حدیث اور روایتی علما کی اہمیت

مصنف : محمد رضوان خالد چوھدری

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : نومبر 2021

ایک شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپؐ صحابہؓ کے درمیان بیٹھے تھے، وہ سواری سے بھی نیچے نہیں اُترا اور وہیں سے درشت لہجے میں آواز دی اے محمدؐ ادھر آو میری بات سُنو- صحابہؓ کو اُس شخص کا لہجہ گراں گزرا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر اُس شخص کے پاس گئے تو وہ بولا کیا تُم اللہ کے نبی ہو، آپؐ نے فرمایا ہاں میں اللہ کا نبی ہوں، وہ بولا مجھے بتاؤ کیا لائے ہو، آپؐ نے اُسے سواری سے نیچے آنے کو کہا تاکہ تفصیل سے بتا سکیں تو وہ بولا میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے یہیں بتا دو اور سواری سے نہ اُترا- آپؐ نے اسی حالت میں اُسے اسلام سمجھانا شروع کیا کہ وہ سواری پر بیٹھا ہے آپؐ کھڑے ہیں، بات طویل ہونے لگی تو وہ بات کاٹ کر بولا اتنا بہت مجھ سے نہیں ہو گا مختصر اور آسان کام بتاؤ۔ آپ نے مزید مختصر انداز میں قرآن کے محکمات آسان کر کے بتائے تو وہ بولا کیا بس اتنا ہی؟ آپﷺ مسکرا کر بولے ہاں بس اتنا ہی،وہ بولا میں گواہی دیتا ہوں تُم اللہ کے رسُول ہو اور اللہ اکیلا اور یکتا معبود ہے، جو تُم نے بتایا یہ میں ضرور کروں گا اس سے زیادہ نہیں اور یہ کہہ کر بغیر کوئی بات کیے سواری موڑی اور چلتا بنا۔

آپؐ صحابہؓ کے پاس آئے اور بولے ایک چرواہا ہی اپنے ریوڑکو جانتا ہے تُم میرے اور میرے ریوڑ کے معاملے میں غُصہ مت کیا کرو، یہ شخص جو کرنے کا کہہ کر گیا ہے اگر بس یہی کرتا رہا تو جنّتی ہے۔

اب میں آپ کو بتاتا ہوں مجھے یہ واقعہ آپکو کیوں سُنانا پڑا۔

دیکھیے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ عُلما کا دینی بیانیہ بہت ٹھیک نہیںہے تب بھی لوگوں کو اُن سے متنفر کرنے کی بجائے عام لوگوں کو ان سےجُڑا رہنے دیجیے۔علمی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی روایتی عُلما سے جُڑے رہنا جہاں معاشرے کے عام ذہنوں کے لیے سُود مند ہے وہیں ان سے جڑے رہنا آپکی سمت متعین کر کے آپکی بھی گُمراہی کے امکانات کم کر دے گا۔عُلما کے برعکس اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہدایت کے لیے صرف قرآن کافی ہے، حدیث کی ضرورت ہی نہیں تو سمجھتے رہیے، ایسا سمجھنے سے آپ کے دین کو کوئی فرق نہیں پڑتا، عین ممکن ہے آپکو واقعی حدیث کی ضرورت نہ پڑتی ہو، کیونکہ یہ سچ ہے کہ ایک اسّی سالہ مسلمان جو ساری زندگی قُرآن کے محکمات پر کاربند رہا مرتے وقت تب بھی باکمال مومن ہو سکتا ہے اگر اُس نے قُرآن کے علاوہ کبھی ایک بھی حدیثِ نبویؐ نہ پڑھی ہو، لیکن یہ بہرحال اُسکی ذاتی کپیسیٹی کا معاملہ تھا اور معاشرے کا ہر فرد یکساں کپیسیٹی نہیں رکھتا۔ اب اگر وہ اسّی سالہ شخص یا اُسکے پیروکار یہ فرض کریں کہ چُونکہ اُنہیں اپنے معاملات میں حدیث کی ضرورت نہ پڑی تو کسی کو بھی ان سے مدد نہیں لینی پڑے گی تو وہ یقیناً غلطی پر ہیں کیونکہ محکم اور قرآن سے مطابقت رکھتی متّفِق علیہ احادیث مختصر ایپلائیڈ قرآن ہیں۔

جیسے اُوپر مثال میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس بدّو کو مختصر سا ایپلائیڈ اسلام ایسی حالت میں سمجھا دیا کہ وہ سواری سے نیچے بھی نہیں اترا اور وہ اسلام قبول کرنے کے بعد مختصر سا اسلام ساتھ لے کر چلتا بنا، معاشرے میں ویسے بدّو اکثریت میں ہونگے کیونکہ سبھی عقل والے نہیں ہوتے، سبھی ایک سی صلاحیتوں والے بھی نہیں ہوتے، بہت سے لوگوں کو عُلما احادیث کے ذریعے ویسے ہی مختصر سا اسلام سمجھا دیتے ہیں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کو سمجھایا۔آپ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ جیسے اس اسّی سالہ شخص نے کبھی ایک حدیث بھی نہیں پڑھی ویسے ہی کروڑوں مسلمان ایسے بھی ہونگے جنہوں نے کبھی قُرآن ہی نہیں پڑھا ہو گا نہ وہ پڑھیں گے، ایسے میں علما کی صحبت اور احادیث اُنہیں مختصراً قُرآن ہی کے محکمات سکھائیں گی کیونکہ احادیث ایپلائیڈ قرآن ہیں-

جیسے آپ ایم اے کرتے ہیں تو لمبی لمبی تھیوریز پڑھتے ہیں، لیکن جب آپ پوسٹ گریجوئیٹ ڈپلوما کرتے ہیں تو تھیوریز پڑھے بغیر ہی اُنہی تھیوریز کی مختصر ایپلائیڈ ایپلیکیشن پڑھتے ہیں ایسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتیں ایپلائیڈ اسلام ہیں اور قُرآن تھیوریز کا مجموعہ۔آپ عقل والے ہیں تو قرآن پڑھیے اور دوسروں کو سمجھائیے لیکن اپنا کام کرتے جائیے لوگوں کو احادیث اور عُلما سے کیوں ہٹاتے ہیں۔ سُورہ احزاب کی تیس سے پینتیس کے درمیان آیات پر غور کریں تو علم ہو گا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتوں کا ذکر دین کا حصہ ہے۔ یہ طے ہے کہ احادیث ان حکمتوں کی تفاصیل بتاتی ہیں۔آپ ضرور اس بات پر اصرار کیجیے کہ حدیث لیتے وقت راوی کی بجائے قُرآن کو ترازو بنانا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کچھ خلافِ قرآن نہیں کہا لیکن احادیث کی ضرورت سے انکار کی شدّت پھر شیخ محمد پیدا کرتی ہے جو بالآخر خاتم کے لفظ میں الجھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے سے ہی انکار کر بیٹھیں گے، یہی شدّت اس طرف بھی لے جائے گی کہ آپ پہلے تمام انبیاؑ کی سُنّت ایک سی بتا کر محمدؐ کی سُنّت کی انفرادیت کو ماننے سے پہلو تہی برتیں گے پھر دین کو فقط انفرادی معاملہ قرار دیں گے پھر اس میں سے سیاست اور معیشت نکالیں گے جس سے کیپیٹلزّم سُود سمیت خود ہی حلال ہو جائے گا۔روائتی دین دار طبقے سے علمی اختلافات ہونے کے باوجود جُڑے رہنا اچھا ہے۔ وہ آپکو پسند نہ بھی کریں اُن سے جُڑے رہنے پر اصرار کریں۔ یہ اُنکے لیے بھی اچھا ہے آپکے لیے بھی۔ اقبال نے یہی تو کیا۔ آج ہر عالم اُنکا ذکر کرتا ہے۔