دین کا ماخذ قرآن وسنت نہ کہ تاریخ

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : ستمبر 2005

کسی کو یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اپنے نفس کے اندر چھپی ہوئی برائیوں سے لڑے البتہ باہر کی برائیوں پر بیان دینے اور تقریر کرنے میں کوئی پیچھے نہیں رہنا چاہتا اور یہ سب کچھ نتیجہ ہے دین کا صحیح تصور نہ ہونے کا۔

لوگ اسلام کے لیے سرفروشی کر رہے ہیں حالانکہ وہ اسلام سے بہت دور ہیں۔ وہ خدا کا نعرہ بلند کررہے ہیں حالانکہ وہ ابھی تک خدا سے متعارف ہی نہیں ہوئے۔ اسلام کے نام پر ایسی تحریکیں وجود میں آئی ہیں جنھوں نے کام یہ سمجھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مفروضہ دشمن سے ٹکراتی رہیں۔ اس ٹکراؤ کو وہ دین اور ملت کا کام سمجھتی ہیں۔ کوئی بیرونی استعمار سے متصادم ہے، کوئی غیر مسلم اکثریت کے خلاف احتجاجی سیاست چلا رہا ہے۔ کوئی اپنے ملک کے مسلم حکمراں کو اقتدار سے ہٹانے اور اس کے ساتھیوں کو گولی مارنے میں جنت کی خوشبو پا رہا ہے۔ لڑائی والا دین ہر ایک کی سمجھ میں آ رہا ہے مگر سیدھا اور سچا دین جو خدا نے اپنے رسولؐ کی معرفت بھیجا تھا وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ تا۔

            ایک شخص غریب خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے لیے زندگی کی صورت صرف یہ تھی کہ اپنی کوششوں پر بھروسا کرے اور ماحول کے اندر اپنا اعتبار اور اعتماد پیدا کرکے اپنی جگہ بنائے۔ اس نے محنت اور دیانت داری کو اپنا اصول بنایا۔ اس کا طریقہ کامیاب رہا۔ اس نے اپنے عمل سے غیر معمولی ترقی حاصل کی…… اس نے اپنے لیے بہت بڑا مکان تعمیر کیا۔ باغ اور کھیت بنائے۔ تجارتیں قائم کیں۔ اپنے ساتھی اور مددگار پیدا کیے۔ وہ شخص جس نے زندگی کا آغاز معمولی محنت مزدوری سے کیا تھا، اپنی آخر عمر میں اس نے یہ درجہ حاصل کیا کہ وہ اپنے علاقے کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ با اثر آدمی بن چکا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کو وصیت کی کہ تم لوگ ہمیشہ میری راہ پر چلنا اور بچوں نے قسم کھا کر وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ یہ ایک امن پسند اور تعمیری مزاج رکھنے والا آدمی تھا۔ تاہم عمر کے آخری حصہ میں کچھ مفسدین نے اس کو مقدمہ بازی میں الجھا دیا۔ دیوانی اور فوجداری دونوں قسم کے مقدمات چلنے لگے۔ یہ مقدمات ا بھی جاری تھے کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔

            اب جو بچے اس شخص کے وارث بنے ، ان کو اپنے سفر کا آغاز وہاں سے ملا جہاں ان کا باپ ان سے جدا ہوا تھا۔ وہ بعد کی تاریخ کے وارث تھے نہ کہ حقیقتاً باپ کے ابتدائی اصول حیات کے۔ باپ کے لیے زندگی محنت اور دیانت داری کا نام تھی مگر بیٹوں کو نظر آیا کہ زندگی نام ہے مقدمہ لڑنے اور حریفوں سے ٹکراؤ کرنے کا۔ باپ نے مثبت تعمیر میں زندگی کا راز پایا تھا، بیٹوں کو اغیار کی تخریب میں زندگی کا راز دکھائی دینے لگا۔ باپ نے ساری عمر تعمیر و ترقی کے کاموں میں صرف کی تھی۔ بیٹوں نے اپنی ساری عمر اپنے مفروضہ دشمنوں سے لڑنے بھڑنے میں گزار دی۔ حتیٰ کہ باپ کا اثاثہ بھی اس میں ضائع کر دیا پھر بھی وہ اپنے طور پر یہی سمجھتے رہے کہ وہ باپ کے اسوہ کی تعمیل میں ایسا کر رہے ہیں۔

            ایسا ہی کچھ حال موجودہ زمانہ کی اسلامی تحریکوں کا ہے۔ اسلام کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں ہوا تو اس وقت وہ نام تھا تعلق باللہ کا، فکر آخرت کا۔ رسولؐ خدا کے نمونہ کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے کا، اپنے آپ کو فرشتوں کا ہم نشین بنانے کا۔ جہنم سے ڈرنے اور جنت کا مشتاق ہونے کا، اللہ کی عبادت گزاری کا اور بندوں کے ساتھ انصاف اور خیرخواہی کا معاملہ کرنے کا۔ مگر اس آغاز کے بعد اسلام کی ایک دنیوی تاریخ بنی۔ یہ تاریخ چلتی رہی حتیٰ کہ اسلام ساری دنیا میں سب سے زیادہ غالب قوت بن گیا۔ یہ صورت ایک ہزار سال تک قائم رہی۔ اس کے بعد پہیہ دوسرے رخ پر چلنا شروع ہوا۔ دوسری قوموں نے نئی نئی قوتوں سے مسلح ہو کر مسلمانوں کے اوپر غلبہ حاصل کر لیا اور ان کو ہر میدان میں پیچھے دھکیل دیا۔

            اس صورتِ حال سے مسلمانوں کو جھٹکا لگا۔ اس کے ردِ عمل کے طور پر انیسویں صدی عیسوی میں مسلم ملکوں میں جوابی تحریکیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ یہ تحریکیں بظاہر مختلف ناموں سے شروع ہوئیں۔ ان کے پروگرام بھی اکثر اوقات الگ الگ رہے مگر ایک بات سب میں مشترک تھی۔ تقریباً تمام تحریکیں ردِ عمل کی نفسیات کے تحت پیدا ہوئیں۔ ان کا مقصد کسی نہ کسی طور پر حملہ آور قوتوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ بالفاظ دیگر ، وہ ‘‘باپ’’ کی ابتدائی زندگی کے احوال سے متاثر ہو کر نہیں اٹھیں بلکہ وہ باپ کی زندگی کے آخری احوال سے اثر سے پیدا ہوئیں۔ ان کو مثبت فکر نے پیدا نہیں کیا بلکہ منفی جذبات ان کے ابھرنے کا سبب بنے۔ ابتدائی دور کے مسلمانوں کے لیے اسلام کا مطلب یہ تھا کہ اپنی زندگی کو اللہ کی مرضی پر ڈھالیں تاکہ موت کے بعد آنے والی زندگی میں خدا ان کو جنتوں میں داخل کرے۔ اس کے برعکس موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لیے اسلام کا مطلب یہ بن گیا کہ دوسروں سے اپنے حقوق و مطالبات کے لیے لڑتے رہیں۔ ایک کا رخ اگر آسمانی چیزوں کی طرف تھا تو دوسرے کا رخ دنیوی چیزوں اور دنیوی حریفوں کی طرف ہو گیا۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے اتنی معقولیت برتی کہ اس فرق کا اعتراف کرتے ہوئے انھوں نے اعلان کیا کہ ان کی تحریک ملت کے تحفظ یا اس کے دفاع کی تحریک ہے نہ کہ مطلق معنوں میں پیغمبرانہ مشن کو زندہ کرنے کی۔ تاہم بعض ایسے حوصلہ مند بھی تھے جو اس کمتر حیثیت پر قانع نہ ہوئے۔ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ وہ جس ‘‘انقلابی’’ مقصد کے لیے اٹھے ہیں وہی اسلام کا اصلی اور ابدی مقصد ہے۔ تمام انبیا اسی لیے آئے کہ باطل طاقتوں سے لڑیں اور ان سے لڑ کر اسلامی قانون کی حکومت قائم کریں۔ اس طرح مذہبِ امن، نئی تشریح کے خانہ میں، مذہبِ جنگ بن گیا۔ ذاتی اصلاح کی تڑپ نے خارجی انقلاب کی تڑپ کی صورت اختیار کر لی۔ گویا بیٹوں کے لیے ‘‘مقدمہ بازی’’ باپ کا وقتی یا اضافی عمل نہ رہا بلکہ وہی ان کا مقصد حیات قرار پایا۔ یہی وہ اصل دین بن گیا جس پر خدا کے یہاں جنت اور جہنم کا فیصلہ ہونا ہے۔

            اسلام کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ لوگ اسلام کے لیے سرفروشی کر رہے ہیں حالانکہ وہ اسلام سے بہت دور ہیں۔ وہ خدا کا نعرہ بلند کررہے ہیں حالانکہ وہ ابھی تک خدا سے متعارف ہی نہیں ہوئے۔ اسلام کے نام پر ایسی تحریکیں وجود میں آئی ہیں جنھوں نے کام یہ سمجھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مفروضہ دشمن سے ٹکراتی رہیں۔ اس ٹکراؤ کو وہ دین اور ملت کا کام سمجھتی ہیں۔ کوئی بیرونی استعمار سے متصادم ہے، کوئی غیر مسلم اکثریت کے خلاف احتجاجی سیاست چلا رہا ہے۔ کوئی اپنے ملک کے مسلم حکمراں کو اقتدار سے ہٹانے اور اس کے ساتھیوں کو گولی مارنے میں جنت کی خوشبو پا رہا ہے۔ لڑائی والا دین ہر ایک کی سمجھ میں آ رہا ہے مگر سیدھا اور سچا دین جو خدا نے اپنے رسولؐ کی معرفت بھیجا تھا وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ تا۔ مذکورہ مثال کے مطابق، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی دینی فکر کا آغاز ‘‘مقدمہ بازی’’ کے مرحلہ سے کیا۔ وہ محنت اور دیانت داری کے مرحلہ سے اپنے فکر کا آغاز نہ کر سکے۔

            اس صورتِ حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ دین اختیار کرنے کے باوجود آدمی اسی اصلی چیز سے محروم رہ گیا جو دین کا حقیقی مطلوب تھا۔ اس کے نتیجہ میں دین داری ایک خارج رخی عمل بن گیا۔ حالانکہ دین داری تمام تر ایک اندر رخی عمل ہے اب کوئی اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ البتہ دوسروں کے بارے میں گرما گرم مباحثے ہر جگہ جاری ہیں۔ اپنے قریب ایک شخص پر ظلم ہو رہا ہو گا مگر اس کی نہ اسے خبر ہو گی اور نہ اس میں اپنا حصہ ادا کرنے کی فرصت۔ البتہ دور کے مقامات پر ہونے والے واقعات سے وہ انتہائی حد تک با خبر ہو گا تاکہ ٹرنک کال کے ذریعہ اس سے رابطہ قائم کرے اور ہوائی جہاز پر اڑ کر فوراً ان کے لیے سرگرمی دکھانے میں ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے کسی کو یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اپنے نفس کے اندر چھپی ہوئی برائیوں سے لڑے البتہ باہر کی برائیوں پر بیان دینے اور تقریر کرنے میں کوئی پیچھے نہیں رہنا چاہتا اور یہ سب کچھ نتیجہ ہے دین کا صحیح تصور نہ ہونے کا۔