خالی کشکول میں شاخ زیتون

مصنف : پروفیسر جاذب قریشی

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : دسمبر 2005

 

میرے بچے ، میرے لالہ و گل
اندھیروں کے اہرام میں کھوگئے ہیں
زمیں اوڑھ کر سو گئے ہیں
وہ سورج کے ساتھ
اپنی ماں کی دعاؤں میں نکلے تھے گھر سے 
کہ اب شام ہونے کو آئی
پرندے پلٹ آئے اپنے سفر سے ، مگر۔۔۔۔۔
میرے بچے ، مرے لالہ و گل
بہت خوب صورت خیالوں کی تصویر تھے وہ
کہ خوش رنگ اجالوں کی تصویر تھے وہ
ان آنکھوں میں جو خوابِ آیند ہ تھا
وہ مرے رابطے
زند ہ جذبوں کا زندہ نمائندہ تھا
بھولپن کی فرشتہ صفت عادتیں
ان کی پہچان تھیں
میری سچائیوں کی بہت عادتیں
ان کی پہچان تھیں
دھوپ میں تتلیوں کی طرح
شام کوجگنووں کی مثال
اپنی اپنی اڑانوں پہ جانا تھاان کو
تروتازہ خوشبو کے مہکے ہوئے موسموں میں
چراغ ہنر خود جلانا تھا ان کو
زر علم کی خواہشیں ، ان کے سینوں میں تھیں
اس لیے ان سے لڑنے کی وحشت بہت
بدگماں آسمانوں میں تھی 
اور ہوس کار ظالم زمینوں میں تھی
سبز و شاداب خطوں میں 
ان کے لیے جو ہلاکت کا سیلاب آیاہے 
وہ چہر ہ وقت پر
اک سیہ عکس ِتمثیل ہے 
جوکھنڈر بن گئے ان گھروں کاسفر
سینکڑوں میل ہے 
زندگی سر سے پاؤں تلک
زخم ہی زخم ہے ، خون ہی خون ہے 
میں شکستہ بدن
زلزلے کی زمینی دراڑوں پہ پاؤں جمائے ہوئے 
ایستادہ ہوں اور سوچتاہوں
کہ میں اپنے آباء اجداد میں کس کو آواز دوں
موت سے لڑکے جو زندگی بچ گئی ہے 
اسے کس طرح میں نیا ساز دوں
خا ک کے ڈھیر پر
بارِ نوحہ گری کب تلک
مجھ کو معلوم ہے شہر جاں میں
ازل سے ابد تک
بہار و خزاں کا چلن ربِ فطر ت کا قانون ہے 
میر ی آنکھوں کے کشکول خالی پڑے ہیں ، مگر
میرے ہاتھوں میں اک شاخِ زیتون ہے