فیض کے منتخب اشعار

مصنف : اسلم ملک

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : مارچ 2022

 اس انتخاب میں بہت سارے دوستوں کا حصہ ہے لیکن افسوس وہ دوست رخصت ہوگئے، جنہیں ہم حافظِ فیضؔ کہا کرتے تھے یہ گلدستہ انہی ڈاکٹر غلام رضا بلوچ کی نذر -
رفتید ولے نہ از دل ما
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں 
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں 
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے 
رند کا ساقی کا مے کا خم کا پیمانے کا نام
اُس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہِ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں اے چشمِ تماشائی
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گذرنے والے --ناصحو پند گرو راہگزر تو دیکھو
چمن پہ غارتِ گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے
وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں
دیکھنے والو کبھی اُن کا جگر تو دیکھو
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا 
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا 
 پھر آخر تنگ آ کرہم نے
 دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
وقف حرمان و یاس رہتا ہے
دل ہے اکثر اداس رہتا ہے
تم تو غم دے کر بھول جاتے ہو
مجھ کو احساس کا پاس رہتا ہے
ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے
گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے
دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے کو ان کے سامنے بات بدل بدل گئی
بولو کہ شور حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کہ روز عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں-یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
ہم اپنے وقت پہ گزرے جہانِ گزراں سے
نظر میں رات لیے دل میں آفتاب لیے
ہم اپنے عہد میں پہنچے حضور یزداں میں
لبوں پہ حمد لیے ہاتھ میں شراب لیے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم ، بہار کا موسم
ساغر تو کھنکتے ہیں شراب آئے نہ آئے
بادل تو گرجتے ہیں گھٹا برسے نہ برسے
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
جوہری بند کِیے جاتے ہیں بازارِ سخن
اب کِسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
بربادئی دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمن جاں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
قرب  کے نہ وفا  کے  ہوتے ہیں
جھگڑے سارے انا کے ہوتے ہیں
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
یہ ساغر شیشے لال و گوہر سالم ہوں تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں تو فقط چبتے لہو رلواتے  ہیں
مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
آنڈ گوانڈی دیوے بلے
ربا ساڈا چانن گھل دے
غمِ جہاں ہو غمِ یار ہو کہ تیرِ ستم
جو آئے، آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی 
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہا رآجائے 
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
کرو کج جبیں پہ سر کفن
کہ میرے دشمنوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن
پس مرگ ہم نے بھلا دیا
دُنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
 بولو کہ روز عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
بولو کہ شور حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
ہجر کی شب تو درد و طلب کے چاند ستارے ساتھ رہے
صبح کی ویرانی میں یارو کیسے بسر اوقات کریں
 ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
 اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
جو گزرتے تھے داغ پر صدمے
اب وہی کیفیت سبھی کی ہے
رنگ و خُوشبُو کے ، حُسن و خُوبی کے
تُم سے تھے ، جِتنے استعارے تھے
درِ قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
چشمِ نم ، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو ، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکم شہر بھی ، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی ، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر نہ اک مہر نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
بیتا دید امید کا موسم، خاک اڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا برساؤ گے
عہد وفا یا ترک محبت جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤ گے
فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بسنا بھی، لٹ جانا بھی
تم اس حسن کے لطف و کرم پر کتنے دن اتراؤ گے