غلامی کی نئی شکل ،لکیریں اور سرحدیں

مصنف : محمد صفوت

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : فروری 2021

محمد صفوت الزیات سابقہ مصری جنرل ہے، انتہائی پڑھا لکھا ہے اس لیئے آجکل الجزیرہ پر فوجی تجزیہ نگار کے طور پر کام کرتا ہے، موٹی وی شنل سپیکر ہے، قومی عسکری امور پر گہری نظر رکھنے کی وجہ سے کئی ایک ریسرچز کر چکا ہے۔ آپ کا زیر نظر مضمون سال بھر سے سوشل میڈیا کی جان بنا رہا ہے۔
اس موجودہ زمانے میں ہماری عقلوں کے ساتھ جو سب سے بڑا حادثہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا یقین دلا دیا گیا ہے کہ یہ درخت، وہ پتھر، یہ ریت مٹی وہ خیالی اور وہمی حد ہمارا وطن ہے۔اور اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان باڑھ اور تاروں پر مر مٹیں جنہیں لگانے کا نقشہ برطانوی ایجنٹ مارک سایکس اور فرانسیسی ایجنٹ جارج بیکو نے بنا کر دیا تھا (کیونکہ سارے اہل عرب نے مل کر ان دونوں کی مدد کی تھی تاکہ یہ دونوں انہیں خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں مدد کریں اور اس کے بعد اس خلافت کے نیچے سے زمین کو نکال کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ان سب کو اپنا اپنا علیحدہ ملک ملے جو تمام ایک خلافت کے زیر سایہ تھے)۔ اور پھر ان عربوں نے ان ٹکڑوں کو اپنا اپنا وطن قرار دیا۔پھر ہر حاکم نے اپنے وطن میں موجود ہر شخص کو ایک ایک شناختی رقعہ لکھ کر دیا جو ان کی قومیت، ان کی نسل اور ان کی پہچان ٹھہرا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہر چرواہا اپنی اپنی بھیڑ بکریوں پر رنگ لگا ایک پہچان بنا لیتا ہے یہ میری بھیڑیں ہیں وہ تیری بھیڑیں ہیں۔چہ جائیکہ ان وطنوں (اوطان) کے نام رکھنے والے بذات خود ایک تفرقہ ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو ان ایجنٹوں کو مقدس ترین شخصیات مانتے ہیں اور ان کی عظمت کے گن گاتے ہیں۔آپ کو مصری اور سوڈانی،
سعودی اور قطری ،عمانی اوریمنی ،مراکشی اور جزائری اور دیگر بھی، بہت سارے ملیں گے جو ایک مخصوص دن اپنا اپنا یوم وطنی (نیشنل ڈے) جھوٹی من گھڑت تاریخ اور قصیدوں کے ساتھ مناتے ہوئے ملیں گے۔اور ان میں سارے کے سارے ایک دوسرے کو مارنے سے بھی نہیں چوکیں گے اگر کسی نے ایک دوسرے کے مقدس ریت کے ٹیلے کو عبور کرنے کی کوشش بھی کر ڈالی تو۔اور ان لکیروں میں بٹے لوگوں کا ایک دوسرے کو مارنا عزت، تقدس، وطنیت اور عظمت کا نشان بن ٹھہرا جو دنیا کے گھٹیا ترین مجرم سایکس اور بیکو نے وہمی اور خیالی لکیر کھینچ کر ان کو حدود بنا کر دی تھی۔وطن کی مقدس مٹی پر مر مٹنے کی عظیم موت۔وطن کی مٹی کے تقدس اور حرمت پر ملی موت۔وطن کا شھید، جنت جس کی منتظر۔آج ان میں ایسے بھی ملک اور مواطن بنے بیٹھے ہیں جو ایک دوسرے کو گالی کے بغیر تو مخاطب نہیں کرتے ، ایک دوسرے سے کراہت، نفرت اور دشمنی ان کے ایمان کا حصہ بنی ہوئی ہے۔اس کے باوجود بھی کہ ان سب کا دین ایک ہے، ان ساروں کی زبان ایک ہے اور تو اور ان سب کی مشترکہ تاریخ ایک ہے۔
 سایکس اور بیکو کا تیار کردہ معاھدہ کیا ہے؟
ایک سو سال کیلیئے امت کو باندھ کر مفلوج اور ضائع کر دیا گیا ہے، لوگوں کی وفاداریوں کو ایک باڑھ لگے زمین کے ٹکڑے کے اندر معصومیت کے ساتھ، اس کاغذ کے ٹکڑے کے ذریعے سے قید کر دیا گیا ہے جسے سایکس نے ایک وہمی اور خیالی حد بندیاں دکھا کر ہمیں بتایا کہ یہ تمہاری مادر وطن ہے۔اور اس حد کے اندر رہنے والے جس کسی کے پاس یہاں کا شناختی ورقہ (نیشنیلیٹی) ہے وہ ہمارا بھائی، ہمارا دوست اور ہمارا خون ہے بھلے اندر کھاتے کیسی ہی رذیل مخلوق کیوں نہ ہو۔ اور جو کوئی بھی اس وہمی اور خیالی حدود سے باہر بستا ہے وہ ہمارا دشمن ہے بھلے وہ کتنی ہی اچھی مخلوق کیوں نہ ہو۔سایکس اور بیکو نے ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ معاھدہ 100 سال کیلیئے ہے ہمیشہ ہمیشہ کیلیئے نہیں۔ اور ہم نے اپنے آپ کو اس دھوکے میں رکھا کہ اس سو سال میں سب کچھ بدل جائیگا، یہ نظام ایسے بنا ہوا چلتا رہے گا، سب کچھ ٹھیک رہے گا، یہ تقسیم ایسے قائم رہے گی بلکہ ہم اس تقسیم اور ان بنائی ہوئی حدود کی حفاظت کیلیئے ایسے ہی اپنی اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے۔
یہ ساری باتیں لکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک منظر بار بار ابھرتا ہے کہ آقا علیہ السلام پورے قد و کاٹھ اور عزت کے ساتھ باوقار کھڑے ہوئے ہیں اور آپ کے سامنے آپ کی حرمت اور عزت پر کٹ مرنے کیلیئے تیار جانثاروں کی پوری ایک فوج موجود ہے جس میں عربی بھی ہیں اور عجمی بھی، کالے بھی ہیں اور گورے بھی۔ ان میں ابوبکر ''قرشی'' ہے تو سعد ''اوسی'' بھی ہے۔ ان میں اگر سلمان ''فارسی'' ہے تو صہیب ''رومی'' بھی ہے، ابوذر ''الکنانی'' ہے تو بلال ''حبشی'' بھی ہے۔آپ علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں: اے اللہ عیش تو آخرت ہی کی ہے اور اے اللہ! تو انصار ومہاجرین کو سر بلند کر اور انہیں عیش و آرام عطا فرما۔اور آپ کے سامنے ٹھہرا لشکر بآواز بلند کہتا ہے: ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد پر بیعت کی ہے اور جب تک زندہ رہیں گے لگا تار جہاد کرتے رہیں گے اور جہاد ہی ہماری زندگی ہے۔جب ہم دنیا پر سرداری کرتے تھے تو ہماریں سرحدیں اور حدیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ مدینے میں بیٹھ کر بائیس ملکوں پر حکم چلاتے تھے۔اور ولید کی فوجیں مشرق میں چین کی دیوار کے نیچے سے لیکر مغرب میں فرانس کے جنوب تک حکومت چلاتی تھیں۔اور ھارون رشید بر اعظم ایشیا کے تین چوتھائی حصے پر حکومت کرتا تھا۔اور معتصم عموریہ کو لتاڑتا ہوا نکل کر بلغاریہ کو للکارنے چلا جاتا تھا۔اور صلاح الدین صلیبیوں کو تہ تہیغ کر کے قدس کی آزادی کی بات کرتا تھا۔اور سیف الدین قطز منگولوں کو مٹا کر دنیا کو شر سے پاک کرتا تھا۔اور عثمانی دنیا کے نقشے سے صلیبی بیزنطیوں کو مٹا کر آدھے سے زیادہ یورپ پر حکومت کرتے تھے۔جب ہماری حدیں مقرر نہیں ہوا کرتی تھیں تو ہم قرطبہ سے لیکر بغداد تک اور مراکش سے لیکر مکہ تک آیا اور چلے جایا کرتے تھے اور کوئی ہم سے راہداری (پاسپورٹ) کا نہیں پوچھ سکتا تھا۔اور پھر سایکس اور بیکو نازل ہو گئے جنہوں نے ہمیں خیالی لکیروں کے اندر جکڑ کر زنجیروں سے زیادہ بندھے غلاموں میں بدل کر رکھ دیا۔ اور ہم مغرب کے سائے میں بسنے والے وفادار محکوم بن گئے۔ہم اپنی لکیروں میں قید ہو گئے اور انہوں نے اپنی یونین بنا کر اپنے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور ایک دوسرے کے پاس آنے
 جانے کیلیئے آزاد بنا دیا۔ ان کے درمیان کھینچی ہوئی لکیریں لکیریں ہی رہیں اور ہمارے درمیان کھینچی ہوئی لکیریں سرحدیں بن گئیں۔

بشکریہ : محمد صفوت ؍ ترجمہ محمد سلیم