیں ۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: اس میں اختلاف کی موجودگی تشویش ناک بات نہیں ہے رسولﷺْ نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے مجمع کے سامنے نمازیں پڑھیں اور مختلف انداز میں پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ رسول ﷺ نے نماز میں جس طرح سے بھی کیا اور جو جوبھی کیا وہ سب محفوظ رہے ۔ رسول ﷺ کی کوئی ادا ایسی نہ ہو جو مسلمانوں میں محفوظ نہ رہے اور مسلمانوں کا کوئی طبقہ اسے اختیار نہ کرے۔ رسولْﷺ بعض اوقات پوری پوری رات نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ پاؤں مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا۔ بعض اوقات مسجد نبویﷺ میں ظہر کے بعد طویل نوافل پڑھتے تھے۔ طویل نوافل میں جب آدمی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے تو بعض اوقات ہاتھ تھک جاتا ہے اور ہاتھ کو کھول کر نماز پڑھنے میںآرام ملتا ہے۔ تورسول ﷺ بھی طویل نمازوں میں کبھی کبھی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اب کسی نے دیکھا کہ حضور ﷺ دست مبارک چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ کبھی ہاتھ اوپر باندھ لیے اور تھک گئے توپھر نیچے باندھ لیے۔ نیچے تھک گئے تواوپر باندھ لیے ۔اس میں آرام مل جاتا ہے اس لئے اس میں نہ تو کسی جائز ناجائز کا مسئلہ ہے نہ اس میں کسی مکروہ اور مستحب کا مسئلہ ہے۔ ہر طرز عمل سنت ہے اور ان میں سے ہر طرز عمل جائز ہے ۔فقہا نے صرف یہ سوال اٹھایا ہے کہ ان میں افضل کو ن سا ہے ۔کچھ لوگوں نے کہا کہ ہاتھ چھوڑ کر پڑھنا افضل ہے کچھ نے کہا ہاتھ باندھ کر پڑھنا افضل ہے ۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ سب سنت کا حصہ ہے اس لیے اس میں کسی تشویش کی کوئی بات نہیں مسلمان چودہ سو بر س سے نماز اسی طر ح پڑھ رہے ہیں آئندہ بھی پڑھیں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں آپ کا جی چاہے تو سورہ فاتحہ میں آمین اونچی آواز میں پڑھئے اور جی چاہے تو آہستہ پڑھئے۔ جی چاہے تو رفع یدین کریں اور جی چاہے تو نہ کریں سب سورتیں جائز ہیں سب سنت ہیں اور سب کا تعلق سنت سے ہے جس میں کوئی شک نہیں 
نہ یہ چیزیں مسلمانوں میں افتراق کا موجب ہیں نہ ان سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ حرم شریف میں جاکر دیکھیں لاکھوں افراد کئی کئی طریقوں سے نماز پڑھتے نظر آتے ہیں کوئی زور سے آمین کہتاہے کوئی آہستہ سے کہتا ہے سب ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور کوئی لڑتا نہیں۔ ہمارے ہاں ان امور کو اختلاف کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لڑنے کے اسباب اور ہیں ان کا آمین زور سے یا آہستہ کہنے سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی اس کا رفع یدین سے کوئی تعلق ہے ۔نماز کے اندر رفع یدین کرنے سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا ہاں نماز سے باہر رفع یدین کرنے پر جھگڑا ہوتاہے۔ جب جاہل اور متعصب لوگ ایک دوسرے پر رفع یدین کرتے ہیں اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے۔

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: آپ کی بات بالکل درست ہے اپنے نفس کی پیروی نہیں کرنی چاہئے اور اپنی ذاتی پسند نا پسند پر شرعی امور کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ اللہ اور رسولﷺ نے جو حکم دیا ہے ہمیں اس کے مطابق چلنا چاہئے ۔جہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کو سمجھنے میں کسی غیر معمولی گہرائی اور فہم کی ضرورت ہے تو اگر ہمیں کسی کے علم اور فہم پر اعتماد ہے تو اس کی فہم کے مطابق عمل کرنا چاہئے ۔اس معاملہ میں بہتر اور محتاط راستہ تو یہ ہے کہ آپ اپنی رائے پر عمل کرنے کے بجائے کسی ایسے صاحب علم کی رائے پر عمل کریں جس کے علم اور تقویٰ پر آپ کو اعتماد ہو ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب:یہ عمل شروع سے ہو رہا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اس پر عمل پہلے بھی ہوتا تھا آج بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہو گا 
شریعت نے نہ امام ابوحنیفہ کی تقلید کا حکم دیا ہے اور نہ امام شافعی ؒ کی نہ امام احمد ؒ کی شریعت تو رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مکمل ہوگئی الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتینعمت تمام ہو گئی ہے دین مکمل ہوگیا شریعت مکمل ہوگئی ،اس لئے حضور ﷺکے بعد آنے والے کسی بھی آدمی کا کوئی قول فی نفسہ واجب التعمیل نہیں ہے حتیٰ کہ کسی صحابیؓ کی رائے بھی as such واجب اتعمیل نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص خود صاحب علم ہے اور اللہ نے اسے علم دیا ہے اور وہ دلائل سے یہ جان سکتا ہے کہ کسی امام کا قول قوی ہے یا بہتر ہے تو ا س کو اس رائے یا قول کو اختیا ر کرنے کی اجازت ہے لیکن ایک ایسے آدمی کو جس کے پاس شریعت کا علم نہ ہو یہ راستہ اختیار کرنے کی اجازت دی جائے تو بہت ساری قباحتیں پیدا ہو ں گی جن سے بچنا بہت دشوار ہے۔ اس کی ایک مثال فقہ کی سب کتابوں میں ملتی ہے میں آپ کو دیتا ہوں اکثر لوگوں نے یہ مثال بیان کی ہے شریعت کا حکم یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں تعلقات حیا کی بنیاد پر استوار ہوں خاص طور پر دو جنسوں کے درمیان میل جول شریعت کی حدود کے اندر ہو اور حیا کے احکام کے مطابق ہو۔ جب دو افرادرشتہ ازدواجی میں منسلک ہوں تو یہ کام اللہ کے احکام اور شریعت کے مطابق ہو یہ تعلق انسانوں کے علم میں ہو تمام لوگوں میں اس کا اعلان کیا گیا ہو کہ فلاں دو افراد آج سے رشتہ ازدواجی میں منسلک ہو رہے ہیں۔ یہ شریعت کے احکام ہیں ۔
اب شریعت کے ان احکام کے ضمن میں قرآن پاک میں بعض نصوص آئی ہیں احادیث میں کچھ نصوص آئی ہیں ان کو سامنے رکھ کر اور ان کامقصد سمجھ کر فقہا نے کچھ تفصیلی ضوابط مرتب کئے ہیں امام مالک ؒ نے اپنی فہم کے مطابق یہ ضابطہ مقرر فرمایا کہ جب نکاح ہو رہا ہو تو اس کے لئے کسی کو با قاعدہ گواہ بنانے کی ضرورت تو نہیں البتہ عام اعلان کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ اگر نکاح اس طرح ہو کہ معاشرہ میں عام لوگوں کو معلوم ہو جائے ،محلہ میں سب کو پتہ چل جائے کہ فلاں اور فلاں کی شادی ہو رہی ہے تو یہ کافی ہے چاہے دو آدمی بطور خاص گواہ بننے کے لیے موجود نہ ہوں۔ یہ امام مالکؒ کا نقطہ نظر ہے۔امام ابوحنیفہ ؒ یہ فرماتے ہیں کہ کم از کم دو متعین گواہ ضروری ہیں جو عقدہ نکاح میں موجود ہوں جو ایجاب ور قبول کو ہوتے دیکھیں یہ کم سے کم تقاضا ہے اور اس سے کم پر نہیں ہوگا یہ امام ابوحنیفہ ؒ کا نقطہ نظر ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اصل عقد میں تو دو گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے لیکن جب لڑکی رخصت ہو اور شوہر کے گھر جائے اس وقت کم از کم دو گواہ ہونے چاہئیں اور یہ ضروری ہے ۔
اب یہ تین مختلف نقطہ نظر ہیں مقصد سب کا ایک ہی ہے اب اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ ایک لڑکا اور لڑکی آپس میں رہنے لگیں اور یہ کہیں کہ امام مالک کے نزدیک دو گواہ ضروری نہیں تھے اور لوگوں کو بتانا بھی ضروری نہیں تھا اور صرف چراغاں اور دعوت کھلانا کافی ہے امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک چراغاں اور دعوت بھی ضروری نہیں تھی لہذا ہم نے چراغاں اور دعوت بھی نہیں کی عقد نکاح کے وقت امام شافعی ؒ کے نزدیک دو گواہ ضروری نہیں تھے وہ بھی نہیں کئے۔ رخصتی کے وقت امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ضروری نہیں تھے وہ بھی نہیں کئے یہ تو شریعت کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے اور محض بدکاری ہے یہ تو پرلے درجہ کی بداخلاقی اور بے حیائی ہے یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہو گا کہ اگر کسی شخص کو اپنے نفس کی پیروی کی اجازت دی جائے تو ا س کے نتائج اس طرح کے نکل سکتے ہیں ۔
اس لئے دو شرائط کا خیال رکھیں ۔ آپ جس فقیہ کے نقطہ نظر سے دلائل کے ساتھ اتفاق کریں ایک شرط یہ کہ واقعی اللہ کے حضور جوابدہی کے احساس کے ساتھ یہ اردہ ہو کہ اللہ کے حکم پرچلنا اور اللہ کی شریعت پر عمل کرنا ہے اور اس کو سمجھنا ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ارادہ ہے کہ نہیں ہے ۔دوسرا یہ کہ اتنا علم ہو کہ یہ معلوم ہو سکے کہ شریعت کا اصل مقصد کیا ہے شریعت کی تعلیمات اس بارے میں کیا ہیں اور ان کو کس انداز سے سمجھ کر اس فقیہ نے یہ رائے قائم کی ہے اس رائے سے یہ فقیہہ شریعت کے کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے یہ اگر حاصل ہے تو پھر دوسرے کسی فقیہہ کی رائے اختیار کر لینے کا عمل قابل قبول ہے ۔

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

حافظ اور غالب کا تذکرہ تو ضمناً آیا تھا۔ علامہ اقبال ؒ کے بارے میں میرے خیالات حافظ شیرازی اور غالب جیسے ہر گز نہیں ہیں۔ علامہ اقبال کا ذکرتو میں مولانا جلال الدین رومی ؒ اور امام غٖزالی ؒ کے ساتھ کروں گا حافظ اور غالب کے ساتھ نہیں کروں گا ۔

()