دینی مدارس ، چند تجاویز

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اکتوبر 2005

            وطن عریزکادرد رکھنے والاہر فہیم پاکستانی اس بات پر مجبور ہے کہ وہ بعض عالمی واقعات اوربعض حکومتی اقدامات کے تناظر میں دینی مدارس سے متعلقہ معاملات کا سنجیدگی سے جائزہ لے اوراپنی رائے اورتجاویز بیان کرے۔ہماری یہ چند سطوربھی اسی ذمہ داری سے عہدابرآ ہونے کی سمت ایک کاوش ہے۔

             بلاشبہ، دینی مدارس کے حالات اصلاح طلب ہیں ۔ ان کو قومی تعلیمی دھارے میں لانے کی کوشش کرنا بھی احسن عمل ہے ۔ ہم بھی ، ان کے نصاب تعلیم اور ان کے ماحول میں تبدیلی کے خواہاں ہیں البتہ ہماری اس خواہش کے پیچھے کسی قسم کا وقتی اشتعال یا بیرونی یلغار نہیں ، بلکہ خود علم دین کامفاد اور مسلم امہ کی بہتری ہے۔ہماری رائے میں ، حکومت وقت جس طرح اس پیچیدہ مسئلے کو سطحی اقدامات سے سلجھانے کے لیے کوشاں ہے ، اس سے اہل مذہب بددل ہورہے ہیں اور ان کے اندر شدید بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے ۔ ان مدارس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جبر سے ان کا گلا گھونٹنا کبھی ممکن نہیں ہوا اور نہ ہی آئند ہ ایساہونے کی توقع ہے لہذا ضرروی ہے کہ بڑے غورو خوض سے کام لے کرایسی پالیسی وضع کی جائے جس سے ان اداروں کی مثبت خدمات سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا رہے اورانکوقومی اور عالمی حالات سے بھی ہم آہنگ کیا جا سکے ۔

            ہم بڑی ذمہ داری سے یہ عرض کرتے ہیں کہ پاکستان کے دینی مدارس نہ تو دہشت گردی کی نرسریاں ہیں اور نہ ہی ان میں تعلیم پانے والے طلبہ او ران کو پڑھانے والے اساتذہ کسی قسم کی منفی سماجی سرگرمی میں ملوث ہوتے ہیں استثنا تو بہرحال ہرجگہ ہوتے ہیں اور یہاں بھی ہوں گے مگر استثنایاجز کوکل پر منطبق کرکے نتائج مرتب کرنامسلمہ علمی اصولوں کے خلاف ہے۔

             جب نائن الیون یا سیون سیون ایسے واقعات کے پس منظر میں ، ان مدارس کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ عمل دہشت گردی کے خاتمے میں ممد ومعاون بننے کے بجائے دہشت گردوں کو مزید مواد مہیا کرنے کا باعث بنے گا۔ غلط تشخیص غلط علاج پر منتج ہوتی ہے اور غلط علاج سے مرض میں اضافہ ہی ہوتا ہے کمی نہیں ۔

             اہل دین دہشت گردی کے حامی و موید تو کجا ، وہ بیچارے تو خود دہشت گردی کا شکا ر ہیں ۔ ماضی قریب میں جید علما کرا م کا پے در پے قتل اس بات کا بین ثبوت ہے ۔ اس لیے ، حکومت وقت کو اس پہلو پر گہرائی اورسنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور مخلص اہل دین سے مشاروت کر کے اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے ، تاکہ مساجدو مدارس خدمت دین میں اپنا جو کردار ادا کر رہے ہیں ، وہ کرتے رہیں ۔ خود صدر اپنی تقریرمیں یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ دینی مدارس لاکھوں یتیم بچوں اور غریب و نادار نوجوانوں کے کفیل ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مدارس وطن عزیز کی سب سے بڑی غیر حکومتی تنظیم ہے ، جو تعلیم کے میدان میں کام کر رہی ہے ۔ اس لیے ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ ان کے اس کردار میں سہولت پیدا کرے نہ کہ ناروا رکاوٹ ۔

            یہ بات طے ہے کہ بحثیت کل ان دینی مدارس کا نہ تو عصری سیاست سے کوئی تعلق ہے اور نہ عسکریت سے ۔ یہ مدارس تو دینی علوم کو انگریزوں کی دست برد سے بچانے کے لیے قائم ہوئے تھے ۔ ان کے اندر پڑھایا جانے والا نصاب ، نہ تو موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی عسکری و جہادی ضروریات کو پورا کرنے والا ۔ ملا نظام الدین کا ، اٹھارویں صدی میں مرتب کردہ نصاب ، آج بھی ان مدارس میں من و عن رائج ہے ، جس کا تعلیم یافتہ نوجوان، کسی مسجدکا امام و خطیب تو بن سکتا ہے ، زمانے کا امام نہیں ۔ یہ مدارس صرف پاکستان ہی نہیں ، بلکہ انڈیا، بنگلہ دیش اور اب تو بعینہ یورپ و امریکہ میں بھی قائم ہیں ۔ اگر ان کے نصاب تدریس میں عسکریت پسندی یا امریکی مخالفت یا دنیا کی امامت لینے کا جذبہ پایا جاتا تو ہر جگہ اس کا اظہار ہوتا ۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان مدارس کے ساتھ فی الجملہ کہیں یہ مسئلہ نہیں ہے ۔ ابھی حال ہی میں ، بھارتی وزیر اعظم نے بڑے طمطراق سے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ مسلم دینی مدارس ہیں لیکن ان سے پڑھنے والا کوئی ایک طالبعلم بھی القاعدہ سے وابستہ نہیں ہے ۔ حالانکہ انڈیا کے مدارس تمام عالم کے مدارس کی ماں ہیں ۔

             دنیا کو جن‘ دہشت گردوں’ کا سامنا ہے ، وہ درس نظامی کے فارغ التحصیل نہیں ہیں ، بلکہ مغربی نظام تعلیم کے سند یافتہ ہیں ۔ ان لوگوں کو دینی مدارس کے نصاب نے مجاہد یا دہشت گرد نہیں بنایا او ر نہ ہی یونیورسٹیوں کے نصاب نے ، بلکہ اس کے ذمہ دار وہ حالات و واقعات ہیں جو مغربی طاقتوں نے پیدا کیے اور اس کی ذمہ داروہ آئیڈیالوجی اور حکمت عملی ہے ، جس کو امریکہ اورمغر ب نے افغانستان میں روس کے خلاف استعمال کیا تھا ۔ جونظریہ روس کے خلاف جہاد کے نام پر استعمال کیا گیا تھا ، اب وہ اسامہ بن لادن کی صورت میں مغرب مخالفت مزاحمت کی شکل میں ڈھل چکا ہے ۔ عراق و افغانستان میں غیر اخلاقی امریکی جارحیت اور مسلم عوام کا بہتا ہوا لہو ان نظریات کو تازہ خون فراہم کر رہا ہے ۔ جولوگ اس تشدد کی وجہ دینی مدارس کے نصاب اور ان میں پڑھنے والے غریب و مسکین طلبہ میں تلاش کررہے ہیں وہ یقیناغلط رخ پر سفر کر رہے ہیں۔

            یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اسامہ کی تحریک مزاحمت کو ‘خام مال’ پاکستان کے ان دینی مدرسوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس لیے ان پر جتنی سختی کی جائے گی اتنا ہی اس تحریک کو کچلا جا سکے گا ۔ دنیا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسامہ کے ساتھی ان متول عرب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ، جہاں ہماری طرح کے دینی مدارس نہیں ہیں طالبان کی تحریک میں اگرچہ آغاز میں ، چند طلبہ ضرور تھے ، لیکن ان میں بھی اکثریت ، دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جوانوں کی تھی ۔ تحریک مزاحمت میں ان طلبہ کی شرکت کے باعث، دہشت گردی کا الزام ،اگر ان تعلیمی اداروں پر آسکتا ہے تو پھر ان قوتوں پر کیوں نہیں آ سکتاجنہوں نے ان ناتراشیدہ نوجوانوں کو ، آگ و خون کے اس کھیل میں دھکیلا تھا ؟ اوروہ دہشت گرد کیوں نہیں کہلا سکتے جنہوں نے ان کو منظم کیا ، فنڈز دیے ، اسلحہ دیا اور ہر قسم کا تعاون فراہم کیا ؟

            کیا دنیا اس بات سے بے خبر ہے کہ افغانستان اور کشمیر میں ، کون کون سی قوتیں جہاد کو منظم کرنے والی ہیں ؟ پھر سارا نزلہ عضو ضعیف پر کیوں گرایا جا رہا ہے ؟ اب تک جن لوگوں کو مبینہ طو ر پر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ، یا جو لوگ اس راستے میں راہی ملک عدم کر دیے گئے ، ان کے کوائف، کیا یہ واضح کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ان میں سے بیشتر نوجوان مغربی تعلیمی نظام سے استفادہ کرنے والے اور کالجوں او ر یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم پانے والے تھے ۔کیا کسی بھی صاحب نظر سے یہ بات پوشیدہ رہ سکتی ہے کہ مدارس کے غریب اور پسماندہ نوجوان کسی طرح بھی ، اتنی اعلی اور فنی مہارت پر مشتمل اور تکنیکی صلاحیت کی حامل دہشت گردی نہیں کر سکتے ؟ یہ تو ایک نہایت اعلی اور فنی مہارت کی جنگ ہے جو حق و باطل کے نام پر لڑی جا رہی ہے ۔ اس میں دینی مدارس کو ملوث سمجھنے کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے مقتول کے جسم پر واضح طو ر پر کلاشنکوف کے برسٹ کے نشانات ہوں اور آپ اس کے قتل میں ایک چاقو والے کو پکڑ لیں ، یہ مسئلہ محض ہزار بارہ سو غیر ملکی طلبہ کو ملک بدر کردینے سے قطعا حل نہیں ہو گا ۔ القاعدہ ایک نظریہ بن چکا ہے اور اسامہ ایک علامت مسلم امت کا جذبہ مزاحمت اس نظریے کی شکل میں ڈھل چکا ہے ۔نظریات کاتوڑ نظریات ہی سے ہوتا ہے نہ کہ دارورسن سے ۔

             دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ، عسکری محاذ پر ، تو بلاشبہ، عالمی اتحاد نے کچھ کامیابیاں ضرور حاصل کی ہیں لیکن نظریاتی محاذ پر ان کی کارکردگی بالکل صفر ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نظریاتی محاذ پر زوردار طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

            اسامہ کی تحریک مزاحمت کی پذیرائی کی دوسری بڑی وجہ عرب ملکوں میں خصوصاً اور دیگر مسلم ملکوں میں عموماً غیر جمہوری حکمران اور ان کا اپنے عوام سے غیر انسانی سلوک ہے ۔ اظہار رائے اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے مسلم ممالک کا ریکارڈ بہت برا ہے ۔ جس کے باعث نوجوانوں میں انتہا پسندی کا رحجان جنم لیتا ہے ۔ اسامہ اور اس قبیل کے دیگر لوگوں کو اصل خام مال یہیں سے حاصل ہوتا ہے ۔ دینی مدارس بے چارے خواہ مخوا ہ ہی پکڑے جاتے ہیں۔ جب تک نظریے کامقابلہ نظریے سے نہیں کیا جائے گا اورجمہوری آزادیوں اوراظہار رائے کی آزادی کوپروان نہیں چڑھایا جائے گا تب تک اسامہ اورالقاعدہ جیسی تحریکوں کو محض جبر سے ختم کرناایک خواب ہی رہے گا۔

            آخر میں ، چند باتیں ، اہل مدرسہ سے ۔پہلی بات تو اہل مدرسہ کے سوچنے کی یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر بار جب بھی دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوتی ہے ، لوگ اہل مدرسہ کی گردن ناپنے کو ، کیوں دوڑ پڑتے ہیں ؟ غیر مسلموں کی سازش کا فلسفہ تو ہماری سمجھ سے بالا ہے ۔ ہمارے نزدیک ، یہ محض اپنی بے بسی کا اظہار اور اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرنا ہے ۔آخر ہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر واقعہ دشمن کی خواہش کے مطابق ہی رونما ہو آپ کی خواہش اور منصوبہ بندی کے مطابق کیوں نہیں ؟ کیا ہمارے علما کرام نے ، کبھی ، اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے کہ دنیا میں مختلف مقامات پر ہونے والے خودکش حملوں ، دہشت گردی کی کارروائیوں اور قیامت خیز دھماکوں کی دینی حیثیت کیا ہے ۔ اسامہ اور ان کے پیروکاروں نے اہل مغرب اور امریکہ سے بزعم خود جو جنگ چھیڑ رکھی ہے ، وہ کیا قرآن وسنت کے مطابق ہے یا مخالف؟ اور یہ کہ اس سب کچھ کا فائدہ امت کو اور دین کو پہنچ رہا ہے یا نہیں ؟ اس سب سوالات کا جواب کون دے گا ؟

             دوسری بات یہ کہ حکومت وقت ، بھلے اس سے آپ کو اختلاف ہو ، دینی مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں لانا چاہتی ہے تو آخر اس میں کیا برائی ہے ؟ جو قوانین اور ضوابط فائدہ مند ہوں ان پر اتفاق کرتے ہوئے ، دیگر کے لیے مذاکرات اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ اگر حکومت مدارس کو رجسٹر کرنا چاہتی ہے تو ضرور کرے ، اس سے یقینا ان کے نظام میں بہتری آئے گی ۔ ہمیں اگرچہ حکومتی طریقہ کا ر پر اعتراض ہے جس کا ہم اوپر تذکرہ بھی کر چکے ہیں ، لیکن بہرحال مدارس کی درجہ بندی ، حکومت کی رجسٹریشن اور ان کے قیام اور انتظام وانصرام کے لیے یکساں قوانین کا ہونا وقت کا تقاضا ہے ۔

            تیسرا مسئلہ ، نصاب کی تبدیلی کا ہے ۔ اس پر بھی ہمارے علما کرام نے خواہ مخواہ کی ضد اختیار کر رکھی ہے ۔ ہم یہ قطعاً نہیں کہتے کہ دینی مدارس ، سائنسدان پیدا کیوں نہیں کر رہے ، یا ان اداروں سے ڈاکٹر اور انجینئر کیوں تیار نہیں ہو رہے ۔ بلکہ ہم اس خیال کے حامی ہیں کہ ان اداروں کو تعلیم دین کے لیے ہی مخصوص رہنا چاہیے ۔ لیکن مدارس کے نصاب میں بہتری ، طرز تعلیم میں عمدگی اور طریق امتحان کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنے میں کیا حرج ہے ۔ حکومت اگر اس سلسلے میں آپ کو سہولت مہیا کرنا چاہتی ہے تو ہمارے خیال میں ان سے تعاون کرنا چاہیے ۔ ہماری رائے میں ایک ایسا فورم تشکیل دیا جانا ضروری ہے جو اس سلسلے میں مکمل رپورٹ تیار کرے ۔ اس فورم کو علما کرام ، مدارس کے ذمہ داران ، حکومتی نمائندوں اور دیگر ماہرین تعلیم پر مشتمل ہونا چاہیے ۔ آخر دینی تعلیم قومی ضرورتوں کوپوراکرنے کے قابل اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کی نوید کیوں نہیں بن سکتی ؟

             چوتھی اور آخری بات ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ صحت مند اختلاف کوئی عیب نہیں بلکہ یہ ایک احسن علامت ہے ۔ امت میں اس وقت جو مذہبی مسالک قائم ہو چکے ہیں ، ان کو ختم کرنا مقصود نہیں ، لیکن اس بنیاد پر تعصب کو تو ضرور ختم ہونا چاہیے ۔ دینی مدارس اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اور کیا کردارادا کررہے ہیں ، یہ بھی سوچنے سمجھنے کا موضوع ہے ۔ اس حوالے سے ابھی تک دینی مدارس کے ذمہ داران نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آئند ہ بھی ایسا نہیں کرسکتے ۔یہ کا م جتنی جلد وہ کرسکیں اتنا ہی ان کے لیے بھی بہتر ہے اورملک و قوم کے لیے بھی۔

             امید ہے حکومت اور دینی مدارس دونو ں ہماری ان مخلصانہ تجاویز پر غور فرمائیں گے !