’’معذور‘‘ اولاد کا جشن

مصنف : خطیب احمد

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اکتوبر 2021

ڈس ابیلیٹی سیلی بریشن (Disability Celebration)

2 مئی 2019 کی صبح میں اور میری دادی عمرہ کے بعد مکہ سے جدہ ائیرپورٹ کی طرف جانے والی بس میں ابھی سوار ہی ہوئے تھے کہ فیس بک میسنجر پر مجھے ایک کال آئی۔ فری ہی تھا تو کال اٹینڈ کر لی۔

آپ سر خطیب احمد بات کر رہے ہیں؟ کال پر موجود خاتون نے سوال کیا۔ میں نے کہا جی کر رہا ہوں بات۔ سر میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں نے پوچھا آپ کون ہیں کس سلسلہ میں ملنا چاہتی ہیں؟ انہوں نے بتایا میرا نام الماس ہے۔ میں لاہور عسکری 11 سے ہوں۔ ایک فاریکس ٹریڈنگ کمپنی میں کنسلٹنٹ ہوں۔ اور مجھے ڈاکٹر نے تین دن پہلے بتایا ہے میرا ہونے والا بچہ ڈاؤن سنڈروم ہے۔ یہ ہماری پہلی اولاد ہے۔ شادی کے تین سال بعد یہ خوشی دیکھی ہے۔ میرا حمل ابھی تیرہویں ہفتے میں ہے۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ میں فوراً کیا کروں؟ فیس بک پر آپ کے کافی مضمون ان بچوں کے متعلق پڑھے ہیں۔

میں نے کہا میڈم اس خوشی کو سب سے پہلے تو سیلی بریٹ کریں۔ یہ سپیشل بچے کا پہلا حق ہے جو سب والدین کر سکتے ہیں۔

میں مکہ سے آج پاکستان آرہا ہوں۔ آکر آپ سے ملوں گا ان شاءاللہ۔ وہ بولی سر آپ پاک جگہ پر ہیں دعا کیجئے گا میرا بچہ ٹھیک ہو جائے۔ میڈم آپ کا بچہ تو ٹھیک ہے۔ اللہ اسے عافیت والی زندگی دے۔ سر ڈاؤن سنڈروم بچہ ٹھیک ہوتا ہے؟ میں نے کہا بالکل ٹھیک ہوتا ہے تو پھر ڈاکٹر نے کیوں کہا ہے کہ یہ بات ابھی کوشش کرنا کسی سے نہ کرو۔ اور تم اپنے خاوند سے مشورہ کرکے چاہو تو ہم حمل ضائع کر سکتے ہیں۔ تمہارا بچہ ذہنی طور پر معذور ہوگا۔ جسے پالنا اور سنبھالنا آسان نہ ہوگا۔ اس نے کہا ہے ڈاؤن سنڈروم پر میں خود نیٹ سے پڑھوں۔میں کوئی جواب دینے ہی لگا تھا کہ کال کٹ گئی۔ میرا انٹرنیٹ ڈیٹا ختم ہو چکا تھا۔

پاکستان آئے ہوئے کوئی ایک ہفتہ گزرا تھا کہ الماس کا انباکس میسج آیا۔ سر اپنا نمبر دیں میں کال کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے نمبر دے دیا۔ انہوں نے پوچھا کہ کب کال کروں؟ میں نے کہا رات 9 بجے کر لیں۔ ٹھیک نو بجے ان کی کال آگئی۔

سر مجھے آپ سے جلد از جلد ملنا ہے۔ کہاں مل سکتے ہیں؟ میں نے کہا نوشہرہ ورکاں میرے سکول آجائیں یا گاؤں آجائیں۔ یا ایک ہفتہ انتظار کر لیں مجھےلاہور آنا ہے۔ میں ابھی آجاؤں آپ جہاں بھی ہیں اجازت دیں تو؟ میرے پاس اپنی گاڑی ہے میری ایک کولیگ میرے ساتھ آجائے گی۔

میں نے کہا آجائیں۔ لاہور سے 120 کلومیٹر دور ہوں میں۔ اپنے گاؤں والے گھر ہوں۔ مگر ایسی بھی ایمرجنسی کیا ہے کچھ بتائیں تو سہی۔ سر میں نے کل اپنے خاوند کو بتایا ہے اور اس نے اپنی امی کو تو سارے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ میری چاروں نندیں روتی پیٹتی آج ہمارے گھر آئیں۔ مجھے گلے لگا کر روتی رہی ہیں جیسے کوئی فوتگی ہوگئی ہو۔ سسرال کا سارا خاندان کومے میں ہے۔ سب نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ کہتے ہیں اکلوتے بیٹے کا پہلا ہی بچہ ہے وہ بھی سائیں یا پاگل ہوگا۔ اللّٰہ نے کس گناہ کی سزا دی ہے۔ میری ساس کہہ رہی ہیں میں حمل ضائع کر دوں۔ میں تو ان کی باتیں سن سن کر پاگل ہو رہی ہوں۔ مجھے آپ سے ملنا ہے پلیز۔ میں مر جاؤں گی میری جان سولی پر لٹکی ہوئی ہے آج صبح سے۔ کس کرب میں ہوں آپ شاید جان پائیں۔ ڈاکٹروں سے نہیں مجھے مشورہ کرنا کوئی بھی۔

میں نے کہا آپ ابھی نہ آئیں رات ہوچکی ہے۔ اتنی پریشان نہ ہوں۔ کل میرے سکول آجائیں صبح ہی بے شک۔ میں نے کہا خاوند کو بھی ساتھ لائیں سسرال سے ایسے نہیں آنا جیسے آپ کہہ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا جی سر ٹھیک ہے۔ رات کاٹ لیتی ہوں۔

میں نے اگلے دن دو بجے سکول سے چھٹی پر کال کی جو اٹینڈ نہ ہوئی۔ اسی شام کو کال آئی تو الماس رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا آپ آئی نہیں؟ تو انہوں نے بتایا سر آچکی ہوں جہاں آنا تھا۔ کل رات ہی میری طلاق ہوگئی ہے۔ میرا شوہر بھی اپنی بہنوں اور امی کے کہنے پر حمل ضائع کرنے پر بضد تھا۔ میں نے کہا کہ نہیں ہم بچہ پیدا کریں گے۔ میں دل کی مریضہ ہوں بائی پاس ہوا ہے۔ اسکے بعد کوئی اور بچہ پیدا کر سکوں کہ نہیں اسے نہیں قتل کر سکتی۔ تو انہوں نے کہا میں کرنل حامد کا اکلوتا بیٹا ہوں۔۔120 ایکڑ زمین ہے‘اتنی جائیداد۔ ہم ایک پاگل بچے کو لے کر بیٹھے رہیں گے؟ انہوں نے ایسی چھوٹی، گھٹیا اور غیر انسانی باتیں کی ہیں کہ میں رات بے ہوش ہوگئی۔ وہ لوگ کھل کر سامنے آگئے کہ کتنے چھوٹے ظرف کے دنیا دار کمینے ہیں۔

ہوش آیا تو ساس نے کہا سب ڈرامے کر رہی ہے۔ کہاں بیٹھی تھی منحوس ہمارے لیے۔ آتے ہی دل کا بائی پاس ہوگیا اور اب معذور پاگل بچہ پیدا کرنے کی ضد کر رہی ہے۔ کون سا وقت تھا میں نے اسے پسند کر لیا۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا مجھے میری امی کی طرف چھوڑ آئیں ابھی۔ انہوں نے کہا دفعہ ہوجاؤ خود ہی۔ اگر بچہ پیدا ہی کرنا ہے تو تمہیں میری طرف سے طلاق ہے۔ حمل ختم کر دو تو واپس آجانا جیسے جا رہی ہو۔ میری ساس نے کہا کہ بچہ اپنے والدین کو دے آنا ہمیں یہ بچہ نہیں چاہیے۔ ہمیں ٹھیک بچہ چاہیے وہ بھی بیٹا۔ میں صبح وہاں سے آگئی۔ اب امی کے گھر ہوں۔ والدین کو کچھ نہیں ابھی تک بتایا۔ بس اتنا بتایا ہے کہ ناراض ہوکر آئی ہوں۔ ابو امی ہارٹ پیشنٹ ہیں۔ ریگولر دوائیاں کھاتے ہیں۔ صدمہ سہہ نہیں سکیں گے۔ ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ میرا بچہ ڈاؤن سنڈروم ہے۔

ہم چار بہنیں ہیں۔ میں ہی بیاہی ہوئی تھی۔ باقیوں کے رشتے نہیں مل رہے۔ امی ابو دن رات اسی فکر میں رہتے ہیں۔ میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔ آپ کو برا نہ لگے تو سر کی جگہ خطیب بھائی کہہ لوں؟ میرا تو کلیجہ ہی جیسے پھٹ گیا ہو۔ زبان گنگ ہوگئی۔ اور آنکھوں سے پانی کا ایک سیلاب امڈ آیا جو رکنے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ وہ مجھے خطیب بھائی کہہ کر بلا رہی تھی اور مجھ سے کوئی بات ہی نہیں ہو پا رہی تھی۔ کئی منٹ بعد میں نے اسے اتنا کہا اپنی لوکیشن بھیجو میں ابھی آرہا ہوں۔

میں نے بائیک پکڑی اور نوشہرہ ورکاں اپنے فلیٹ سے لاہور دو گھنٹوں میں آگیا۔ سیدھا الماس کے گھر گیا۔ شاہ جمال میں گھر تھا  عشاء کی نماز ہوچکی تھی۔ الماس کے ابو مجھے یوں خوشی سے ملے جیسے میں ان کا کوئی رشتہ دار ہوں۔ الماس نے میرے بارے میں بتایا کہ میں سپیشل بچوں کا ٹیچر ہوں۔ وہ ائیر فورس سے چیف ٹیک ریٹائر تھے۔ کچھ دیر بیٹھ کر سونے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد الماس نے اپنی امی سے کہا کہ ہم ڈاکٹر کے پاس ضروری کام سے ان کے گھر جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خطیب بھائی کے جاننے والے ہیں۔ تھوڑا لیٹ واپس آئیں گے۔ آنٹی نے ایک نظر مجھے دیکھا اور دوسری الماس کو۔ کچھ نہ بولیں اور ہم میری بائیک پر مئی کی گرم رات کو دس بجے کے قریب گھر سے باہر آگئے۔ الماس نے بتایا کہ ان کے کئی میل دوست تھے۔ یونیورسٹی سے وہ گھر بھی آتے تھے۔ اور میں اپنے والدین کا بڑا بیٹا تھی۔ ہر کام کی ذمہ داری لینے والا۔ انہوں نے کبھی لڑکوں کے بارے بہت سوال نہیں کیے۔ میری شادی پر مجھ سے پوچھا کوئی دوست ہے؟ میں نے کہا کوئی بھی نہیں تو ارینج میرج ہوگئی۔

میں نے شاہ جمال تھانے کے پاس بائیک روکی اور پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ تو الماس نے کہا آپ کے بھانجے کا پہلا حق اسے دینے۔ میں نے کہا میری بھانجی ہوئی تو؟ الماس بولی نہیں سر بیٹا ہے آپ دیکھ لینا۔ میں نے کہا حق دینے کا کیا مطلب؟ تو وہ بولی بھائی آج میں اپنے بچے کی ڈس ایبلٹی کو سیلی بریٹ کرنا چاہتی ہوں۔ اس دنیا میں کوئی اور شخص ایسا نہیں جس کے ساتھ ملکر میں نارمل دنیا کی نظروں میں پاگل پن کر سکوں۔ آپ نے ہی مجھے ایسا کہا تھا نا؟ اب جہاں جانا ہے چلیں۔ 1 لاکھ روپیہ بجٹ ہے سیلی بریشن ایسی ہو جو ہمیشہ یاد رہے۔ میری تو اب یہی اولاد ہوگی۔ ڈاکٹر نے تو ابھی بھی کہا ہے کیوں ماں بنی ہو؟ پیدائش کے وقت تمہاری اپنی جان کو خطرہ ہوگا۔ مجھے عام لوگوں کی طرح رونا نہیں ہے۔ نہ مجھے کوئی ہمدردی چاہیے۔ نہ ترس کی ضرورت ہے۔ میں تو یہ بات اپنے گھر کسی کو نہیں بتانا چاہتی اگر سسرال والے نہ بتا دیں تو۔ مجھے بہادر بننا ہے۔ جو میں بن چکی ہوں۔ میری زندگی اب میری اولاد ہی ہے۔ ڈاؤن سنڈروم کیا ہے میں سب کچھ پڑھ چکی ہوں۔ اور میں اپنی مرضی سے خوشی سے اس بچے کو پیدا کرنے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ میرے خاوند کے پاس جتنی عقل تھی اس نے وہ کیا۔ میں اس سے بھی ناراض نہیں۔ اس کی مہربانی مجھے قید کرکے روز مرنے کے لیے نہیں رکھا بلکہ مجھے آزاد کرکے باقی عمر گزارنے میں آسانی دے دی۔ وہ میرے بچے کا باپ ہوگا۔ جیسا بھی ہے۔ میں اسے کبھی برا نہیں کہوں گی۔ نہ عدالتوں میں اس سے خرچے مانگوں گی۔ خدا کی عدالت میں وہ میرے سامنے ضرور جوابدہ ہوگا۔

میں نے کہا بائیک یہیں پارک کر دیتے ہیں کار پر چلے جاتے ہیں۔ تمہارا بائیک پر سفر کرنا ٹھیک نہیں۔ اس نے کہا میں اپنی عمر کے پچھلے بتیس سال یہ حسرت پالتی رہی کہ میرا کوئی بھائی ہو جس کے پیچھے بیٹھوں آج وہ دن آیا تو کار میں بیٹھ جاؤں؟ چلیں بھائی جان سٹارٹ کریں بائیک۔

ہم پیکجز مال آئے۔ فوڈ کورٹ میں ایک کارنر ڈیکوریشن کا آرڈر دیا۔ اتنی دیر میں بچے کے لیے کچھ شاپنگ کی۔ ہم دونوں نے نم آنکھوں سے ایک کیک کاٹا اور تالیاں بھی بجائیں۔ آنے والی روح کے لیے عافیت والی زندگی کی دعا بھی کی۔ الماس کی ضد پر ہم سینما بھی گئے۔

اس کے بعد بچے کی پیدائش پر میں دوبارہ گیا تھا۔ بہت پیارا ڈاؤن سنڈروم بیٹا تھا۔ آج الماس سے اس کے دفتر میں دوبارہ ملا ہوں۔ بچے کا ریحان نام ہے۔ جو ابھی دوسرے سال میں ہے۔ بیٹھنا شروع کر چکا ہے۔ باتیں نہیں کرتا وہ باتیں تین سے چار سال تک ان شاءاللہ کرے گا۔ کل اب ریحان سے بھی ملنا ہے۔ اور الماس کو بتانا ہے بچے کے ساتھ کیا کیا کام کرے۔

الماس کے خاوند نے چار ماہ پہلے دوسری شادی کر لی ہے۔ اور اسکا سامان جہیز انکے گھر طلاق کے کاغذات کے ساتھ خود ہی بھیج دیا ہے۔ الماس کے والدین اور بہنوں کو طلاق کا پتا تب ہی چل گیا تھا۔ الماس نے بتا دیا تھا۔ بچے کی ڈس ایبلٹی اس نے پیدائش تک ہمت کرکے چھپائے رکھی۔ اسکے سسرال سے کسی نے کبھی بھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔

الماس کی دو چھوٹی بہنوں کی ایک ہی گھر شادی طے ہوگئی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں بہت خوش ہے۔

الماس کا سپیشل بچوں کے والدین سے ایک سوال ہے۔ کہ آپ نے اپنے بچے کو مختلف قبول کس دن کیا تھا؟ کچھ ڈس ابیلیٹیز تو کبھی بھی ریورس یا ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔ رونے دھونے خود کو بچوں کی معذوری کا قصور وار یا گناہ گار سمجھنے کے ساتھ ان بچوں کو علاج کے نام پر والدین کیوں اذیت دیتے ہیں؟

 کیوں پیروں حکیموں عطائیوں کے جھوٹے ڈھکوسلوں کی وجہ سے سچ سے منہ موڑتے ہیں؟

آخر ان کو کیوں ٹھیک کرنا چاہتے ہیں؟ یہ بچے تو کسی اور دنیا سے آتے ہیں۔ جو ہم سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کی دنیا میں داخل ہونا ہوتا ہے ناں کہ ان کو ہم اپنی دنیا میں شامل کریں جو کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔ الماس کہتی ہیں کہ اس کے بیٹے نے ابھی تک زبان سے اسے ایک بار بھی ماں نہیں بولا۔ مگر جس دن اسکی کوکھ میں ریحان کی روح عالم ارواح سے اللّٰہ کے حکم پر پھونکی گئی تھی اسی دن میرے بیٹے نے میری روح کو گلے لگا کر کہا تھا کہ امی جب آپ نے مجھے قبول کر لیا تھا تو اللہ نے مجھے کہا تھا جاؤ اپنی ماں سے کہہ دو میں نے اس کے لیے تمہیں بخشش کا ذریعہ بنا کر بھیجا ہے۔ میری نیک بندی کو بتا دو یہ زندگی چند دن کی ہے۔ وہ میری رضا پر راضی ہوگئی میں اسے حشر کے دن ساری دنیا کے سامنے اتنا دونگا کہ وہ بھی مجھ سے راضی ہو جائے گی۔ بس میرے ساتھ کسی کو کبھی شریک نہ ٹھہرائے۔

وہ زندہ پانچ ماہ میری کوکھ میں سانس لیتا رہا پھر انسانوں کی اس بے رحم دنیا میں آگیا۔ ہم ماں بیٹا روز باتیں کرتے ہیں۔ جن میں کوئی الفاظ نہیں ہوتے مگر ہماری روحیں ایک دوسرے سے مخاطب ہوتی ہیں۔ الماس کہتی ہیں انہیں کوئی جلدی نہیں ریحان کب چلے گا کب اسے امی کہہ کر بلائے گا۔ وہ اسکی دنیا کے اصولوں کے مطابق آہستہ آہستہ ہی اسے بڑا ہوتا دیکھنے کی خواہش مند ہے۔

الماس ان سب سنگل ماؤں کو بھی ایک پیغام دیتی ہے۔ جو اپنے سپیشل بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ کہ یہ زندگی چند دن کی ہے۔ وہ اللّٰہ جو سب دیکھ رہا ہے نا؟ وہ اپنی عدالت میں ایک روز ضرور انصاف کرے گا۔ آپ اس رب سے لو لگا لیں اور تقدیر پر راضی ہو جائیں۔ اپنے بچوں کو کما کر کھلائیں۔ مذہب اسلام عورت کو رزق حلال کمانے سے بلکل بھی نہیں روکتا۔ وہ کہتی ہیں آپ کو ہمدردی و غم گساری کے کندھے تلاش نہیں کرنے۔ لوگوں کے سامنے حالات کے رونے نہیں رونے۔ بلکہ خود کو مضبوط و مالی طور پر مستحکم کرکے ایک مختلف و خوبصورت زندگی اپنے خدا کی رضا میں گزارنی ہے۔