ایک آزاد وطن میں چند روز

مصنف : ڈاکٹر حنا خان

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : ستمبر 2004

آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ یہ وہ سوال تھا جس کا امریکی ائرپورٹ پہ سب سے پہلے مجھے سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ افریقی النسل امیگریشن افسر کا لفظِ شیعہ کہنے کا انداز ایسا تھا کہ بے ساختہ قہقہہ لگانے کو جی چاہ رہا تھا تا ہم میں نے ہنسی کو ضبط کرتے ہوئے اسے اس کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی کیونکہ وقت کا تقاضا یہی تھا۔ میں نے کہا کہ میں شیعہ بھی ہوں اور سنی بھی۔کیونکہ میرے والدین میں سے ایک کاتعلق ایک مسلک سے ہے جبکہ دوسرے کا دوسرے سے۔ افسر مذکورہ کے ثاثرات سے معلو م ہو رہا تھا کہ میرا جواب یقینا اس کے سر سے گزر گیا ہے۔ اپنی لا علمی چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بالاخر اُس نے کہاآپ جا سکتی ہیں۔ تا ہم اگر آپ کسی ایسے ملک کے پاسپورٹ کی حامل ہیں جو ہماری خاص فہرست میں شامل ہیں تو پھر آپ کو کچھ دیر مزید رکنا پڑے گا۔

یہ اس رویے کی ایک ادنی سی مثا ل ہے جو امریکہ کے سفر کے دوران آپ کو سرکاری افسران کی طرف سے بارہا پیش آ سکتا ہے۔ تا ہم امریکی عوام کا رویہ یکسر مختلف ہے۔جب بھی کوئی اس وسیع و عریض ملک کے سفر پہ نکلتا ہے تو جہاں اس کویہ بات یاد رہتی ہے کہ وہاں بجلی کے بٹن الٹے بند ہوتے ہیں اور پانی کے نل بھی، وہیں اس کو یہ بات بھی نہیں بھولتی کہ امریکی عوام کا طر ہ امتیازاپنی آزادی کو ہر حال میں برقرار رکھنا ہے۔ وہ اپنی اس آزادی کا اظہار نہ صرف ہر پہلو سے کرتے رہتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر گوشے میں اس کونمایاں کرنے کی سعی بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ان کی اس آزاد روی کا مظاہرہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ بعض لوگ ایک پاؤں گاڑی سے باہر نکالے ڈرائیو کر رہے ہوں گے۔ ان کی اسی آزادی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ وہ ہر بات اور ہر خیال کو کھلے دل سے سننے اور سمجھنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔اور یہ بہر حال بہت بڑی خوبی ہے جس کی اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ یورپ اور برطانیہ کے تقابل میں اس قد ر کا جائزہ لیں تو اس کی اہمیت اور بھی بڑ ھ جاتی ہے ۔ یورپ بالخصوص برطانیہ میں آپ کو ایک خاص قسم کا روایتی اور شاہی مزاج ملے گا جس سے عوام بھی خالی نہیں ہیں۔ اس لئے یورپ کے کسی باسی کوامریکہ جا کر آزادی اور خاص طور پر اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے ایک خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔آزادی کی یہی وہ صفت ہے جس کی وجہ سے امریکہ میں لوگوں کے دل اسلام کے لئے کھلے ہیں یہاں قبولِ اسلام کا تناسب بھی باقی دینا سے یقینا زیادہ ہے۔ امریکہ کی اسی صفت آزادی کی طرف مولانا وحید الدین نے یوں اشارہ کیا ہے۔ کہ امریکی کلچر جس آزادی کا منظر پیش کرتا ہے یہ اصل میں وہی ہے جس کی طرف سب سے پہلے راہنمائی اسلام نے کی تھی۔اور یہی وہ راستہ ہے کہ جو اس شاہراہ کی طرف جاتاہے جو انسانیت کی کامیابی کی شاہراہ ہے۔اس کی مثال ہمیں اس معاشرے میں مل سکتی ہے جو نبیﷺ نے قائم کیاتھا۔تاہم اس کلچر اور اسلام کی آزادی میں یہ فرق بہرحال ضرور ہے کہ اسلام انسان کی آزادی پربعض قدغنیں عائدکرتاہے۔امریکی معاشرے نے انسانوں کو جو آزادی بخشی ہے اگر اس کو اللہ کے حدود کا پابند کر دیا جائے تو امریکی قوم اس اعتبار سے بھی دنیا کی کامیاب ترین قوم ہو سکتی ہے۔صرف امریکی ہی نہیں بلکہ جو قوم یا فرد بھی آزادی کو اللہ کے حدود کے اندر رہ کر برتے گا وہ نہ صرف اس دنیا میں کامیاب ہو گا بلکہ آخر ت کی کامیابی بھی اس کا مقد ر ہو گی۔یہی آزاد ی ہی اصل میں وہ آزاد ی ہو گی جو ہر آن جرائم کی بڑ ہتی ہو ئی شرح ’ خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ’مصائب’ منشیات’ جنگ وجدل’ استحصال اور جنسی جرائم سے بھی آزاد ہو گی۔

اصل میں آزادی اور پابند ی کے درمیان ایک خوبصورت توازن اوراعتدال مطلوب ہوتا ہے اور اس توازن کی کمی اس معاشرے میں بہر حال محسوس کی جا سکتی ہے۔

ایک اور فرق جو اس بارکے سفر میں محسوس ہو ا وہ امریکی عوام کا ان لوگوں کے ساتھ بہتر رویہ ہے جو اسلامی لباس یا شکل و صورت میں انہیں ملتے ہیں۔ اور یہ فرق غالباً عراق کے معاملے کے بعد پیدا ہوا ہے۔ہو سکتا ہے ندامت کا احساس اس صو رت میں تلافی کی صورتیں ڈھونڈ رہاہو۔سکارف کے بارے میں وہاں دونوں طرح کے رویئے ملتے ہیں خوف کا بھی اور استحسان کا بھی۔یو کے میں ایک دفعہ ایک مسلم لیڈ ی ڈاکٹر کو اس کی مریضہ نے کہا کہ سکارف پہنے ہوئے کسی بھی مسلمان عورت کو دیکھ کر یہی گما ن ہوتا تھا کہ وہ کہیں خود کش حملہ کرنے والی نہ ہو اور میرا یہ خوف ہمیشہ قائم رہتا اگر میں آپ سے نہ ملتی۔ اسی طرح امریکہ میں ایک سفر کے دوران میں ایک شریک ِسفر امریکی عورت نے جہاں میری بیٹی کے مہند ی لگے ہاتھوں کی تعریف کی وہیں اس نے سکارف کی بھی ستائش کی ۔اور ظاہر ہے کہ اس ستائش سے میری بیٹیوں کو ایک قدرتی اطمینان ہو اخاص طور پر یورپ میں آئے دن کی تنقید میں یہ ان کیلئے واقعی ہو ا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا۔ اگرچہ یو کے میں بھی ہمیں ’خاص طور پر بچوں کے سکول اور مقامی لوگون کی طرف سے ’کبھی ایسی تنقید ی نظر وں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ اس خاتون نے ہم سب کے نام بھی پوچھے اور ہم نے بھی ۔ پھر اس نے کہا کہ یہ جو آپ کے ہاتھوں پر پینٹ ہے اس کا آپ کی زبان میں کیا نام ہے؟ میری بچیوں نے جواب دیا کہ مہندی۔ اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہماری امی کے نام کا مطلب بھی یہی ہے۔اس خاتون نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا ۔پھر اس نے پوچھا کہ آیا یہ آپ کے ہاں کوئی علامت ہے یا مذہبی روایت؟ میں نے اس کی جلد پر بنے نقش و نگار دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ تو بس میک اپ کی طرح کی چیز ہے ۔ اور یا یوں سمجھ لو کہ تمہاری جلد پر بنے ٹیٹو کی طرح۔ اس نے کہا تم یہ نقش و نگار نہیں بنواؤ گی ۔ میں نے کہا بالکل نہیں۔ اس نے پوچھا وہ کیوں؟ میں نے کہا کہ اس کی ایک تو وجہ مذہبی ہے اور دوسر ی طبی اور طبی وجہ کو بحیثیت ڈاکٹر میں زیاد ہ بہتر جانتی ہوں۔ جب اسے معلو م ہوا کہ میں ڈاکٹر ہوں تو وہ اور زیاد ہ متوجہ ہو گئی۔ میں نے کہا کہ ہمارے نبیﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا اور اب تو یہ میڈ یکلی بھی ثابت ہو گیا ہے کہ اس کی سوئی سے موذی امراض کے منتقل ہونے کا خد شہ موجو د رہتا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ تو واقعی خطرناک ہے کیا یہ خدشہ محفوظ سوئی استعمال کرنے سے بھی موجود رہتا ہے ؟ میں نے کہا کہ میرا مقصد تمہیں ڈرانا نہیں تھا۔ اور اس حقیقت کی طرف اس کی توجہ دلائی کہ آٹو کلیو سوئیاں دنیا میں بہت کم لوگ استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس لئے عالمی طور پر بہرحال اس کو خدشے سے پاک قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سری لنکا میں دلہا کی رخصتی ہو تی ہے نہ کہ دلہن کی۔یہ بات ا سو قت ہمارے علم میں آئی جب کہ ہم ایک ایسی فیملی کی شادی میں شریک ہوئے جن کا تعلق سری لنکا سے تھا۔دلہا کی والدہ نے بڑے ہی پر درد لہجے میں دلہن کی ماں سے استدعا کی کہ میرے بیٹے کا خیال رکھنا خاص طور پر اس کے ناشتے کا کہ وہ اس معاملے میں بہت ہی بے پرواہ واقع ہوا ہے۔

اس سفر میں بہت سے خوبصورت اقوال بھی نظر آئے اور میں چاہتی ہو ں کہ انہی کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے اپنے اس سفر نامے کو ختم کروں۔

والٹر کاکہنا ہے کہ یہ خواہش ہی ہو تی ہے کہ جس کا ایک پہلو ایک کو شیطان بنا دیتا ہے اور دوسرا پہلو دوسرے کو ولی۔

اجنبی کی مہمانی سے گریزاں نہ ہونا بہت سے اجنبی فرشتے بھی تو ہوتے ہیں(بائبل)

محبت میں دلوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور شاید اس سے بہتر لین دین کوئی اور نہ ہو(فلپ سڈنی)