میں ایک عالمی سازش کا خود گواہ ہوں !

مصنف : شاہد جتوئی

سلسلہ : سیاسیات

شمارہ : اپریل 2022

میں ایک عالمی سازش کا خود گواہ ہوں۔ اس سازش میں بین الاقوامی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ تھا اور اس سازش پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی تھی، لیکن اس کی صرف ایک سماعت ہوئی اور 25 سال سے کیس زیر التواء ہے۔ اس حقیقی سازش پر اتنا ہنگامہ برپا نہیں کیا گیا، جتنا آج عمران خان نے ایک مبینہ سازش پر برپا کر رکھا ہے۔ 
یہ جنوری 1997ء کی بات ہے۔ پاکستان کے نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کراچی میں پریس کلب کے قریب واقع 'صد کو سینٹر میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ وہ پاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر دانشوری جھاڑ رہے تھے۔ تقریر طویل ہونے کی وجہ سے لوگ بور ہو گئے تھے اور اونگھنے لگے تھے لیکن روزنامہ ڈان کے شمیم الرحمن پپو، اے پی پی کے راشد علی خان اور میں بہت الرٹ ہو کر نگران وزیر اعظم کی تقریر کے نوٹس لے رہے تھے۔ تقریر کے دوران ایک مرحلے پر نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے بارے میں شکایات کی ہیں کہ یہ حکومت قرضوں کی شرائط پر عمل نہیں کرتی اور لوگوں کو وہ ریلیف فراہم کرتی ہے، جس کی پاکستانی معیشت متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس وجہ سے پاکستانی معیشت بحران کا شکار ہے۔ ہم نے ورلڈ بینک کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو (بی بی) حکومت میں نہیں آ رہی ہیں۔یہ جملہ سنتے ہی شمیم الرحمن پپو نے مجھے کہنی ماری۔ میں نے کہا کہ شمیم بھائی میں جاگ رہا ہوں۔ دوسرے دن جنگ کی شہ سرخی تھی؛’’ہم نے عالمی بینک سے کہہ دیا بے نظیر کی حکومت نہیں بنے گی، نگران وزیر اعظم‘‘
اور ڈان کی شہ سرخی تھی؛ 
'WE ASSURED WORLD BANK BB WILL NOT BE IN POWER, CARETAKER PM 
اس وقت پرائیویٹ ٹی وی چینلز نہیں ہوتے تھے۔ پاکستان کے دو بڑے اخبارات میں نگران وزیر اعظم کا بیان شائع ہونے کے بعد تہلکہ مچ گیا۔ صبح سویرے مجھے اور شمیم الرحمن پپو کو بلاول ہاؤس سے کالیں آئیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو آپ سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں۔ آپ فوراََ آ جائیں۔ ہم وہاں پہنچے تو بی بی نے ہم سے پوچھا کہ کیا آپ اس کا ثبوت دے سکتے ہیں کہ معراج خالد نے یہ بات کہی ہے۔ دو تین گھنٹے میں ہم نے اپنے رینڈم  نوٹس کی فوٹو کاپیاں اور ایک آڈیو کیسٹ بی بی کے حوالے کر دی۔ بی بی نے کہا کہ میں سپریم کورٹ میں کیس کرنے جا رہی ہوں۔ اسی دن شام کو بی بی نے بلاول ہاؤس میں پریس کانفرنس کی اور کہا کہ نگران وزیر اعظم کے بیان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج پہلے سے طے کر لئے گئے ہیں اس حوالے سے بین الاقوامی اور ملکی طاقتور حلقوں نے گٹھ جوڑ کر لیا۔ یہ ایک ایسی سازش ہے، جسے نگران وزیر اعظم نے بے نقاب کر دیا ہے۔ میرے بھائی مرتضیٰ کا قتل اور میری حکومت کی برطرفی بھی اسی سازش کا حصہ ہیں۔ 
دو دن بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے نگران وزیر اعظم کے اس بیان پر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی، جس میں استدعا کی گئی کہ پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کا تحفظ کرتے ہوئے سازش اور طے شدہ منصوبے کو ناکام بنایا جائے اور شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ اس پٹیشن کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ ہمارے اخبارات اور ہمیں بھی نوٹس ہوئے کیونکہ بطور رپورٹر ہم اس کیس میں گواہ تھے۔ لیکن اس پٹیشن کی صرف ایک سماعت ہوئی اور پھر کبھی دوسری سماعت نہ ہوئی۔ اس زمانے میں ہر پریس کانفرنس میں محترمہ شہید سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ جب آئندہ عام انتخابات کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہے تو آپ انتخابات میں کیوں حصہ لے رہی ہیں اور بائیکاٹ کیوں نہیں کرتی ہیں؟ اس پر محترمہ کا یہی جواب ہوتا تھا کہ کچھ بھی ہو، میں میدان خالی نہیں چھوڑوں گی۔ جمہوری عمل کو سبوتاژ نہیں ہونے دوں گی۔ جمہوری عمل سبوتاژ ہوا تو اس کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں اور نقصان پاکستان کے عوام کو ہو گا۔ پاکستان میں شفاف انتخابات کے ذریعہ حقیقی جمہوری حکومتیں بننے تک ہمیں طویل سفر کرنا ہے اور ابھی بہت قربانیاں دینی ہیں۔ میں پارلیمنٹ میں بطور اپوزیشن لیڈر اپنا کردار ادا کروں گی۔ آئین کی بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے لیے ہماری پُرامن جدوجہد جاری رہے گی۔ 
پھر وہی ہوا، جو مَلک معراج خالد نے کہا تھا۔ پیپلز پارٹی کو انتخابات میں بہت کم نشستیں ملیں اور میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کو دو تہائی اکثریت دے دی گئی۔ محترمہ بے نظیر نے اگرچہ ان انتخابات کو طے شدہ منصوبے اور سازش کا حصہ کہتی تھیں، لیکن انہوں نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپنا جمہوری کردار ادا کیا اور جب بھی احتجاج کیا، پُرامن کیا۔ 
محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس رویہ اور فلسفہ کا ادراک سابق وزیر اعظم عمران خان کے بس کی بات نہیں، کیونکہ وہ پاکستان کی جمہوری قوتوں اور عوام کی جمہوری جدوجہد کے بنیادی دھارے میں کبھی شامل نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز اس بیانیہ سے کیا جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے 1947ء میں سیاسی قوتوں کے خلاف اختیار کیا تھا، جس کے مطابق سیاست دان کرپٹ ہوتے ہیں اور اور سیاست کرپشن کا دوسرا نام ہے۔ اب ان کا آخری بیانیہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا پرانا بیانیہ ہے کہ سیاست دان غدار ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ بنیادی دھارے کے خلاف سیاست کی۔ انہوں نے اپنے حامیوں خصوصاََ یوتھیوں کو جمہوری جدوجہد اور قربانیوں والے اپنے عظیم ماضی سے جڑنے نہیں دیا اور ہوا میں معلق مخلوق بنا دیا۔ وہ زمینی حقائق سے بے گانہ ہیں۔ 
وقت نے ثابت کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک امریکی ڈالرز سے چلی، پھر بھی پیپلز پارٹی نے جمہوری جدوجہد نہیں چھوڑی ۔ اس امر کے تاریخی شواہد بھی ملے کہ بھٹو کا عدالتی قتل بین الاقوامی سازش تھی۔ پھر بھی پیپلز پارٹی نے ایم آر ڈی کے نام سے جمہوری اتحاد تشکیل دیا اور بھٹو کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرنے والے اپنے مخالفین کو ایم آر ڈی میں شامل کر کے حقیقی جمہوریت کے نفاذ کے بڑے مقصد کے لئے پیش قدمی جاری رکھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف 1989ء میں تحریک عدم اعتماد میں آپریشن مڈ نائٹ جیکال اور مہران بینک اسکینڈل سامنے آئے لیکن پیپلز پارٹی نے کبھی فاشسٹ طرز سیاست کو نہیں اپنایا۔ ملک معراج خالد کے بیان کی صورت میں سازش کا واضح ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے جمہوری عمل کو سبو تاژ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کی مخالف قوتیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اس فلسفہ کو سمجھ گئیں اور پیپلز پارٹی کا طرز سیاست اپنایا۔ اب عمران خان بھٹو بننا چاہ رہے ہیں اور اپنی حکومت کی آئینی برطرفی کو عالمی سازش کہہ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو سکندر مرزا اور ایوب خان کی کابینہ میں گھس کر پاکستان کو اس وقت امریکی کیمپ سے نکالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کئے، جب پاکستان عالمی سامراجی فوجی اتحادوں سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا اور کمیونسٹ بلاک کے خلاف اس خطے میں سامراج کا کرائے کا ٹٹو بنا ہوا تھا۔ پھر خود وزیر اعظم بن کر پاکستان کو ایک حقیقی خود مختار اور دفاعی طور پر خود انحصار ملک بنانے کے لیے ایک بڑا تاریخی جست لگایا۔ بھٹو نے صرف نعرہ نہیں لگایا بلکہ اس کے لیے ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر راستہ ہموار کیا۔ انہوں نے تیسری دنیا کے ملکوں کو غیر جانبدار تحریک اور علاقائی اتحادوں میں منظم کر کے تیسری دنیا کا ایک الگ بلاک بنایا۔ اس وقت اسلامی بلاک بھی سامراج مخالف تھا۔ جب بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں تھے تو وہ افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا کے لیڈر بن چکے تھے۔ انہوں نے تیسری دنیا کے عظیم قوم پرست اور سامراج مخالف رہنماؤں کو عالمی سیاست میں تبدیلی لانے کی ڈگر پر ڈال دیا۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں حقیقی سیاسی، قومی اور معاشی خود مختاری کی تحریکوں کو انہوں نے منظم کیا۔ کیونکہ بھٹو سمجھتے تھے کہ پاکستان اکیلا امریکی کیمپ سے نہیں نکل سکتا۔ اس جرم کی پاداش میں نہ صرف عالمی سامراجی قوتوں نے بھٹو کا عدالتی قتل کرایا بلکہ تیسری دنیا کو سامراج مخالف رہنماؤں کا قبرستان بنا دیا۔
پاکستان کی امریکا میں سابق سفیر ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ عمران خان کی خارجہ پالیسی میں ایسی کون سی بات ہے کہ امریکا ان کے خلاف سازش کرتا۔ ملیحہ لودھی کی اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کا جھوٹ پر مبنی سازش کا بیانیہ اور پارلیمنٹ میں نہ بیٹھنے والا فسطائی طرز سیاست ہی پاکستان کے خلاف اصل عالمی سازش ہے۔ میں اس عالمی سازش کا بھی گواہ ہوں ۔ اس مرتبہ گواہ سپریم کورٹ کے ایک مقدمے میں نہیں، بلکہ تاریخ کےایک مقدمہ میں ہوں۔