الفت کے راستے پر ، قسط۔21

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : ستمبر 2021

منیٰ روانگی:

۸۔ذوالحج کو یوم الترویہ کہتے ہیں۔

اِس دِ ن ،حج کا اِرادہ رکھنے والاہر مسلم ، اِحرام باندھ کر منیٰ کے مقام پر پہنچتا ہے ۔ منیٰ حجاج کرام کا پہلا پڑاؤ ہے۔

آج کے دور کامنیٰ ،مکہ شریف سے قریباً چھ کلو میٹر مشرق میں ،اُونچے اُونچے پہاڑوں میں گھری ایک خیمہ بستی ہے۔یہ شہر خیام قریباً بیس مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔حج کے دنوں میں یہ شہر لاکھوںحجاج کرام کی میزبانی کرتا ہے اور نہایت آبادوشاد اور پر رونق ہوتا ہے اور سال کے باقی دنوں میںیہاں ویرانہ ہی ویرانہ ہوتا ہے ۔

 ہماری کمپنی والوں نے ،۸۔اگست ۲۰۱۹ء بمطابق ۷۔ذوالحج ۱۴۴۰ھ کو ہی ہوٹل کی لابی میں بورڈ پرنوٹس لگا کر اور بعد میں تربیتی اجماع میں، یہ بتا دیا تھا کہ آج رات کو ہی،گیارہ بجے ،بسیں آجائیں گی اور وہ ہمیں منیٰ چھوڑ آئیں گی ۔اُن کے اِس اعلان اور اِس انتظام و انصرام سے میرا دِل بجھ گیا تھا ،کیونکہ سنت یہ تھی کہ زائر۸ ۔ ذوالحجہ کی صبح کو نماز فجر پڑھ کر روانہ ہو اور ظہرکی نماز منیٰ میں جا کر پڑھے،جبکہ ہمیں وہ ۷۔ذوالحجہ کو ہی منیٰ لے جارہے تھے ۔ بہر حال آجکل مکہ شریف میں،حج کے موقع پر جو رش ہوتا ہے اور لاکھوں لوگوں نے بیک وقت منیٰ منتقل ہونا ہوتا ہے،اِس کے پیش نظر انتظامیہ کا یہ فیصلہ ہی لائق ترجیح ہے،اِس لیے قلبی انقباض کے باوجود،ہم اطمینان سے اِس پروگرام کے مطابق تیاری کر رہے تھے۔   

ہمارا دین آسانی کا دین ہے۔تنگی اور سختی کا دین نہیں ہے۔انتظامی قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا بھی لوازم شریعت میں سے ہے۔ انتظامیہ کی ہدایا ت کے مطابق ،منیٰ لے جانے کے لیے ہم نے اپنا سامان تیار کیا۔ضروری سامان ساتھ رکھا اور باقی سامان کمرے میں ہی رہنے دیا کیونکہ مناسک حج مکمل کرنے کے بعد ہم نے یہاں ،اِسی بلڈنگ میں ،اِسی کمرے میںواپس آنا تھا۔ہدایت یہ تھی کہ جتنا ہلکا وزن لے جاسکتے ہو ،اُتنا ہی ہلکا سامان تیار کرو۔۸۔اگست کا سارا دِن ہوٹل میں ہی رہے اور منیٰ جانے کی تیاریاں کرتے رہے۔

 ہمارا دِل خوشیوں سے بھرا تھا۔ہم ایک ایسے منظر کا حصہ بننے والے تھے جو ہمارے ایسے عامیوں کی زندگیوں میں ایک آدھ بارہی نصیب ہوتا ہے۔صدیوں سے اللہ اور اُس کے رسول کو ماننے والے ، حج کے نام پر جن مناسک کو اختیار کر تے آرہے تھے، آج ہم بھی اُن لاکھوں خوش نصیبوں میں شامل ہونے جا رہے تھے ۔ منیٰ ،عرفات ،مزدلفہ اور پھر منیٰ ،رمی جمار،قربانی اورطواف زیارت وغیرہ ایسے نام اور اصطلاحیں تھیں جو ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آرہے تھے ،آج میرے پروردگار نے یہ موقع مہیا کیا تھا کہ ہم غریب وسادہ لوگ ،اِن الفاظ و معانی سے ہمکنار ہونے جا رہے تھے۔شعوری زندگی کے آغاز سے ہی جو خواب دیکھتے آرہے تھے آج اُس کی تعبیرکا دِن آگیا تھا۔ہمارا رواں رواں اپنے رب کا شکر گزار تھا اور اِس قافلہ حجاج میں شامل ہونے کو بے تاب تھا۔

ایک بار پھر کفن پہنا:

ہم سب اہل کمرہ نے ،عصر تک اپنے سامان کی پیکنگ کر لی۔ہماری پیکنگ کے ہدایت کار ،تو ظاہر ہے ،ہمارے تجربہ کار ساتھی ، حاجی محمد یونس صاحب ہی تھے۔مختصر سے بیگ میں ہم نے مقامات حج کا ضروری سامان رکھ لیا اور باقی سامان الگ سے پیک کرکے ،کمرے میں ایک طرف کو سنبھال کر رکھ دیا۔عصر کی نماز ،مسجد ابوبکر میں ادا کی اور تھوڑی سی سیروتفریح کی غرض سے،کدی کی سڑکوں پر ،آوارہ گردی اور آوارہ نظری،کے لیے نکل گیا۔کل ہوٹل کے شمال کی طرف پیدل کچھ دُور گیاتھا اور آج ہوٹل سے جنوب کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ہوٹل کے قریب شکیل بھائی بھی مل گئے۔کہنے لگے،’’ ہمارے شہر کے ایک صاحب ،سرکاری طور پر حج پر آئے ہوئے ہیں،اُس نے ابھی اپنی لوکیشن بھیجی ہے،اِدھر قریب ہی کی لگتی ہے، آؤ ،اُن کو ملنے چلتے ہیں۔‘‘میرا رُخ پہلے ہی اُدھر کوتھا،ہم اکٹھے چل پڑے۔کچھ دُور جا کر ، ایک بڑی شاہراہ پر آگئے ،یہ رنگ روڈ ٹائپ لگتی تھی۔یہاں کافی رونق تھی ۔ٹریفک بہت زیادہ تھا۔شلوار قمیص میں ملبوس ، ہمارے پاکستانی بھائی ،بڑے خطرناک ، طریقے سے سڑک کو پار کرنے میں مصروف تھے ۔ سڑک کے دونوں اطراف میں شاندار پلازے ،شاپنگ سینٹرز اور کثیر المنزلہ رہائشی عمارتیں تھیں۔اُن عمارتوں میں سے ایک شاندار عمارت کے باہر پاکستان کا نام لکھا ہوا تھا اور اُس کے اندر سے وہ صاحب بھی برآمد ہوگئے۔ہم سب بڑی خوشی اور گرم جوشی سے ایک دوسرے کو ملے اور سڑک کے ساتھ ساتھ کچھ دیر پیدل سفر جاری رکھا۔ایک کینٹین میں رک کر چائے اور پکوڑوں سے لذت کام و دہن کیا۔کدائی کے علاقے کی اِس سائیڈ کی سیر بھی فرحت انگیز تھی۔ہم محبوب ﷺ کے دیس میں تھے۔جی بھر کر اِس کو دیکھنا چاہتے تھے اور دیکھ رہے تھے ۔ اِس دیس کا ایک ایک پتھر اور ایک ایک ذرہ آنکھوں کا سرمہ بنانا چاہتے تھے۔ ایک ایک پہاڑ اور ایک ایک وادی گھومنا چاہتے تھے،اور مقدور بھر ایسا کر بھی رہے تھے لیکن پیاس تھی کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔

ہمیں منیٰ منتقل کرنے کے لیے،ساڑھے گیارہ بجے کا وقت مقرر ہوا تھا۔

ہم سارے اہل کمرہ ،گیارہ بجے رات ہی ،باری باری غسل کرکے،احرام پہن کر،نفل ادا کرکے،تلبیہ پڑھ کر ،حج کی نیت کرکے، مکمل طورپرتیار ہوگئے۔ہمیں بسوں کے لیٹ ہوجانے کی رِیت کا ،پہلے سے اندازہ تو تھالیکن دیئے ہوئے وقت پر تیاری ، بہرحال ضروری تھی سو وہ ہم نے کر لی۔

ساڑھے گیارہ بجے ،پونے بارہ اور پھر بارہ بھی بج گئے۔انتظار کی لذت سے آشکار ہوتے رہے۔آخر سوا بارہ بجے بسیں آ گئیں اور اپنی اپنی سواریاں لے کر،ساڑھے بارہ بجے رات ،کدائی بلڈنگ سے ،سوئے منیٰ روانہ ہوئیں۔ تلبیہ کی دھوم میں ہمارا یہ سفر شروع ہوا۔ کفن پوش سواریوں سے بھری بسیں خراماں خراماںچل پڑیں۔ہم نے اپنے ذہن میں ،زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کا ،ٹارگٹ رکھا ہوا تھا کہ اِس میں ہم منیٰ پہنچ جائیں گے ۔ بس کے اندر ماحول اچھا تھا۔پورے ذوق شوق سے ،ہم سب لوگ تلبیہ کا ورد کر رہے تھے۔دِل میں جوش اور جذبہ اُمڈ رہا تھا۔ہم کہاں جا رہے تھے۔ہمارے مقدر کی سکندری دیکھیئے ،کہ ہم منیٰ اور عرفات جا رہے تھے۔صدیوں سے جاری ،فریضہ حج کے مناسک میں ہم شریک ہونے جارہے تھے بلکہ شریک ہو چکے تھے۔سب اہل بس کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔سب کے لبوں پر تلبیہ تھا۔مکہ شہر کی سڑکیں سٹریٹ لائٹس سے جگمگا رہی تھیں۔شاہراہیں اور چھوٹی موٹی سڑکیں گاڑیوں سے بھری پڑی تھیں ، ایک عالم تھا کہ منیٰ کو اُمڈ آیا تھا۔شاہراہوں پر موجود یہ رش ،ہمارے سفر کو طویل بنا رہا تھا۔نہ جانے کون کون سی گلیاں ٹاپ ڈالیں ،نہ جانے کون کون سی وادی سے ہم گزرے ، منزل تھی کہ ٹریفک کے اژدہام میں کہیں کھو گئی تھی۔رات کے تین بج چکے تھے ، اب مسافروں کی آواز بھی دھیمی پڑ گئی تھی۔کچھ تو اب نیند کی وادیوں میں پہنچ چکے اور جو جاگ رہے ہیں اُن کے چہروں سے بھی وہ پہلے والی چمک دمک نہیں رہی تھی۔

نہ جانے خاکسار بھی کب سویا ،اور کب جاگا،جب بھی آنکھ کھلتی ،مکہ مال کے لشکارے مارتے بڑے بڑے سائن بورڈ نظر آتے۔ ہم کہاں پہنچے تھے ،کوئی خبر نہیں،یہ اندازہ ہوگیا کہ مکہ مال کے آس پاس رکے ،ہمیں گھنٹہ ہو گیا ہے ۔ لگتا تھاکہ ہم رکے ہوئے ہیں،ہاں ایسا ہی تھا،سونے جاگنے کی اِس کیفیت میں ،معلوم ہوا کہ ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے اور اِس کی مدد کو آنے والی وین بھی کہیں دُور رش میں پھنسی ہوئی ہے۔مکہ مال کے ارد گرد اچھا ماحول تھا۔سبزے سے بھرے لان ،لان کے کنارے لگے پودے اور درخت اور چاروں طرف لگی لائٹیں،ماحول کوبڑا خواب نا ک بنا رہی تھیں۔ہم پھر سو گئے اورنہ جانے کب گاڑی ٹھیک ہوئی اور نہ جانے کب ہم روانہ ہوئے،میری آنکھ اُ س وقت کھلی جب ہماری گاڑی منیٰ میں ہمارے خیموں کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ یہاں سے آگے ،شٹل سروس کے ذریعے ہمیں ، پہاڑی کے اُوپر جانا تھا ،سو خدا وند تعالی کی تکبیر بلند کرتے ،بالآخر ہم سوا چار بجے ،منیٰ میں مخصوص اپنے خیمے میں پہنچ گئے۔ہم منیٰ میں آ چکے تھے۔حج کے پہلے پڑاؤ پر آ چکے تھے۔یہ کفن پوش ،سارے کے سارے تھکاوٹ سے نڈھال تھے ۔ لیکن سب اللہ کے حضور جھکنے کو تیا ر تھے۔

سب کی متفقہ رائے تھی کہ وضو کر کے ،پہلے نماز فجر ادا کر لی جائے اوراُس کے بعد ہی بستر نیند سے ہمکنار ہوا جائے اور پھر ایساہی ہوا،باتھ رومز میں جا کر وضو بنایا ،کسی ساتھی نے اذان فجر کی صدا بلند کی اور اپنے ہی خیمے میں نماز فجر با جماعت ادا کر کے ہم سب،تھکاوٹ سے چور سو گئے ۔

۸ ۔ذوالحج کی تاریخ کا آغاز ہو چکا تھا۔

 یہ دِن اصطلاح میں  یوم الترویہکہلاتا ہے۔پوری دنیا سے آنے والے ہر زائر کوآج ہی کے دِن میںمنیٰ میں پہنچ جانا ہوگا تاکہ کل وہ میدان عرفات میں حاضر ہو سکے۔یہ شہر خیام میدان عرفات کا بیس کیمپ ہے اور ہم اِس بیس کیمپ میں پہنچ چکے تھے۔  

شہر خیام میں :

یہ خیمہ بستی ہے جہاں پر اللہ کی رحمت برستی ہے۔بچپن سے ہی منیٰ کا ذکر سنتے پڑھتے آرہے تھے ،آج ہم منیٰ شریف میں تھے۔یہ محض میرے اللہ کا فضل و کرم تھا کہ اُس نے اِس خاکسار کو یہ قیمتی وقت اور موقع عطا فرمایا ۔اُس کریم مالک کی اِس عنایت پر بندہ اُس کے حضور جھکا جاتا تھا۔

خیمہ اہل عرب کی زندگیوں کا ایک اہم ساتھی ہے۔اب تو جدید دنیا ہے،دولت کی ریل پیل ہے ۔یہاں سعودی عرب میں،ہر طرف سیال سونے کی لائی ہوئی بہار کے نظارے ہیں۔ ساٹھ ستر سال پیچھے جائیں تو ، جب ابھی سیال سونے کی دریافت نہ ہوئی تھی ،یہاں زندگی اپنی سادہ ترین شکل میں تھی۔ایک عام عرب کی زندگی، ریگستان ، اونٹ اور خیمہ کے گرد گھومتی تھی۔لیکن اب یہ قوم ،سیال سونے کی بدولت ،دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو شرماتی ہے۔ ریگستان،اگرچہ گلستانوں میں تو نہیں بدلے لیکن خیمے آسمان سے باتیں کرتی بلند و بالا عمارتوں میں ضرورتبدیل ہو گئے ہیں اور اُونٹ کی سواری،اب مرسڈیزکی سواری میںبدل چکی اور زندگی اپنی سادگی کو چھوڑ کر جدیدیت کے تکلفات کا رنگ اختیا کر چکی ہے لیکن عرب اپنی روایات کو نہیں بھولے۔سنتے ہیں کہ عرب،اختتام ہفتہ کو ، اب بھی صحرا‘ا و ریگستان میں نکل جاتے ہیں ، وہاں خیمے لگاتے ہیں اور اُن میں قیام کرکے ہلا گلا کرتے ہیں اور اپنی روایات کو زندہ رکھتے ہیں۔اچھی بات ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو،ویسے خیمہ سے ،اِن لوگوں کی محبت اور وابستگی ،یہاں ہم سعودیہ میں جگہ جگہ ،آرکیٹیکٹس کے ڈیزائن کردہ عمارتوں میں دیکھ سکتے ہیں، اپنی اِن عمارتوں کو خیمہ کی شکل میں ڈیزائن کرتے اور لوہے اور سنگ و خشت سے تعمیر کرتے ہیں۔پہلی بار جب جدہ ایئر پورٹ پر اُترے تھے تو یہ دیو ہیکل خیمے وہاں دیکھے تھے۔    

سنگ و خشت اور اسٹیل و فائبر سے بنائے گئے اِن جدید خیموں کی بہترین مثال ،منیٰ کی یہ خیمہ بستی ہے جہاں ہم اِس وقت قیام پذیر تھے۔اِس شہر خیام کے جس محلے میں ہم ٹھیرائے گئے تھے یہ ایک پہاڑی کے اُوپر بنا ہو ا ہے۔ اِس کی چھوٹی چاردیواری سے لگ کر جب اِس شہر دِل نواز کا نظارہ کیا تو نیچے سفید خیموں کاایک جہاں آباد دیکھا۔ زندگی میں اب تک جو چند روح افزا نظارے دیکھے ہیں ،یہ نظارہ اُن سب میں ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔

 بتایا گیا کہ ،۲۰ مربع کلومیٹر پر پھیلے اِس شہر خیام میں،کم و بیش ،ایک لاکھ مستقل خیمے ایستادہ کیے گئے ہیں کہ جو اپنے اندرقریباً ۳۰  لاکھ بندوں کو رہائش مہیا کر سکتے ہیں ۔ یہ سارے خیمے ایئر کنڈیشنڈ ہیں یا نہیں ،اِس کا تو مجھے علم نہیں ،البتہ جس خیمے میں ہم رہائش پذیر تھے وہ ایئر کنڈیشنڈ تھا۔ایئر کنڈیشنر بھی لگے ہوئے تھے اور ٹھنڈے ایئر بلوورز بھی لگے تھے۔باہر جہاں شدت کی گرمی ہوتی ،وہاں خیمے اندر موسم ٹھندا اور فرحت بخش ہوتا،رات کوکمبل لے کر سونا پڑتا۔ سونے کے لیے ہمیں ڈیڑھ فٹ ضرب چھ فٹ کے فوم کے فولڈنگ گدے دیئے گئے تھے جو ساتھ ساتھ جڑے تھے جواِس خاکسار کے قدو قامت کے اعتبار سے تنگ تھے ۔اِن گدوں کی چار لائینیں بنائی گئی تھیں اور درمیان میں تین فٹ کا راستہ تھا۔ہمارے گروپ کی معزز خواتین کے لیے الگ سے خیمہ تھا ۔اِسی خیمے کے اندر سونا ،کھانا کھانا اور نمازیں پڑھنا ہوتی تھیں۔نماز اور کھانے کے وقت گدے تہہ کر کے ،جگہ بنا لی جاتی۔یہ ایک ایسا ماحول تھا جس میں ہر زائر خود بخود ہی دوسرے کا خیال رکھنے والا اور تعاون کرنے والا اور ایک دوسرے کے کام آنے والا تھا۔خیموں کے درمیان راستے ،چوراہے اور مناسب گلیاں رکھی گئی تھیں۔الگ سے عارضی باتھ رومز ،غسل خانے اوروضو خانے بھی بنائے گئے تھے۔یہ اتنی تعداد میں بنائے گئے تھے کہ عموماً رش کے باوجود ،زیادہ دیر زائر کے صبر کا امتحان نہیں ہوتا تھا۔تین وقت کھانا ملتا تھا جو کہ ڈبوں میں بند شکل میں ہوتا ، تاکہ زیادہ کھلار کھنا نہ پڑے۔کھانے کی کوالٹی پر بحث ہو سکتی ہے اور کمپنی انتظامیہ اور زائرین کے درمیان ،یہ بحث اُٹھی بھی اوربڑی شدت سے اُٹھی تھی۔

 منیٰ کے اِس خیمے میں ہمارا پہلا دِن یعنی  الیوم الترویہ  بہت عمدہ گزر گیا۔خیمے کے اندر ہی ساری نمازیں با جماعت ادا ہوئیں گروپ کے اندر ہی امام و مؤذن موجود تھے۔تھوڑا بہت وعظ و نصیحت کا پروگرام بھی چل جاتا ۔ ہر خیمے والے لوگ اپنے اپنے سسٹم کے تحت نمازیں ادا کر رہے تھے۔ہماری یہ نمازیں قصر نمازیں تھیں۔ہم سب احرام میں تھے اور ایک ہی سفر کے راہی اور ایک منزل کے مسافر۔لبوں پر تلبیہ کا وِرد چلتا رہتا۔نماز عشا کے بعد،کمپنی کی طرف سے ایک اجتماع کا انعقاد ہواجس میں طواف گروپ(جس کے تحت ہمارا یہ حج کا سلسلہ جاری تھا) کے ڈائرکٹر محترمی امتیاز صاحب نے ایک دِل افروز اورروٖح افزا بیان فرمایا ،جس میں کل آنے والے’’ یوم عرفہ‘‘ کے فضائل اور اُس سنہری دِن کو گزارنے کے سنہری اصول بیان فرمائے ۔ اُن کے اِس بیان سے ہمارے جذبے جوان ہوگئے۔میدان عرفات ہماری آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔زندگی کا قیمتی ترین لمحہ آیا چاہتا تھا۔اِس کے ساتھ ساتھ ،محترم امتیاز صاحب نے کمپنی کی طرف سے اگلے لائحہ عمل کا بھی اعلان فرمایا اِس پروگرام کے مطابق ہمیں آج رات ہی کسی وقت ،بسوں کے ذریعے عرفات منتقل کر دیا جائے گااِس کے لیے ہمیں دس بجے رات تک مکمل تیار ہونا تھا۔ایک بار پھر ذہن پر بوجھ آپڑا۔منیٰ سے عرفات روانگی بھی،رش کی مجبوری کے باعث، خلاف ِسنت ہونے جارہی تھی۔ساری زندگی یہ مسئلہ یاد کرتے رہے کہ ۹۔ذوالحج کی صبح ، نماز فجر ادا کر کے،سیدی خیر الانام  ﷺ  میدان عرفات کو روانہ ہوئے تھے اوراِس کی پیروی میں ساری امت یہی کرتی آرہی تھی لیکن ،آج جب ہماری باری آئی تو کمپنی ہمیں رات ہی رات میں عرفات منتقل کرنے کا پروگرام دے رہی تھی تو خاکسار کے لیے یہ چیز پریشانی کا باعث تھی ۔ بہرحال اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دے لی کہ حکومتی اور انتظامی قواعد و ضوابط کی پابندی لازم ہے۔ یہ بھی ہمارے دین کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ تلبیہ کی گونج میں ،یہ اجتماع ختم ہوا۔ہم سب احرام میں تھے۔تلبیہ دہرا رہے تھے اور اللہ کریم کا ذکر جاری تھا۔

 امتیاز صاحب نے ہمیں عرفات تک جانے کی ممکنہ مشکلات و تکالیف سے بھی آگاہ کر دیا گیا تھا۔اب ہم مکمل طور پر تیار تھے۔ اپنے آپ کو آنے والے،ہرطرح کے خوشگوار ونا خوشگوار لمحات کے لیے تیار کر چکے تھے۔

یوم العرفہ

حج کا رکن اعظم  9 ذوالحج بمطابق 10     

عرفات کے لیے روانگی:

ہم سب اہل غرفہ پرُ جوش تھے۔ہمارے چار کے ٹولے کے رہبر حاجی محمد یونس صاحب تھے وہ ہمیں دس بجے رات ہی ، باقی اہل خیمہ سے پہلے ہی،اپنے خیمے سے باہر نکال لائے۔ہمارا خیمہ پہاڑی کے اُوپر تھا،جہاں تک لانے اور لے جانے کے لیے شٹل سروس مہیا کی گئی تھی۔ہم اُس کے اسٹاپ پر آئے تو دیکھا کہ وہاں کافی رش ہے اور کوسٹر بھی ابھی نہیں آئی تھی ،تو حاجی صاحب نے کہا چلو پیدل ہی نیچے اُترتے ہیں۔ہم تلبیہ پڑھتے نیچے کی طرف پیدل چل پڑے اور بھی کئی لوگ ہمارے ساتھ تھے۔یہ ایک الگ منظر تھا ،ایک خوبصورت  سماں تھا۔اگست کی رات تھی ،گرم تو ضرور تھی لیکن نا خوش گوار نہ تھی۔قریباً ایک ڈیڑھ کلو میٹر کی اُترائی تھی اور نیچے ہی اُن بسوں یا کوسٹروں نے آنا تھا جو ہمیں میدان عرفات لے جانے کے لیے ہماری کمپنی نے ہائر کی تھیں۔نیچے تک تو ہم بڑے اطمینان اور سرور کے ساتھ آئے لیکن آگے ایک بے پناہ اژدہام اور افرا تفری ہمار ا انتظار کر رہی تھی۔ بسوں کا انتظار،زائرین کرام کااژدہام اور ہنگام،آنے والی بس کی طرف بھاگنا،دروازوں پر لٹکنا اور سوار ہونا،وغیرہ وغیرہ ،ایک ایسی ہڑبونگ تھی کہ جس کا بیان ہرگز من پسند نہیں۔بس ،اِس آپا دھاپی اور دھکم پیل میں ،کسی نہ کسی طرح   ،ہم تین ساتھی تو ایک کوسٹر میں سوار ہونے میں کامیاب ہو گئے البتہ محمد اکرم صاحب ،ہم سے بچھڑ گئے۔بہرحال ،اللہ اللہ کر کے ساڑھے گیارہ بجے رات ،میدان عرفات کی طرف ہمارا سفر شروع ہوا۔ ذرا اطمینان نصیب ہوا تو ہمیں تلبیہ یاد آیا۔بس میں  لبیک اللھم لبیک  کی صدائیں گونجنے لگیں۔ذکر و اذکار شروع ہوگئے۔توبہ و استغفار کی جانے لگی۔ اِس ذکر و اذکار سے زائرین کرام تھک گئے،آوازیں دھیمی پڑنی شروع ہوئیں،سوالات اُٹھنے لگے ،میدان عرفات کدھر چلا گیا،ہم کدھر جارہے ہیں ، سب اجنبی مسافر تھے ،کسی کو راستے کی کوئی خبر نہ تھی ،سفر کرتے کرتے ایک گھنٹہ ہوگیا،تاریخ بدل چکی تھی ،۹۔ذوالحجہ شروع ہوچکی تھی اور ہم، منیٰ اور عرفات کے درمیان بچھے ،شاہراؤں کے بنے جال سے نکل نہیں پارہے تھے۔تیس منٹ اور گزرے ،منزل کا پتہ نہیں ۔آخر دو گھنٹے بعد،کہیں جاکر ہمیں ،ہماری بس کے رہبر نے اعلان کیا ،نیچے تشریف لے آئیے،وہ سامنے آپ لوگوں کا خیمہ ہے۔عام دنوں میں منیٰ سے عرفات پندرہ منٹوں کا سفر ہے،آج ہجوم کے باعث دو گھنٹے لگ گئے۔بہرحال ،ہم ازحد خوش تھے کہ ہم میدان عرفات میں تھے۔وادی توبہ واستغفار میں تھے۔یہاں ہم اپنے اللہ کو منانے آئے تھے۔سارے گناہ بخشوانے آئے تھے۔ہم شاداں و فرحاں،لبوں پر تلبیہ سجائے اور حمد و شکر کے کلمات پڑھتے ،بس سے اُترے اور اپنے خیمہ کی طرف چلے۔ہمارا خیمہ تیار تھا،اے سی چل رہے تھے ۔عرفات کی گرمی کا سن سن کر پتہ پانی ہوتا تھا لیکن یہاں خیمے میں تو اگست نہیں دسمبر کا سماں تھا۔ کمپنی کے ورکرز نے ہمیں یہاں تہ شدہ بستر مہیا کیا،جسے کھولا تو یہ ایک زپ والا،بوری نما،نرم بستر تھاجسکی زپ کھول کر ہم اندر گھس گئے اور زپ بند کر کے قالینی فرش پر لیٹ گئے۔یہ بوری بیک وقت نیچے کا بچھونا بھی تھا اور اُوپر کی رضائی بھی،جس کے اندر گھستے ہی ہمیں نیند نے آلیا اورپھر اُس وقت جاگے جب خیمہ میں کوئی صاحب اذان فجر بلند کر رہے تھے۔ الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا و الیہ النشور پڑھتے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ٹائلٹس کا رُخ کیا۔ وہاں،ہر ٹائلٹ کے سامنے حاجتمندوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی تھیں ، ہم بھی اُن میں ایک لائن میں لگ گئے۔یہ ایک صبر آزما امتحان تھالیکن سب زائرین ،جبر کیے،اِس امتحان سے گزر رہے تھے ۔ لائنیں ،آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں ، آخر وقت انخلا ء آگیا،حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر اور وضو بنا کر جب اپنے خیمے میں بدقت تمام واپس پہنچے تو جماعت ہو چکی تھی۔کچھ دیر انتظار کیا تو ایک اور جماعت کھڑی ہوگئی،الحمد للہ ،کہ نماز فجر با جماعت ادا ہوگئی لیکن یہ شک باقی رہا کہ قبلہ رُخ تھے یا نہیں ۔

میدان عرفات میں:

نماز فجر کے بعد ،کچھ دیر مزیدآرام کیا اور پھر ’’ناشتہ ،حاجی صاحبان، ناشتہ ‘‘ کی زوردار آواز پر اُٹھ بیٹھا۔

۹۔ذوالحجہ کا سورج طلوع ہو چکا تھا ،ہر طرف روشنی پھیل چکی تھی۔ناشتے کے پیکٹس تقسیم ہورہے تھے۔اپنا اور اپنے ساتھیوں کا حصہ وصول کر کے،شکیل کے ذمے لگایا اور خود خیمے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی ہی دیر میں، وضوگاہ سے دانتوں کی صفائی اور وضو بناکرواپس آگیا۔ہم تین ساتھی تو اکٹھے تھے البتہ اکرم صاحب کے بارے میں فکر مندی تھی۔ابھی ہم ناشتے کے پیکٹس کھول ہی رہے تھے کہ اکرم صاحب بھی ہمارے خیمے میں، لبوں پر اپنی مخصوص دھیمی مسکراہٹ سجائے تشریف لے آئے۔ابھی ہم اُن کی گمشدگی پر اظہار افسوس بھی نہیں کر پائے تھے کہ،الحمد للہ وہ ’’بازیاب ‘‘ بھی ہوگئے۔ منیٰ کے خیمے والے دیگر ساتھی بھی،آہستہ آہستہ کر کے اپنی اپنی ’’بوریوں ‘‘ سے برآمد ہونے لگے۔سلام دعا ہونے لگی،منیٰ سے عرفات تک کے سفر کی روئیداد سنائی جانے لگی۔ غرض خیمے میں چہل پہل شروع ہوگئی ۔ زندگی لوٹ آئی۔

یوم عرفہ منانے کی تیاریاں کی جانے لگیں ، منصوبے بنائے جانے لگے۔ہم سب کی بس ایک ہی آرزو تھی کہ یہاں سے،ہم نے اپنے اللہ کو راضی کر کے جانا ہے۔ 

آج کا دِن ہی تووہ دِن تھا کہ جس میں حاضر ہونے کے لیے ،ہم سب نے اتنا طویل سفر کیا تھا۔یہ قیمتی ترین دِن ،وقوف عرفات کا دِن،اِسی جگہ ،آج کے دِن پہنچنے کے لیے ہی تو، ساری مشقت اُٹھائی تھی ، سارے اخراجات کیئے تھے،ہم اپنے اپنے دطن سے، ہم اپنے اپنے گھروالوں کو چھوڑ کر ، تمام تردنیا داری ترک کر کے، اِس ارادے سے چلے تھے کہ نو ذوالحج کو ہم نے عرفات میں ہونا ہے اور آج،بفضل تعالیٰ ہم یہاں پہنچ چکے تھے اور اِس احسان عظیم پر ،ہم اپنے اللہ کا شکر بجا لاتے تھے۔اُس کے حضور سر بسجدہ تھے،اُسی کی حمد وثنا بر لاتے تھے۔لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ

لہ الملک ولہ الحمد ، یحی و یمیت

و ھو علیٰ کل شی ء قدیر

آج ہم میدان عرفات میں تھے۔حج کا رکن اعظم بجا لانے کو تھے۔اِس عاجز اور درماندہ ،خطا کار وعاصی کی خوش بختی کا کیا ٹھکانا،کہ یہ خاکسار میدان عرفات میں ہے،احرام میں ہے اور حج کے ارادے سے حاضر ہوا ہے اور کریم آقا سے درخواست گزارہے کہ وہ اِس حاضری کو قبول فرمائے، اِس حج کو میرے لیے حج مبرور بنائے ،میرے تمام گناہ معاف فرمائے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے محفوظ فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔

کچھ دیر خیمے میں گزار کر ،خاکسار خیمہ سے باہر ،میدان عرفات کی زیارت کرنے اور اِس کی رونق کا مشاہدہ کرنے کے لیے ،نکل آیا۔باہر شدت کی دھوپ اور گرمی تھی ۔ آدھ پون گھنٹہ باہر پھرتا رہا۔لبوں پر تلبیہ ، ذہن اللہ کے انعام پر شاداں اور آنکھیں،کفن میں ملبوس زائرین کی زیارت سے شاد کام ہوتی رہیں۔بسیںدھڑا دھڑا زائرین کو منیٰ سے عرفات منتقل کر رہی ہیں ۔ چاروں طرف رونق ہی رونق اور روحانی کیف ہی کیف ہے۔ہر آدمی کے لب پر اللہ پاک کی کبریائی کے ترانے ہیں۔حمد اور شکرانے ہیں۔بھیڑ بھی ہے ،اژدہام بھی ہے،ہنگامہ بھی ہے ،لیکن عجیب بات ہے ،

کہ چاروں طرف ، سکون و اطمینان ،کیف و مستی اورامن و آشتی کا سایہ تنا محسوس ہوتا ہے۔ حجاج کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہیں،چمک رہے ہیں۔کیوں نہ ہو ،آج یہ میدان عرفات میں ہیں۔آج اُن کی زندگی بھر کی آرزو پوری ہونے کو ہے۔

کہیں ٹھنڈے پانی کی سبیلیں ہیں اور کہیں بریانی کے پیگٹ تقسیم ہورہے ہیں۔کہیں کچھ بانٹا جا رہا ہے اور کہیں کچھ۔ایک جگہ پر تو ،ایک ٹرالے سے چھتریاں بانٹی جا رہی تھیں اور واقعی ،میدان عرفات میں ،اِس غضب کی دھوپ میں ،یہ سب سے بڑا تحفہ ہو سکتا تھا۔چلتے چلتے بہت دُور نکل آیا تھا،خطرہ تھا کہ کہیں کیمپ کا راستہ ہی نہ کھو بیٹھوں ،ویسے بھی زوال قریب تھا اور خطبے کا وقت ہوا چاہتا تھا،اِس لیے میں واپس پلٹا۔

جس جگہ ہمارا کیمپ تھا ،یا جس طرف میں اب نکلا ہوا تھا ،وہاں سے مسجد نمرہ،جہاں سے حج خطبہ دیا جاتا ہے ،بہت دُور تھی اور ہمارے لیے کمپنی نے ،خیمہ کے اندر ہی خطبہ سننے اور نمازیں پڑھنے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔لہٰذا ایک بار پھر میدان عرفات اور زائرین کرام کی زیارت کرتا واپس ،اپنے خیمے میں آگیا۔ (جاری ہے)