تہذیب و تمدن میں فرق

مصنف : ڈاکٹر خضر یاسین

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : نومبر 2018

تہذیب و تمدن میں فرق
ڈاکٹر خضر یاسین

                                                                                               

تہذیب اور تمدن دو الگ الگ مظاہر ہیں۔ تہذیب کو تمدن اور تمدن کو تہذیب کے معنی میں استعمال کرنے کا نتیجہ ہے کہ ہم دونوں کو ارتقاء پذیر سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ارتقاء پذیر فقط تمدن ہوتا ہے، تہذیب انسان کی ہستی کی طرح ارتقا یافتہ فضیلت ہے۔ جیسے انسان جسمانی طور پر ارتقاء یافتہ ہے، اب مزید جسمانی ساخت کا ارتقاء ممکن نہیں ہے، اسی طرح تہذیب بھی ارتقاء یافتہ ہے۔ تہذیب انسان کی انسانیت ہے، وہ یہاں اور، اور وہاں اور نہیں ہے۔ انسان سے ہم انسانیت نہیں چھین سکتے۔ اسی طرح ہم انسان سے تہذیب اور مقتضائے تہذیب الگ نہیں کر سکتے۔
ہزاروں سال پہلے اور ہزاروں سال بعد انسان سے انسانیت کا مطالبہ فقط اس کے تہذیبی وجود کی وجہ سے کیا جا سکتا ہے۔ جرم اخلاقی ہو یا قانونی، انسانی صورت حال میں لاعلمی151 جرم سے لاعلمی151 اس جرم کے درست ہونے کا ثبوت ہے اور نہ دلیل ہے۔ ہم انسان کا ایسا تصور اپنے ذہن میں نہیں لا سکتے جو اخلاقی اور قانونی جرم کو جرم نہ سمجھے اور پھر بھی وہ انسان ہو۔
انسان کو انسان ماننا ہے تو یہ ممکن نہیں کہ میں اسے اپنے سے ماورائی مخلوق مانوں یا اپنے سے گرا ہوا جانور سمجھوں۔ فرض کرنے اور مفروضات کو حقیقت سمجھنے میں ٹکہ پیسا خرچ نہیں ہوتا، لیکن مفروضات کے نتیجے میں انسانی صورت حال کا مطالعہ نہ درست ہوتا ہے اور نہ یہ کوئی جائز منہج ہے۔
غلط بات کو غلط باور کرانے سے انسان سمجھ لیتا ہے کہ وہ غلط ہے تو اس لیے کہ غلط کے غلط ہونے کا شعور انسان کے وجود میں پہلے سے موجود ہے۔ غلط اور ناشائستہ عمل انسان کی انسانیت کا نمونہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی جگہ انسانوں میں کوئی غلط اور ناروا عمل مروج ہے تو یہ ان کی انسانیت کا ثبوت نہیں ہے، ان کی انسانیت کا ثبوت یہ ہے کہ جب درست اور جائز عمل اور طرزِ عمل ان سامنے آتا ہے تو وہ اسے اپنا لیتے ہیں۔
’’تہذیب‘‘ان حشو و زواید کی تراش خراش کا نام ہے جو غیر ضروری اور غیر متعلق ہوتے ہیں۔ انسان کا تہذیبی وجود غیر ضروری اور غیر اہم حشو و زواید کو غیر ضروری اور غیر متعلق نہ سمجھے تو یہ کہنا درست ہو گا کہ انسان تہذیبی اعتبار سے ارتقا پذیر ہستی ہے۔ جس طرح انسان ایاّم طفولیت میں ہی ان تمام قوی کو اپنے ہستی میں لیے ہوتا ہے جو مستقبل میں جا کر حقیقت بننے ہیں، اسی طرح انسان اپنے تہذیبی وجود میں تہذیبی ارتقاء کو لیے ہوتا ہے۔
ہم کسی انسان کی ’’کذب بیانی اور قتل نفس ‘‘کو کسی بھی وجہ سے درست نہیں مان سکتے، ہمارے نقطہ نظر سے وہ مہذب ہو، چاہے نہ ہو۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی فقط ایک وجہ ہے کہ وہ انسان ہے۔
ہم یہ مانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہمارے جیسی ترقی نہیں رکھتے تھے مگر وہ کیا شے ہے جس میں وہ ہم سب کے لیے نمونہ ہیں؟ وہ فقط ایک شے ہے کہ وہ ہم سے زیادہ مہذب تھے، اور ہم ان سے زیادہ متمدن۔
ہارون الرشید کا شاہی دربار اگر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حکومتی آفس سے زیادہ کروفر رکھتا تھا تو یہ فرق تہذیبی نہیں تھا، تمدنی تھا۔ آج بھی استنبول کی جامع مسجد اور بلوچستان کی جھونپڑی نما مسجد میں فرق نظر آتا ہے تو یہ فرق تمدنی ہے۔ جہاں تک تہذیبی مظہر کا تعلق ہے تو ان دونوں مساجد کے ساتھ جو تعظیم و توقیر وابستہ ہے وہ اسلامی تہذیب کا مظہر ہے۔ اسلامی تہذیب کا مظہر استنبول کی جامع مسجد ہے اور نہ بلوچستان کی جھونپڑی نما مسجد ہے۔
انسان جب اپنی زندگی کی آسانیوں کا سازوسامان بناتا ہے تو یہ اپنے خارج کو سنوارتا ہے اور یہ تمدن کہلاتا ہے اور جب اپنے وجود کی انسانی جہت کو سنوارتا ہے تو آسانیاں اگر اس مقصد میں رکاوٹ بن رہی ہوں تو ان کے تعاقب میں نہیں دوڑتا۔ یہ انسان کی تہذیب ہے۔
تمدنی مظاہر میں انسان اپنی راحت تلاش کرتا ہے، دیدہ زیب اور دل فریب مناظر بناتا ہے۔ مذہبی مظاہر بھی انسان کی نفسیاتی راحت کا ایک وسیلہ ہیں ورنہ نبوت انسانی مظاہر میں کوئی مظہر نہیں ہے۔ یہ خیال بڑا عجیب ہے کہ نبوت انسانی میڈیم سے خود کو Realize کرتی ہے یا غیر نبی نبوت کو اپنے اپنے زمان و مکان کے مطابق reshape کرتا ہے۔
پچھلے چودہ سو سالوں میں مذہبی اعمال 151 نماز، روزہ اور حج و زکوۃ وغیرہ 151 زمان و مکان کی نذر نہیں ہوئے اور نہ قرآن پاک
بدلا ہے۔ البتہ مساجد اور قرآن پاک کی خطاطی کے نمونے ضرور بدلے ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ یہ تمدنی مظاہر ہیں، تہذیب کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
***

فکر ونظر

تہذیب و تمدن میں فرق