الفت کے راستے پر ؍ قسط 20

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اگست 2021


عمرہ کبیر:


نماز مغرب اور عشا ہوٹل لابی میں جمع کر کے ادا کی اور پھر پہلی منزل پر نامزد کردہ اپنے کمرے میں پہنچے۔یہ بلڈنگ یا ہوٹل ، سابقہ دونوں ہوٹلوں کے مقابلہ میں ، سہولیات ،و آرائش و زیبائش کے اعتبار سے ،کہیں فروتر تھا،لیکن ہم یہاں عمارتوں اور سہولیات کا مقابلہ کرنے نہیں آئے تھے بلکہ اللہ کریم کی طرف سے عائد ایک فریضہ ، فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے یہاں حاضر ہوئے تھے اور مختلف مراحل طے کرتے ہوئے ،اُس منزل کی طرف بڑھ رہے تھے اور روز بروز اُس کے قریب ہو رہے تھے۔ ہم تو شکر گزار تھے اُن سب لوگوں کے جو ہمیں اِس فریضہ کی ادائیگی کے راستے میں قدم قدم پر سہولیات اور رہنمائی فراہم کر رہے تھے ،کجا کہ ہم چھوٹی موٹی فرو گزاشتوں پر،اُن سے گلہ کناں رہتے۔


وسط جولائی میں جب ہم یہاں، مکہ میں حاضر ہوئے تھے اور پہلا عمرہ کیا تھا تو اُس کے بعد، اپنے پاؤں کی تکلیف کے باعث، میں بہت زیادہ خوف زدہ ہو گیاتھا۔آج جو عمرہ ہم کرنے جارہے تھے اِس کے بارے میں تومیں، بہت ہی زیادہ پریشان تھا۔اُس خوف زدگی کے عالم کے بعد ،حج تک صحت مندی کی حالت میں پہنچنے کے لیے،میں نے کئی منصوبے بنائے اور کئی احتیاطیں اور کئی ترکیبیں روبکار لا رہا تھا اور، الحمدللہ ، اُن کی بدولت ،سب مراحل بخوبی طے کر آیا تھا۔حج سے پہلے کا یہ آخری مرحلہ تھا ،جس میں آسانی کے لیے ،اگرچہ میں،بہت زیادہ دعائیں مانگ رہا تھا،لیکن ،الحمد للہ ،وسط جولائی والی خوف کی کیفیت ،اب بالکل باقی نہیں رہی تھی،بلکہ جوش اور جذبہ بڑھ گیا تھا اور اُمید بندھ چلی تھی کہ میرے اللہ نے چاہا ،تو ہم یہ فریضہ بخوبی ادا کر پائیں گے۔ ہم سب خوش تھے اور ہم سب کا مورال بلند تھا اور بڑے ہی پرجوش تھے۔ اب پھر ہم کمرے میں چار ہی دوست تھے،قاری صاحب ،ہماری ہمسائیگی میں، دوسرے کمرے میں سیٹ کیے گئے تھے ۔ کمرے میں سامان رکھا،وضو بنایا اور نیچے میس میں آگئے۔کھانا کھا کرکمپنی کی بس میں آ کر بیٹھ گئے۔ ویسے تو ہم پچھلے بارہ گھنٹوں سے سفر میں تھے،تھکاوٹ بدرجہ اتم موجود تھی لیکن ہم سب پُرجوش تھے۔موقف کدائی سے حرم کی قربت تک پہنچتے پہنچتے ، کوچ نے ۴۵ منٹ لیے اور جہاں اُس نے ہمیں اُتارا ،وہاں سے پیدل سفر بھی بہت زیادہ بن جاتا تھا۔اُس نے ہمیں ،شاہراہ ابراہیم خلیل اور شارع ہجرہ کے سنگم پرواقع،مسفلہ کبری پر اُتاردیا، وہاں سے پیدل چلنا ،اور حرم پہنچ کر ،اتنے رش میں طواف و سعی کرنی اور پھر واپس اِسی جگہ آکر،کدائی بلڈنگ کے لیے یہ بس پکڑنا،یہ سب کچھ پیدل کرنا تھا،اِس طویل پیدل واک کا سوچ کر ہمارے بعض ساتھی کوسٹر والے ڈرائیور سے اُلجھ رہے تھے کہ ہمیں آگے اور آگے حرم کے بالکل قریب کیوں نہیں لے جارہا،اُس کے بقول یہاں سے آگے جانے کی ،پولیس کی طرف سے، اُسے اجازت ہی نہ تھی۔یہی وہ پیدل واک تھی جس کا وسط جولائی میں سوچ سوچ کر میرا پِتا پانی ہو جایا کرتا تھا ،لیکن اب جب یہ موقع آیا تو بفضل خدا، بندہ سب سے آگے تھا اور تمام اہل بس کو لیڈ کر رہا تھا اور اُن کے جذبے بڑھانے کے لیے ،لبیک لبیک کے نعرے لگا رہا تھا۔مسفلہ کبری سے آگے حرم تک ،مجھے راستے کا علم تھا کیونکہ ابھی چند ماہ قبل ہی ،جب عمرہ پر حاضری ہوئی تھی تو ہمارا قیام یہیں قریب ہی ایک ہوٹل میں تھا۔ ساری شارع ہجرہ طے کی ،ساراکبوتر چوک کراس کیااور پھرکبری سے نیچے گزرتے ہوئے،ہلٹن ہوٹل کے پاس پہنچ کر دم لیا ۔ رات کے اِس لمحے بھی رش بہت زیادہ تھا،امکان تھا کہ ہم سب لوگ، عمرہ کے دوران الگ الگ ہوجائیں تو واپسی پر اکٹھے ہونے کے لیے، ہلٹن ہوٹل والی بلڈنگ میں واقع الراجحی بنک والی جگہ طے کی۔رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے ہم چاروں دوست اکٹھے تھے۔چلتے چلتے میں نے حاجی محمد یونس صاحب سے پوچھا،


’’حاجی صاحب !کیا مشورہ ہے کہ طواف کہاں کیا جائے۔‘‘شدید رش کے پیش نظرحاجی صاحب کی رائے تھی کہ برآمدے والے حصے میں طواف کیا جائے جب کہ باقی تینوں کا دِل تھا کہ صحن والے مطاف میں طواف کیا جائے کیونکہ رات کے اِس لمحے رش میں کمی کا امکان تھا۔سو فیصلہ یہی ہوا کہ صحن والے مطاف میں اُترا جائے ۔


 ہم مطاف پہنچ کرسیل طواف میں داخل ہوگئے ۔طواف کی لذت تو ہر بار نئی ہوتی ہے۔جتنا ہجوم اور جتنی مشکلات کی ہم توقع کر رہے تھے،الحمد للہ ، کہ اُس کا تو کوئی تجربہ نہ ہوا،اگرچہ ایک چکر لمبا ضرور پڑتا تھا لیکن ذکر و اذکار کا بھی تو اُتناہی زیادہ وقت ملتا تھا اور اِس ذکر و دعا سے اطمینان اور سکون بھی اُتناہی زیادہ ملتا تھا۔ طواف کے بعد،دورکعت واجب الطواف پڑھ کر ،زم زم کے کولرز سے پانی پیا اور مسعیٰ کی طرف بڑھ گئے۔اِس دفعہ تہہ خانے والے مسعیٰ میں جا نکلے۔اِس حصہ میں یہ عاجز پہلی بار آیا تھا۔ایک تو یہاں رش نہایت ہی کم تھا اور دوسرے ،لطف کی بات یہ تھی کہ یہاں مروہ پہاڑی کی کچھ باقیات بھی موجود تھیں جس کی میں پہلی بار زیارت کر رہا تھا۔ کو ہ صفا کی باقیات تو اُوپر والی منزل میں بھی موجود ہیں اور اُن کی زیارت تو ہر دفعہ ہو جاتی رہی ہے لیکن مروہ کی اِس زیارت کی مجھے،پہلے کوئی خبر ہی نہ تھی اور آج محض اتفاقی طور پریہ تحفہ ملا تھا۔ رات کے قریباً پونے دو بجے،ہم مسعیٰ سے باہر نکلے اور اُس مقام موعودہ کی طرف آئے۔ہمارے کوسٹر والے گروپ میں سے چند لوگ آچکے تھے اور کچھ لوگ ابھی باقی تھے۔ہم چاروں اکٹھے تھے اِس دوران میں ،ہماری ہی کمپنی کاایک اور بزرگ زائر بھی تشریف لے آیا ۔ابھی ہمارا عمرے کا آخری واجب رہتا تھا یعنی ٹنڈ کروانا ،سو اس کے لیے ہم پانچوں مکہ ٹاور میں چلے گئے حجام سے ٹنڈ کروائی۔ہوٹل میں واپسی کے لیے ،ہم سب نے مشورہ کیا کہ بجائے یہاں سے ،مسفلہ کبری تک پیدل جانے اور وہاںجا کر کمپنی کی کوسٹر کا انتظار کرنے کے،کیوں نہ ،ہم ٹیکسی کر کے سیدھے کدائی بلڈنگ چلیں جائیں۔ ہم سب خوب تھکے ہوئے تھے،اِس تجویز سے، فوراًہی سب نے اتفاق کر لیا۔مکہ ٹاور (جہاں پر اِس وقت ہم کھڑے تھے)سے قریب ہی انڈرگراؤنڈ راستہ جاتا ہے ،ٹیکسیاں وہاں سے ملتی ہیں۔یہ حاجی صاحب کی ڈیوٹی ہوتی تھی ٹیکسی والے سے بات کرنا ،انھیں اپنی منزل کا بتانا اور پیسوں کا مک مکا کرنا،سو اب بھی انھوں نے یہ کام بخوبی کر لیا۔دو تین ٹیکسی والوں سے بات چیت کرنے کے بعد آخر ایک ٹیکسی والے سے ،سترریال پربات بن گئی اور ہم اُس کے ذریعے بیس منٹوں میں اپنی بلڈنگ میں پہنچ گئے۔اب ہم سب ساتھی تھک ٹوٹ چکے تھے۔کمرے میںپہنچتے ہی فوراًبستروں میں گھس گئے۔  


۷اور۸۔اگست ۲۰۱۹ءانتظارختم ہوتا ہے ! 


موقف کدی میں:


موقف کے معنیٰ ہیں ،پارکنگ ایریا،بس اسٹاپ ،اڈا،ٹیکسی اسٹیند وغیرہ۔کدائی ،مکہ کے ایک علاقے کانام ہے۔ یہ علاقہ بیت اللہ اور مسجد الحرام سے کافی دُور ہے اور منیٰ سے نسبتاً قریب ہے۔ مکہ کے اِس علاقے میں ایک پارکنگ ایریا بنایا گیا ہے،جہاں پر ہزاروں کے حساب سے کاریں ،وین اوردیگر گاڑیاں پارک کی ہوئی نظر آتی ہیں  کثیر المنزلہ رہائشی عمارتیں ،پلازے اور ہوٹلز بنے ہوئے ہیں۔اِس علاقے میں ایک عمارت میں ہمیں کمپنی نے ٹھیرایا تھا ، جس میں ضرورت کی ہر چیز ،اپنے کم از کم معیار پر مہیا تھی۔۶۔اگست کی رات کو ہم یہاں لائے گئے تھے اور ۲۰۔اگست تک ، جس دِن ہماری وطن کو واپسی تھی،ہم نے یہاں قیام کرنا تھا۔ کمپنی کی طرف سے بنائے گئے شیڈول کے مطابق ، یہ دودِن ہمارے آرام کے تھے۔


 چونکہ ہماراعمرہ کبیر رات دیر گئے ختم ہوا تھا جب کہ ۷۔اگست کی تاریخ کا آغاز ہو چکا تھا،اور ہم ساڑھے تین بجے صبح ہوٹل پہنچے تھے تو ظاہر ہے یہ سارا دِ ن سو کر ہی گزارنا تھا اور اگلے دِن ،۸۔اگست کو ،رات دیر گئے اِن لوگوں نے ہمیں منیٰ پہنچانے کا اعلان کر رکھا تھا،لہٰذا یہ دِن منیٰ جانے کی تیاریوں میںگزرنا تھا،اِس لیے یہ دودِن ہمارے آرام کے تھے۔پہلے تو مجھے کمپنی والوں پر غصہ تھا کہ یہ لوگ ہمیں حرم سے اتنی دور لے آئے تھے لیکن اب جا کر اندازہ ہورہا تھا کہ اِس میں بھی ہمارا ہی فائدہ تھاتا کہ مناسک حج کی مشقت میں پڑنے سے پہلے ، ہمیں مناسب آرام مل جائے ۔ اوراِس میں کمپنی کویہ سہولت تھی کہ ز ائرین کو منیٰ لے جانے اور واپس لانے میں،اِس علاقے کا نسبتاً منیٰ کے قریب ہونے کے باعث، کمپنی کوآسانی ہونی تھی۔ویسے بھی سننے میں آیا تھا کہ حرم کے قریبی علاقہ کی نسبت یہ ایریا سستا بھی پڑتاہے کمپنیوں کو۔


مسجد ابو بکر صدیق:


یہ کوئی تاریخی مسجد نہیں ہے ،مطلب یہ کہ کتب تاریخ و سیر میں اِس کا کوئی حوالہ نہیں یہ موقف کدائی کے اُس محلہ کی مسجد تھی ،جس محلے کی ایک بلڈنگ میں ہماری رہائش تھی ۔ حجاز میں جتنی بھی محلہ مساجد دیکھیں وہ ساری ایک ایئر کنڈیشنڈ ہال پر مشتمل تھیں ۔ قالینی صفیں بچھی ہوتیں اور وضو گاہ اور غسلخانے بھی نبے ہوتے تھے۔اِس مسجد میں بھی یہ سارے انتظامات موجود تھے۔حج سے پہلے اور حج کے بعد ہم نے یہاں کئی نمازیں ادا کیں۔ ۷۔اگست ۲۰۱۹ء ہو چکی تھی۔یہ دِن ہمارے آرام کا دِن تھا۔


نماز فجر ،ظہر اورعصر کمرے میں ہی ادا کیں،عصر کے بعد ،جب دِن ذرا ٹھنڈا ہوا ، کمرے سے باہر نکلاتاکہ باہر کے ماحول کا مشاہدہ کر سکوں۔کچھ دیر ہوٹل کی لابی میں بیٹھا، موبائل کے ذریعے ،پاکستان میں موجود ،احباب و اعزا  سے تبادلہ پیغامات اور تصویر تر سیلات کا کام کرتا رہا۔پھر ہوٹل سے اِس نیت سے باہر نکلا کہ ارد گرد کا ماحول دیکھوں اور کوئی مسجد تلاش کروں جہاں نماز مغرب ادا کر سکوں۔ہوٹل سے نکل کر ، جونہی سڑک پر آیا توکچھ دور ایک مقامی مسجد کے مینار نظر آئے۔یہ ہمارے ہوٹل سے نہایت قریب تھی۔اُس کی طرف چلتا گیا اور مسجد سے بھی آگے نکل گیا کیونکہ ابھی نماز مغرب سے کافی وقت رہتا تھا۔یہ لوکل سڑک تھی ،کوئی خاص ٹریفک نہیں تھا،البتہ روڈ کے دونوںاطراف میں اور بعض خالی پلاٹ میں بیسیوں گاڑیاں پارک ہوئی ہوئی تھیں ،بعض پر تو مٹی دھول اتنی پڑی تھی کہ لگتا تھا کئی مہینوں سے پارک کی گئی ہیں ۔ گاڑیا ںبھی شاندار حالت میں تھیں،مجھے سمجھ نہیں آئیں کہ یہ گاڑیاں کیا ہیں اور کس مقصد کے لیے پارک کی گئی ہیں۔ آس پاس پہاڑ بھی تھے جو خشک اور بغیر سبزہ کے تھے۔مکہ شریف میں آپ جس طرف بھی نکل جائیں یہ پہاڑ آپ کو ہر طرف ایستادہ ملتے ہیں۔ ایک ہی طرح کے پہاڑ۔میں چلتا چلتا ،اور قدرے چڑھتاچڑھتا،ماحول کا جائزہ لیتا ،مکہ شریف کی گلیوں میں ہونے کا لطف لیتاایک ٹریفک چوک میں پہنچ گیا۔بغیر بتی کے چوک تھا،بڑی ہموار ٹریفک رواں دواں تھی۔چوک کو کچھ اِس طرح سے تیار کیا گیا تھا کہ بغیر ٹریفک سگنل کے ،کسی طرف سے بھی آنے والی گاڑیاں بغیر رکے چل رہی تھیں۔چوک کے ارد گرد علاقے کو ایک تفریح گاہ کے طور پر ڈویلپ کیا گیا تھا۔ایسا میں مکہ شریف میں پہلی بار دیکھ رہاتھا۔سڑکوں کے کنارے اورپارک میں،ہرے بھرے آرائشی درخت اور پودے لگائے گئے تھے اور سیر کرنے والوں کے لیے پارک میںسیمنٹ اور لکڑی کے بنچ بھی رکھے گئے تھے۔ایک خوش منظر ماحول تھا۔جہاں میں بیٹھا تھا ،رہائشی علاقہ لگتا تھا ، پلازے یا مارکیٹیں نہیں تھیں ،بس دو چار بقالے موجود تھے۔سن دو ہزار میں جب پہلی بار حرمین میں حاضری ہوئی تھی،تو یہاں پر کوئی درخت نہیں تھا ،مکہ شریف میں تو ایک بھی نہیں تھاالبتہ مدینہ طیبہ میں ایک آدھ درخت دیکھنے کو مل جاتے تھے۔بہر حال میں درخت دیکھنے کو ترس گیاتھا اور واپسی پر جب کراچی اُتراتھا اور وہاںسڑکوں پر درخت لگے دیکھے تو میں نے حیرت کے مارے چیخ کر کہا تھا کہ، ’’ یار!سڑکوں پر درخت بھی ہوتے ہیں۔‘‘لیکن اب تو ،حرمین میں،ماشا اللہ ،حالات بدل گئے ہیں۔اب اِس چوک کو دیکھ لیں،درختوں کی بہتات ہے ،پھر بھی ،جتنا یہاں پیسا ہے ،اُس لحاظ سے اِس انسان دوست اور ماحول دوست چیز یعنی شجر اورشجر کاری کو جتنا وافر ہونا چاہیے تھا،اُس کا عشر ِ عشیر بھی میں یہاںنہیں دیکھ پایا۔کاش یہ لوگ ’’گرین مکہ‘‘،’’گرین  مدینہ‘‘اور’’گرین سعودی عرب ‘‘  ایسا کوئی پراجیکٹ لانچ کریں۔نماز مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا،میں واپس پلٹا،اذان مغرب شروع ہوگئی۔مؤذن کا انداز ،ہمارے ہاں کے دیہاتی مؤذنوں جیسا ہی لگا۔مسجد ابوبکر پہنچا۔میرے رومیٹ بھی پہنچ چکے تھے۔مسجد میں کافی رش تھا۔داغستانی لوگ لگتے تھے۔سمرقند بخارا کے لوگ،مسجد میں اِن کی اکثریت تھی ۔ بنگالی اور پاکستانی بھی کافی تعداد میں تھے اور اہل عرب بھی۔مسجد میں قالینی صفیں بچھی تھیں۔ایک طرف کو پانی کی بوتلیں فرج میں سجی تھیں اور پاس ہی ٹوکروںمیں تازہ کھجوریں بھی مہیا تھیں۔نماز کے بعد ، معلوم ہوا کہ یہ سب اہتمام زائرین کرام کے لیے ہے۔ اتنے میںجماعت کھڑی ہوگئی۔ مؤذن نے تو مایوس کیا تھا البتہ امام صاحب کی قرأت نے کافی متأثرکیا ،میں تو یہی سمجھا کہ حرم کا ہی کوئی امام یہاں آگیا ہے۔ عمدہ تلفظ،شاندار ادائیگی اورمترنم آواز!حرم تک نہ پہنچنے کی جو محرومی تھی وہ کسی حد تک اِس تلاوت سے دُور ہوگئی تھی۔


موقف کدی کے قیام کے دنوں میں ،اکثر نمازیں یہیں ادا ہوتی رہیں۔آئمہ حضرات بدلتے رہے لیکن قرأت سب کی ہی نہایت شاندار ہوتی تھی،معلوم ہوتا تھا کہ سب کا اُستاد ایک ہی ہے،واللہ اعلم۔ اِس مسجد میں،حسب دستور،معزز خواتین کے لیے بھی الگ سے نماز کا اہتمام تھا۔ہمارے ہاں کی طرح ،یہاں بھی ،اکثر اوقات نماز کے بعد مانگنے والے آجاتے تھے۔ایک دوبار تو یہ بھی دیکھا کہ مانگنے والوں نے معذور بچے اُٹھائے ہوتے ، ساتھ میں اُن کے علاج معالجے کے نسخے ، ایکس رے اور پرچیاں بھی پکڑی ہوتی تھیں ۔عربی چوغے پہنے ہوتے اور عربی زبان میں ہی مانگ رہے ہوتے۔ایک دوبار مجلس وعظ ونصیحت بھی برپا کی گئی۔یہ غیر رسمی ہی تھی۔ایک بار تو عرب واعظ کی گفتگو کا داغستانی زبان میں ترجمہ بھی کیا جارہا تھا۔حج کے مسائل و فضائل ہی موضوع گفتگو تھا۔


حج قریب آرہا تھا:


۸۔اگست ۲۰۱۹ء کا دِن طلوع ہوچکا ہے ۔ حج قریب آرہاتھا۔انتظار کے دِن ختم ہورہے تھے۔جوں جوں حج قریب آرہا تھاہماری( excitment)بڑھ رہی تھی۔ہمارے چہروں پر انتظارتوجھلکتا تھا لیکن بوریت ہرگز نہیں بلکہ فرحت ہی فرحت تھی۔ہماری بدن بولی تھکاوٹ نہیں تراوٹ کا پتہ دیتی تھی۔وہ خوف ،جو مجھے وسط جولائی میںتھا ، اُس  کے بارے میں اب، سوچنے پر بھی اپنے آپ پر ہنسی آتی تھی لیکن پھربھی لبوں پر ،ہر دم یہی دُعا رہتی کہ،                                          رب یسِّر ولا تعسِّر و تمم بالخیر 


اے میرے پالنہار!آسانی فرما ،ہر قسم کی تنگی اورتکلیف سے بچا اور خیریت سے اِس امر کو مکمل فرما۔آج بھی ،۸۔اگست کو،اللہ پاک کے فضل و کرم سے صبح سویرے جاگ گیا اور تیار ہوکرچار بجے ہی قریبی مسجد ابو بکر جا پہنچا ۔ جماعت کے وقت کا پتہ نہ تھا،مسجد سے تلاوت کی آواز آ رہی تھی،میں سمجھا کہ شاید جماعت کھڑی ہو گئی ہے،میں نے قدم تیزکر دیئے،لیکن حیران تھا کہ اور کوئی زائر مسجد کی طرف جاتا نظر نہیں آرہاتھا۔مسجد پہنچا تو دیکھتا ہوں تلاوت کے لیے توٹیپ ریکارڈرپر کیسٹ چل رہی تھی اور اِکا دُکا نمازی نوافل ادا کر رہے ہیں اور کچھ لوگ خودتلاوت کر رہے ہیں۔چند ہی لمحوں بعد ،کیسٹ میں سے ہی اذان کی آواز گونجنے لگی اور اُس کے اختتام پر پھر تلاوت شروع ہوگئی۔جو لوگ موجود تھے وہ سارے اجنبی اور بدیسی لگتے تھے،انتظامیہ کا کوئی بندہ نظر نہ آرہا تھا۔ سوچتا رہا کہ یہ کیا ماجرہ ہے۔ مزیدنمازی حضرات آرہے تھے لیکن جا کوئی نہیں رہا تھا جس سے یہ اندازہ تو ہوگیا کہ ابھی جماعت ہونی ہے ۔میری سوئی ٹیپ ریکارڈر کی آذان پر اٹکی ہوئی تھی۔سوچتاکہ شاید یہ بھی کوئی اجتہاد کر لیا گیا ہے کہ ٹیپ ریکارڈر کی اذان بھی کفایت کرتی ہوگی یہاں؟؟بہر حال اِسی گو مگو اور کش مکش میں ،مزید آدھا گھنٹہ گزر گیاتب کہیں جاکر ایک نوجوان عرب آیا ،اُس نے کیسٹ بند کی ،اسپیکر میں اذان پڑھی اور پندرہ بیس منٹ بعد نماز فجر کی امامت بھی اُسی نوجوان نے خودکروائی۔اُس کی تلاوت بھی نہایت شاندار تھی۔اُس نوجوان نے ،جسے دیکھتے ہی میں ایک چھوکرا اورلا اُبالی عرب نوجوان سمجھا تھا وہ، تو ایک اعلیٰ پائے کا قاری قرآن نکلا،  فللہ الحمد  


ہمارے اندر اعتماد آگیا:


نماز تو اِس نوجوان نے ہی پڑھائی،البتہ نماز کے بعد ایک ادھیڑ عمر عرب کھڑا ہوگیا اور اُس نے وعظ و نصیحت شروع کر دی۔شکل و صورت سے تو وہ،میری طرح کا، ایک عامی آدمی ہی نظر آتا تھا لیکن تقریراُس نے عالمانہ فرمائی۔ خوبصورت عربی بول رہا تھا ، قرآن و حدیث سے خوبصورت حوالے دے رہا تھا۔اُس کا موضوع حج اور اُس میں اللہ کی کبریائی کا بیان تھا۔ تلبیہ کی تشریح  فرمائی ،کیا خوبصورت انداز تھاتفہیم و تعلیم کا!


 سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت پاک اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زندگی کے نقوش بیان فرمائے ۔اُ س نے کہا کہ آپ لوگ ایک دو دِن میں حج کے مناسک کے لیے مقامات حج پر چلے جائیں گے۔یہ اللہ کی عبادت کے دِن ہیں۔یہاں سے جب واپس جانا ہے تو کچھ لے کر جانا ہے۔کیا لے کر جانا ہے۔اللہ کی توحید لے کر جانی ہے۔شرک سے بچنے کا عزم لے کر جانا ہے۔یہ لبیک لبیک کی رٹ کیا ہے،کوئی جنتر منتر نہیں ہے،محض چند الفاظ نہیںہیں۔ تلبیہ کے کلمات ،ابراہیمی تعلیمات اورتمام انبیاء کرام کی تعلیمات کا نچوڑ ہیں۔یہاںلا شریک لک ،لا شریک لک کے نعرے لگاتے رہیں اور اپنے وطن میں جا کر اپنے نفس کے بندے بن جائیں،اپنی خواہشات کے تابع ہو جائیں، یا خاندان اور برادری کے رسم و رواج کے عادی بن جائیں۔قبروں کے پجاری بن جائیں تو یہ اپنے آپ پر ظلم ہوگا۔یہ حج اور اِس کی ساری مشقت ضائع چلی جائے گی۔اِن الفاظ کی روح کو سمجھیں۔ماشاء اللہ آدھے پونے گھنٹے میں انھوں نے بڑی دِل نشین گفتگو فرمائی۔


مولانا صاحب نے صرف ترغیب اور فضائل پر ہی بات نہ کی،بلکہ مختصر وقت میں سارا حج ہی سمجھا دیا۔اُس مجلس سے اُٹھ کر آیا تو ہمارے ہوٹل میں ایک اور مجلس برپا تھی۔یہاں بھی کوئی صاحب ،بڑے دلنشیں انداز میں حج کی تیاری کے تقاضے اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق مناسک حج ادا کرنے کی ترغیب دِلا رہے تھے۔چند منٹ ،اِن کا خطاب بھی سنا اور پھرناشتہ کے لیے میس میں پہنچ گیا۔آج دِن کے گیارہ بجے کمپنی والوں نے بھی ،ہوٹل کی لابی میں ایک اجلاس بلا رکھا تھا ۔یہ سب کچھ حج کی تیاریوں کے سلسلے میں تھا۔ اب انتظار ختم ہونے کو تھا،حج قریب آگیا تھا۔مناسک حج شروع ہوا چاہتے تھے۔گیارہ بجے ،کمپنی والوں نے بڑا عمدہ پروگرام ترتیب دے رکھا تھا ،اُس میں ہم بھی حاضر ہوئے اور اِس بریفنگ سے بھر پور فائدہ اُٹھایا۔اس مجلس کے فاضل مقررین  نے حج کے مسائل و فضائل پرتو تھوڑی سی گفتگوکی البتہ کل سے شروع ہونے والے مناسک حج کی ادائیگی کے لیے اِن لوگوں نے جو نظم اورلائحہ عمل ترتیب دے رکھا تھا اُس سے پوری تفصیل کے ساتھ،کماحقہ،ہمیں آگاہ کیا۔اور اگلے پانچ دِن ہم نے جس طرح منیٰ،عرفات مزدلفہ میں جانا آنا تھا ،جس طرح وہاں رہنا تھا اورکھانے پینے کے معاملات کیا اور کیسے ہوں گے اور وہاں ہمیں کیا سہولیات مہیا ہوںگی یا کیا ممکنہ مشکلات ہونگی اور یہ کہ رمی جمار ،قربانی اور طواف زیارت وغیرہ کی ادائیگی میں،کن چیزوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور کن چیزوں سے بچنا ہوگا ، وغیرہ وغیرہ ،ایسے کئی عنوانات تھی جن کے بارے میں 

انھوں نے ہمیں مکمل ہدایات دیں۔اِ س بریفنگ نے ہمیں حج کے مناسک کے لیے مکمل طور پر تیار کردیا۔ہم بالکل پرجوش اور پراعتماد ہوگئے۔اللہ تعالیٰ اِن لوگوں کو جزائے خیر دے۔(جاری  ہے)