ابھی امید باقی ہے

مصنف : عنبرین حسیب عنبر

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : دسمبر 2005

 

یہ کس نے کہہ دیا تم سے 
کہ اب کچھ بھی نہیں باقی
ابھی ہے حوصلہ زندہ
ابھی امید باقی ہے 
کہ بے شک اس قیامت میں
بہت سے خواب ٹوٹے ہیں
مگر آنکھیں سلامت ہیں
بہت سے ساتھ چھوٹے ہیں 
مگر سانسیں سلامت ہیں
تو آؤ فیصلہ کرلیں
کہ ان ویران آنکھوں میں
نئے کچھ خواب رکھ دیں گے
محبت کے حسیں جذبے سے دل پھر شادکر دیں گے
ہم اس تاریک شب سے پھر نئی صبحیں نکالیں گے 
ہم اس ملبے کے نیچے سے حیاتِ نو نکالیں گے 
نئے امکاں تراشیں گے 
خدا کے فضل سے کچھ بھی تو نا ممکن نہیں ہے
کہ اب دشوارراہوں میں کوئی تنہا نہیں ہے 
تو پھر کس نے کہا تم سے 
کہ اب کچھ بھی نہیں باقی
ابھی ہے حوصلہ زندہ ، ابھی امید باقی ہے