الفت کے راستے پر ؍ قسط 14

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : فروری 2021

۳۱۔جولائی ۲۰۱۹ء بروز بدھ
نہ جنات،نہ معجزہ اور نہ کرامت:
 پچھلے چند سالوں سے ہمارے ہاں عمرہ کے سفر کو اختیار کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔یہ بات بڑی خوش آئند ہے۔حج و عمرہ سے آنے والے محترم لوگوں کی اکثریت ،جب اُن سے ملاقات ہوتی ، مدینہ طیبہ میں موجود کس وادی کا بڑا تذکرہ کرتے ہیں جس میں پانی چڑھائی کی سمت بہتا ہے اور گاڑیاں چڑھائی کی طرف تیزی سے دوڑتی چلی جاتی ہیں جس طرح کے وہ نیچے اُتر رہی ہوں۔کئی لوگ وڈیو بناکر لائے تھے اور ہم خود بھی یہ وڈیو دیکھ کر حیران ہوتے تھے۔بعض لوگ اِس چیز کو جنوں کی کارستانی قرار دیتے اور بعض اسے مدینہ پاک کا معجزہ قرار دیتے۔ یار لوگوں نے تو اِس وادی کا نام ہی ‘‘وادی جن ’’قرار دے رکھا ہے۔ویسے بھی وطن عزیز میں توہمات اور فرسودہ نظریات و خیالات کا بڑا دور دورہ ہے اور ایسی چیزوں کی ہمارے ہاں بڑی مانگ ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں جہاں سائنسی علوم کی بے پناہ کمی ہے وہیں صحیح دینی تعلیمات کی بھی کمی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئے دِن ہمارے ہاں عجیب و غریب کہانیاں جنم لیتی رہتی ہیں۔ 
مدینہ طیبہ کی اِس انوکھی وادی کو دیکھنے کا ہمیں بھی شوق تھا،اگر چہ ہمیں یہ یقین کامل تھا کہ نہ تو اِس چیز کا دین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی سیرت پاک کی کتابوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے ضمن میں اِس طرح کے کسی معجزے کا کوئی ذکر پا یا جاتا ہے۔ہمیں صرف دیکھنے کا شوق تھاکہ آیا جو بیان کیا جاتا ہے وہ حقیقت میں ہے بھی یا نہیں ،یا یہ محض سنی سنائی باتیں ہیں۔ اِس بار یہ سوچ کر گیا تھا کہ مدینہ طیبہ جاکر اُس عجیب و غریب وادی کو دیکھنے کی کوئی سبیل ضرورنکالوں گا اور اللہ کریم نے یہ موقع عنایت فرما دیا۔
رات کو ہمارے رومیٹ اکرم صاحب نے بتایا کہ میرے دو عزیز سعودیہ کے دارالحکومت ریاض سے ہمیں ملنے کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔وہ ہمیں شہر کی سیر و تفریح کروائیں گے ،آپ کوئی جگہ منتخب کر لیں۔یہ سن کر میں نے فوراً تجویز دی کہ ہم‘‘ وادی جن’’ چلیں گے۔اِس کے بارے میں سب ساتھیوں نے سن رکھا تھااوراِس پر سب کا اتفاق ہو گیاالبتہ حاجی صاحب نے کہا کہ میں تو نہیں جاؤں گاکیونکہ میں پہلے کئی بار دیکھ چکا ہوں ۔
آج صبح ہی یہ دونوں ساتھی، عابد صاحب اور عرفان صاحب ،ریاض سے طویل سفر کر کے پہنچ گئے۔ماشاء اللہ ،دونوں تابع فرمان اور جی دار نوجوان تھے۔ریاض میں اپنا ذاتی کاروبار کرتے تھے۔اپنی گاڑی لائے تھے اور اِسی نیت سے تشریف لائے تھے کہ اللہ کے اوراُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کی خدمت کی سعادت حاصل کریں۔عابد صاحب تو اکرم بھائی کے بھانجے اور داماد ہیں اور عرفان صاحب ،عابد کے دوست اور کولیگ۔اُن کے ساتھ ہم دِن کے گیارہ بجے ،وادی جن کے لیے روانہ ہوئے۔اگرچہ عابد صاحب وادی جن کی پہلے سیر کر چکے تھے لیکن وہ راستہ سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔یہ ایک بڑا مسئلہ تھا لیکن ہمارے شکیل بھائی اور ہم سب کے انکل،جناب گوگل(google) ،نے ہمارایہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔شکیل بھائی کا انکل گوگل سے رابطہ ہوگیا اور ہم گوگل کی رہنمائی میں روانہ ہوگئے۔‘‘ہمیں کتنا وقت لگے گا؟’’میں نے پوچھاعابد صاحب نے کہا،‘‘مجھے کوئی خاص اندازہ تو نہیں،میرا خیال ہے کہ چالیس پچاس کلو میٹر ہو گا اور ہمیں کوئی آدھ پون گھنٹہ لگ جائے گا ۔ ’’ چلو ،ہمیں کچھ تسلی ہوگئی۔کافی وقت تو شہر میں گھومتے گھومتے لگ گیا ۔شہر مدینہ کی بھی سیر ہوگئی۔عابد صاحب نے ایک دکان سے کچھ مشروبات بھی خریدے اور مہمانوں کو پیش کیے۔سڑک بہت اچھی تھی۔ راستے کے مناظر بھی اعلیٰ تھے۔جگہ جگہ کھجوروں کے خوبصورت باغ تھے۔ایک جگہ پر تو پانی کا ایک بڑا سا ذخیرہ بھی نظر آیا،ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کوئی چھوٹا موٹاڈیم ہے ۔اِس کے آس پاس بھی درختوں کا اچھا خاصا جھنڈ تھا جو بڑا بھلا دِکھائی دیتا تھا۔پھر ہم اُس وادی میں داخل ہو گئے۔ وادی سے مراد ، خشکی کا ایسا علاقہ جو چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہواہو۔یہ ایسا ہی علاقہ تھا۔سڑک کے دونوں اطراف میں خشک ، بنجر، ریتلا اور میدانی علاقہ تھا جو خشک اور بنجر پہاڑوں سے گھرا تھا۔خال خال درخت بھی نظر آتے تھے۔مختلف فاصلوں پر جگہ جگہ پتھر اور گارے سے بنے احاطے تھے ،بعض بعض احاطوں میں کمرے اور جھونپڑے بھی بنے ہوئے تھے۔ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے یہ سار اعلاقہ کوئی پکنک پوائنٹ ہے جہاں پر فیملیز آتی ہیں اور ایک دو دِن موج میلا کرتی ہیں۔ چونکہ یہ صحرائی علاقہ تھا اور اپنی مخصوص شہرت کے باعث (mysterious)بھی تھا ،اس لیے اِس بات کا قوی امکان ہے یہ پکنک پوائنٹ ہوگا۔یہ سب ہمارا اندازہ تھا اور ہم خیالوں ہی خیالوں میں اِس مقام پر سعودی خاندانوں کو موج مستی کرتے دیکھتے رہے۔بعد میں ،مدینہ طیبہ واپس آکر ،ایک دو لوگوں سے بات ہوئی تو انھوں نے تصدیق کی کہ ہاں،واقعی یہ ایریا ایک تفریحی مقام کا درجہ رکھتا ہے جہاں اختتام ہفتہ یا دیگر تعطیلات کے دِنوں میں سعودی کنبے جاکر ڈیرہ ڈالتے اور تفریح کرتے ہیں۔راتوں کو خوب رونق ہوتی ہے۔ 
اکرم صاحب نے عابد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ،عابد بیٹے،‘‘کہیں گاڑی روکو ناں،ہم وہ دیکھیں ناں، کہ پانی کیسے اُوپر جاتا ہے۔’’جی جی انکل ،ابھی کوئی مناسب جگہ آتی ہے تو روکتا ہوں۔’’عابد نے کہا۔ پھر ایک جگہ پر نہیں ،بلکہ دو تین مقامات پر گاڑی روکی گئی اور ہم سب بڑے تجسس سے اُتر کر پانی کو گراتے اور اُس کا چڑھائی کی طرف جانے کا مشاہدہ کرتے رہے۔بھائی اکرم صاحب ،اِس سارے عمل کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے رہے ۔ جہاں جہاں ہم رکے اور یہ تجربہ کیا،کم از کم مجھ پرزمین کی سطح اتنی واضح نہ ہو سکی کہ میں یقینی طورپر کہہ سکوں کہ مجھے پانی چڑھائی کی طرف بہتا نظر آیا۔میں اِسے اپنی کم فہمی ہی سمجھوں گایا یہ عدم توجہی ہوگی میری، کہ نہ جاتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ ہم ڈھلان اُتر رہے ہیں اور نہ ہی واپس آتے ہوئے یہ محسوس ہوا کہ ہم چڑھائی چڑھ رہے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ یہ ضرور تھا کہ جب ہم مدینہ پاک سے وادی کی طرف جا رہے تھے تو بوتل سے گرایا جانے والا پانی مدینہ کی سمت بہتا تھا ۔اب لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ مدینہ پاک سے آتے ہو ئے جب آپ وادی میں داخل ہوں تو آپ ڈھلوان میں اُترتے ہیں(مجھے تو ایسا محسوس نہ ہوا)اوریہ کہ جب وادی کے آخری پوائنٹ سے مدینہ پاک کی طرف واپس آتے ہیں تو آپ چڑھائی چڑھتے ہیں (مجھے تو ایسا محسوس نہ ہوا)اوریہ چڑھائی چڑھتے ہوئے ،انجن بندگاڑی تیز بھاگتی ہے،ایسا ہی ہوا ،واپسی پر ہماری گاڑی بھی ۱۲۰ کلومیٹر فی گھنٹہ تک گئی اگرچہ انجن بند تھا۔یہ سب کیا ہے؟اِس کے لیے طرح طرح کے نظریے اورعقیدے بنا رکھے ہیں لوگوں نے۔ میں ابھی اِس پر آتا ہوں۔میں بات یہ کر رہا تھا کہ ہم جاتے ہوئے کئی مقامات پر رکے اور پانی گرانے کا عمل کیااور یہی سمجھا کہ یہاں ،خلاف قاعدہ پانی اُوپر کو چلتاہے۔ہم آگے بڑھتے گئے۔پہاڑ قریب آتے گئے اور لینڈ سکیپ بھی دِل آویز ہوتا گیا۔چند کلو میٹر چلنے کے بعد اِس وادی کا آخری سراا ٓگیا۔یہ ایک بڑا ہی حیرت انگیز منظر تھا کہ سڑک کے اطراف میں آنے والے پہاڑ آپس میں مل گئے اور راستہ بالکل بند ہوگیا،سڑک بھی ختم ہوگئی۔اِس آخری سرے پر حکومت وقت نے ایک بڑا سال گول چکر بنادیاہے اور سڑک گھوم کر پھر مدینہ پاک کا رخ کر لیتی ہے۔ اِس جگہ ایک جھونپڑا ہوٹل یا ایک صحرائی ہوٹل تھا۔گاڑی سے اُتر کر ہم اُس جھونپڑے میں آ بیٹھے اور چائے کا آرڈر دیا اُس وقت گاہک صرف ہم ہی تھے۔ہوٹل کے لوگ پاکستانی ہی لگتے تھے۔موسم گرم ہی تھا ،سورج اپنی پوری تمازت کے ساتھ خوب روشن تھا۔گرمی شدید تو تھی لیکن ہٹ کی چھت کے نیچے بیٹھے ،ہم بے آرام نہیں تھے۔دُور پہاڑوں پر کسی من چلے نے پاکستان کا جھنڈا بھی بنایا ہوا تھا۔اکرم بھائی کو یہ لینڈ اسکیپ اتنا من بھایا کہ وہ شدید دھوپ میں اُس پہاڑ کی طرف پیدل چل پڑے اور کافی دور ،پہاڑ کے دامن میں موجود کھجوروں کے جھنڈ تک گئے اور پھر واپس آ گئے، عرفان صاحب بھی اُن کے ساتھ ساتھ رہے۔اِکا دُکا کچھ اور گاڑیاں بھی ہمیں نظر آئیں۔کچھ دیر وہاں بیٹھے رہے،چائے وائے پی اور کچھ بسکٹ وغیرہ سے لذت کام و دہن کیا اور پھر واپسی کا رخ اختیارکیا۔خشک اور بے آب و گیاہ ماحول تھا پھر بھی اردگرد کے منظر میں ایک خاص قسم کی دِل آویزی اور دِل کشی موجود تھی۔
سوچتا رہا کہ کیا کبھی میرے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یاآپ کے پیارے اصحاب میں سے کسی نے اِس اسپاٹ کا دورہ کیا ہوگا یا نہیں۔جہاں تک اِس خاکسار کا عاجزانہ مطالعہ ہے ،اِس سوال کا جواب نفی میں ہے۔میرے خیال میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور صحابہ کرامؓ کی اِس طرف آنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بنتی کیونکہ بظاہر تو یہ وادی ایک بند گلی ہے،مدینہ پاک سے یہاں تک کوئی آبادی یابستی بھی نہیں ہوگی ،نہ ہی اب کوئی نظر آئی تھی کہ آپ ؐدعوت و تبلیغ کے لیے اُن کے پاس تشریف لاتے اورنہ ہی یہ کوئی کاروانی گزرگاہ ہوسکتی تھی ،نہ ہی اب ہے،کہ آپ یہاں سے گزر کر کسی شہر یا بستی کی طرف تشریف لے جاتے اور ہمیں ،روایات میں اُس کا ذکرملتا،لہٰذانتیجہ یہی نکلتا ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اِس طرف تشریف نہیں لائے ہونگے۔واللہ اعلم۔لہٰذا ،اِس مقام میں موجود بظاہرغیر طبعی امور کاتعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ ہونے سے تو،کوئی امکان نہیں، اِس لیے اِن خلاف قاعدہ اوامر کی توجیح عقل و منطق سے کی جانے چاہیے ۔ 
‘‘انکل ’’ عابد صاحب نے ہم سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،‘‘اب میں گاڑی کا انجن بند کرنے لگا ہوں،اور آپ دیکھنا کہ کس طرح گاڑی مدینہ طیبہ کی طرف رخ کرکے دوڑتی ہے۔’’ہم سب متوجہ ہو بیٹھے۔گاڑی کا انجن بند کر دیا گیا،گاڑی کو تھوڑا چلنے کے بعد رک جانا چاہیے تھا،لیکن یہ کیا ،اِس نے تو دیوانہ وار بھاگنا شروع کر دیا۔رفتار بڑھنا شروع ہوئی،میٹر کی سوئی اُٹھنا شروع ہوئی اور رفتار بڑھتی گئی۔مجھے تو اب خوف آنے لگا کہ کہیں ہم سامنے سے آنے والی گاڑیوں سے ٹکرا ہی نہ جائیں۔آخر میں نے ،خوف سے ہی، عابد صاحب سے کہا ،‘‘کہ پلیز،انجن اسٹارٹ کریں اور گاڑی کو کنٹرول کریں ،کہیں حادثہ ہی نہ ہوجائے ۔ ’’ وہ مسکرا پڑے اور گاڑی کو قابو میں لانے کی کوشش کرنے لگے۔اب سکون سے واپسی کا سفر جاری تھا۔وہی مناظر سامنے تھے جو جاتے ہوئے ملاحظہ کیے تھے۔ مسجد نبوی کے اوقات نماز کے مطابق تو،نماز ظہر کی جماعت کا وقت کافی دیر پہلے کا نکل چکا تھا۔اکرم صاحب نے عابد کو توجہ دلائی کہ کسی قریبی مسجد میں گاڑی روکیں ،تاکہ نماز ظہر ادا کی جائے۔مشورہ ہوا کہ مقام اُحد پر پہنچ کر ،مسجد سید الشہداء میں نماز ظہر ادا کریں گے اور پھر ہم کچھ دیر بعد جبل احد کے دامن میں واقع سید الشہدا ء مسجد پہنچ گئے ۔ایک بہت عمدہ سفر تھا۔ایک عجیب و غریب علاقہ تھا کہ وہاں ہم نے،دیگر مناظر قدرت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے بے مثال قدرتی مظہر کا مشاہدہ کیا جو پہلے کبھی نہ کیا تھا۔اِس سارے مشاہدے اورتجربے کو پر اسرار قرار دیا جاتا ہے۔اِس کی پُر اسراریت میں اضافہ وہ اَن پڑھ اور اُجڈ گائیڈ کرتے ہیں جو لوگوں کو ،اپنی کاروباری ضرورت کے تحت،طرح طرح کی کہانیاں سنا کر وہاں لے جانے پر اُبھارتے ہیں اور اپنے پیسے بناتے ہیں۔
پہلا نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔اِس پر میں پہلے ہی کچھ بات کر چکا ہوں ، کہ اگر یہ معجزہ ہوتا تو ،قرآن و سنت میں،روایات کے اتنے وسیع ذخیرے میں اور تاریخ و سیر کی کتب میں ضرور مذکور ہوتا ،لیکن ،تلاش بسیار کے باوجود مجھے ایسا کوئی اشارہ نہ مل سکا۔اِس سارے عمل کو تقدس نہ دینے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اِس قسم کے غیر روایتی اور پر اسرارمقامات ،دنیا بھر میں ،دیگر ممالک اور علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ امریکہ ،کینیڈا،اٹلی اور کئی دیگر ملکوں ایسی پہاڑیاں اور وادیا ں پائی جاتی ہیں۔ تفصیل کی ضرورت نہیں۔اِن ٹور گائیڈ حضرات کی طرف سے دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ یہ پُر اسرار چیزیں ،جنوں کی کارستانی ہے۔یہ جن ہیں جو ہماری گاڑی کو دھکا لگاتے ہیں۔اِس لیے اِس وادی کا نام ہی وادی جن رکھ لیا گیا ہے۔مصیبت یہ ہے کہ اِس طرح کے کئی دیگر مظاہر بھی ہیں جو ہمارے ہاں ،بڑی آسانی سے جنوں کی کارستانی قرار دے کر،تحقیق و جستجو سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔یہ پرانے توہم پرستانہ تصورات ہیں۔جوں جوں سائنس و تحقیق کے میدان میں کوئی انسان آگے بڑھتا ہے ایسے تمام پُر اسرار وقعات کی توجیح ہوتی چلی جاتی ہے۔ایک نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ وادی جن کے اِن پہاڑوں میں خاص قسم کی مقناطیسی قوت ہے جس کی بدولت یہ مظاہر ظاہرہوتے ہیں۔یہ نظریہ بھی اِس وجہ سے غلط ہے کہ لوہے کی بنی بس کوتو مقنا طیسی قوت نے کھینچ لیا ،پانی پر تو کوئی مقنا طیس اثر نہیں کرتا ،پھر پانی کیوں اُلٹا بہتا ہے۔
اِس طرح جتنے منہ اُتنی باتیں۔ 
اِن پر اسرار مقامات کو ایک نام دیا جاتا ہے (anti gravity hills) یعنی خلاف کشش ثقل پہاڑ۔کشش ثقل وہ عظیم الشان قوت ہے جو زمین کے اندر پائی جاتی ہے اور جس کی وجہ سے چیزیں زمین کی طرف گرتی ہیں ،اور یہاں ،وادی جن میں ،پانی کشش ثقل کے اِس قانون کے خلاف ،ڈھلان کی طرف بہنے کی بجائے،اُوپر چڑھائی چڑھتا ہے اور ہماری بس بھی اِس قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ کشش ثقل کے اتنے مضبوط قانون قدرت کی خلاف ورزی کیوں ہوتی ہے۔آخر کار ،وادی جن اور دیگر انٹی گریوٹی پہاڑیوں کی پر اسراریت کا راز سائنس دان جان ہی گئے۔اُن کے بقول یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا،کشش ثقل کے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔یہاں بھی پانی ڈھلان ہی کی طرف جاتا ہے اور یہاں بھی گاڑی پہاڑی سے اُترتے ہوئے ہی تیز ہوتی ہے ،جیسا کہ دیگر ہر جگہ ہوتا ہے۔ 
یہاں نہ کوئی جن زور آزما ہیں اور نہ ہی کوئی مقناطیسی قوت کارفرما ہے۔یہ سب بصری دھوکا (optical illusion)ہے،نظر کا دھوکا ہے۔مدینہ طیبہ میں اِس مقام پر،اور دنیا بھر کے ایسے دیگر مقامات پر،زمین ،پہاڑ،اور ارد گردکی چیزیں، کچھ اِس طریقے سے ترتیب وتشکیل پاتی ہیں کہ ہمیں پہاڑوں کی طرف جاتا راستہ بجائے چڑھائی کے ،ڈھلانی نظر آتا ہے۔یہ محض بصری دھوکاہوتا ہے،بالکل اِس طرح جیسے ہمیں ریگستانوں میں ،کڑی دھوپ میں سراب کی شکل میں سیل آب نظر آتا ہے۔ 
یکم اگست ۲۰۱۹ء بروز جمعرات
 مقام بدر کی طرف
غزو ہ بدر،کفر و اسلام کی پہلی جنگ تھی جو۱۷۔ رمضان دو ہجری کو، بدر کے میدان میں لڑی گئی۔اس جنگ کے اسباب، حالات و واقعات اور مجاہدین اسلام کی جانثاری اور جانبازی کے قصے ،سنتے سناتے ایک عمر بیت چلی ہے،خواہش تھی اور شدید خواہش تھی کہ وہ میدان اور وہ لشکر گاہ ،کبھی تو ان خاکسار آنکھوں کے سامنے ہو کہ جہاں پہلامعرکہ حق و باطل برپا ہوا تھا اور پھر میرا بخت جاگا اور آج میں اُ س عظیم لشکر گاہ میں تھا۔
یہ جمعرات یکم اگست ۲۰۱۹ء کی صبح تھی جب ہم عابد صاحب کے ساتھ مقام بدر کی طرف روانہ ہوئے۔بدر شہر ،مدینہ منورہ سے قریباً۱۲۰ کلو میٹر ،جنوب مغرب میں ہے۔یہ شہر یا بستی،مکہ مدینہ کی پرانی شاہراہ پر واقع ہے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے،بلکہ اُس سے بھی قبل کے زمانے سے مدینہ اورشام جانے کا یہی معروف کاروانی راستہ تھا۔مکہ مکرمہ یہاں سے قریباًساڑھے تین سو کلو میٹر جنوب میں ہے۔ماضی قریب تک ،زائرین کے قافلے اسی معروف کاروانی راستے پر چلا کرتے تھے لیکن اب،پچھلی چند دہائیوں سے، مکہ مدینہ کے درمیان ،اس راستے سے خاصا ہٹ کر ،نئی کشادہ اور جدیدسہولیات سے مزین،موٹر وے بنادی گئی ہے جس پر زائرین کے قافلے سفر کرتے ہیں۔گواس پرانے راستے پر بھی جدیدسڑک بنائی گئی ہے لیکن یہ مقامی حضرات کے استعمال کے لیے ہے ،زائرین کو،بوجوہ اس طرف جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ پہلے جتنی بار حرمین شریفین میں حاضر ہونے کی سعادت ملی ،ان سفری پابندیوں کے باعث مقام بدر پرجانا ممکن نہ ہو سکا ۔ اگرچہ یہ پابندی اب بھی ہے لیکن قدرے نرمی ہے اور اس نرمی سے ، کچھ مخصوص اور سیانے ٹیکسی ڈرائیور یا یہاں پر رہنے اور کام کرنے والے ہوشیارپاکستانی ہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں،اور ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اس دفعہ ہمیں ایک ایسا ہی پاکستانی میسر آ گیا ۔ شہداء بدر کے قبرستان میں حاضری اور میدان بدر کا مشاہدہ اورمسجد عریش کی زیارت کے شرف کا حصول،ممکن ہواتواس کا تمام تر کریڈٹ ، عزیز مکر م عابدعلی اور اُن کے دوست عرفان احمدکوجاتا ہے اور ہماری یہاں کی حاضری ممکن ہو سکی تویہ، اِن جرأت مند اور جی دار نوجوانوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکی۔اللہ کریم اُن کو اِس خدمت کی بہترین جزا دے ۔آمین۔
عابد صاحب کہنے لگے ،‘‘سعودی عرب میں حکومت نے ملک کے چاروں اطراف میں سڑکوں کا جال بنا رکھا ہے ۔ ایک ایک شہر کو کئی کئی راستے جاتے ہیں۔ بدر کی طرف یہاں سے کئی راستے اور سڑکیں نکلتی ہیں ۔ میں ایک دو بار وہاں گیا تو ہوں لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی نئی سڑک بنی ہوتی ہے۔اِدھر ہمیں پولیس کا بھی ڈر ہوتا ہے کہ نہ جانے کہاں کس سڑک پر اُن لوگوں نے تفتیش لگا رکھی ہو۔’’برادر اکرم صاحب کہنے لگے،‘‘ فکر نہ کریں ،اللہ مالک ہے ،نکل پڑے ہیں تو منزل پر پہنچ ہی جائیں گے۔اِن شاء اللہ۔’’میں نے بھی اکرم صاحب کی ہاں میں ہاں ملائی۔شکیل بھائی بھی کہنے لگے، بے فکر ہوکر چلیں جی ،پولیس کی طرف سے ،اللہ مالک ہے،راستے کا کوئی مسئلہ ہوا تو گوگل ہے ناں،لوکیشن آن کر لیں گے۔’’ 
ہوٹل سے نکل کر ،مدینہ طیبہ کے شہر کے دِل بہارنظارے ہمارے سامنے تھے۔کچھ دور مدینہ پاک کی سڑکوں اور گلیوں میں گھوما کیے ۔موسم اگرچہ گرم تھا لیکن گاڑی ٹھنڈی تھی۔شہر سے نکلتے ہوئے ،عابد صاحب نے ایک قلعہ نما محل کی طرف اشارہ کیا اوربتایا کہ وہ عروہ بن زبیر کا قلعہ ہے۔سیدنا عروہ بن زبیر، سیدنا زبیرؓ بن العوام اور سیدہ اسماء بنت ابوبکرؓ کے بیٹے تھے ۔آپ سیدنا عثمان کے زمانے میں پیدا ہوئے۔ان کے بڑے بھائی،حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اگر چہ سیاست میں حصہ لیتے تھے اور وہ امیر معاویہ کے بعدخلیفہ بھی رہے ،لیکن عروہ بن زبیر نے علمی ذوق اور شوق پایاتھا اور اپنی خالہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مایہ ناز شاگرد تھے۔ آپ بہت بڑے محدث اور فقیہ تھے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ کے سارے علم کے وارث تھے۔ آپ مدینہ منورہ کے سات مشہوراورجلیل القدر فقہا میں سے ایک ہیں۔سیرت پر اور حدیث پر آپ نے کتابیں لکھیں لیکن وہ زیادہ عرصہ ،بوجوہ چل نہ سکیں۔افسوس کہ ہم اس عظیم الشان محل کی زیارت کو نہ جا سکے چلتے چلتے ،صحیح لوکیشن کا تو اندازہ نہیں ،البتہ ،نہر زبیدہ کے کھنڈرات وآثارات بھی نظر پڑے۔(نہر زبیدہ مکہ میں ہے یہاں مصنف کا بیان محل نظر ہے )وادی عقیق سے بھی گزرے جو کہ ایک سیلابی نالہ ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پانی اور اس کی زمین کی تعریف فرمائی تھی۔وادی عتیق ،مدینہ طیبہ کی ایک معروف وادی ہے جس کاذکر احادیث کی کتابوں سے لے کر ، تاریخ و ادب کی کتابوں تک میں بارہا پڑھا ہے۔اس کے کناروں پرہر دور کے اُونچے طبقات کے محلات تعمیر ہوتے تھے اور ثقافتی و سماجی مجالس کا انعقاد ہو اکرتا تھا۔اس کو بھی دور سے دیکھتے، اسی طرح ،چلتے چلتے ہم ،ابیار علی کے علاقے سے بھی گزرے ،مسجد ذوالحلیفہ بھی نظر پڑی جو اہل مدینہ طیبہ کے لیے میقات مقرر کی گئی ہے اور یوں ہم مدینہ طیبہ سے باہر نکل آئے۔ایک جگہ پر پولیس تفتیش لگی تھی ،جسے دیکھ کر،ایک بار تو،ہم سب کے پتے پانی ہوگئے لیکن ،اللہ کا فضل ہے کہ ہم بخیریت گزر گئے۔
نہایت عمدہ اور خوش گوار صبح تھی۔شہر مدینہ اور اس کے آس پاس کی ہوائیں اور فضائیں تھیں اور ہم تھے۔پھر پہاڑی سلسلے شروع ہو گئے۔خشک ،پتھریلے پہاڑ،لیکن دلکش ،محبت آفریں اور تقدس لیے ہوئے ، کہ انھی دشوار گزار راستوں اور سنگلاخ زمینوں سے ،میرے محبوب رسول سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلہ جہاد گزرا تھا۔جفا کش ،وفا کیش اور جانباز و جانثار صحابہ کا قافلہ،انھی راستوں سے ہو کربدر پہنچا تھا۔
ہم ایک بڑی خوبصورت اور کشادہ شاہراہ پر تھے۔نئی نئی تعمیر شدہ سڑک لگتی تھی ۔ٹریفک کا کوئی رش نہ تھابس اِکا دُکا گاڑیاں چلتی نظر آئیں۔سڑک کے دونوں طرف ،یا توپہاڑ دُور دُور تک پھیلے ہوئے نظر آتے تھے یا پہاڑوں اور سڑک کے درمیان وسیع بے آب و گیاہ زمین نظر نواز رہتی تھی۔کہیں کہیں سبزہ اور کھجور کے باغات بھی تھے ۔ کہیں کہیں ،پہاڑوں کے دامن میں ریتلی زمین اور صحرائی جڑی بوٹیاں،جو ہمیں اپنے تھل کے علاقے میں نظر آتی ہیں،بھی اُگی ہوئی نظر آرہی تھیں۔اس علاقے میں میرے لیے سب سے بڑی دلکشی اور دلچسپی صرف اس امر میں تھی کہ صدیوں قبل پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے سے گزرے تھے۔ہر پتھر،ہر بوٹے، ہر پتے ، ریت کے ہر ذرے اورراستے کے ہر کنکر کو ، بڑی محبت اور بڑے چاؤ سے تک رہا تھاکہ کبھی یہ میرے محبوب کے قدموں کی دھول بنے تھے۔پچھلے سال ،خاکسار بدر میں حاضر ہونے کے لیے اِدھر سے گزرا تھا،اگرچہ زمینی خدو خال تو وہی تھے لیکن اُس روڈ کی کوئی خاص چیز مجھے اب نظر نہیں آرہی تھی ،کوئی نشانی سامنے نہیں آئی ،میں سوچتا کہ یا تو میں بھول بھال گیا ہوں یا پھر یہ راستہ کوئی اور ہے ۔بہر حال کچھ بھی ہو،ہم مقام بدر کی طرف رواں دواں تھے۔یہ موٹر وے تھی جو ینبوع کی طرف جا رہی تھی،اس کو چھوڑ کر اب ہم بدر کی سڑک پرآگئے تھے۔اب جس روڈ پر ہم چل رہے ہیں ،یہ سنگل روڈ ہے لیکن نہایت صاف ستھری اور نئی نویلی ہے۔ارد گرد کے مناظر وہی ہیں جو ہم پیچھے سے ملاحظہ کرتے آ رہے تھے۔راستے میں کچھ کھنڈر نما مکانات اور اُجڑی ہوئی بستیاں دکھائی دیں،جس کے بارے میں ہم میں سے کسی نے بتایا کہ یہ عذاب والی قوموں کی بستیاں ہیں ،لیکن میرااس بات سے اتفاق نہیں ہے۔میرا اندازہ یہ ہے کہ یہ نقل مکانی کر جانے والے لوگوں کی بستیوں کے کھنڈرات ہیں ۔ سعودی عرب میں تیل کی دولت کی آمد کے بعد،بدوؤں کی شہروں کی طرف ،نقل مکانی معروف بات ہے۔یہ کھنڈرات صدیوں پرانے نہیں لگتے تھے بلکہ دہائیوں پرانے لگتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ 
سڑک کے ساتھ ساتھ کوئی خاص آبادی ،گاؤں یا شہر،یا زرعی زمین اور باغات وغیرہ خال خال نظر آئے۔سڑک کے کنارے لگے سائن بورڈز سے مختلف معلومات مل رہی تھیں۔ایک چھوٹے سے قصبے سے گزرے ،بورڈ نے اُس کا نام المسیجید بتایا۔چھوٹی سی آبادی تھی لیکن صاف ستھری دکھائی دیتی تھی۔اُس کے کچھ دور المدیلح نام کی بستی تھی جس میں کھجور کے باغات تھے۔خوب صورت اور دلکش ،مجھے ایسے اندازہ ہے کہ یہ پودے نئے نئے لگے تھے۔ راستے میں نظر آئے ایک کنویں کی طرف ہمارے ڈرائیور صاحب نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیئر آب ِ شفا ہے ۔ لوگ یہاں سے پانی لے جاتے ہیں اور مختلف امراض کے علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مجھے اس کنویں کی کسی قسم کی تاریخی اہمیت کا علم نہیں ہے۔ باقی، ایسے کنویں ہر جگہ اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں ، لوگوں کے توہمات اور اُن کے نفسیاتی مسائل ،انھیں اس طرح کی چیزوں کی طرف مائل کرتے ہیں،مسلم اور غیر مسلم ،سب اس اُلجھاوے میں پھنسے ہوئے ہیں۔اب ہم ایک بڑی دلکش وادی سے گزر رہے ہیں،یہ وادی الحمراء ہے۔ خوبصورت پہاڑ ، پہاڑ اور سڑک کے درمیان تھوڑا تھوڑا سبزا اور درخت ،بہت بھلے لگ رہے تھے۔زمین بھی نرم اورریتلی ہے۔پہاڑ سڑک کے قریب آگئے ہیں۔ روایت کیاجاتا ہے کہ یہ وہ وادی ہے جہاں پر قیام کے دوران میں ،پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تھی اور جاگنے پر اُنھوں نے وہ خوبصورت نعت لکھی جس کا پہلا مصرع یہ ہے، 
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا ، گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں ،
 الواسطہ،الحسنیہ،القارعہ،اور الجدید نام کی چھوٹی چھوٹی بستیاں گزریں،جن کا سیرت طیبہ کے ساتھ‘‘ کوئی رشتہ’’ میرے علم میں نہیں ہے سوائے اس خیال کے ،کہ غزوہ بدر کے موقع پر،آتے ہوئے ،یا جاتے ہوئے ،شاید ان بستیوں نے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی کی ہو۔اگرچہ تاریخ نے حضور سرور عالم کے اس عظیم سفر کی داستان اور اس کا جغرافیہ محفوظ رکھا ہے ،لیکن نہ وقت ہے ،نہ موقع کہ تحقیق کر کے یہاں کچھ تحریر کیا جائے۔ پہاڑوں کے نام ،وادیوں کے نام ،حتیٰ کہ راستے کے موڑ اور اونچ نیچ کے بھی نام ہوتے ہیں ،یہاں بھی ہونگے،تاریخ نے کچھ کا بیان بھی کیا ہے لیکن یہ سب کچھ ایک محققانہ مشقت کا تقاضاکرتا ہے،جس کا یہاں موقع نہیں۔ اگرچہ بیشتر سڑکیں پرانے چلتے ہوئے راستوں پر بنائی جاتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن سے ہٹ کر نئے راستے اور نئے روڈز بھی بنائے جاتے ہیں۔اس وجہ سے تاریخی کتب میں لکھے گئے گاؤں اور بستیاں بسا اوقات نئے روٹس پر نظر نہیں بھی آتے۔ہمارے لیے بس یہ بات ہی پر کشش اور لائق اطمینان تھی کہ ہم اُس مقام پر پہنچ رہے تھے جہاں پہلا قافلہ جہاد رکا تھا اور مجاہد اعظم سیدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں پہلا معرکہ حق و باطل برپا ہوا تھا۔(جاری ہے)