قبر کے بجائے والدین کی خدمت کریں

مصنف : روبینہ قریشی

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : جنوری 2021

میرے بابا ایک کم پڑھے لکھے لیکن کاروباری اونچ نیچ سے بہرہ ور ایک کامیاب تاجر تھے۔دادی جب ابا کا رشتہ کرنے لگیں تو انکی پہلی ترجیح پڑھی لکھی لڑکی تھی۔چاہے کسی غریب گھرانے کی ہو۔ یوں میرے بابا کی شادی انتہائی خوبصورت اور بی اے پاس میری ا می سے ہو گئی۔پتہ نہیں کیسے جب میں نے امی کو امی بلانا شروع کیا تو میرے منہ سے لفظ ممی نکلا۔یوں میری بہنوں کی امی میری ممی بن گئی۔ممی نہ صرف شکل کی پیاری تھیں بلکہ بہت سلیقہ مند اور سگھڑ بھی تھیں۔ان کی چار بہنیں اور بھی تھیں۔نانا ابو ایک سکول میں استاد تھے۔ ننھیال غریب تھے لیکن سارے پڑھے لکھے 
بابا کا گھرانا دولت مند تھا لیکن اخلاقی قدروں میں ممی کی فیملی سے کم تھا۔مجموعی طور پہ یہ شادی بظاہر ٹھیک تھی۔میں اپنی پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹا تھا اور سب کا پیارا تھا، میرا اور میری سب سے چھوٹی بہن کا عمر کا وقفہ 10 سال کا تھا۔ممی بیٹے کے شوق میں ہر سال بچہ پیدا کرتی رہیں اور ہر سال بیٹی آتی گئی۔آخر کار جب وہ اللہ کی کرنی پہ صبر شکر کر کے بیٹھ رہیں تو 10 سال کے وقفے سے میں دنیا میں آ گیا۔ یوں میری ممی کی زندگی کا دائرہ مکمل ہو گیا۔
ممی اپنی ساری بیٹیوں کو اور مجھے بھی ڈھیر سارا پڑھانا چاہتی تھیں لیکن بابا بچیوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہ تھے۔میری ساری بہنوں کی شادیاں میٹرک کے بعد ہوتی گئیں اور ماشااللہ سب کو اچھے سسرال ملے۔جس کی ایک وجہ تو بہنوں کی بہترین تربیت ان کا اپنا طریقہ سلیقہ، انکا حسن اور دوسری وجہ بابا کا مالی طور پہ مستحکم ہونا تھا۔ جب تک میں نے ہوش سنبھالا میری سب سے چھوٹی بہن کی بھی شادی ہو چکی تھی یوں میری دوستی بہنوں سے نہ ہو سکی لیکن ممی کے ساتھ ماں بیٹے والی محبت سے زیادہ میری دوستی تھی۔شائد جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں نے نوٹ کیا کہ بابا ہم لوگوں سے تو پیار کرتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں اُنہیں ممی سے بالکل لگاؤ نہیں تھا ۔ان کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ان کے میکے والوں کا مذاق اڑاناان کا معمول تھا۔ اگر کبھی ننھیال سے کسی نے آنا ہوتا تو بابا کا موڈ سخت خراب ہو جانا، بتیاں پنکھے بند کر دینا، خرچوں کا رونا، شروع ہو جانااسی طرح کی اور بہت ساری باتیں،جن سے انکی ناگواری کا پتہ چل جاتا
ممی آہستہ آہستہ میکے والوں سے کنارہ کشی کرتی گئیں۔بابامیں بظاہر کوئی بری عادت نہ تھی۔برے دوستوں کی محفل بھی نہیں تھی
لیکن وہ بہت کڑوی زبان والے اور ہاتھ چھٹ تھے۔اکثر ممی کو تھپڑدے مارتے تھے 
انہیں اپنے کاروبار سے لگاؤ تھا، بہت جمع تفریق کرنے والے، پیسہ پیسہ بچا کے رکھنے والے۔انکے خیال میں بچیوں کو زیادہ پڑھانا بالکل فضول تھا۔ بس انہیں بہت سا جہیز دے کے رخصت کر دیں۔اگر کوئی پیسہ خرچ کرنا بھی ہوتا تو ساری دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ ملک صاحب نے اتنا کچھ لٹایا ہے
 جبکہ ممی رنگوں کی، پھولوں کی، خوشبوؤں کی، تتلیوں کی باتیں کرنے والی، لوگوں کے غم کو محسوس کرنے والی شخصیت تھیں۔
بابا کی حرکتوں کی وجہ سے میرا جھکاؤ ماں کی طرف بڑھتا چلا گیا۔اسی طرح ممی کی دوستی انکی شاعری، ان کے ساتھ انکے دکھ سکھ سنتے سناتے میں میٹرک میں آگیا۔میری پیاری ممی نے مجھے ہمیشہ یہی سکھایا کہ عورت جس روپ میں آپکی زندگی میں آئے اسکی عزت کرنا۔خاص طور پہ وہ عورت جسکی زندگی کی ڈور تم سے بندھ جائے اسکی بہت عزت کرنا
ممی جتنا مجھ سے پیار کرتی تھیں اتنا وہ اور کسی سے نہیں کرتی تھیں۔جب ہم بیٹھ کے باتیں کررہے ہوتے تو وہ مجھے بتاتیں کہ تمھاری بڑی بہنوں کی دفعہ تو مجھے وقت ہی نہیں ملا ان سے پیار کرنے کا۔انکی تو بس خدمت کی انہیں بڑا کیا اور شادیاں کر دیں
اب تم میرے ساتھ ہو تو تم میری بیٹی بھی ہو میرے دوست بھی ہو اور میرے بیٹے بھی ہو۔وہ میری پہلی محبت تھیں جبکہ میں انکی آخری محبت تھا۔باباکیونکہ زیادہ پڑھنے کے حق میں نہیں تھے تو ٹیوشن وغیرہ کو بالکل غیر ضروری کہتے۔لیکن ممی اپنے گھر کے خرچ میں سے بچت کر کے مجھے ٹیوشن بھیجتیں۔میرے ایف ایس سی میں نمبر بہت اچھے آئے تو ممی کو مجھے ڈاکٹر بنانے کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔جب بابا کو پتہ چلاکہ میں آگے پڑھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے صاف منع کر دیا۔بابا کا کہنا تھا کہ تم میرے ایک ہی بیٹے ہو۔ بس دکان پہ بیٹھو اور کاروبار سنبھالو۔میں خود بھی دکان پہ بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔شاید ممی نے بچپن سے ہی میرے ذہن میں بہت سا پڑھنے کا خیال ڈال دیا تھا۔میں وہ دن کیسے بھولوں
جب ممی نے میرے میڈیکل کالج کے داخلے کیلئے زندگی میں پہلی مرتبہ بابا سے اونچی آواز میں بات کی اور بابا ممی کو بالوں سے پکڑ کے گھسیٹتے ہوے دوسرے کمرے میں لے گئے اور انہیں بہت برا مارا۔اس دن میں بابا کے سامنے آگیا اور میں اپنی پیاری ممی کے حق میں بابا سے الجھ پڑا کہ مجھ سے بات کریں۔ان کی سوچ میں بھی نہیں تھا کہ ان سے کوئی اونچی آواز میں بات بھی کرے گا۔انہوں نے کھڑے کھڑے مجھے گھر سے نکل جانے کا حکم سنا دیا۔میں بھی ان کا ہی بیٹا تھا، میں کب کسی کی بات برداشت کرتا۔بیگ میں دو چوڑے کپڑے رکھے اور گھر سے نکل آیا۔میں میٹرک اور ایف ایس سی کا اپنے کالج کا ٹاپ پوزیشن ہولڈر طالب علم تھا۔میں نے اپنے ایک مخلص دوست کو کہا کہ یار میں کچھ کام کرنا چاہتا ہوں جب تک کہ میڈیکل کالج کی میرٹ لسٹ نا لگ جائے۔انٹری ٹیسٹ اس وقت تک متعارف نہیں ہوا تھا۔قصہ مختصر یہ کہ میں نے اپنے بل بوتے پہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔میں تیسرے سال میں تھا جب بابا نے شائد محبت سے مجبور ہو کے ممی کو بھیجا کہ اس کو منا کے لے آؤ۔اگر بابا خود آتے تو میں کبھی واپس نہ آتا لیکن یہ تو میری پیاری ممی تھیں جو مجھے لینے آئیں تھیں اور میرے آگے ہاتھ باندھے بیٹھی تھیں۔میں ممی کے گلے لگ کے اتنا رویا جیسے کوئی چھوٹا بچہ روتا ہے
بہر حال میں گھر تو آگیا لیکن میرا دل نہ گھر میں لگا اور نہ ہی بابا کی طرف سے صاف ہوا
یہاں تک کہ میری ہاؤس جاب شروع ہو گئی
میرے دوست کی بہن، مدیحہ جو میری ہم جماعت بھی تھی اس کیلئے میں نے ممی سے کہا
گو کہ بابا کے ذہن میں اپنی فیملی سے کچھ لڑکیاں تھیں لیکن انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔بہت جلد میں اور مدیحہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔میرا دل پاکستان سے اچاٹ ہو چکا تھا۔بہنیں میرے ساتھ پیار کرتی تھیں، میں بھی ان سے پیار کرتا تھا 
بابا بھی پیار کرتے ہونگے لیکن انہوں نے کبھی کھل کے مجھ سے پیار کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن شدید محبت مجھے صرف ممی سے تھی میں نے یہ سوچ کے کینیڈا امیگریشن کیلئے اپلائی کر دیا کہ جلد ہی انہیں بھی بلوا لوں گا۔
بہت جلد امیگریشن ہو گئی۔لیکن یہاں پھر ایک اور امتحان پاس کرنا تھایہاں نئے سرے سے ساری پڑھائی ہم دونوں کو پھر سے کرنا پڑی۔پھر ورک لائسنس وغیرہ کا سارا کام پورا ہونے میں دس سال گزر گئے
اس عرصے میں میرا کوئی چکر پاکستان نہیں لگ سکا۔بہنوں سے کبھی کبھار بات ہو جاتی۔ممی سے شروع شروع میں بات ہوتی رہی لیکن پھر وقفے طویل ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ بہت دفعہ انکی کالیں دیکھنے کے بعد مجھے وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ واپسی کال کر لوں۔انہیں دنوں میں مجھے ممی نے بتایا کہ تمھارے بابا کی طبیعت بہت خراب ہے، انہیں جگر کا کینسر تھا، انکے پیٹ میں پانی پڑ چکا تھا، انکے بچنے کے امکانات بہت کم تھے۔وہ جیسے بھی تھے بہرحال میرے باپ تھے، میں نے فوری طور پہ پاکستان جانے کا پروگرام بنایا۔مدیحہ اور دونوں بچوں کے ساتھ جب میں پاکستان پہنچا تو بابا کی میت قبرستان میں رکھی ہوئی میرا انتظار کر رہی تھی۔ممی غم سے نڈھال نظر آرہی تھیں۔ساری بہنیں انہیں سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔جب میں نے انہیں گلے لگایا تو وہ بہت ٹوٹ کے روئیں۔
پیاری ممی ان دس سالوں میں بہت ہی بوڑھی ہو گئی تھیں۔
 مجھے بنانے سنوارنے میں انہوں نے پوری زندگی لگا دی تھی لیکن میں نے انہیں کیا دیا؟
انکا فون آتا تو نظریں چرا لیتا، انکی باتوں کو بے دھیانی سے سنتا۔فون پہ دم کر رہی ہوتیں تو فون رکھ دیتا۔سوچا کہ اب میں اپنی ساری غلطیوں کی تلافی کردوں گا۔ انہیں پنے ساتھ ہی لے جاؤں گالیکن یہ سب باتیں ہی رہیں۔دس روز کے بعد مجھے واپس آنا ہی تھا ۔میرے مریض پورا پورا مہینہ پہلے وقت لیتے تھے۔ میں انہیں کیسے چھوڑ کے ادھر بیٹھ سکتاتھابچوں کی پڑھائی کا بھی حرج ہورہا تھا۔مدیحہ کو بھی ہاسپٹل جانا ہوتا تھا۔میں واپس آگیا، گو کہ بابا کے ساتھ بہت انسیت تو کبھی نہ تھی لیکن پھر بھی مجھے لگتا تھا کہ میں اندر سے خالی خالی سا ہوگیا ہوں۔کچھ عرصے کے بعد بیٹے نے انجنئیرنگ کر لی۔اس نے اایک انگریز لڑکی کو پسند کیا ہوا تھا،ہم نے شرط رکھی کہ اسے مسلمان کرو ہم تمھاری شادی اس سے کریں گے ۔جب وہ مسلمان ہو گئی تو ہم نے اسکی شادی اس لڑکی سے کر دی اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ دوسرے شہر میں منتقل ہو گیا۔ مدیحہ سے میں بہت کہتا تھا کہ میری پریکٹس اچھی ہے تم گھر بیٹھ کے بچوں کو دیکھا کرو
اگر میں سختی کرتا تو شائد وہ میری بات مان بھی لیتی لیکن ہماری ماں نے ہمیں ہمیشہ عورت کی عزت اور خصوصاً اس عورت کی عزت کا درس دیا تھا کہ جو آپکے ساتھ نکاح کی ڈور میں بندھ جائے ۔اس لئے میں نے اس پہ کبھی سختی نہیں کی۔لیکن بیٹے والے واقعے کے بعد میں بہت خوفزدہ تھا کہ کہیں بیٹی بھی کسی غیر مذہب لڑکے کو پسند نہ کر لے۔اس لئے میں نے فوری طور پہ بیٹی کی پسند سے انڈین مسلمان گھرانے میں پڑھائی کے دوران ہی اس کی شادی کر دی
کچھ عرصے کے بعد میں نارمل ہو گیا۔شروع شروع میں ممی سے رابطہ جلدی ہوتا لیکن آہستہ آہستہ وقفے طویل ہونا شروع ہو گئے
وہ فروری کی برف میں ڈوبی ہوئی صبح تھی جب ممی کی کال آئی ان کی آوازکانپ رہی تھی۔شاید میں دوبارہ تم سے بات نہ کر پاؤں۔میرا وقت اب قریب ہے، کاش ایک دفعہ میں تمہیں اپنے سینے سے لگا کے پیار کر سکتی،،اس کے بعد فون کٹ گیا۔
میں تو ممی سے بہت زیادہ، بے تحاشا پیار کرتا تھا، لیکن خالی پیار سے کیا ہوتا ہے۔
ہم بچے والدین کی محبت کو اپنا حق سمجھ کے سمیٹتے رہتے ہیں لیکن انہیں تھوڑا سا وقت نہیں دے پاتے۔میں نے مدیحہ اور بچوں کو ادھر ہی چھوڑا اور فوری طور پہ پاکستان کی سیٹ کروائی۔جب گھر پہنچا تو میری ساری بہنیں ممی کے ارد گرد اکھٹی تھیں۔انکی آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ ایک آنکھ سے نور ختم ہو چکا تھا۔میر ی آواز سنی تو آسمان کی طرف جمی ہوئی آنکھ میں جنبش ہوئی۔انکے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور انہوں نے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دی، وہ مسکراہٹ چہرے پہ ہی رہ گئی۔بس صرف میرے انتظار میں انکی جان اٹکی ہوئی تھی۔
میری ماں، میری ممی، میری پہلی محبت میری لا پرواہیوں سے تھک کے خاموشی سے آنکھیں بند کر کے سو گئی۔
 ممی کو میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کے آخری گھر میں پہنچایا۔ان کے گھر کو، میں نے پھولوں سے بھر دیا ہے۔میں نے اپنے گھر کو تھوڑا ردو بدل کر کے اس کو ایسی ترتیب دے لی ہے کہ جب صبح میری آنکھ کھلتی ہے تو سامنے ممی کا گھر (قبر)نظر آرہا ہوتا ہے۔نماز فجر پڑھ کے میں وہاں چلا جاتا ہوں۔سورہ ملک کی تلاوت انکے پاس بیٹھ کے کرتا ہوں۔پھر پھولوں کو، پودوں کو پانی لگاتا ہوں۔ ان پہ تتلیاں آتی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ انکی روح انہیں دیکھ کے خوش ہو رہی ہو گی۔
 بچے کینیڈا میں ہیں مدیحہ سے میں نے کہا ہے کہ تم پاکستان آجاؤ لیکن وہ بھی ماں ہے نا
 گھر پہ بچوں کا انتظار کرتی رہتی ہے۔جس ہفتے انہوں نے آنا ہوتا ہے انکے لئے کھانا بناتی ہے، چھوٹے پوتے کیلئے جو کھلونے خریدے ہوتے ہیں وہ اسے دے کے اسکی خوشی کو دیکھ کے خوش ہوتی ہے۔
 اور میں اب باقی زندگی اسی گھر اور اسی کمرمیرے بابا ایک کم پڑھے لکھے لیکن کاروباری اونچ نیچ سے بہرہ ور ایک کامیاب تاجر تھے۔دادی جب ابا کا رشتہ کرنے لگیں تو انکی پہلی ترجیح پڑھی لکھی لڑکی تھی۔چاہے کسی غریب گھرانے کی ہو۔ یوں میرے بابا کی شادی انتہائی خوبصورت اور بی اے پاس میری ا می سے ہو گئی۔پتہ نہیں کیسے جب میں نے امی کو امی بلانا شروع کیا تو میرے منہ سے لفظ ممی نکلا۔یوں میری بہنوں کی امی میری ممی بن گئی۔ممی نہ صرف شکل کی پیاری تھیں بلکہ بہت سلیقہ مند اور سگھڑ بھی تھیں۔ان کی چار بہنیں اور بھی تھیں۔نانا ابو ایک سکول میں استاد تھے۔ ننھیال غریب تھے لیکن سارے پڑھے لکھے 
بابا کا گھرانا دولت مند تھا لیکن اخلاقی قدروں میں ممی کی فیملی سے کم تھا۔مجموعی طور پہ یہ شادی بظاہر ٹھیک تھی۔میں اپنی پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹا تھا اور سب کا پیارا تھا، میرا اور میری سب سے چھوٹی بہن کا عمر کا وقفہ 10 سال کا تھا۔ممی بیٹے کے شوق میں ہر سال بچہ پیدا کرتی رہیں اور ہر سال بیٹی آتی گئی۔آخر کار جب وہ اللہ کی کرنی پہ صبر شکر کر کے بیٹھ رہیں تو 10 سال کے وقفے سے میں دنیا میں آ گیا۔ یوں میری ممی کی زندگی کا دائرہ مکمل ہو گیا۔
ممی اپنی ساری بیٹیوں کو اور مجھے بھی ڈھیر سارا پڑھانا چاہتی تھیں لیکن بابا بچیوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہ تھے۔میری ساری بہنوں کی شادیاں میٹرک کے بعد ہوتی گئیں اور ماشااللہ سب کو اچھے سسرال ملے۔جس کی ایک وجہ تو بہنوں کی بہترین تربیت ان کا اپنا طریقہ سلیقہ، انکا حسن اور دوسری وجہ بابا کا مالی طور پہ مستحکم ہونا تھا۔ جب تک میں نے ہوش سنبھالا میری سب سے چھوٹی بہن کی بھی شادی ہو چکی تھی یوں میری دوستی بہنوں سے نہ ہو سکی لیکن ممی کے ساتھ ماں بیٹے والی محبت سے زیادہ میری دوستی تھی۔شائد جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں نے نوٹ کیا کہ بابا ہم لوگوں سے تو پیار کرتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں اُنہیں ممی سے بالکل لگاؤ نہیں تھا ۔ان کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ان کے میکے والوں کا مذاق اڑاناان کا معمول تھا۔ اگر کبھی ننھیال سے کسی نے آنا ہوتا تو بابا کا موڈ سخت خراب ہو جانا، بتیاں پنکھے بند کر دینا، خرچوں کا رونا، شروع ہو جانااسی طرح کی اور بہت ساری باتیں،جن سے انکی ناگواری کا پتہ چل جاتا
ممی آہستہ آہستہ میکے والوں سے کنارہ کشی کرتی گئیں۔بابامیں بظاہر کوئی بری عادت نہ تھی۔برے دوستوں کی محفل بھی نہیں تھی
لیکن وہ بہت کڑوی زبان والے اور ہاتھ چھٹ تھے۔اکثر ممی کو تھپڑدے مارتے تھے 
انہیں اپنے کاروبار سے لگاؤ تھا، بہت جمع تفریق کرنے والے، پیسہ پیسہ بچا کے رکھنے والے۔انکے خیال میں بچیوں کو زیادہ پڑھانا بالکل فضول تھا۔ بس انہیں بہت سا جہیز دے کے رخصت کر دیں۔اگر کوئی پیسہ خرچ کرنا بھی ہوتا تو ساری دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ ملک صاحب نے اتنا کچھ لٹایا ہے
 جبکہ ممی رنگوں کی، پھولوں کی، خوشبوؤں کی، تتلیوں کی باتیں کرنے والی، لوگوں کے غم کو محسوس کرنے والی شخصیت تھیں۔
بابا کی حرکتوں کی وجہ سے میرا جھکاؤ ماں کی طرف بڑھتا چلا گیا۔اسی طرح ممی کی دوستی انکی شاعری، ان کے ساتھ انکے دکھ سکھ سنتے سناتے میں میٹرک میں آگیا۔میری پیاری ممی نے مجھے ہمیشہ یہی سکھایا کہ عورت جس روپ میں آپکی زندگی میں آئے اسکی عزت کرنا۔خاص طور پہ وہ عورت جسکی زندگی کی ڈور تم سے بندھ جائے اسکی بہت عزت کرنا
ممی جتنا مجھ سے پیار کرتی تھیں اتنا وہ اور کسی سے نہیں کرتی تھیں۔جب ہم بیٹھ کے باتیں کررہے ہوتے تو وہ مجھے بتاتیں کہ تمھاری بڑی بہنوں کی دفعہ تو مجھے وقت ہی نہیں ملا ان سے پیار کرنے کا۔انکی تو بس خدمت کی انہیں بڑا کیا اور شادیاں کر دیں
اب تم میرے ساتھ ہو تو تم میری بیٹی بھی ہو میرے دوست بھی ہو اور میرے بیٹے بھی ہو۔وہ میری پہلی محبت تھیں جبکہ میں انکی آخری محبت تھا۔باباکیونکہ زیادہ پڑھنے کے حق میں نہیں تھے تو ٹیوشن وغیرہ کو بالکل غیر ضروری کہتے۔لیکن ممی اپنے گھر کے خرچ میں سے بچت کر کے مجھے ٹیوشن بھیجتیں۔میرے ایف ایس سی میں نمبر بہت اچھے آئے تو ممی کو مجھے ڈاکٹر بنانے کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔جب بابا کو پتہ چلاکہ میں آگے پڑھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے صاف منع کر دیا۔بابا کا کہنا تھا کہ تم میرے ایک ہی بیٹے ہو۔ بس دکان پہ بیٹھو اور کاروبار سنبھالو۔میں خود بھی دکان پہ بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔شاید ممی نے بچپن سے ہی میرے ذہن میں بہت سا پڑھنے کا خیال ڈال دیا تھا۔میں وہ دن کیسے بھولوں
جب ممی نے میرے میڈیکل کالج کے داخلے کیلئے زندگی میں پہلی مرتبہ بابا سے اونچی آواز میں بات کی اور بابا ممی کو بالوں سے پکڑ کے گھسیٹتے ہوے دوسرے کمرے میں لے گئے اور انہیں بہت برا مارا۔اس دن میں بابا کے سامنے آگیا اور میں اپنی پیاری ممی کے حق میں بابا سے الجھ پڑا کہ مجھ سے بات کریں۔ان کی سوچ میں بھی نہیں تھا کہ ان سے کوئی اونچی آواز میں بات بھی کرے گا۔انہوں نے کھڑے کھڑے مجھے گھر سے نکل جانے کا حکم سنا دیا۔میں بھی ان کا ہی بیٹا تھا، میں کب کسی کی بات برداشت کرتا۔بیگ میں دو چوڑے کپڑے رکھے اور گھر سے نکل آیا۔میں میٹرک اور ایف ایس سی کا اپنے کالج کا ٹاپ پوزیشن ہولڈر طالب علم تھا۔میں نے اپنے ایک مخلص دوست کو کہا کہ یار میں کچھ کام کرنا چاہتا ہوں جب تک کہ میڈیکل کالج کی میرٹ لسٹ نا لگ جائے۔انٹری ٹیسٹ اس وقت تک متعارف نہیں ہوا تھا۔قصہ مختصر یہ کہ میں نے اپنے بل بوتے پہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔میں تیسرے سال میں تھا جب بابا نے شائد محبت سے مجبور ہو کے ممی کو بھیجا کہ اس کو منا کے لے آؤ۔اگر بابا خود آتے تو میں کبھی واپس نہ آتا لیکن یہ تو میری پیاری ممی تھیں جو مجھے لینے آئیں تھیں اور میرے آگے ہاتھ باندھے بیٹھی تھیں۔میں ممی کے گلے لگ کے اتنا رویا جیسے کوئی چھوٹا بچہ روتا ہے
بہر حال میں گھر تو آگیا لیکن میرا دل نہ گھر میں لگا اور نہ ہی بابا کی طرف سے صاف ہوا
یہاں تک کہ میری ہاؤس جاب شروع ہو گئی
میرے دوست کی بہن، مدیحہ جو میری ہم جماعت بھی تھی اس کیلئے میں نے ممی سے کہا
گو کہ بابا کے ذہن میں اپنی فیملی سے کچھ لڑکیاں تھیں لیکن انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔بہت جلد میں اور مدیحہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔میرا دل پاکستان سے اچاٹ ہو چکا تھا۔بہنیں میرے ساتھ پیار کرتی تھیں، میں بھی ان سے پیار کرتا تھا 
بابا بھی پیار کرتے ہونگے لیکن انہوں نے کبھی کھل کے مجھ سے پیار کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن شدید محبت مجھے صرف ممی سے تھی میں نے یہ سوچ کے کینیڈا امیگریشن کیلئے اپلائی کر دیا کہ جلد ہی انہیں بھی بلوا لوں گا۔
بہت جلد امیگریشن ہو گئی۔لیکن یہاں پھر ایک اور امتحان پاس کرنا تھایہاں نئے سرے سے ساری پڑھائی ہم دونوں کو پھر سے کرنا پڑی۔پھر ورک لائسنس وغیرہ کا سارا کام پورا ہونے میں دس سال گزر گئے
اس عرصے میں میرا کوئی چکر پاکستان نہیں لگ سکا۔بہنوں سے کبھی کبھار بات ہو جاتی۔ممی سے شروع شروع میں بات ہوتی رہی لیکن پھر وقفے طویل ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ بہت دفعہ انکی کالیں دیکھنے کے بعد مجھے وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ واپسی کال کر لوں۔انہیں دنوں میں مجھے ممی نے بتایا کہ تمھارے بابا کی طبیعت بہت خراب ہے، انہیں جگر کا کینسر تھا، انکے پیٹ میں پانی پڑ چکا تھا، انکے بچنے کے امکانات بہت کم تھے۔وہ جیسے بھی تھے بہرحال میرے باپ تھے، میں نے فوری طور پہ پاکستان جانے کا پروگرام بنایا۔مدیحہ اور دونوں بچوں کے ساتھ جب میں پاکستان پہنچا تو بابا کی میت قبرستان میں رکھی ہوئی میرا انتظار کر رہی تھی۔ممی غم سے نڈھال نظر آرہی تھیں۔ساری بہنیں انہیں سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔جب میں نے انہیں گلے لگایا تو وہ بہت ٹوٹ کے روئیں۔
پیاری ممی ان دس سالوں میں بہت ہی بوڑھی ہو گئی تھیں۔
 مجھے بنانے سنوارنے میں انہوں نے پوری زندگی لگا دی تھی لیکن میں نے انہیں کیا دیا؟
انکا فون آتا تو نظریں چرا لیتا، انکی باتوں کو بے دھیانی سے سنتا۔فون پہ دم کر رہی ہوتیں تو فون رکھ دیتا۔سوچا کہ اب میں اپنی ساری غلطیوں کی تلافی کردوں گا۔ انہیں پنے ساتھ ہی لے جاؤں گالیکن یہ سب باتیں ہی رہیں۔دس روز کے بعد مجھے واپس آنا ہی تھا ۔میرے مریض پورا پورا مہینہ پہلے وقت لیتے تھے۔ میں انہیں کیسے چھوڑ کے ادھر بیٹھ سکتاتھابچوں کی پڑھائی کا بھی حرج ہورہا تھا۔مدیحہ کو بھی ہاسپٹل جانا ہوتا تھا۔میں واپس آگیا، گو کہ بابا کے ساتھ بہت انسیت تو کبھی نہ تھی لیکن پھر بھی مجھے لگتا تھا کہ میں اندر سے خالی خالی سا ہوگیا ہوں۔کچھ عرصے کے بعد بیٹے نے انجنئیرنگ کر لی۔اس نے اایک انگریز لڑکی کو پسند کیا ہوا تھا،ہم نے شرط رکھی کہ اسے مسلمان کرو ہم تمھاری شادی اس سے کریں گے ۔جب وہ مسلمان ہو گئی تو ہم نے اسکی شادی اس لڑکی سے کر دی اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ دوسرے شہر میں منتقل ہو گیا۔ مدیحہ سے میں بہت کہتا تھا کہ میری پریکٹس اچھی ہے تم گھر بیٹھ کے بچوں کو دیکھا کرو
اگر میں سختی کرتا تو شائد وہ میری بات مان بھی لیتی لیکن ہماری ماں نے ہمیں ہمیشہ عورت کی عزت اور خصوصاً اس عورت کی عزت کا درس دیا تھا کہ جو آپکے ساتھ نکاح کی ڈور میں بندھ جائے ۔اس لئے میں نے اس پہ کبھی سختی نہیں کی۔لیکن بیٹے والے واقعے کے بعد میں بہت خوفزدہ تھا کہ کہیں بیٹی بھی کسی غیر مذہب لڑکے کو پسند نہ کر لے۔اس لئے میں نے فوری طور پہ بیٹی کی پسند سے انڈین مسلمان گھرانے میں پڑھائی کے دوران ہی اس کی شادی کر دی
کچھ عرصے کے بعد میں نارمل ہو گیا۔شروع شروع میں ممی سے رابطہ جلدی ہوتا لیکن آہستہ آہستہ وقفے طویل ہونا شروع ہو گئے
وہ فروری کی برف میں ڈوبی ہوئی صبح تھی جب ممی کی کال آئی ان کی آوازکانپ رہی تھی۔شاید میں دوبارہ تم سے بات نہ کر پاؤں۔میرا وقت اب قریب ہے، کاش ایک دفعہ میں تمہیں اپنے سینے سے لگا کے پیار کر سکتی،،اس کے بعد فون کٹ گیا۔
میں تو ممی سے بہت زیادہ، بے تحاشا پیار کرتا تھا، لیکن خالی پیار سے کیا ہوتا ہے۔
ہم بچے والدین کی محبت کو اپنا حق سمجھ کے سمیٹتے رہتے ہیں لیکن انہیں تھوڑا سا وقت نہیں دے پاتے۔میں نے مدیحہ اور بچوں کو ادھر ہی چھوڑا اور فوری طور پہ پاکستان کی سیٹ کروائی۔جب گھر پہنچا تو میری ساری بہنیں ممی کے ارد گرد اکھٹی تھیں۔انکی آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ ایک آنکھ سے نور ختم ہو چکا تھا۔میر ی آواز سنی تو آسمان کی طرف جمی ہوئی آنکھ میں جنبش ہوئی۔انکے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور انہوں نے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دی، وہ مسکراہٹ چہرے پہ ہی رہ گئی۔بس صرف میرے انتظار میں انکی جان اٹکی ہوئی تھی۔
میری ماں، میری ممی، میری پہلی محبت میری لا پرواہیوں سے تھک کے خاموشی سے آنکھیں بند کر کے سو گئی۔
 ممی کو میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کے آخری گھر میں پہنچایا۔ان کے گھر کو، میں نے پھولوں سے بھر دیا ہے۔میں نے اپنے گھر کو تھوڑا ردو بدل کر کے اس کو ایسی ترتیب دے لی ہے کہ جب صبح میری آنکھ کھلتی ہے تو سامنے ممی کا گھر (قبر)نظر آرہا ہوتا ہے۔نماز فجر پڑھ کے میں وہاں چلا جاتا ہوں۔سورہ ملک کی تلاوت انکے پاس بیٹھ کے کرتا ہوں۔پھر پھولوں کو، پودوں کو پانی لگاتا ہوں۔ ان پہ تتلیاں آتی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ انکی روح انہیں دیکھ کے خوش ہو رہی ہو گی۔
 بچے کینیڈا میں ہیں مدیحہ سے میں نے کہا ہے کہ تم پاکستان آجاؤ لیکن وہ بھی ماں ہے نا
 گھر پہ بچوں کا انتظار کرتی رہتی ہے۔جس ہفتے انہوں نے آنا ہوتا ہے انکے لئے کھانا بناتی ہے، چھوٹے پوتے کیلئے جو کھلونے خریدے ہوتے ہیں وہ اسے دے کے اسکی خوشی کو دیمیرے بابا ایک کم پڑھے لکھے لیکن کاروباری اونچ نیچ سے بہرہ ور ایک کامیاب تاجر تھے۔دادی جب ابا کا رشتہ کرنے لگیں تو انکی پہلی ترجیح پڑھی لکھی لڑکی تھی۔چاہے کسی غریب گھرانے کی ہو۔ یوں میرے بابا کی شادی انتہائی خوبصورت اور بی اے پاس میری ا می سے ہو گئی۔پتہ نہیں کیسے جب میں نے امی کو امی بلانا شروع کیا تو میرے منہ سے لفظ ممی نکلا۔یوں میری بہنوں کی امی میری ممی بن گئی۔ممی نہ صرف شکل کی پیاری تھیں بلکہ بہت سلیقہ مند اور سگھڑ بھی تھیں۔ان کی چار بہنیں اور بھی تھیں۔نانا ابو ایک سکول میں استاد تھے۔ ننھیال غریب تھے لیکن سارے پڑھے لکھے 
بابا کا گھرانا دولت مند تھا لیکن اخلاقی قدروں میں ممی کی فیملی سے کم تھا۔مجموعی طور پہ یہ شادی بظاہر ٹھیک تھی۔میں اپنی پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹا تھا اور سب کا پیارا تھا، میرا اور میری سب سے چھوٹی بہن کا عمر کا وقفہ 10 سال کا تھا۔ممی بیٹے کے شوق میں ہر سال بچہ پیدا کرتی رہیں اور ہر سال بیٹی آتی گئی۔آخر کار جب وہ اللہ کی کرنی پہ صبر شکر کر کے بیٹھ رہیں تو 10 سال کے وقفے سے میں دنیا میں آ گیا۔ یوں میری ممی کی زندگی کا دائرہ مکمل ہو گیا۔
ممی اپنی ساری بیٹیوں کو اور مجھے بھی ڈھیر سارا پڑھانا چاہتی تھیں لیکن بابا بچیوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہ تھے۔میری ساری بہنوں کی شادیاں میٹرک کے بعد ہوتی گئیں اور ماشااللہ سب کو اچھے سسرال ملے۔جس کی ایک وجہ تو بہنوں کی بہترین تربیت ان کا اپنا طریقہ سلیقہ، انکا حسن اور دوسری وجہ بابا کا مالی طور پہ مستحکم ہونا تھا۔ جب تک میں نے ہوش سنبھالا میری سب سے چھوٹی بہن کی بھی شادی ہو چکی تھی یوں میری دوستی بہنوں سے نہ ہو سکی لیکن ممی کے ساتھ ماں بیٹے والی محبت سے زیادہ میری دوستی تھی۔شائد جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں نے نوٹ کیا کہ بابا ہم لوگوں سے تو پیار کرتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں اُنہیں ممی سے بالکل لگاؤ نہیں تھا ۔ان کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ان کے میکے والوں کا مذاق اڑاناان کا معمول تھا۔ اگر کبھی ننھیال سے کسی نے آنا ہوتا تو بابا کا موڈ سخت خراب ہو جانا، بتیاں پنکھے بند کر دینا، خرچوں کا رونا، شروع ہو جانااسی طرح کی اور بہت ساری باتیں،جن سے انکی ناگواری کا پتہ چل جاتا
ممی آہستہ آہستہ میکے والوں سے کنارہ کشی کرتی گئیں۔بابامیں بظاہر کوئی بری عادت نہ تھی۔برے دوستوں کی محفل بھی نہیں تھی
لیکن وہ بہت کڑوی زبان والے اور ہاتھ چھٹ تھے۔اکثر ممی کو تھپڑدے مارتے تھے 
انہیں اپنے کاروبار سے لگاؤ تھا، بہت جمع تفریق کرنے والے، پیسہ پیسہ بچا کے رکھنے والے۔انکے خیال میں بچیوں کو زیادہ پڑھانا بالکل فضول تھا۔ بس انہیں بہت سا جہیز دے کے رخصت کر دیں۔اگر کوئی پیسہ خرچ کرنا بھی ہوتا تو ساری دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ ملک صاحب نے اتنا کچھ لٹایا ہے
 جبکہ ممی رنگوں کی، پھولوں کی، خوشبوؤں کی، تتلیوں کی باتیں کرنے والی، لوگوں کے غم کو محسوس کرنے والی شخصیت تھیں۔
بابا کی حرکتوں کی وجہ سے میرا جھکاؤ ماں کی طرف بڑھتا چلا گیا۔اسی طرح ممی کی دوستی انکی شاعری، ان کے ساتھ انکے دکھ سکھ سنتے سناتے میں میٹرک میں آگیا۔میری پیاری ممی نے مجھے ہمیشہ یہی سکھایا کہ عورت جس روپ میں آپکی زندگی میں آئے اسکی عزت کرنا۔خاص طور پہ وہ عورت جسکی زندگی کی ڈور تم سے بندھ جائے اسکی بہت عزت کرنا
ممی جتنا مجھ سے پیار کرتی تھیں اتنا وہ اور کسی سے نہیں کرتی تھیں۔جب ہم بیٹھ کے باتیں کررہے ہوتے تو وہ مجھے بتاتیں کہ تمھاری بڑی بہنوں کی دفعہ تو مجھے وقت ہی نہیں ملا ان سے پیار کرنے کا۔انکی تو بس خدمت کی انہیں بڑا کیا اور شادیاں کر دیں
اب تم میرے ساتھ ہو تو تم میری بیٹی بھی ہو میرے دوست بھی ہو اور میرے بیٹے بھی ہو۔وہ میری پہلی محبت تھیں جبکہ میں انکی آخری محبت تھا۔باباکیونکہ زیادہ پڑھنے کے حق میں نہیں تھے تو ٹیوشن وغیرہ کو بالکل غیر ضروری کہتے۔لیکن ممی اپنے گھر کے خرچ میں سے بچت کر کے مجھے ٹیوشن بھیجتیں۔میرے ایف ایس سی میں نمبر بہت اچھے آئے تو ممی کو مجھے ڈاکٹر بنانے کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔جب بابا کو پتہ چلاکہ میں آگے پڑھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے صاف منع کر دیا۔بابا کا کہنا تھا کہ تم میرے ایک ہی بیٹے ہو۔ بس دکان پہ بیٹھو اور کاروبار سنبھالو۔میں خود بھی دکان پہ بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔شاید ممی نے بچپن سے ہی میرے ذہن میں بہت سا پڑھنے کا خیال ڈال دیا تھا۔میں وہ دن کیسے بھولوں
جب ممی نے میرے میڈیکل کالج کے داخلے کیلئے زندگی میں پہلی مرتبہ بابا سے اونچی آواز میں بات کی اور بابا ممی کو بالوں سے پکڑ کے گھسیٹتے ہوے دوسرے کمرے میں لے گئے اور انہیں بہت برا مارا۔اس دن میں بابا کے سامنے آگیا اور میں اپنی پیاری ممی کے حق میں بابا سے الجھ پڑا کہ مجھ سے بات کریں۔ان کی سوچ میں بھی نہیں تھا کہ ان سے کوئی اونچی آواز میں بات بھی کرے گا۔انہوں نے کھڑے کھڑے مجھے گھر سے نکل جانے کا حکم سنا دیا۔میں بھی ان کا ہی بیٹا تھا، میں کب کسی کی بات برداشت کرتا۔بیگ میں دو چوڑے کپڑے رکھے اور گھر سے نکل آیا۔میں میٹرک اور ایف ایس سی کا اپنے کالج کا ٹاپ پوزیشن ہولڈر طالب علم تھا۔میں نے اپنے ایک مخلص دوست کو کہا کہ یار میں کچھ کام کرنا چاہتا ہوں جب تک کہ میڈیکل کالج کی میرٹ لسٹ نا لگ جائے۔انٹری ٹیسٹ اس وقت تک متعارف نہیں ہوا تھا۔قصہ مختصر یہ کہ میں نے اپنے بل بوتے پہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔میں تیسرے سال میں تھا جب بابا نے شائد محبت سے مجبور ہو کے ممی کو بھیجا کہ اس کو منا کے لے آؤ۔اگر بابا خود آتے تو میں کبھی واپس نہ آتا لیکن یہ تو میری پیاری ممی تھیں جو مجھے لینے آئیں تھیں اور میرے آگے ہاتھ باندھے بیٹھی تھیں۔میں ممی کے گلے لگ کے اتنا رویا جیسے کوئی چھوٹا بچہ روتا ہے
بہر حال میں گھر تو آگیا لیکن میرا دل نہ گھر میں لگا اور نہ ہی بابا کی طرف سے صاف ہوا
یہاں تک کہ میری ہاؤس جاب شروع ہو گئی
میرے دوست کی بہن، مدیحہ جو میری ہم جماعت بھی تھی اس کیلئے میں نے ممی سے کہا
گو کہ بابا کے ذہن میں اپنی فیملی سے کچھ لڑکیاں تھیں لیکن انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔بہت جلد میں اور مدیحہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔میرا دل پاکستان سے اچاٹ ہو چکا تھا۔بہنیں میرے ساتھ پیار کرتی تھیں، میں بھی ان سے پیار کرتا تھا 
بابا بھی پیار کرتے ہونگے لیکن انہوں نے کبھی کھل کے مجھ سے پیار کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن شدید محبت مجھے صرف ممی سے تھی میں نے یہ سوچ کے کینیڈا امیگریشن کیلئے اپلائی کر دیا کہ جلد ہی انہیں بھی بلوا لوں گا۔
بہت جلد امیگریشن ہو گئی۔لیکن یہاں پھر ایک اور امتحان پاس کرنا تھایہاں نئے سرے سے ساری پڑھائی ہم دونوں کو پھر سے کرنا پڑی۔پھر ورک لائسنس وغیرہ کا سارا کام پورا ہونے میں دس سال گزر گئے
اس عرصے میں میرا کوئی چکر پاکستان نہیں لگ سکا۔بہنوں سے کبھی کبھار بات ہو جاتی۔ممی سے شروع شروع میں بات ہوتی رہی لیکن پھر وقفے طویل ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ بہت دفعہ انکی کالیں دیکھنے کے بعد مجھے وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ واپسی کال کر لوں۔انہیں دنوں میں مجھے ممی نے بتایا کہ تمھارے بابا کی طبیعت بہت خراب ہے، انہیں جگر کا کینسر تھا، انکے پیٹ میں پانی پڑ چکا تھا، انکے بچنے کے امکانات بہت کم تھے۔وہ جیسے بھی تھے بہرحال میرے باپ تھے، میں نے فوری طور پہ پاکستان جانے کا پروگرام بنایا۔مدیحہ اور دونوں بچوں کے ساتھ جب میں پاکستان پہنچا تو بابا کی میت قبرستان میں رکھی ہوئی میرا انتظار کر رہی تھی۔ممی غم سے نڈھال نظر آرہی تھیں۔ساری بہنیں انہیں سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔جب میں نے انہیں گلے لگایا تو وہ بہت ٹوٹ کے روئیں۔
پیاری ممی ان دس سالوں میں بہت ہی بوڑھی ہو گئی تھیں۔
 مجھے بنانے سنوارنے میں انہوں نے پوری زندگی لگا دی تھی لیکن میں نے انہیں کیا دیا؟
انکا فون آتا تو نظریں چرا لیتا، انکی باتوں کو بے دھیانی سے سنتا۔فون پہ دم کر رہی ہوتیں تو فون رکھ دیتا۔سوچا کہ اب میں اپنی ساری غلطیوں کی تلافی کردوں گا۔ انہیں پنے ساتھ ہی لے جاؤں گالیکن یہ سب باتیں ہی رہیں۔دس روز کے بعد مجھے واپس آنا ہی تھا ۔میرے مریض پورا پورا مہینہ پہلے وقت لیتے تھے۔ میں انہیں کیسے چھوڑ کے ادھر بیٹھ سکتاتھابچوں کی پڑھائی کا بھی حرج ہورہا تھا۔مدیحہ کو بھی ہاسپٹل جانا ہوتا تھا۔میں واپس آگیا، گو کہ بابا کے ساتھ بہت انسیت تو کبھی نہ تھی لیکن پھر بھی مجھے لگتا تھا کہ میں اندر سے خالی خالی سا ہوگیا ہوں۔کچھ عرصے کے بعد بیٹے نے انجنئیرنگ کر لی۔اس نے اایک انگریز لڑکی کو پسند کیا ہوا تھا،ہم نے شرط رکھی کہ اسے مسلمان کرو ہم تمھاری شادی اس سے کریں گے ۔جب وہ مسلمان ہو گئی تو ہم نے اسکی شادی اس لڑکی سے کر دی اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ دوسرے شہر میں منتقل ہو گیا۔ مدیحہ سے میں بہت کہتا تھا کہ میری پریکٹس اچھی ہے تم گھر بیٹھ کے بچوں کو دیکھا کرو
اگر میں سختی کرتا تو شائد وہ میری بات مان بھی لیتی لیکن ہماری ماں نے ہمیں ہمیشہ عورت کی عزت اور خصوصاً اس عورت کی عزت کا درس دیا تھا کہ جو آپکے ساتھ نکاح کی ڈور میں بندھ جائے ۔اس لئے میں نے اس پہ کبھی سختی نہیں کی۔لیکن بیٹے والے واقعے کے بعد میں بہت خوفزدہ تھا کہ کہیں بیٹی بھی کسی غیر مذہب لڑکے کو پسند نہ کر لے۔اس لئے میں نے فوری طور پہ بیٹی کی پسند سے انڈین مسلمان گھرانے میں پڑھائی کے دوران ہی اس کی شادی کر دی
کچھ عرصے کے بعد میں نارمل ہو گیا۔شروع شروع میں ممی سے رابطہ جلدی ہوتا لیکن آہستہ آہستہ وقفے طویل ہونا شروع ہو گئے
وہ فروری کی برف میں ڈوبی ہوئی صبح تھی جب ممی کی کال آئی ان کی آوازکانپ رہی تھی۔شاید میں دوبارہ تم سے بات نہ کر پاؤں۔میرا وقت اب قریب ہے، کاش ایک دفعہ میں تمہیں اپنے سینے سے لگا کے پیار کر سکتی،،اس کے بعد فون کٹ گیا۔
میں تو ممی سے بہت زیادہ، بے تحاشا پیار کرتا تھا، لیکن خالی پیار سے کیا ہوتا ہے۔
ہم بچے والدین کی محبت کو اپنا حق سمجھ کے سمیٹتے رہتے ہیں لیکن انہیں تھوڑا سا وقت نہیں دے پاتے۔میں نے مدیحہ اور بچوں کو ادھر ہی چھوڑا اور فوری طور پہ پاکستان کی سیٹ کروائی۔جب گھر پہنچا تو میری ساری بہنیں ممی کے ارد گرد اکھٹی تھیں۔انکی آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ ایک آنکھ سے نور ختم ہو چکا تھا۔میر ی آواز سنی تو آسمان کی طرف جمی ہوئی آنکھ میں جنبش ہوئی۔انکے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور انہوں نے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دی، وہ مسکراہٹ چہرے پہ ہی رہ گئی۔بس صرف میرے انتظار میں انکی جان اٹکی ہوئی تھی۔
میری ماں، میری ممی، میری پہلی محبت میری لا پرواہیوں سے تھک کے خاموشی سے آنکھیں بند کر کے سو گئی۔
 ممی کو میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کے آخری گھر میں پہنچایا۔ان کے گھر کو، میں نے پھولوں سے بھر دیا ہے۔میں نے اپنے گھر کو تھوڑا ردو بدل کر کے اس کو ایسی ترتیب دے لی ہے کہ جب صبح میری آنکھ کھلتی ہے تو سامنے ممی کا گھر (قبر)نظر آرہا ہوتا ہے۔نماز فجر پڑھ کے میں وہاں چلا جاتا ہوں۔سورہ ملک کی تلاوت انکے پاس بیٹھ کے کرتا ہوں۔پھر پھولوں کو، پودوں کو پانی لگاتا ہوں۔ ان پہ تتلیاں آتی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ انکی روح انہیں دیکھ کے خوش ہو رہی ہو گی۔
 بچے کینیڈا میں ہیں مدیحہ سے میں نے کہا ہے کہ تم پاکستان آجاؤ لیکن وہ بھی ماں ہے نا
 گھر پہ بچوں کا انتظار کرتی رہتی ہے۔جس ہفتے انہوں نے آنا ہوتا ہے انکے لئے کھانا بناتی ہے، چھوٹے پوتے کیلئے جو کھلونے خریدے ہوتے ہیں وہ اسے دے کے اسکی خوشی کو دیکھ کے خوش ہوتی ہے۔
 اور میں اب باقی زندگی اسی گھر اور اسی کمرے میں گزاروں گا جہاں میری ممی کی آخری رہائش گاہ میرے کمرے کی کھڑکی سے نظر آرہی ہوتی ہے۔میں انکے گھر (قبر) کی صفائی کرتا ہوں۔انکے پھولوں کی حفاظت کرتا ہوں۔کاش ہم اپنے والدین کی زندگی میں ہی انہیں وقت دیا کریں، انکی قدرو قیمت کا اندازہ لگا سکیں، انکی بے غرض محبتوں کا کچھ صلہ انہیں دے سکیں۔کاش۔اے کاش۔
٭٭٭
زندگی میں والدین کی خدمت میں دیر کر دینے والوں کے نامکھ کے خوش ہوتی ہے۔
 اور میں اب باقی زندگی اسی گھر اور اسی کمرے میں گزاروں گا جہاں میری ممی کی آخری رہائش گاہ میرے کمرے کی کھڑکی سے نظر آرہی ہوتی ہے۔میں انکے گھر (قبر) کی صفائی کرتا ہوں۔انکے پھولوں کی حفاظت کرتا ہوں۔کاش ہم اپنے والدین کی زندگی میں ہی انہیں وقت دیا کریں، انکی قدرو قیمت کا اندازہ لگا سکیں، انکی بے غرض محبتوں کا کچھ صلہ انہیں دے سکیں۔کاش۔اے کاش۔