نیکی کسی قوم کی جاگیر نہیں

مصنف : سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : دسمبر 2005

آخری قسط

ہر قوم اور ملک کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں، جنھیں پیش کرکے اس کے افراد کے دل توڑے جا سکتے ہیں، لیکن اسی قوم اور ملک کی تاریخ میں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں، جنھیں قلمبند کرکے اس کے افراد کے دل جوڑے جا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تاریخ میں ایسی ہی تفصیلات زیادہ درج کی گئی ہیں، جن کو پڑھ کر یہاں کے باشندوں میں ایک دوسرے سے نفرت اور کدورت پیدا ہوئی۔(جب کہ اس کے برعکس بھی بہت سا مواد موجود ہے ۔ایسے مواد کی ایک جھلک پیش خدمت ہے )

            ہمایوں (ف۱۵۵۶ء) شیر شاہ سے شکست کھا کر ایران پہنچا، تو وہ شاہ طہماسپ کا مہمان ہوا۔ ایک دن دونوں شکار کو گئے۔ کسی مقام پر تھک کر دونوں اتر پڑے۔ شاہ طہماسپ کے شاہی فراش نے ایک غالیچہ ڈال دیا۔ طہماسپ اس پر بیٹھا تو ہمایوں کے لیے بیٹھنے کی کافی جگہ نہ رہی۔ اس لیے جب وہ اس پر بیٹھا تو اس کے ایک زانو کے نیچے فرش نہ تھا۔ شاہی فراش طہماسپ کے حکم سے دوسرا غالیچہ بچھانا چاہتا تھا کہ ہمایوں کے ایک جان نثار ہمراہی نے فوراً ہی اپنے ترکش کا کارچوبی غلاف چھری سے کاٹا، اور اپنے آقا کے نیچے بچھا دیا۔ شاہ طہماسپ کو یہ ہوا خواہی بہت پسند آئی اور ہمایوں سے کہا برادر! جب آپ کے ساتھ ایسے جان نثار اور نمک حلال تھے، تو پھر آپ کا تخت و تاج آپ کے ہاتھ سے کیسے نکل گیا؟ ہمایوں نے جواب دیا کہ میرے بھائیوں کی عداوت نے سارا کام خراب کیا۔ نمک خوار ملازم ایک آقا کے بیٹے سمجھ کر کبھی ادھر ہو جاتے تھے کبھی ادھر۔ طہماسپ نے پوچھا ملک کے لوگوں نے رفاقت نہیں کی؟ ہمایوں نے کہا کہ کل رعایا غیر مذہب کے لوگ ہیں۔ ان سے رفاقت ممکن نہ ہو سکی۔ طہماسپ نے کہا کہ ہندوستان میں دو فرقے کے لوگ بہت ہیں، ایک افغان، دوسرے راجپوت، خدا کی مدد سے آپ ہندوستان کو فتح کریں، تو افغانوں کو تو تجارت میں لگا دیں اور راجپوتوں کو دلاسے اور محبت کے ساتھ شریک حال کریں۔ ہمایوں کو تو راجپوتوں سے میل جول بڑھانے کا موقع نہیں ملا، لیکن اکبر نے اس پر عمل کرکے غیر معمولی تدبر اور ہوشمندی کا ثبوت دیا۔

            اکبر (ف۱۶۰۵ء) نے اپنی بادشاہت کے زمانے میں راجپوتوں کے دلوں کو تسخیر کرنے کے لیے تمام ممکن ذرائع اختیار کیے۔ ان سے شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم کیے۔ اس نے خود امبر کے کچھواہہ خاندان کے راجا بہار امل کی لڑکی اور راجا بھگوان داس کی بہن سے شادی کی۔ اسی کے بطن سے شہزادہ سلیم پیدا ہوا، جو آگے چل کر نور الدین جہانگیر کے لقب سے اس کا جانشین ہوا۔ اکبر نے شہزادہ سلیم کی شادی راجا بھگوان داس کی بیٹی مان بائی سے کی۔ راجا بھگوان داس جب اپنی بیٹی کو رخصت کرنے لگا، تو اس نے اکبر سے کہا:مہاری بیٹی، تمھارے محلوں کی چیری ہم باندگلام رے ۔لیکن اکبر نے فوراً جواب دیا:تمھاری بیٹی، مہارے محلوں کی رانی، تم صاحب سرداررے۔

مولانا شبلی نے اس شادی کی تقریب کو منظوم کیا ہے، جس کے آخری تین شعر ہیں:

دلہن کے گھر سے منزلگاہ تک اس شان سے لائے

کہ کوسوں تک زمیں پر فرش دیبائے مشجر تھا

دلہن کی پالکی خود اپنے کندھوں پر جو لائے تھے

وہ شاہنشاہِ اکبر اور جہانگیر ابن اکبر تھا

یہی ہیں وہ شمیم انگیزیاں عطر محبت کی

کہ جن سے بوستان ہند برسوں تک معطر تھا

            راجا بھگوان داس ترقی کرکے اکبر کا پنج ہزاری، پنج ہزار منصب دار بن گیا تھا۔ وہ آخر وقت تک اکبر کے دامِ اخلاص و محبت کا اسیر رہا۔ وہ اکبر کے ساتھ میواڑ کے رانا پرتاب کے خلاف بھی برسرِپیکار رہا۔ بڑی بڑی مہموں میں وہ اکبر کی معیت میں ضرور رہتا۔ ۹۷۹ھ؍۱۵۷۱ء میں ا کبر گجرات کی مہم پر گیا تو وہ اور اس کا بیٹا مان سنگھ بھی شاہی جلو میں تھے۔ لڑائی کے موقع پر اکبر اپنے خاص گھوڑے ‘‘نورِ بیضا’’ پر سوار ہو کر میدانِ جنگ جانے لگا، تو گھوڑا یکایک بیٹھ گیا۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ شگون اچھا نہیں ہوا، لیکن راجا بھگوان داس نے فراست سے کام لیا اور آگے بڑھ کر اکبر سے مخاطب ہو کر کہا : ‘‘فتح مبارک ہو۔’’ اکبر نے جواب دیا۔ ‘‘ایسا ہی ہو۔ لیکن تم کیسے سمجھے؟’’ راجا نے جواب دیا کہ ہمارے شاستر میں لکھا ہے کہ جب فوج مقابلہ کو تیار ہو اور سینا پتی کا گھوڑا سواری کے وقت بیٹھ جائے تو فتح اسی کی ہو گی۔ یہ سن کر تمام لشکریوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اکبر راجا بھگوان داس کے ساتھ ایک ٹیلے پر کھڑا جنگ کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے راجا سے مخاطب ہو کر کہا۔ ہراول پر دباؤ زیادہ ہے، طور بے طور ہوا چاہتا ہے، اپنی فوج تھوڑی اور غنیم کا ہجوم زیادہ ہے۔ چلو ہم تم مل کر جا پڑیں۔ یہ کہہ کر دونوں نے باگیں اٹھا دیں اور ان کایہ بروقت دھاوا کامیاب رہا۔

            اسی جنگ میں اکبر ایک جگہ کھڑا تیر چلا رہا تھا۔ر اجا بھگوان داس اور مان سنگھ اس کے قریب تھے۔ یکایک دشمن کے تین لشکری آگے بڑھے۔ ایک راجا بھگوان داس کی طرف لپکا، دو اکبر پر حملہ آور ہوئے۔ راجا بھگوان داس نے اپنے دشمن کو مار بھگایا۔ مان سنگھ اکبر کی مدد کے لیے لپکا ہی چاہتا تھا کہ اکبر نے اسے للکار کر کہاکہ اپنی جگہ سے آگے نہ بڑھے اور اپنا گھوڑا اڑا کا دونوں دشمنوں کونرغے میں لینا چاہا۔ راجا بھگوان داس نے چلا کر مان سنگھ سے کہا، کھڑے کیا دیکھ رہے ہو، آگے بڑھو، مان سنگھ نے کہا مہابلی خفا ہوتے ہیں۔ راجا بھگوان داس نے جھلا کر کہا۔ یہ وقت خفگی دیکھنے کا نہیں ہے۔ اس اثنا میں اکبر نے دونوں دشمنوں کو مار بھگایا۔

            اسی لڑائی میں ایک موقع پر اکبر فوج کی صفیں درست کر رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ راجا بہار امل کا بھتیجا راجا جے مل کچھواہہ ایک وزنی بکتر پہنے ہوئے ہے۔ اکبر نے اس کا وہ بکتر اتروا لیا اور اپنی خاصے کی زرہ اسے پہنا دی۔ راجا جے مل اس خصوصی رعایت سے بہت خوش ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اکبر نے جودھ پور کے راجا مالدیو کے پوتے راجا کرن کو دیکھا کہ اس کے پاس نہ زرہ ہے نہ بکتر، اس نے راجا جے مل کا بکتر اس کو پہنچا دیا۔ راجا جے مل کا باپ روپ سنگھ بھی لڑائی میں شریک تھا۔ اس کو یہ ناگوار گزرا، کیونکہ راجا کرن کے خاندان سے اس کی پشتینی عداوت چلی آ رہی تھی۔ اس نے اکبر کو کہلا بھیجا کہ وہ بکتر میرے بزرگوں کی یادگار ہے اور بڑا مبارک ہے اس لیے یہ مجھے واپس کر دیا جائے۔ اکبر معاملہ کی تہہ کو پہنچ گیا۔ روپ سنگھ کو کہلا بھیجا کہ میری خاصے کی زرہ اور بھی مبارک ہے لیکن راجا روپ سنگھ کا غصہ فرو نہ ہوا۔ اس نے اشتعال میں اسلحہ جنگ اتار کر پھینک دیے اور کہا کہ میں میدانِ جنگ میں یونہی جاؤں گا۔ اکبر کو معلوم ہوا تو اس نے بھی یہ کہہ کر زرہ اتارنے کا ارادہ کر لیا کہ جب میرے لشکری برہنہ ہو کر لڑیں گے تو میں کیونکر زرہ بکتر میں چھپ کر میدان جنگ میں جا سکتا ہوں۔ راجا بھگوان داس کو اس کی خبر ملی، تو فوراً گھوڑا بڑھا کر جے مل اورروپ سنگھ کے پاس پہنچا۔ دونوں کو سمجھا بجھا کر اور ہتھیار لگوا کر اکبر کے پاس لایا اور معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے عرض کیا کہ روپ سنگھ نے آج بھنگ زیادہ پی تھی، اسی کی ترنگ میں تھا۔

            راجا مان سنگھ سے بھی اکبر کو بہت محبت رہی۔ اس کو غایت محبت میں راجا مرزا کہا کرتا تھا۔ راجا مان سنگھ بھی اکبر کا عاشق تھا۔ وہ میدانِ جنگ میں اکبر کے گھوڑے کی باگ سے باگ ملائے رکھتا۔ اکبر کی خاطر وہ رانا پرتاب کے خلاف بڑی بہادری سے لڑا،جس کے بعد ملا عبدالقادر کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ملا شیری کے اس مصرع کی تصدیق ہو گئی ؂

کہ ہندو می زند شمشیر اسلام

            جہانگیر کو اپنے راجپوت سرداروں پر اتنا اعتماد تھاکہ وہ اس کی خاطر سے کبھی میدانِ جنگ سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ راجا رام داس کچھواہہ کو جہانگیر نے راجا کرن کا خطاب دیا تھا۔ وہ ملک عنبر کے خلاف دکن بھیجا گیا، تو اس کو شکست ہوئی اور اس نے میدانِ جنگ چھوڑدیا۔ جہانگیر کو شکست سے بھی زیادہ اس بات کا دکھ تھا کہ ایک راجپوت سردار نے میدانِ جنگ چھوڑ دیا۔ جب وہ جہانگیر کے حضور میں آیا، تو جہانگیر نے اس سے کہا کہ لڑائی سے بھاگنا راجپوتوں میں سخت عیب ہے افسوس ہے کہ تجھے راجا کرن کے خطاب کی بھی شرم نہ آئی۔

            جہانگیر کے لشکر میں بھی اکبر کی فوج کی طرح مسلمان اور راجپوت لشکری ملے جلے رہتے۔ سارے لشکریوں میں راجپوتوں کی دوستی اور یگانگت کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا اور جب کبھی ان کی دل شکنی ہوتی تو تمام اربابِ حل و عقد ان کی تالیف قلوب میں پوری ہوش مندی اور دور اندیشی سے کام لیتے۔ جہانگیر کے ۱۸ ویں سال جلوس میں شاہی فوج مہابت خان کی کمان میں دکن میں مقیم تھی۔ اس میں سادات بارہہ کے بھی لشکری تھے جو فوج کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے۔ ان ہی میں سے سید کبیر کے ایک بھائی نے اپنی تلوار ایک صیقل گر کو صیقل کرنے کو دی۔ صیقل گر کی دکان لشکر کے ایک دوسرے فوجی سردار راجا گردھر کچھواہہ کی قیام گاہ کے پاس تھی۔ صیقل کی اجرت پر صیقل گر اور سید کبیر کے بھائی میں کچھ جھگڑا ہو گیا اور سید کے ملازموں نے غصے میں اسے دو تین ڈنڈے مار دیے۔اس پر راجا گردھر کے راجپوت سپاہیوں نے صیقل گر کی حمایت کی اور سید کے نوکروں کو زدوکوب کیا۔ بات یہاں تک بڑھ گئی کہ فریقین میں تلواریں چلنے لگیں۔ سید کبیر کو معلوم ہوا تو کچھ سواروں کو لے کر پہنچ گیا اور راجا گردھر کی قیام گاہ کو گھیر لیا اور غصہ میں اندر گھس کر تلوار چلانے لگا۔ راجا گردھر نے بھی تلوار سونت لی، لیکن کچھ اور راجپوتوں کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا۔ سید کبیر کی طرف سے بھی کچھ آدمی مارے گئے۔ واقعے کی خبر پھیلی تو لشکر کے تمام راجپوت ایک طرف جمع ہو گئے، دوسری طرف سادات بارہہ اکٹھا تھے۔ قریب تھا کہ دونوں فریقوں میں بڑے پیمانے پر کشت و خون شروع ہو جائے کہ مہابت خان کو اطلاع ہوئی وہ فوراً موقع واردات پر پہنچ گیا اور اپنی حکمت عملی سے دونوں کے اشتعال کوفرو کیا۔ پھر اس نے راجا گردھر کے قیام گاہ پر جا کر اس کے لڑکوں سے تعزیت کی۔ سید کبیر گرفتار ہوئے اور محض راجا گردھر کے لڑکوں اور راجپوتوں کی تسلی کی خاطر قصاص میں قتل کر دیے گئے۔ سادات بارہہ کے بہادرانہ کارناموں سے مغلوں کی تاریخ معمور ہے لیکن راجپوتوں کی خاطر سادات بارہہ کی خفگی کا مطلق خیال نہیں کیا گیا، اور ان کے اہم اور بہادر فرد کو راجپوتوں کی دل جوئی کے لیے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

            جہانگیر کی مدح میں اس زمانے کے مشہور سنسکرت شاعر جگناتھ پنڈت راج نے کہا ہے:

            آپ کا مقدس دھاگا سیاہ کیوں ہو گیا؟ یہ سیاہ سوت سے مل گیا۔ کہاں ملا؟ نربدا کے پانی میں۔ پانی میں کاجل کیسے ملا؟ جو لوگ غصے سے بھرے ہوئے بادشاہ نور الدین (جہانگیر) کے دشمن ہیں۔ ان کی لڑکیوں کی خوب صورت آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہاتھا، وہی پانی میں مل گیا۔

            شاہجہان نے اپنی شہزادگی کے دور میں جب جہانگیر کے خلاف بغاوت کی، تو اس کا حلیف راجا گوپال داس گوڑ تھا۔ جہانگیر کی فوج نے شہزادے کا تعاقب کیا تو راجا گوپال داس اور اس کا بیٹا بلرام شہزادے کے ساتھ سائے کی طرح رہے۔ راجا گوپال داس آگے چل کر شاہجہانی عہد میں ٹھٹھہ کے محاصرہ میں اپنی بہادری اور شجاعت کا جوہر دکھا کر اپنے بیٹے بلرام کے ساتھ حق نمک ادا کرتے ہوئے فدا ہو گیا۔

            شاہ جہان کو ان راجپوت سرداروں پر اتنا بھروسا تھا کہ اس کی جان کے محافظ دستہ کاسردار راجا مہیش داس راٹھور رہا، جو اس کے تخت کے پیچھے برابر کھڑا رہتا، سفر میں بھی برابر اس کے ساتھ ہوتا۔

            اس زمانے کا ایک سنسکرت شاعر جگناتھ پنڈت راج شاہجہان کی شان میں کہتا ہے:

            ‘‘اے بادشاہ، شہاب الدین (شاہ جہان) یہ حقیقت ہے کہ کوئی شخص دنیا میں موجودہ زمانے میں، نہ گزشتہ میں آپ کی لیاقت کے برابر ہوا۔ اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ ’’

            شاہ جہان کا ایک درباری شاعری ہری نرائن مصرا اس کی مدح میں کہتا ہے:

            ‘‘ایک بڑے اور بھاری بادل نے ایک بلند پہاڑ کی اونچی چوٹی پر برسنا شروع کیا، تو اے بادشاہ! سرسوتی کا دریا فتح مند، پر شور اور پاک و صاف ہو گیا۔ اے شاہ جہان! میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس دریا کی پاکی کی وجہ سے اس میں جو شخص نہاتا ہے، اس کا سر کنول کی طرح چمکیلا اور روشن ہو جاتا ہے، اس کے بال شہد کی مکھی کی طرح ہو جاتے ہیں۔’’

            بادل سے مراد شاعر ہے اور بلند پہاڑ کی اونچی چوٹی خود بادشاہ کی علامت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کوئی بادشاہ کی تعریف میں شاعر کی شاعری سنتا ہے، اس کا چہرہ کنول کی طرح شگفتہ ہو جاتا ہے۔

            تخت و تاج کے لیے شاہ جہان کے بیٹوں میں جنگ شروع ہوئی تو تمام اہم اور ممتازراجپوت فوجی سردار داراشکوہ کی حمایت میں امنڈ پڑے۔ پہلے تو وہ راجا جسونت سنگھ کی رہنمائی میں اورنگ زیب اور مراد کے خلاف دھرمادت میں لڑے، پھر داراشکوہ کی قیادت میں سموگڈھ میں صف آرا ہوئے۔ اس لڑائی میں راجپوتوں نے اورنگ زیب کو ہلاک کرنے میں جس طیش و تہور، غیظ و غضب کا اظہار کیا، اس سے داراشکوہ کی حمایت میں ان کے جذبۂ سرفروشی و جانبازی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر راجا روپ سنگھ تو جوش غضب میں گھوڑے کی پیٹھ پر سے اترپڑا، اور صفوں کو چیرتا ہوا اورنگ زیب کے ہاتھی کے پاس جا پہنچا۔ اس نے ہودج کی ڈوری کاٹ کر اورنگ زیب کو زمین پر گرانا چاہا۔ جوہر شناس اورنگ زیب اس کی اس جرأت اور جلادت سے بہت متاثر ہوا اور چلایا کہ یہ بہادر ہلاک نہ ہونے پائے، بلکہ زندہ گرفتار کر لیا جائے لیکن اس کی قضا آ چکی تھی۔ اس لیے اورنگ زیب کے ایک ہمرکاب نے اس کو لقمۂ اجل بنا دیا۔ اورنگ زیب کو ایسے پر جوش اور جری راجپوت سردار کے مارے جانے پر افسوس ہوا۔ جنگ کے بعد اس کا لڑکا راجا مان سنگھ اورنگ زیب کے دربار میں حاضر ہوا تو اسے بے شمار شاہی عنایتوں سے نوازا اور ہزار و پانصدی و ہفت صد سوار کا منصب عطا کیا۔ عالمگیر کے چوتھے سال جلوس راجا روپ سنگھ کی ایک لڑکی عالمگیر کے بیٹے شہزادہ محمد معظم سے بیاہی گئی اور یہ شادی نہایت تزک و احتشام سے انجام پائی۔

            اورنگ زیب کے ایک منصب دار امین خان نے یہ عرضی دی کہ دو پارسی ملازموں کو جو تنخواہ تقسیم کرنے پر مقرر تھے، اس علت میں برخاست کر دیاجائے کہ وہ آتش پرست ہیں اور ان کی جگہ کوئی تجربہ کار مسلمان مقرر کیا جائے، کیونکہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت جانو۔ اورنگ زیب نے اس کے جواب میں لکھا کہ مذہب کو دنیا کے کاروبار میں دخل نہیں ہے، نہ ان معاملات میں تعصب کو جگہ مل سکتی ہے، اور اس قول کی تائید میں ایک آیت نقل کی جس کے یہ معنی ہیں کہ تمھیں تمھارا دین اور ہمیں ہمارا دین منظور ہے ۔ اورنگ زیب نے یہ بھی لکھا کہ جو آیت عرضی نویس نے نقل کی ہے، اگر یہی سلطنت کا دستور العمل ہوتا تو ہمیں چاہیے تھا کہ اس ملک کے سب راجاؤں اور ان کی رعیت کو غارت کر دیتے، مگر یہ کس طرح ہو سکتا تھا؟ شاہی نوکریاں لوگوں کو ان کی لیاقت اور قابلیت کے موافق ملیں گی اور کسی لحاظ سے نہیں مل سکتی ہیں۔

            کوئی منصب دار یا عہدیدار اپنی لیاقت اور قابلیت کا ثبوت دیتا تو اورنگ زیب اس کی حوصلہ افزائی کرتا اور اسے شاہی نوازشوں سے فیضیاب کرنے میں تامل نہ کرتا۔ چنانچہ وہ اپنے ایک خط میں شہزادہ بیدار بخت کو لکھتا ہے:

            ‘‘مجھے خوشی ہے کہ باغی پہاڑ سنگھ کو ملوک چند نے زیر کیا۔ تم تعریف کے مستحق ہو کہ تمھارے عہدیدار بادشاہ وقت کی خدمت بجا لانے میں مستعد رہتے ہیں …… ملوک چند نے اپنی بہادری اور فوجی قابلیت کا ثبوت دیا ہے، اس لیے میں نے اس کی خلعت منصب اور راے رایان کا خطاب عطا کیا۔ مناسب ہے کہ تم بھی اس کے منصب میں اضافہ کرو، خلعت دو اور مالوہ کی نظامت میں اس کو مستقل کر دو، تاکہ اس کا حق نظر اندازنہ ہونے پائے اور شاہی ملازمت والوں کی ہمت افزائی ہو۔’’

            ڈاکٹر راجندر پرشاد سابق صدر جمہوریہ اپنی کتاب ‘‘انڈیا ڈیوائڈڈ’’ میں رقم طراز ہیں کہ عالمگیر کے عہد کے مورخ منشی سحبان راے بھنڈاری ‘‘خلاصۃ التواریخ’’ میں لکھتا ہے کہ دیپالی وال میں جو کلانور کے پاس واقع ہے، شاہ شمس الدین دریائی کا مزار ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ایک ہندو کی عقیدت اتنی زیادہ تھی، کہ ان کی وفات کے بعد کچھ مسلمانوں نے شورش کرکے مذہبی بہانے سے ہندو کو تولیت سے محروم کر دینا چاہا، لیکن عالمگیری حکومت نے اس شورش کو کامیاب نہیں ہونے دیا، اور جب کہ یہ کتاب (یعنی خلاصۃ التواریخ) لکھی جا رہی ہے، عالمگیر کی حکومت کا تیسرا سال ہے، لیکن اس مزار کی تولیت بدستور ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے۔

            ڈاکٹر راجندر پرشاد نے یہ بھی لکھا ہے کہ بودھ گیاکے مہنت کی زمینداری کی آمدنی لاکھوں روپے ہے۔ یہ زمینداری دلی کے مغل بادشاہ محمد شاہ (ف ۱۷۴۸ء) کا عطیہ ہے۔ اس نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے سے مہنت لال گیر کو مستی پور تااڈیہہ کا پورا علاقہ عطا کیا۔

            مغل بادشاہوں کے دست ِراست بن کر راجپوتوں نے جس طرح ان کا ساتھ دیا ہے وہ جذباتی ہم آہنگی کا بڑا اہم باب ہے۔ جدوناتھ سرکار نے لکھا ہے کہ مغلوں کے زمانے میں راجپوتوں کی سپہ گری کے جوہر خوب نمایاں ہوئے۔ انبر کا کچھواہہ راجپوت خاندان مغلوں کی بدولت بامِ عروج پر پہنچ گیا۔

            امرناتھ ودیاالنکا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:

            ‘‘بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ راجستھان کے مشہور جیمس ٹاڈکو ہلکر دربار کے ریذیڈنٹ نے اس امر کی ہدایت کی تھی کہ وہ مسلم حکمرانوں کے خلاف لڑائیوں میں راجپوت جیالوں کی مدح میں اپنی مشہور کتاب لکھے۔ یہ ہدایت ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد راجپوتوں کو مسلمانوں سے دور کرنے کی غرض سے جاری کی گئی تھی۔’’

            لیکن ٹاڈ نے جس طرح باہمی نفرت پھیلانے کے لیے کتاب لکھی اسی انداز میں باہمی یگانگت اور موانست پیدا کرنے کے لیے مغلوں کے عہد میں راجپوتوں نے جو کارنامے انجام دیے، ان کی تاریخ اگر سلیقے سے مرتب کی جائے، تو ہندوستان کی تاریخ میں جذباتی ہم آہنگی کا ایک روشن باب کھل جائے۔

            عام طورسے یہ کہا جاتا ہے کہ اورنگزیب کی حکومت کے بعد راجپوت شاہی تخت و تاج سے آزردہ خاطر اور بیگانہ ہو گئے تھے۔ لیکن عالمگیر کے بعد جو جنگ جانشینی ہوئی، تو جاجو کی جنگ میں شہزادہ اعظم شاہ کی طرف سے راؤد لپت، راؤ بندیلہ، رام سنگھ ہاڈا اور چھنتر سال پسر رتن راٹھور اور شاہ عالم یعنی بہادر شاہ اول کی طرف سے راجا رام سنگھ کے پوتے راجا جے سنگھ، راجا انوپ سنگھ اور دوسرے جلادت پیشہ سردار جنگ میں شریک تھے اور جان کی بازی لگا کر لڑے۔

            فرخ سیر (۱۷۱۹ء) کے عہد میں جے پور کے راجا اجیت سنگھ راٹھور کے خلاف فوج بھیجی گئی تو شاہی فوج کے ساتھ راجا اودیت سنگھ بندیلہ ، راجا گوپال سنگھ بھدویہ اور روپ نگر کے راجا راج بہادر وغیرہ بھی تھے۔

            محمد شاہ (ف۱۷۴۸ء) کے عہد میں ۱۷۱۹ء میں جو فوجی مہم بوندی کے راجا بودھ سنگھ ہاڈا کے خلاف بھیجی گئی تھی، اس کی قیادت راجا کے ایک رشتہ دار راؤ بھیم سنگھ نے کی۔ مسلمان فوجی سرداروں میں سید دلاور خان بخشی اور دوست محمد خان افغان اس کی ماتحتی میں رکھے گئے۔ نروالی کے راجا گنج سنگھ بھی ساتھ گئے۔ بوندی کے راجا کو شکست ہوئی تو بھیم سنگھ کو اس کی خدمات کے صلہ میں مہاراجا کا خطاب اور ہزاری منصب عطا کیا گیا۔

            محمد شاہ نے حسن پور میں اپنے وزیر سید عبداللہ سے جنگ کی تو اس کے لشکر کے ساتھ راجا ادھیراج جے سنگھ، راجا گوپال سنگھ بھدرویہ، کشن گڑھ کے راجا بہادر راٹھور بھی تھے۔ محمد شاہ کے مزاج میں جے سنگھ سوائی اور اودھ کے ناظم راجا گردھر بہادر کو بڑا دخول تھا۔ انھوں نے محمد شاہ سے کہہ کر ہندوؤں پر سے بہت سے ٹیکس معاف کرائے۔ محمد شاہ ہی کے عہد میں راجا جے سنگھ سوائی جاٹوں کو کچلنے کے لیے ۱۷۲۲ء میں تھان بھیجے گئے تو ان کے ماتحت مسلمان منصب داروں کے علاوہ اور دوسرے راجپوت سرداروں کے ساتھ راجا گردھر بہادر ناگرا اور اورچھا کے مہاراؤ ارجن سنگھ تھے۔ اس مہم میں راجا جے سنگھ سوائی نے جو خدمات سر انجام دیں اس کے صلہ میں ان کو راجا راجیشور، شری راجا ادھیراج مہاراجا کا خطاب ملا۔جے پور کے راجا اجیت سنگھ راٹھور کے لڑکے ابھے سنگھ کو ۱۷۲۴ء میں محمد شاہ نے راجا راجیشور کا خطاب اور ہفت ہزاری ذات اور ہفت ہزار سوار کا منصب دیا۔محمد شاہ کے جانشین احمد شاہ (معزول ۱۷۵۴ء) سے اور اس کے وزیر اور بخشی سے اختلاف ہوا، تو احمد شاہ کی حمایت میں جے پور کا راجا مادھو سنگھ ایک بڑی فوج لے کر دلی آیا اور اس نے اپنی وساطت سے اس باہمی اختلاف کو کچھ دنوں کے لیے دور کر دیا۔

            جدوناتھ سرکار لکھتے ہیں کہ دلی کی شاہی حکومت نے ہندوستان کے جاگیردارانہ نظام کی ریاستوں کو آپس میں ملا کر انھیں محفوظ رکھا تھا، لیکن جب شہنشاہ ایک بے جان سایہ بن کر حرم میں رہنے لگا، اس کے وزرا عیش و عشرت میں پڑ گئے، اور دربار کے حریفوں کے مقابلے میں مشغول رہنے لگے، تو متحد کرنے والی کڑی اور قابو میں رکھنے والی ایک مشترکہ طاقت جاتی رہی۔ راجپوتوں کے لیے خواہ وہ معزز افراد ہوں یا امرا میں سے ہوں، جنگ ایک خاص پیشہ تھا ، جو ان کے مزاج ،روایات اور تربیت کے مطابق تھا اور جاگیر ہی پر قبضے کے تخیل سے انھیں عزت اور راحت حاصل ہوتی تھی۔ مغلوں کی حکومت کے حدود جب انتہا کو پہنچ گئے تو بعد کے مغل حکمران بھی جنگ کرنے میں بزدلی محسوس کرتے، اور پھر وہ کچھ ایسے عیش پسند ہو گئے کہ زیادہ فوج رکھنے سے بے فکر ہو گئے، جس کے بعد راجپوتوں کی سپہ گری بھی زوال پر آگئی۔ ان میں بے روزگاری بڑھی تو کاہلی اور دوسری برائیاں بھی در آئیں۔ ان کے لیے کوئی با عزت اور منفعت بخش پیشہ نہیں رہ گیا ، تو وہ اپنے علاقے میں محدود رہنے لگے اور ان کی تلواریں آپس ہی میں چلنے لگیں۔ ہر خاندان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔راجپوتوں کو مغل بادشاہوں سے جو قلبی لگاؤ رہا، اس کا اندازہ اس روایت سے بھی ہو گا کہ جب دلی کے قلعۂ معلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا اور کچھ زمانے کے بعد جے پور کے مہاراجا دلی آئے، تو قلعۂ معلی بھی دیکھنے گئے۔ جب وہ اس جگہ پہنچے جہاں تخت رکھا جاتا تھا تو تخت کے سامنے کھڑے ہو کر چلا اٹھے: ‘‘مہابلی!پھر کروٹ لے’’ مہابلی اکبر کا خطاب تھا۔ مہاراجا نے دولت مغلیہ کی گود میں پرورش پائی تھی۔ اس لیے عالم بے خودی میں اکبر کو پکار اٹھے۔

             عالمگیر ثانی (ف ۱۷۵۹ء) کا قتل بہت دردناک طریقے سے ہوا تھا۔ قتل کے اسباب لکھنے کی یہاں ضرورت نہیں۔ اس کی لاش جمنا میں ڈال دی گئی۔ بہتے بہتے وہ رات کو ایک کنارے جا لگی۔ اتفاقاً ادھر سے ایک عورت رام کور نامی گزری۔ لاش کو دیکھ کر جھجکی۔ پھر پہچان کر صبح تک اس کے پاس بیٹھی رہی۔ صبح ہوئی تو وہ لاش اور عورت قلعہ میں لائی گئی۔ شاہ عالم جب اپنے باپ عالمگیر ثانی کے بعد تخت پر بیٹھا ، تو اس نے اس عورت کو انعام و اکرام دیا اور اپنی بہن بنایا۔ رام کور کا یہ معمول ہو گیا کہ وہ قلعہ میں اپنا حق جتا کر آتی اور رہتی تھی۔ اسی کی خاطر سے سلونو کی سالانہ رسم شاہی محل میں منائی جاتی اور اس میں کل ہندوانی ریت رسم ادا کی جاتی، اس سلسلہ میں سید نصیر حسین خان خیال لکھتے ہیں کہ شاہی محل میں تہواربرسات ہوتا، جھولے پڑتے، پینگ بڑھتے، چولہے سلگتے، کڑھائیاں چڑھتیں، اور عورتیں پکوان پکاتیں، اتنے میں بہن جی (رام کور) آتیں اور سونے کی قطی میں کچھ ساتھ لاتیں۔ حضور بادشاہ تک پہنچتیں، اور اپنی قطی سے سچے موتیوں کا سمرن نکالتیں، اس میں سونے کی گھنڈیاں ہوتیں۔ جھک کر ایک ادا کے ساتھ شاہ عالم کی کلائی میں اسے باندھتیں۔ بادشاہ مسکراتے اوربہن کی پیٹھ پر ہاتھ دھرتے، ان کی اور اس کی راکھی بندی کی سلامتی کی دعا کرتے۔ پھر ان کے ہاتھ میں خود بدولت زمرد کی چوڑیاں پہناتے اور بھائی ہونے کاحق ادا کرتے۔ پھر شال دوشالے بٹتے، برہمن پڑھ کر اسیس(دعا) دیتے۔ مہابلی بادشاہ سلامت کی دھوم مچتی۔ باجے بجتے، ناچ رنگ ہوتے، ساز چھڑتے اور گلے پڑتے۔ محفل اٹھتی تو شاہ بھائی کے گھر سے رام کور بہن ایک شان سے رخصت ہوتیں۔ شہزادیوں کی جھرمٹ میں در دولت تک آتیں اور پھر سواری میں گھر جاتیں۔ یہ رسم شاہ عالم کے بعد بھی قائم رہی۔ اکبر ثانی کے وقت میں ان رام کور کی بیٹی راکھی باندھنے اور اپنا نیگ لینے آتیں۔ بہادر شاہ نے بھی اس سلونو کو باقی رکھا اور اس سے ہندو مسلم رشتے کو قائم رکھا۔

(بشکریہ: سہ ماہی ‘‘پیغام آشنا’’، اسلام آباد)